متفرق مضامین

’’اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں‘‘

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

روحانی دنیا کا یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ روحانی نجات وہی پاتے ہیں جو الٰہی فرستادوں کی آواز پر سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کا نعرہ بلند کرتے ہیں

اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےظہور سےہوا اور آپؑ کے خلفاء کی قیادت میں اسلام کا حیات آفرین پیغام گو کہ زمین کے کناروں تک پہنچ چکا ہے مگر آج کی دنیا پھر سے ایک نازک دَور سے گزر رہی ہے۔ ہر طرف بے انصافی، نفسانفسی، دنیا طلبی اور مادہ پرستی کا دَور دورہ نظر آتا ہے۔ زیادہ پیسے، وسائل اور طاقت کا حصول کامیابی کی ضمانت سمجھ لیا گیا ہے اور دنیاوی ترقیات کو زندگی کی معراج۔ اگر دنیاوی آسائشیں خدا تعالیٰ کے احکامات اور تعلیمات کے ماتحت حاصل ہوں تویہ فضل الٰہی کا موجب ہیں ورنہ یہی عنایات انسان کے لیے اسی دنیا میں غضب الٰہی کا مورد ٹھہرتی ہیں۔ افعال شنیعہ اور تقویٰ کے برخلاف طور طریقے وہ درندے ہیں جو انسان کو عافیت کے حصار میں جانے سے پہلے ہی چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں اور انسان کو بچنے یا سنبھلنے کا موقعہ بھی نہیں ملتا۔ دنیا کے جنگل میں موجود درندوں میں ہر وہ امر اور بری عادت اور گناہ شامل ہے جو ہمیں عافیت کے اس قلعے میں نہیں جانے دیتا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے سے اس زمانے میں ہماری حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے۔

’’اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں ‘‘

مامور من اللہ زمانے کے لوگوں کے لیے بطور نجات دہندہ ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بنی نوع انسان کو ہلاکتوں سے بچانے کے لیے بھیجا ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ كَيْفَ تُهْلِكُ أُمَّةً أَنَا أَوَّلُهَا وَالْمَسِيحُ آخِرُهَا۔ (کتاب الفتن لابی نعیم بابقَدْرُ بَقَاءِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ بَعْدَ نُزُولِهِ) میری امت ہلاک نہیں ہو سکتی کیونکہ میں اس کے شروع میں ہوں اور عیسیٰ بن مریم اس کے آخر میں ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار

مزید فرماتے ہیں: ’’دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں۔ مگر جن کی فطرت کو اُس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے۔ جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں۔ میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بد گمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔ اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیوار وں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔‘‘(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد3صفحہ34)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمام دنیا کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اے یورپ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا! تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ269)

پھر فرماتے ہیں: ’’جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے اِنِّی اُحَا فِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے میں اُس کو بچاؤں گا۔ اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک و خشت کے گھر میں بود و باش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ10)

مذکورہ بالا اقتباسات میں جن فصیلوں اور چار دیواری کا ذکر ہواہے، یہ مادی دنیا کی چار دیواری یا فصیلیں نہیں بلکہ اس سےروحانی چار دیواری اور روحانی فصیلیں مراد ہیں۔ اور شرط یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فصیل اور چار دیواری میں پناہ لیتا ہے وہ ظاہری بیعت اور اطاعت سے ہی نہیں بلکہ روحانی معنوں میں مکمل اطاعت، خلوص اور محبت کے ساتھ اپنے دلوں میں پائی جانے والی خواہشات کے بر عکس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےارشادات و فرمودات پر قدم مارنے سے اس چار دیواری یا فصیل میں داخل ہوتا ہے۔ کیونکہ روحانی دنیا کا یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ روحانی نجات وہی پاتے ہیں جو الٰہی فرستادوں کی آواز پر سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں قصص الانبیاء کا مطالعہ کر یں تو پتہ چلتا ہے کہ ان انبیاء کے تمام مخالفین کابد انجام ہوا، کوئی غرق ہوا، کسی پر طوفان آیا اور کسی کا ناگہانی حادثہ کی وجہ سے نام و نشان مٹا دیا گیا، اور کسی پر ان کی بستی انہی پر الٹا دی گئی۔ ایسا اس لیے ہوا کہ

تقویٰ کے قلعہ میں جانے والا درندوں سے محفوظ رہتا ہے

…’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ عَادَلِیْ وَلِیًّافَقَدْاٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ(الحدیث)

جوشخص میرے ولی کا مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتاہے۔ اب دیکھ لوکہ متقی کی شان کس قدربلندہے اور اس کا پایہ کس قدرعالی ہے۔ جس کا قرب خداکی جناب میں ایساہے کہ اس کا ستایا جاناخدا کا ستایا جانا ہے تو خدا اس کا کس قدرمعاون ومددگارہوگا۔

لوگ بہت سے مصائب میں گرفتارہوتے ہیں، لیکن متقی بچائے جاتے ہیں بلکہ ان کے پاس جو آجاتا ہے وہ بھی بچایا جاتاہے۔ مصائب کی کوئی حد نہیں۔ انسان کا اپنااندراس قدرمصائب سے بھرا ہواہے کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں۔ امراض کو ہی دیکھ لیا جاوے کہ ہزارہا مصائب کے پیدا کرنے کوکافی ہیں لیکن جو تقویٰ کے قلعہ میں ہوتا ہے وہ ان سے محفوظ ہے اور جو اس سے باہر ہے وہ ایک جنگل میں ہے جو درندہ جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ10، ایڈیشن1988ء)

یہاں اس بات کو سمجھنا بھی بہت اہم ہے کہ عافیت کے حصار میں آنے اور ان درندوں سے بچنے کے لیے کوشش اور جدو جہدبہت ضروری ہے۔ کیونکہ یہ ایک بچگانہ سوچ ہوگی کہ ہم نے زبانی اقرار کرلیا ہے تو ہم عافیت کے اس حصار میں آگئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بارہا اس مضمون کو کھول کر بیان فرمایا کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کچھ نہیں جب تک ہم آپ کے اسوہ اور تعلیم کے مطابق خود کو دنیا کے جنگل میں موجود درندوں سے محفوظ نہ کرلیں۔

پاک تبدیلی اور تزکیہ نفس بہت ضروری ہے

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مجھے بہت سوزو گداز رہتا ہے کہ جماعت میں ایک پاک تبدیلی ہو۔ جو نقشہ اپنی جماعت کی تبدیلی کامیرے دل میں ہے وہ ابھی پیدا نہیں ہوا اور اس حالت کو دیکھ کر میری وہی حالت ہے۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْنَ۔ (الشعراء: 4) مَیں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رَٹ لیے جاویں۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ تزکیۂ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ351تا352)

خدا کی نظر تمہارے دلوں پر ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ان سب باتوں کے بعد پھر میں کہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اُسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اُس کو مت کھاؤ۔ خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجز وعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص پورے طور پرہر ایک بدی اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بد نظری سے اور خیانت سے، رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرّف سے توبہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص بد رفیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بد اثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں اُن کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہّد خدمت سے لاپرواہ ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اپنی اہلیہ اور ا ُس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنیٰ ادنیٰ خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اُس عہد کو جو اُس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے توڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور جو شخص امور معروفہ میں میری اطاعت کرنے کے لئے طیار نہیں ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور جو شخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ ہر ایک زانی، فاسق، شرابی، خونی، چور، قمار باز، خائن، مرتشی، غاصب، ظالم، دروغ گو، جعل ساز اور ان کا ہم نشین اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ یہ سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ18تا19)

اسلام میں احمدیت ایک ایساقلعہ ہے جس میں داخل ہو کر انسان سب شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ جو بندوں سے پیار کرنے والا ہے اس دنیا کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے ایک بندے کو اس کی طرف مبعوث فرمایا اور اس دنیا کو ایک حصن حصین، ایک قلعہ بنا دیا جس میں تمام دنیا کو پناہ مل سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ایک الہام جس کا کچھ حصہ یو ں ہے …’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزیں ہوئے ایک قلعۂ ہند میں ‘‘(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ404)اس کا بھی یہ مطلب ہے کہ اسلام میں احمدیت ایک ایساقلعہ ہے جس میں داخل ہو کر انسان سب شیطانی حملوں سے بچ جاتا ہے۔ ایک ایسا قلعہ جس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان اس کے غضب سے محفوظ رہنے کے بعد خدا کی رضا حاصل کر لیتا ہے۔ جب ہم ان اندھیروں میں بسنے والی اقوام کے ان لوگوں کو جو ایسے قلعوں میں داخل ہوئے یعنی ان اقوام کے احمدی افراد کے شاندار نمونہ، اخلاص، اسلام کے ساتھ تعلق، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے دلوں میں عشق اللہ، اللہ کی توحید پر ایمان اور اسکی صفات سے ان کے دلی لگائو اور ان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا پرتو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ یہ الہام سچ اور برحق ہے کہ ’’اس زمانے کا حصن حصین میں ہوں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍جولائی 1967ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد اول صفحہ 792تا793)

رسول کریمؐ کے روحانی فرزند اس زمانہ کے حصن حصین ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں: ’’رب العالمین نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک روحانی فرزند کو اس زمانہ کا حصن حصین بنایا ہے۔ چوروں، قزاقوں اور درندوں سے آج اسی کی جان محفوظ ہے جو اس قلعہ میں پناہ لیتا ہے۔ اللہ کرے تم بدی کو چھوڑ کر نیکی کی راہ اختیار کرکے اور کجی کو چھوڑ کے راستی پر قدم مار کر اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو کر اپنے رب عظیم کے بندہ ٔمطیع بن کر اس حصن حصین اس مضبوط روحانی قلعہ کی چار دیواری میں پناہ اور امن پائو۔ خدا کرے تمہارے نفس کی دوزخ کلی طور پر ٹھنڈی ہو جائے اور اس لعنتی زندگی سے تم بچائے جائو جس کا تمام ہم و غم محض دنیا کے لئے ہوتا ہے۔ تم اور تمہاری نسلیں شرک اور دہریت کے زہریلے اثرات سے ہمیشہ محفوظ رہیں۔ خدائے واحدو یگانہ کی روح تم میں سکونت کرے اور اس کی رضا کی خاص تجلی تم پر جلوہ گر ہو۔ پرانی انسانیت پر ایک موت وارد ہو کر ایک نئی اور پاک زیست تمہیں عطا ہو اور لیلۃ القدر کا حسین جلوہ اس عالم میں بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان تمہارے لئے پیدا کر دے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍اگست1976ء مطبوعہ خطباتِ ناصر جلد ششم صفحہ516)

’’امن است در مقامِ محبت سرائے ما‘‘

اس روحانی گھر میں داخل ہونے والے کو امن و آشتی اور سکون قلب ملتا ہے۔ اس پاک جماعت میں داخل ہونے والے کو تو کسی چیز کا فکر ہی نہیں کیونکہ امن و سکون کے الٰہی وعدے ان کے ساتھ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 28؍ اپریل 1904ء کو الہام ہوا کہ ’’امن است در مکان محبت سرائے ما‘‘یعنی ہمارا مکان جو ہماری محبت سرائے ہے اس میں ہر طرح سے امن ہے۔ اس حقیقت سے ہم بہت اچھی طرح آشکار ہیں کہ اللہ کے فرشتے ہمارے لیے حفاظت کاکام کرتے ہیں اور ہم بحیثیت احمدی کتنے خوش قسمت ہیں کہ اللہ کی عافیت کے حصار میں ہیں۔ اسی مضمون کو حضرت مسیح موعودؑ یوں بیان فرماتے ہیں: ’’ایک مرتبہ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پہرہ کے لئے پھرتا ہوں۔ جب میں چند قدم گیا تو ایک شخص مجھے ملا اور اُس نے کہا آگے فرشتوں کا پہرہ ہے یعنی تمہارے پہرہ کی کچھ ضرورت نہیں، تمہاری فرودگاہ کے اردگرد فرشتے پہرہ دے رہے ہیں۔ پھربعد اس کے یہ الہام ہوا امن است در مقامِ محبت سرائے ما‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ315)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اس دنیا میں حضرت مسیح موعودؑ نے جو تعلیم دی ہے اس کی پیروی سے ہی دنیا اور آخرت سے نجات پائیں گے۔ جو اس طرف آتا ہے وہ اس شخص کی طرح محفوظ ہے جو سخت طوفان میں جہاز میں بیٹھا ہو۔ وہ حصن حصین میں ہے اور چوروں اور قزاقوں سے محفوظ ہے۔ یہی توقع حضرت مسیح موعودؑ کو ہم سے ہے کہ ہم اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍مارچ 2012ءبحوالہ روز نامہ الفضل 27؍مارچ 2012ء)

سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین

23؍مارچ 1889ء کو الٰہی منشاء کے مطابق جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ یہ جماعت آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیو ں کے عین مطابق آخرین کو اوّلین سے ملانے والی جماعت ہے۔ اس سلسلے کے قیام کی بنیادی غرض نیک اور سعید فطرت لوگوں کی جماعت قائم کرنا تھا۔ چنانچہ آپؑ نےبیعت کا ارادہ رکھنے والوں کو بذریعہ اشتہار مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ ببرکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک اور مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو طیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الٰہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہوکر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آوے ‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ561تا562)

تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لیےسلامتی کا تعویذ ہے

اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی اور اطاعت کے جذبہ کا نام ہی تقویٰ ہے۔ چنانچہ تقویٰ اللہ کی کمی ہی فتنہ کا موجب ہے اور تقویٰ اللہ ہی ایسے فتنوں سے نکال سکتا ہے۔ ’’حصن ‘‘قلعہ کو کہتے ہیں، اسی مادہ سے صفت مشبہ ’’حصین‘‘بنا کر قلعہ کی صفت کے طور پر مضبوط و محفوظ کے معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ پس حصن حصین کے معنی بہت ہی مضبوط قلعہ کے ہیں۔ چونکہ انسانی زندگی مختلف قسم کے فتنوں میں گھری ہوئی ہے، جن سے محفوظ رہنے کا بہت ہی اعلیٰ ذریعہ تقویٰ اللہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’جو لوگ تقویٰ اختیار کریں اور اصلاح کریں ان کو (آئندہ کے لئے ) کسی قسم کا خوف نہ ہو گا اور نہ وہ (ماضی کی کسی بات پر ) غمگین ہوں گے۔‘‘(الاعراف: 36)

خواہ کوئی فتنہ کسی ماضی کی بات سے تعلق رکھتا ہو یا آئندہ پیدا ہونے والا ہو، تقویٰ ہی اس کے حصن حصین کا کام دیتا ہے۔ اسی مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’[قرآن شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لئے قوت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دڑنے کے لئے حرکت دیتی ہے اور اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہر ایک باب میں انسان کے لئے سلامتی کا تعویذ ہے اور ہر ایک قسم کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے حصن حصین ہے۔ ایک متقی انسان بہت سے ایسے فضول اور خطرناک جھگڑوں سے بچ سکتا ہے جن میں دوسرے لو گ گرفتار ہو کر بسا اوقات ہلاکت تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی جلد بازیوں اور بد گمانیوں سے قوم میں تفرقہ ڈالتے اور مخالفین کو اعتراض کا موقع دیتے ہیں۔ مثلاً سوچ کر دیکھو کہ اس زمانہ کے معاند…نے ہماری تکفیر اور تکذیب کے خیال کو بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے کس حد تک پہنچا دیا ہے کہ اب ہم ان کی نظر میں اپنے کفر کے لحاظ سے عیسائیوں اور ہندوئوں سے بھی بد تر ہیں۔ کیا ایک متقی جو واقعی طور پر شکوک کی پیروی سے اپنے دل کو روکتا ہے وہ ان بلائوں میں پھنس سکتا ہے؟ اگر ان لوگوں کے دل میں ایک ذرہ بھی تقویٰ ہوتی تو میرے مقابل پر وہ طریق اختیار کرتے جو قدیم سے حق کے طالبوں کا طریق ہے۔‘‘(ایام صلح، روحانی خزائن جلد14صفحہ342)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تقویٰ ایک ایسا قلعہ ہے جب اس کے اندر نیک اقوال اور صالح اعمال داخل ہو جائیں تو وہ شیطان کے ہر حملہ سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی عمل بظاہر کتنا ہی پاکیزہ اور صالح کیوں نہ نظر آتا ہو اگر وہ اس قلعہ میں داخل نہیں تو شیطان کی زد میں ہے۔ کسی وقت وہ اس پر کامیاب حملہ کر سکتا ہے۔ کیونکہ اگر تقویٰ نہیں تو کبر پیدا ہوسکتا ہے، ریا پیدا ہوسکتا ہے، عجب پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر تقویٰ ہے تو ان میں سے کوئی بدی پیدا نہیں ہوسکتی یعنی شیطان کامیان وار نہیں کر سکتا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کا ابھی جو فقرہ میں نے پڑھا ہے [مذکورہ بالا اقتباس والا]وہ معنوی لحاظ سے اسی کا ترجمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ دخان: آیت 52میں فرماتا ہے …کہ متقی یقیناً ایک امن والے اور محفوظ مقام میں ہیں، تو یہی وہ حصن حصین ہے۔ یہی امین کے معنی ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ نے کئے ہیں کہ محفوظ اور امن میں وہی ہے جو تقویٰ پر مضبوطی سے قائم ہوتا ہے۔ جو تقویٰ پر قائم نہیں وہ امن میں نہیں وہ خطرہ میں ہے۔ وہ حفاظت میں نہیں خوف کی حالت میں ہے اور ایساشخص مقام امین میں نہیں ہے بلکہ اس مقام پر ہے جسے دوسرے لفظوں میں جہنم کہا جاتا ہے۔ پس قرآن کریم نے ہی تقویٰ کے معنوں کو بیان کرتے ہوئے معنوی لحاظ سے حصن حصین کا تخیل پیش کیا ہے کہ سوائے تقویٰ کی راہوں پر چل کر کوئی شخص امن میں نہیں رہ سکتا۔ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے اس مضبوط قلعہ میں داخل ہونے کا سوائے تقویٰ کے دروازے کے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ1968ءمطبوعہ خطباتِ ناصر جلد دوم صفحہ 67)

تقویٰ کے حصول کے ذرائع اصلاح نفس اور دعا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہم کو خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ایک بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ بیرونی شیطان کو شکست دینے کے لئے جو اندرونی شیطان ہے اس کو بھی زیر کرنا ہو گا۔ کیونکہ ہماری فتح مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے ظاہری اسباب سے نہیں ہونی بلکہ دعاؤں سے ہونی ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے والا بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے نفس کا جہاد بھی بہت ضروری ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍مارچ 2009ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل27؍مارچ2009ءصفحہ6)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’ایک درد کے ساتھ انسانیت کو تباہی سے بچانے کےلئے بھی دعا کریں۔ جنگوں کے ٹلنے کےلئے دعا کریں۔ دعاؤں اور صدقات سے بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ اگر اصلاح کی طرف دنیا مائل ہو جائے تو یہ جنگیں ٹل بھی سکتی ہیں۔ ہم اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ دنیا کا ایک حصہ تباہ ہو اور پھر باقی دنیا کو عقل آئے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکیں اور آنے والے کو مانیں بلکہ ہم تو اس بات پر خوش ہیں اور کوشش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بھی اس کے بداعمال کی وجہ سے تباہی میں نہ ڈالے اور دنیا کو عقل دے کہ وہ بدانجام سے بچیں۔ جہاں مسیح موعودؑ کے غلاموں کا یہ کام ہے کہ اس پیغام کو عام کریں کہ عافیت کا حصار اب مسیح موعودؑ کے ساتھ جڑنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے یا جڑنے میں ہی ہے، وہاں ہم ان کےلئے دعائیں بھی کریں۔ اس یقین کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہماری دعاؤں سے ان کو عقل بھی آ جائے اور اللہ تعالیٰ ان کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بھی بچا لے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے اس مشن کو پورا کرنے والے ہوں جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے تھے کہ دنیا کو آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے لے کر آنا ہے اور اس کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور کوششوں کو بھی عمل میں لائیں اور دعاؤں کی بھی انتہا کریں۔ حضرت مسیح موعودؑ کا غلبہ دعاؤں کے ذریعہ سے ہونا ہے۔ آپ کو دعا کا ہتھیار دیا گیا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ30؍جون 2017ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍جولائی2017ءصفحہ8)

نیز فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم …مسیح موعود کو قبول کرنے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی فتنوں سے بچنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور ہر بلا اور ہر مشکل سے بچائے۔ آمین‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍مارچ 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل2018ءصفحہ9)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button