متفرق مضامین

غلبہ اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام

(’در مکنون‘)

تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں

’’اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔‘‘

واقعہ اسراء میں نبی کریمﷺ نے کشفا ًدیکھا کہ آپ مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی امامت کروا رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کشف کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور مسجد اقصیٰ وہ مسجد ہے جس کو مسیح موعود نے قادیان میں بنایا۔ اسے اقصیٰ یعنی دور والی مسجد اس لئے قرار دیا گیا کہ وہ زمانہ نبوت سے دور ہے۔ اور ابتدائے اسلام کے زمانہ سے ایک طرف واقع ہے پس تو اس مقام پر غور کر کیونکہ اس میں خدائے علام الغیوب کی طرف سے بہت سے راز ودیعت کئے گئے ہیں ‘‘(ترجمہ عربی عبارت ۔ خطبہ الہامیہ ، روحانی خزائن جلد 16صفحہ25تا26،حاشیہ)

تمام انبیاء کی امامت کروانے میں ایک زبردست پیغام تھا کہ آپﷺ تمام مذاہب پر غالب آئیں گے یہاں تک کہ تمام انبیاء کی امتیں آپ کی امامت میں آئیں گی اور دنیا میں ایک ہی امام ہو گا اور ایک ہی امت ہو گی۔ یہ پیشگوئی آپ کی ہی بعثت ثانیہ یعنی آپ کے کامل غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پوری ہونی تھی اس لیے یہی آیات آپ علیہ السلام کو بھی الہام ہوئیں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’اور اس الہام میں المسجد الاقصی الذی باركنا حوله آنحضرتﷺ کی تاثیرات زمانی کو لیا ہے اور اس کی تائید وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ سے بھی ہوتی ہے۔ اور بَارَكْنَا حَوْلَهُ کا اس زمانہ کی برکات سے ثبوت ملتا ہے جیسے ریل اور جہازوں کے ذریعہ سفروں کی آسانی اور تار اور ڈاک خانہ کے ذریعہ سلسلہ رسل و رسائل کی سہولت اور ہر قسم کے آرام و آسائش قسم قسم کی کلوں کے اجرا سے ہوتے جاتے ہیں اور سلطنت بھی ایک امن کی سلطنت ہے‘‘(الحکم جلد 6 نمبر 40 مورخہ 10؍نومبر1902ءصفحہ 7)

دَور اوّلین میں تکمیل ہدایت

آنحضورﷺ کے ذریعہ شریعت اپنے معراج تک پہنچی، دین کامل ہو گیا جس نے قیامت تک بنی نوع انسان کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنا تھا۔ دلائل اور براہین کے اعتبار سے اسلام تمام مذاہب اور تمام تعلیموں اور فلسفوں پر غالب آ گیا۔ لیکن تکمیل اشاعت ہدایت ہونا ابھی باقی تھا۔

دَور آخرین میں تکمیل اشاعت ہدایت

اشاعت دین کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرین کا دَور مقرر فرمایا ہوا تھا۔ جس میں ایک دُور کے مقام پر آپؐ کے عاشق صادق اور بروز کامل نے مبعوث ہو کر اسلام کو تمام دنیا پر غالب کر نا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے تمام ضروری سامان بھی مہیا فرما دیے۔ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سےسلسلہ رسل و رسائل اور ذرائع آمد و رفت اس قدر ترقی کر گئے کہ عملاً تمام دنیا ایک گاؤں کی شکل اختیار کر گئی۔ پیشگوئیوں کے مطابق یہ تمام وسائل اللہ تعالیٰ نے اس لیے پیدا فرمائے کہ اسلام کو تمام دنیا پر غالب کر دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حجج ساطعہ کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو۔ اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 432،ایڈیشن1988ء)

اسلام کی حالت زار

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے پہلے اسلام کی حالت نہایت نا گفتہ بہ تھی۔ مسلمان فرقہ در فرقہ تقسیم ہو کر ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے تھے۔ قرآن صرف چند رسوم یا تعویذ گنڈوں کے لیے باقی رہ گیا تھا۔ جوپڑھتے بھی تھے تو ان کے حلق سے نہیں اترتا تھا۔ عبادات محض رسومات کی حد تک تھیں۔ اس پر بَلایہ کہ تمام مذاہب اسلام پر حملہ آور تھے۔ اعتراضات کی بوچھاڑ تھی۔ نبی کریمﷺ کی دن را ت ہتک کی جا رہی تھی۔ سب سے خطرناک حملہ عیسائیت کا تھا۔ جو ایک طوفان کی طرح ہر طرف سے اسلام کو گھیرے ہوئے تھا۔ جگہ جگہ چرچ کھل رہے تھے۔ شہر شہر گاؤں گاؤں بائبل کی تعلیم دی جارہی تھی۔ اسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف صدہا کتب شائع ہو رہی تھیں۔ کروڑہا پمفلٹ مفت تقسیم کیے جا رہے تھے۔ مسلمان جوق در جوق اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت کی آغوش میں جا رہے تھے۔ عیسائیت کی ترقی کا اندزاہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1851ء میں ان کی تعداد ہندوستان میں اکانوےہزارتھی اور 1881ءمیں چار لاکھ ستر ہزار تک پہنچ چکی تھی۔

دوسری طرف ہندو قوم میں بھی بیداری کی لہر اٹھ گئی تھی آریہ سماج کا فرقہ بنا ہی اس لیے تھا کہ مسلمانوں کو شدھی بنا دے۔ وہ بھی دن رات اسلام پر تقریر و تحریر کے ذریعہ حملہ آور ہو چکے تھے۔

تیسری طرف مغرب کے فلسفہ نے دہریت کا زہر ہر طرف پھیلا رکھا تھا جس کے بداثر سے عوام تو کجا علماء بھی محفوظ نہیں رہے تھے۔ چنانچہ سر سید احمد خان جیسے تقدیر اور دعا کے منکر ہو رہے تھے۔

الغرض اسلام چاروں طرف سے دشمن کے نرغہ میں تھا۔ اس پرآشوب زمانہ میں عین وقت پر اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے فیصلہ کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کو پوری آب و تاب سے تمام دنیا پر غالب کر دیا جائے۔

براہین احمدیہ کی تصنیف لاجواب

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اسلام کی حقانیت، رسول اللہﷺ کی صداقت اور قرآن کریم کی فضیلت پر اپنی پہلی شاندار تصنیف براہین احمدیہ کے نام سے شائع فرمائی۔ جس میں آپؑ نے تین سو محکم دلائل سے ثابت کیا کہ آج صرف اسلام زندہ مذہب ہے اور باقی سب مردہ ہیں۔ آج صرف نبی کریمﷺ کا روحانی فیض جاری ہے باقی تمام پیشوایان ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ آج صرف قرآن کریم ہی وہ الہامی کتاب ہے جو ہر مردہ دل کے لیے آب حیات کا حکم رکھتی ہے۔ آپ نے تمام مخالفین کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی فلسفہ کے پیرو ہوں چیلنج دیا کہ وہ میرے دلائل کے بالمقابل اپنے مذہب کی صداقت کے دلائل پیش کر سکیں یا میرے ہی دلائل کو توڑ سکیں اگر سارے نہیں تو نصف اگر نصف نہیں تو تیسرا حصہ الغرض پانچواں حصہ تک جواب دینے کی صورت میں ایسے مخالف کو دس ہزار روپے نقد انعام دینے کا وعدہ کیا۔ اس کتاب نے سارے ہندوستان میں ایک غلغلہ برپا کر دیا اور تمام دشمنان اسلام کی صفوں میں ماتم برپا ہو گیا۔ گویا آپؑ کے حق میں وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ وہ شہاب ثاقب کی طرح اچانک نمودار ہوں گے اور ہر طرف چھا جائیں گے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میں اشد مخالف بن گئے نے اس کتاب پر ریویو لکھتے ہوئے فرمایا کہ آج تک اس کی نظیر اسلام میں شائع نہیں ہوئی۔

دیگر شاندار تصانیف

اس کے بعد تصنیفات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ آپؑ نے بالخصوص عیسائیوں اور آریہ سماج کے خلاف زبردست دلائل سے پُر تصنیفات لکھیں۔ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کر کے عیسائیوں کے فرضی خدا کو مار کر عیسائیت کی فلک بوس عمارت کو زمیں بوس کر دیا۔ آپؑ نے اپنی کتاب ’’مسیح ہندوستان میں ‘‘کے بارے فرمایا کہ جو میری یہ کتاب پڑھ لے گا وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کا عقیدہ ترک کر دے گا۔ ہندوستان کے چوٹی کے عیسائیوں سے پندرہ روز آپ کا تحریری مباحثہ’’جنگ مقدس ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔ جس میں پادریوں کو زبردست شکست ہوئی۔

اسی طرح آریوں کے ساتھ بھی آپ نے مناظرے کیے۔ ’’سرمہ چشم آریہ‘‘کتاب تو اس قدر مقبول ہوئی کہ انجمن حمایت اسلام نے اسے اپنے خرچ پر شائع کیا۔ لاہور میں جلسہ مذاہب عالم منعقد ہوا جس میں تمام مذاہب کےچوٹی کے علماء کو دعوت دی گئی۔ آپؑ نے بھی اس کے لیے مضمون تیار کیا جو’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘کے نام سے شائع ہوا۔ آپؑ نے قبل از وقت اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر یہ اشتہار شائع کیا کہ مجھے میرے خدا نے خبر دی ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا۔ چنانچہ جلسہ ہوا اورجب آپؑ کا مضمون پڑھ کر سنایا گیا تو ہر طرف سے صدائےآفرین بلند ہوئی اور تمام اخبارات نے جلسہ کی خبر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ مرزا صاحب کا مضمون سب پر بالا رہا۔ یہ معجزہ صرف اس جلسہ تک محدود نہ تھا۔ آج بھی دنیا بھر میں اس کتاب کی اشاعت ہو رہی ہے جو بھی اس کو پڑھتا ہے وہ اس کے معجز نما ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ آپؑ نے اس مضمون کے بارے فرمایا تھا کہ ’’سو مجھے جتلایا گیا ہے کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے‘‘(اشتہار سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری ضمیمہ رسالہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد11صفحہ301)

’’سلطان القلم‘‘اور’’ذوالفقار‘‘

آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے ’’سلطان القلم ‘‘کا خطاب دیا اور آپؑ کے قلم کو ’’ذوالفقار ‘‘کا خطاب دیا۔ گویا آپ کی تحریرات نے دنیا کے تمام باطل عقائد، تمام باطل مذاہب، تمام باطل نظریات کو شکست دے کر اسلام کو غالب کرنا تھا۔ آپؑ کی ہر کتاب ہی لا جواب ہے کیونکہ وہ الٰہی تائید و نصرت سے لکھی گئی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کا رزار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ38،ایڈیشن1988ء)

’’یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائید الٰہی سے لکھے گئے ہیں۔ میں ان کا نام وحی و الہام تونہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائےہیں۔‘‘(سرالخلافہ صفحہ 6بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ25فروری2009ء)

’’ہمارا مدعا یہ ہونا چاہیے کہ ہماری دینی تالیفات جو جواہرات تحقیق اور تدقیق سے پُر اور حق کے طالبوں کو راہ راست پر کھینچنے والی ہیں جلدی سے اور نیز کثرت سے ایسے لوگوں کو پہنچ جائیں جو بُری تعلیموں سے متاثر ہو کر مہلک بیماریوں میں گرفتار یا قریب قریب موت کے پہنچ گئے ہیں۔ اور ہر وقت یہ امر ہمارے مد نظر رہنا چاہیئےکہ جس ملک کی موجودہ حالت، ضلالت کے سم قاتل سے نہایت خطرہ میں پڑگئی ہو بلاتوقف ہمای کتابیں اس ملک میں پھیل جائیں اور ہر ایک متلاشی حق کے ہاتھ میں وہ کتابیں نظر آویں۔‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 403)

’’جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرے گا۔ وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھ لو کہ میں خداتعالی کی طرف سے نہیں آیا۔ لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مردہ دلوں کے لئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی تو تمہارے پاس اس جرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اس سرچشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا۔ زمین پر اسکو کوئی بند نہیں کر سکتا۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 104)

آپؑ کی لطیف تصنیفات کی تعداد 80سے بھی زائد ہے جو ہدایت اور نور سے پُر ہیں۔ جن کے ذریعہ اسلام کو زبردست دلائل و براہین کے ساتھ آپ نے تمام ادیان باطلہ پر غالب کر کے دکھا دیا۔ یہ غلبہ اتنا نمایاں تھا کہ غیروں نے بھی برملا اس کا اظہار کیا۔

مخالفین کا اعتراف

مولوی نور محمد صاحب نقشبندی چشتی لکھتے ہیں: ’’اُس زمانہ میں پادری لیفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنا لوں گا۔ ولایت کے انگریزوں سے روپے کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہوکر بڑا تلاطم برپا کیا۔ حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا تب مولوی غلام احمد کھڑے ہوگئے اور اس کی جماعت سے کہا عیسیٰؑ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہوکر دفن ہو چکے ہیں جس عیسیٰؑ کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھے قبول کرلو اس ترکیب سے لیفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا۔ اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک تمام پادریوں کو شکست دے دی۔‘‘(ترجمہ قرآن از مولوی اشرف علی تھانوی دیباچہ صفحہ30)

مشہور مفسر، صحافی اور ماہر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد نے آپ علیہ السلام کو اسلام کا فتح نصیب جرنیل قرار دیا۔ (اخبار ملت لاہور 7؍جنوری 1911ء)

ایڈیٹر کرزن گزٹ دہلی مرزا حیرت دہلوی صاحب رقمطراز ہیں: ’’مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت تعریف کی مستحق ہیں۔ اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیااور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی۔ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ ایک محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا‘‘(کرزن گزٹ دہلی۔ یکم جون 1908ء)

مدیر سیاست مولانا سید حبیب صاحب لکھتے ہیں: ’’اس وقت کے آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے اکے دکے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہو گئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا۔ اُس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سِپر ہونے کا تہیہ کر لیا… مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیئے‘‘(تحریک قادیان صفحہ208)

مخالف مولویوں کی زبردست شکست

حضرت مسیح موعودؑ کے کلام میں اتنی زبردست طاقت اور قوت ہے کہ کوئی مخالف بھی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں کے مولوی جماعت کی مخالفت میں سب سے بڑھ کر ہیں ان سب مولویوں نے گورنمنٹ سے درخواست کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لٹریچر پر پابندی لگا رکھی ہے۔ سارے ملک میں آپؑ کی تحریرات کا ایک صفحہ بھی دستیاب نہیں۔ چونکہ جماعتی لٹریچر بھی اسی عظیم سمندر سے سیراب ہوتا ہے اس لیے تمام جماعتی لٹریچر پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ یہ مخالفین کا کھلم کھلا اعتراف ہے کہ ان کو حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام کے آگے کھڑا ہونے کی سکت نہیں۔

تعلق باللہ کے ذریعہ غلبہ اسلام

تمام مذاہب کا بنیادی مقصد زندہ خدا سے زندہ تعلق پیدا کرنا تھا۔ اسی غرض کے لیے انبیاء مبعوث ہوئے۔ شریعت کے تمام احکام اور تعلیمات اسی مرکزی نقطہ کے گرد گھومتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے تمام مذاہب کو چیلنج دیا کہ آج صرف اور صرف اسلام زندہ مذہب ہےجس کی برکت سے اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم ہوتا ہے۔ باقی تمام مذاہب مردہ ہو چکے ہیں ان میں اب روحانیت باقی نہیں رہی۔ اگر کوئی چاہے توقبولیت دعا اور آسمانی نشانات میں آپؑ سے مقابلہ کر سکتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مردے ان کے خدا مردے اور خود وہ تمام پیرو مردے ہیں …اے نادانو ! آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کےساتھ ہے۔ وہ اسلام کے ساتھ ہے اسلام اس وقت موسیٰؑ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے۔ وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہو گیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے۔‘‘(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 345تا346)

وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم

اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار

آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی پہلی تصنیف براہین احمدیہ میں اپنے متعدد الہامات شائع کیے جن میں سے اکثر آپ کی زندگی میں ہی پورے ہوئے۔ مثلاً آپؑ کو خبر دی گئی تھی کہ لوگ جوق در جوق تیرے پاس آئیں گے۔ اس وقت آپؑ گمنامی کی زندگی بسر کر رہے تھے بعد میں ہزاروں لاکھوں لوگ آپ کے مہمان بنے یہاں تک کہ ایک مستقل لنگر خانہ جاری کرنا پڑا۔ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے مبشر اولاد کی خبر دی خاص کر وہ موعود بیٹا جس نے مصلح موعود بننا تھا جس کے بارے فرمایا کہ وہ نو (9)سال کے عرصہ میں پیدا ہو گا۔ آپؑ کو یہ بھی خبر دی گئی کہ اب صرف تجھ سے نسل چلے گی خاندان کے مخالفین کی نسل منقطع کر دی جائے گی۔ بہت سے مخالفین کے عبرتناک انجام کی آپؑ نے پہلے سے خبر دے رکھی تھی۔ مثلاً عیسائیوں میں پادری الیگزنڈر ڈوئی جو اپنے آپ کو مسیحؑ کا ارہاص قرار دیتا تھا اور امریکہ میں ایک شہر آبا د کر کے لاکھوں مریدوں کا پیشوا بن گیا تھا۔ آپؑ نے اسے مقابلے کے لیے بلایا مگر اس نے آپؑ کی سخت اہانت کی تب آپؑ کی پیشگوئی کے مطابق عبرتناک انجام سے دوچار ہوا یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ امریکہ کے تمام بڑے اخباروں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان فتح اور ڈوئی کی عبرتناک شکست کی خبر شائع کی۔ ہندوؤں میں پنڈت لیکھرام پشاوری جو نبی کریمﷺ کی سخت توہین کرتا تھا آپؑ کی پیشگوئی کے مطابق اپنے دردناک انجام کو پہنچا۔ اسی موقع پر آپؑ نے یہ شعر کہا کہ

جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر

ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے

دعوت مباہلہ ایک مستقل آسمانی فیصلہ

جب دلائل اور براہین سے آپؑ نے اپنی صداقت روز روشن کی طرح ثابت کر دی مگر پھر بھی مخالف مخالفت سے باز نہ آئے تو آپ نے ان کو خدا کے حضور فیصلہ کرنے کے لیے بلایا اور رسالہ انجام آتھم میں 52 مولویوں کے نام لکھ کر مباہلہ کی دعوت دی۔ مگر افسوس کہ کوئی بھی مرد میدان نہ نکلا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے وہ بچ نہ سکے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’آخر نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ تمام بالمقابل مولویوں میں سے جو باون تھے آج تک صرف بیس زندہ ہیں اور وہ بھی کسی نہ کسی بلا میں گرفتا ر۔ باقی سب فوت ہو گئے۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 313)

چونکہ یہ آسمانی نشان ہے جس میں خدا کی عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ کون سچ پر ہے کون باطل پر اس لیے آپ نے اس نشان کو دنیا کے تمام مذاہب کے پیروکاروں پر اتمام حجت کے طور پر پیش کیا۔ فرماتے ہیں: ’’ہر ایک جو مجھے کذاب سمجھتا ہے اور ایک مکار اور مفتری خیال کرتا ہے اور میرے دعویٰ مسیح موعود کے بارہ میں میرا مکذب ہے اور جو کچھ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی اس کو میرا افترا خیال کرتا ہے وہ خواہ مسلمان کہلاتا ہو یا ہندو یا آریہ یا کسی اور مذہب کا پابند ہو اس کو بہرحال اختیار ہے کہ اپنے طور پر مجھے مقابل پر رکھ کر تحریری مباہلہ شائع کرے یعنی خدا تعالی کے سامنے یہ اقرار چند اخباروں میں شائع کرے کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے یہ بصیرت کامل طور پر حاصل ہے کہ یہ شخص (اس جگہ تصریح سے میرا نام لکھے ) جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے درحقیقت کذاب ہے اور یہ الہام جن میں سے بعض اس نے اس کتاب میں لکھے ہیں یہ خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ سب اس کا افتراء ہے اور میں اس کو درحقیقت اپنی کامل بصیرت اور کامل غور کے بعد یقین کامل کےساتھ مفتری اور کذاب اور دجال سمجھتا ہوں پس اے خدائے قادر اگر تیرے نزدیک یہ شخص صادق ہے اور کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین نہیں ہے تو میرے پر اس تکذیب اور توہین کی وجہ سے کوئی عذاب شدید نازل کر ورنہ اس کو عذاب میں مبتلا کر ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 71تا72)

آج بھی یہ زبردست نشان دعوت عام دے رہا ہے۔

آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند

ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

قبولیت دعا اور نشانات کے ذریعہ غلبہ

زندہ خدا سے زندہ تعلق کے لیے قبولیت دعا اور آسمانی نشان ایک لاریب معیار ہے۔ قبولیت دعا کا زبردست نشان بھی آپؑ کو دیا گیا آپ نے تمام ادیان باطلہ کو اس میدان میں مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔ فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی یا آریہ یا یہودی یا برہمو یا کوئی اور ہے اس کے لئے یہ خوب موقع ہےجو میرے مقابل پر کھڑا ہو جائے۔ اگر وہ امور غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعاؤں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کر سکا تو میں اللہ جلّ شانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیر منقولہ جو دس ہزار روپے کے قریب ہو گی اس کے حوالے کر دوں گا جس طور سے اس کی تسلی ہو سکے اسی طور سے تاوان ادا کرنے مین اس کو تسلی دوں گامیرا خدا واحد شاہد ہے کہ میں ہرگز فرق نہیں کروں گا اور اگر سزائے موت بھی ہو تو بدل و جان روا رکھتا ہوں۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ276)

آپؑ نے مخالفین کو اپنے پاس قادیان آنے کی دعوت کی پیشکش یہاں تک کی کہ اگر کوئی یہ بہانہ بنائے کہ اس کے پاس اتنی رقم نہیں تو میں اسے آنے جانے کا خرچہ بھی دوں گا بلکہ اس دوران اس کے گھر والوں کے اخراجات کا بھی انتظام کر وں گا۔ اس طرح آپؑ نے تمام مخالفین پر اتمام حجت تمام کر دی۔

آپؑ نے اپنی متعدد کتب میں بے شمار نشانات ثبوت کے ساتھ درج فرمائے۔ اور نشان نمائی کے لیے عام دعوت دی۔ اس طرح آپؑ نے ثابت کر دیا کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی برکت سے آج بھی آسمان سے نشانات نازل ہوتے ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ وہ نشان جو میرے لئے ظاہر کئے گئے اور میری تائید میں ظہور میں آئے اگر ان کے گواہ ایک جگہ کھڑے کئے جائیں تو دنیا میں کوئی بادشاہ ایسا نہ ہو گا جو اس کی فوج ان گواہوں سے زیادہ ہو۔ تاہم اس زمین پر کیسے کیسے گناہ صادر ہو رہے ہیں کہ ان نشانوں کی بھی لوگ تکذیب کر رہے ہیں۔ آسمان نے بھی میرے لئے گواہی دی اور زمین نے بھی ‘‘(اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد19صفحہ 108)

دنیا کی تمام قوموں نے آپؑ کے یہ نشانات دیکھے۔ فرماتے ہیں: ’’میں خدائے قادر کا شکر کرتا ہوں کہ میرے نشانوں کے صرف مسلمان ہی گواہ نہیں بلکہ دنیا میں جس قدر قومیں ہیں وہ سب میرے نشانوں کی گواہ ہیں۔ فالحمد للہ علی ذالک ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 277)

اکناف عالم پر احمدیت کا ظاہری غلبہ

ہر نبی کو اللہ تعالیٰ تدریجاً ظاہری غلبہ عطافرماتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ۔ (الانبیاء: 45)کیا یہ مخالف دیکھتے نہیں کہ ہم ان کی زمین کو چاروں طرف سے کم کرتے چلے جا رہے ہیں اور محمد رسول اللہﷺ کی زمین کو چاروں اطراف پھیلا رہے ہیں۔ کیا یہ آپﷺ کے غالب آنے کی قطعی دلیل نہیں ہے۔ کیا پھر بھی وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم مخالفت کے ذریعہ مسلمانوں پر غالب آ جائیں گے اور صحابہ کو مغلوب کر دیں گے۔

اسی طرح یہ روشن نشان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے عالمگیر غلبہ پر ایک بین دلیل ہے۔ آپؑ کے دعویٰ کے پہلے دن سے لے کر آج تک کوئی دن احمدیت پر ایسا نہیں آیا کہ اس کی زمین کم ہو گئی ہو بلکہ اس کی زمین وسعت اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ اور دشمنوں کی زمین ہر روز کم سے کم تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ جب 1974ء میں ایک ملک کی حکومت نے جماعت کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور یہ دعوے کرنے لگے کہ ہم احمدیت کو یہاں سے ختم کر دیں گے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو الہام کیا کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ کہ اپنے مکان وسیع کرو کیونکہ تمہاری زمین اور پھیلنے والی ہے۔ کثرت سے لوگ تمہارے پاس آنے والے ہیں۔ پس تاریخ گواہ ہے کہ آسانی ہو یا سختی، مخالفت ہو یا ظلم و ستم یہ جماعت آگے سے آگے بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ آج 210سے زائد ممالک تک جا پہنچی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’کون جانتا تھا اور کس کے علم میں یہ بات تھی کہ جب میں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح بویا گیا اور بعد اس کے ہزاروں پیروں کے نیچے کچلا گیا۔ اور آندھیاں چلیں اور طوفان آئے اور ایک سیلاب کی طرح شور بغاوت میرے اس چھوٹے سے تخم پر پھر گیا۔ پھر بھی میں ان صدمات سے بچ جاؤں گا سو وہ تخم خدا کے فضل سے ضائع نہ ہوا بلکہ بڑھا اور پھولا اور آج وہ ایک بڑا درخت ہے جس کے سایہ کے نیچے تین لاکھ انسان آرام کر رہا ہے۔ یہ خدائی کام ہیں جن کے ادراک سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں ‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 263)

تاریخ مذاہب میں منفرد مثال

چونکہ آنحضورﷺ کا پیغام تمام دنیا کے لیے تھا۔ آپؐ ہی کی پیشگوئی کے مطابق جماعت احمدیہ ظہور میں آئی جس کا یہی مشن ہے کہ تمام دنیا میں اسلام کو غالب کر کے دکھا دیا جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو غیر معمولی ترقی کی رفتار عطافرمائی۔ آج تک مذہبی تاریخ میں کسی بھی جماعت کو اس قلیل عرصہ میں اتنی وسیع کامیابیاں اور فتوحات نصیب نہیں ہوئیں۔ مثلا:

٭…جماعت کے قیام کو 133 سال ہو چکے ہیں اس عرصے میں جماعت دنیا بھر کے 213 ملکوں میں داخل ہو چکی ہے۔ آج سے قبل کسی بھی مذہب کو اس عرصہ میں اتنے وسیع علاقے تک پہنچنے کی توفیق نہیں ملی۔

٭…دنیاکی اکثر قوموں میں سے لوگ اس جماعت میں داخل ہو چکے ہیں۔ اتنے عرصے میں اتنی قوموں نے کبھی بھی کسی مذہب میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

٭…قریباً دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اسلام کا پیغام پہنچایا جا چکا ہے۔ اب دنیا میں کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے میری زبان میں جس کو میں سمجھ سکتا ہوں پیغام نہیں پہنچا۔ 100 زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل یا منتخب آیات کے تراجم ہو چکے ہیں۔ اتنے تھوڑے عرصہ میں کسی مذہب کو یہ توفیق نہیں ملی۔ اگرچہ عیسائیت نے بھی دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں اپنا پیغام پہنچایا لیکن پہلی تین صدیوں میں تو سخت ابتلا میں رہے اور بہت محدود علاقوں تک پیغام پہنچا سکے۔

٭…ایم ٹی اے بھی ایک ایسا نشان ہے جو اس سے پہلے دنیا پر ظاہر نہیں ہوا۔ آج دنیا کے کناروں تک ہفتے کے سات دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر بھی پہنچ رہی ہے اور آپؑ کی آواز بھی پہنچ رہی ہے۔

٭…آنحضورﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق خلافت کا نظام جاری ہوا خلیفہ وقت تمام دنیا میں پھیلے لاکھوں کروڑوں احمدیوں کی امامت کر رہے ہیں۔ آپ کی آواز ہر احمدی تک پہنچ رہی ہے بلکہ دنیا کے ہر انسان تک پہنچ رہی ہے۔ اس سے قبل کسی بھی مذہبی امام کے زمانے میں یہ نشان ظاہر نہ ہوا بلکہ دنیا میں آج کوئی سیاسی لیڈربھی ایسا نہیں ہے جس کے محبین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہوں اور اس کی آواز سن کر لبیک کہتے ہوں۔ فالحمد للہ علی ذالک

انشاء اللہ جماعت کا یہ پھیلاؤ جاری رہے گا یہاں تک کہ جماعت کو ساری دنیا پر عددی غلبہ بھی عطا ہو جائے گا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آیا تبلیغ اور وعظ و نصیحت سے یہ غلبہ حاصل ہو گا یا پیشگوئیوں کے مطابق ایک خوفناک تباہی کے بعد مادیت کے بڑے بڑے پہاڑ جو آج مذہب کی راہ میں حائل ہیں اڑا دیے جائیں گے اور احمدیت کے لیے راستہ ہموار ہو جائے گا جس کے بعد يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ أَفْوَاجًا کا نظارہ ہو گا۔ جب ایک ہی امام اور ایک ہی قوم دنیا کے پردے پر ابھرے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس عالمگیر غلبہ کے بارے فرماتے ہیں:

’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا۔ اورمیرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گااور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔‘‘(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ409)

’’اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ66)

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور

ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button