متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ نئے ارض و سما کا قیام(قسط اوّل)

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

کشف کا مطلب تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے

آپؑ نےآسمانی نشانوں اور قوت قدسیہ کے ذریعہ پاک گروہ اور نیا روحانی نظام تشکیل دیا

قرآن کریم کی سورہ جمعہ کی ابتدئی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ کی دو بعثتیں مقدر تھیں۔ ایک آپ کی پہلی بابرکت آمد جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور رسول اللہﷺ کی قوت قدسیہ کے نتیجے میں ایک عظیم امت مسلمہ وجود میں آئی۔ اور دوسری وہ بعثت جب قرآن تو موجود تھا مگر امت تنزل کا شکار ہو گئی۔ایمان درحقیقت ثریا پر چلا گیا اور غیر مذاہب اور اقوام اسلام کو نیست و نابود کرنے کی آخری کوشش میں لگ گئے۔

اس بعثت ثانی میں رسول کریمﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کی روحانیت فارسی الاصل مسیح موعود و مہدی معہود کے روپ میں جلوہ گر ہوئی اور اس نے اسلام پر حملہ آور ہونے والے تمام مذاہب کا منہ پھیر کر اور بگڑی ہوئی عیسائیت کے مظہر دجال اور یاجوج ماجوج کو شکست دے کر اور کسر صلیب کر کے عالم اسلام کو نئی بلندیوں سے ہم کنار کیا۔ اسلام کا پہلا دَور تکمیل ہدایت کا اور جلالی دَور تھا اوریہ دوسرا دَور تکمیل اشاعت ہدایت کا دَور ہے۔اس جمالی دَور میں اسلام ایک نئی عظمت اور شان میں ظاہر ہوا۔ یہ وہ دَور ہے جب انسان سائنسی ترقی کے نئے دَور میں چھلانگیں لگانے کا آغاز کر چکا تھا۔ اور وہ وسائل میسر آنے شروع ہو گئے جب مسیح موعود کے ذریعہ رسول اللہﷺ کا پیغام دنیا کے کناروں تک ہر قوم اور ہر زبان میں پہنچ سکتا تھا۔

مسیح موعود اپنے موعودہ وقت پر یعنی 13ویں صدی ہجری اور 19ویں صدی عیسوی کے آخر پر آیا اور جدید دَور کے تقاضوں کے مطابق اسلام کو نئی زندگی دی جس کا خلاصہ اگر ایک جملہ میں نکالنا ہو تو وہ یہ ہے کہ آپ نے نئی زمین اور نئے آسمان پیدا کر دیے۔ اسی کی طرف حدیث لو لاک لما خلقت الافلاک اشارہ کرتی ہے۔(تفسیر روح المعانی جلد 15 صفحہ 219 سورۃ النبا٫) یہ حدیث علم روایت کے لحاظ سے محدثین کے نزدیک ضعیف ہے مگر اللہ تعالیٰ نے یہی الفاظ حضرت مسیح موعودؑ کو الہام کر کے اس کو ثقہ ثابت کر دیا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ رسول اللہﷺ کی غلامی میں بھی ایک ایسا عظیم مصلح مبعوث ہو گیا ہے جو روحانی زمین و آسمان بدل کر رکھ دے گا۔ چنانچہ آپ الہام کا ترجمہ اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’لولاک لما خلقت الافلاک۔اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔ ہر ایک عظیم الشان مصلح کے وقت میں روحانی طور پر نیا آسمان اور نئی زمین بنائی جاتی ہے یعنی ملائک کو اس کے مقاصد کی خدمت میں لگا یا جاتا ہے اور زمین پر مستعد طبیعتیں پیدا کی جاتی ہیں پس یہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 102)

اپنے عربی کلام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک طویل رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اللہ بن گیا ہوں اور اس حالت میں مَیں نے کہا کہ ہم ایک جدید نظام جدید آسمان اور جدید زمین چاہتے ہیں۔ تو پھر میں نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا۔ پھر میں نے کہا آؤ انسان کو پیدا کریں۔ پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ میں نے جو تخلیق کی ہے اس سے مراد تائیدات سماویہ و ارضیہ ہیں۔(آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 566)

پھر فرمایا :’’ایک دفعہ کشفی رنگ میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا۔ اور پھر مَیں نے کہاکہ آؤ اب انسان کو پیدا کریں۔ اس پر نادان مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو اب اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا حالانکہ اُس کشف سے یہ مطلب تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے۔ اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے‘‘(چشمہ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ-375۔376)

نیز فرمایا :’’زمین بگڑ گئی اور آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے پر لوگوں کا ایمان نہیں رہا ہونٹوں پر اس کا ذکر ہے لیکن دل اس سے پھر گئے ہیں اس لئے خدا نے کہا کہ اب میں نیا آسمان اور نئی زمین بناؤں گا۔اس کا مطلب یہی ہے کہ زمین مر گئی یعنی زمینی لوگوں کے دل سخت ہوگئے گویا مَر گئے کیونکہ خدا کا چہرہ اُن سے چھپ گیا اور گذشتہ آسمانی نشان سب بطور قصوں کے ہوگئے سو خدا نے ارادہ کیا کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان بناوے۔وہ کیا ہے نیا آسمان؟ اور کیا ہے نئی زمین؟ نئی زمین وہ پاک دل ہیں جن کو خدا اپنے ہاتھ سے تیار کر رہا ہے جو خدا سے ظاہر ہوئے اور خدا اُن سے ظاہر ہوگا۔اور نیا آسمان وہ نشان ہیں جو اس کے بندے کے ہاتھ سے اُسی کے اِذن سے ظاہر ہو رہے ہیں‘‘(۔کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 7)

پس یہی مقدر تھا کہ مسیح موعود پاک دل انسان تیار کرے گا اور آسمانی نشانوں کی مدد سے ایک نیا نظام جاری کرے گا جو اسلام کی سرسبزی اور شادابی کا موجب ہو گا۔اس حوالے سے جب ہم حضرت مسیح موعودؑ کے انقلاب انگیز نظام کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ بے شمار جہتوں میں پھیلا ہوا ہے جو قرآن کریم اور سنت نبوی کے عین مطابق اور ان کی جدید انتظامی اور ادارتی شکل ہے۔یہ مضمون اتنا ہمہ جہت ہے کہ اکثر معاملات میںصرف اشاروں میں بھی بات کی جائے تو کتابیں درکار ہیں۔ مضمون کو واضح کرنے کے لیے اسے 4حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔

1۔قرآن کی وہ پاک تعلیم اور سچے عقائد جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے سکھائے۔جن کی تائید میں بیسیوں آیات اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت موجود ہے۔

2۔وہ آسمانی نشان جو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے لیے دکھائے اور اپنی ہستی کا زندہ ثبوت دیااور یہ سلسلہ جاری ہے۔

3۔وہ پاک جماعت جو آپؑ نے قائم کی اس کی کچھ جھلکیاں اور نظارےجن کا اعتراف غیر بھی کرتے ہیں۔

4۔ان سب کے نتیجے میں جو جدید نظام آپ نے اصلاح خلق کے لیے جاری فرمایا وہ مسلسل ترقی پذیر ہے۔

پہلے2کا تعلق نئے آسمان اور باقی 2کا تعلق نئی زمین سے ہے ۔آیئے ان سب پر اچٹتی سی نظر ڈالیں۔

پاک تعلیم اور سچے عقائد

اس سلسلہ کی پہلی کڑی ان بگڑے ہوئے عقائد کی درستی ہے جو قرآن اور سنت کے باوجود مرور زمانہ سے مسلمانوں میں رائج ہو گئے تھے جن کے متعلق احادیث میں بھی پیشگوئیاں ہیں۔ یہ سب امت مسلمہ کے متعدد فرقوں اور گروہوں میں موجود تھے اور ہیں۔ان کی کچھ تفصیل کتاب تاریخ افکار اسلامی از حضرت ملک سیف الرحمان صاحب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں تفصیل چھوڑتے ہوئے چند مرکزی امور میں حضور کی اصلاح کا ذکر کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات

حضرت مسیح موعود ؑنے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی جسمانی وجود نہیں اس کی مانند کوئی چیز نہیں۔اس کی لامحدود صفات حق و حکمت کے ساتھ کام کرتی ہیں اور ان میں باہم کوئی تضاد نہیں۔ اور ان میں سےکوئی بھی صفت معطل نہیں۔ وہ جس سے چاہے بولتا ہے اور جسے چاہے چن لیتا ہے اور اپنا مامور اور پیغمبر مقرر کرتا ہے۔ اس کی4امہات الصفات ربّ ،رحمان، رحیم اور مالک یوم الدین ہیں ۔اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہےاس لیے جنت تو دائمی ہے مگر جہنم وقتی اور فنا ہونے والی ہے۔ آپؑ نے اعلان کیا کہ خدا ہر چیز یعنی تمام روح و مادہ کا خالق ہے۔ اس طرح آپؑ نے ہندو اور آریہ مذہب کی بنیادوں پر تبررکھ دیا۔ آپؑ نے فرمایا کہ خدا دکھ اٹھانے اور صلیب پر چڑھنے اور مرنے سے پاک ہے۔ اس کی صفت عدل اور رحمان میں کوئی تنازعہ نہیں۔اس طرح آپؑ نے عیسائیت کے عقیدہ الوہیت مسیح اور کفارہ اور تثلیث کو باطل کر دیا۔ آپؑ نے بتایا کہ زردتشتی عقیدہ کے مطابق نیکی اور بدی کا الگ الگ خدا نہیں بلکہ ایک ہی خدا ہے جس کی صفات کی موجودگی کا نام نیکی اور عدم کا نام ظلمت اور گناہ ہے۔ اس طرح آپؑ نے دو خداؤں کے تصور کا قلع قمع کر دیا۔

رسول اور نبی

آپؑ نے بتایا کہ سب پیغمبر پاک ہیں اور ان کی آمد کا مقصد توحید کا قیام ہے۔ اس لیے ان کی طرف کوئی ایسا عقیدہ یا فعل منسوب نہیں کیا جا سکتا جو توحید اور عصمت انبیاء کے خلاف ہو۔ آپؑ نے فرمایا کہ نبی اور رسول ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ صرف کام کی جہت میں فرق ہے۔رسول وہ خدا کے مامور ہونے اور پیغام پہنچانے کی وجہ سے کہلاتا ہے اور نبی اس لیے کہ خدا اس سے کثرت سے کلام کرتا اور غیب کی خبریں دیتا ہے۔

قرآن میں نبیوں اور سابقہ قوموں کے واقعات قصے کہانیوں کے طور پر نہیں بلکہ عظیم اسباق اور پیشگوئیوں کے طور پر لکھے گئے ہیں۔دنیا کی تمام قوموں اور خطوں میں خدا کے نبی آئے ہیں اور تمام وہ بزرگ جن کی عزت اور عظمت دنیا میں پھیل گئی اور صدیوں سے لاکھوں انسان ان کی تعظیم کرتے ہیں وہ ضرور سچے ہیں کیونکہ خدا جھوٹے کو ایسی عزت نہیں دیتا۔(تفصیلی مضمون ملاحظہ ہو الفضل انٹر نیشنل 17و20؍ نومبر2020ء) حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تمام نبیوں کی طرح اپنا کام مکمل کر کے فوت ہو چکے ہیں جس پر متعدد آیات،احادیث ،بائبل،تاریخ اورعلم طب کی گواہی موجود ہے۔ان کی دوبارہ آمد کا وعدہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی شکل میں پورا ہو چکا ہے۔ آپ مسیح بھی ہیں اور مہدی بھی ہیں کیونکہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں جو اس کے کاموں کی نوعیت کے اعتبار سے دیے گئے ہیں۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل 10؍ جنوری 2020ء)

رسول کریمﷺ

رسول کریمﷺ سب نبیوں سے بالا اور برتر واحد عالمی نبی، مظہر اتم الوہیت اور خاتم النبیین ہیں یعنی آپ پر کمالات نبوت تمام ہوگئے اور اب ہر ایک روحانی برکت صرف آپ کی اتباع سے ملتی ہے جس میں نبی، صدیق، شہید اور صالح شامل ہیں۔ آپؐ کی سچی پیروی اور غلامی سے مسیح موعود نے امتی نبوت کا منصب پایا جس کا واحد مقصد احیا دین اسلام اور قیام شریعت محمدیہ ہے۔ رسول اللہ ہر زمانہ ، ہر قوم اور ہر رنگ و نسل کے لیے اسوہ حسنہ ہیں۔ رسول اللہﷺ نے تمام مکارم اخلاق کو انتہاتک پہنچا دیا اور آپ کی روحانی زندگی کا ثبوت یہ ہے کہ آپؐ کی اتباع سے خدا کے انوار ہمیشہ حاصل ہوتے رہیں گے اور مسیح موعود نے اپنی ذات کو اور جماعت کواس زمانے میں اس کا نمونہ ٹھہرایا ہے۔

قرآن، سنت اور حدیث

قرآن میں قطعاً کوئی نسخ نہیں، کوئی تضاد نہیں۔اس کا ہر حرف، نقطہ اور شعشہ خدا کی طرف سے ہے اور ابد تک محفوظ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صرف ظاہری حفاظت کا نہیں بلکہ معنوی حفاظت کا بھی ذمہ لیا ہے اور اس کے لیے اس نے خلفاء، مجددین، مفسرین، محدثین، متکلمین، فقہاء، صوفیاء اور دیگر بزرگوں کا ایک بہت بڑا سلسلہ جاری کر دیا۔قرآن بے شمار بطون پر مشتمل ہے تمام کتب سماوی کی ابدی تعلیمات کا جامع اور تمام علوم کا سرچشمہ اور قیامت تک کی پیشگوئیوں سے بھرپورہے اور ہر زمانہ میں اس کے نئے نئے علوم ظاہر ہوتے رہیں گے۔آپؑ نے اصول تفسیر بھی بیان کر دیے ۔قرآن اور سچی سائنس میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ قرآن خدا کا قول ہے اور سائنس اس کا فعل۔

رسول اللہﷺ قرآن کریم کی تشریح اور تبیین کے لیے بھی مامور تھے۔آپؐ نے تمام عملی احکامات کو اپنی ذات میں اور معاشرے میں جاری کر کے دکھا دیا جو تعامل کے رنگ میں آج تک موجود ہیں۔اسی کو سنت کہتے ہیں جو قرآن کے ساتھ ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ رہے گی۔(تفصیل کے لیے دیکھیںالفضل انٹرنیشنل 27و30؍اپریل 2021ء)رسول اللہﷺ کے حوالے سے وہ روایات جو مسلمانوں نے ایک لمبے عرصے کے بعد راویوں کے ذریعہ جمع کیں ان کو حدیث کہا جاتا ہے۔ قرآن کے بعد سنت کا درجہ ہے اور پھر حدیث کا۔ اور صرف وہی حدیث قابل قبول ہے جو قرآن اور سنت اورمشاہدہ فطرت کے مطابق ہو۔( تفصیل کے لیے دیکھیں الفضل انٹر نیشنل 29؍جون،2؍جولائی 2021ء)

قرآن خاتم الکتب ہے۔ ایک زندہ کتاب ہے۔ اس کی اتباع کی برکات ہمیشہ جاری رہیں گی۔ مسیح موعود کو خاص طور پر علم قرآن عطا کیا گیا۔ اور آپؑ نے اس حوالے سے بار بار انعامی چیلنج بھی دیے مگر کوئی مقابلہ پر نہ آیا۔ آپؑ نے بتایا کہ قرآن کی زبان عربی ام الالسنہ ہے اور سب سے زیادہ جامع اور فصیح زبان ہے۔ یہی اوّلین طور پر انسان کو خدا کی طرف سے سکھائی گئی اور باقی سب زبا نیں اسی کی مختلف شکلیں ہیں۔ پس ضروری تھا کہ آخری اور کامل شریعت عربی میں ہی نازل ہوتی تاکہ قرآن کریم کے نئے نئے اور باریک معارف ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ظاہر ہوتے رہیں ۔

دعا ،عبادات اور معجزات

آپؑ نے بتایا کہ زندہ خدا دعاؤں سے پہچانا جاتا ہے۔ دعا محض عبادت یا تسکین قلب کے کلمات نہیں بلکہ غیر ممکن کو ممکن میں بدل دینے کا نسخہ ہے۔اللہ تعالیٰ دعاؤں کے ذریعہ تقدیر کو ٹلا دیتا ہے۔اپنے خاص لوگوں کے لیے اپنی عام تقدیر سے ہٹ کر تقدیر خاص ظاہر کرتا ہے اور اس طرح خارق عادت معجزات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے قبولیت دعا کے ذریعہ ہزاروں معجزے دکھائے جن سے آپؑ کی کتابیں اور آپؑ کے صحابہؓ کے بیانات اور مخالفین کے اعترافات بھرے پڑے ہیں۔آپ تمام مذاہب کے لیڈروں کو قبولیت دعا کا چیلنج مسلسل دیتے رہے۔آپؑ نے بتایا کہ نماز اور دیگر شرعی عبادات میں مسنون دعائیں دہرانا ضروری ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی نماز میں اپنی زبان میں دعائیں کرنی ضروری ہیں کیونکہ انسان کو سچا گداز اسی زبان میں ہوتا ہے جس پر وہ عبور رکھتا ہے۔آپؑ نے نماز اور دیگر عبادات کی ظاہری شکلوں کی بجائے اصل مقصد تعلق باللہ پر زور دیا اور فقہی اختلافات میں الجھنے کی بجائے برداشت اور وحدت کی تلقین فرمائی ۔آپؑ نے عبادات میں شدت اور اپنے آپ پر سختی کر کے خدا کو راضی کرنے کی نفی کی اور شریعت کی رعایات سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کی ۔مثلاً حسب ضرورت نماز جمع اور قصر کرنے ،سفر میں روزہ سے اجتناب کی ہدایت کی۔

یہ وہ سچے عقائد تھے جو آپ نے قرآن کریم سے سیکھے اور اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ کی تفہیم سے ان کو بیان کیا۔ ان کی حکمتوں کے سمندر بہا دیے ۔جلسہ مذاہب عالم میں آپؑ کا مضمون بالا رہااور دنیا نے اللّٰہ اکبر۔خربت خیبر کے نظارے دیکھے یعنی خیبر کا قلعہ پاش پاش ہو گیا ۔اسلام کی صداقت کے مضامین آپ کی کتابوں ،اشتہارات ،مکتوبات اور ملفوظات میں چمکار دکھلا رہے ہیں ۔غیر بھی یہ مضامین سرقہ کرتے ہیں اور اپنے نام سے شائع کرتے ہیں۔(مفصل دیکھیے بیسویں صدی کا علمی شاہکار از مولانا دوست محمد شاہد صاحب)

عام طور پر مسلمانوں کے عقائد ان مذکورہ بالا عقائد کے برعکس اور منفی صورت میں تھے۔ وہ خدا کے فیض کے سارے چشمے خشک کر بیٹھے تھے۔ اور خود بھی اپنے اوپر رحمت کے سارے دروازے بند کر لیے تھے۔ اس کے نتیجے میں اسلام محض نام اور قرآن محض الفاظ میں رہ گیا تھا۔ ایمان ثریا پر جا چکا تھا۔ عالمِ اسلام ایک جسدِ بے جان اور ملت ایک اجڑا ہوا باغ تھا۔ جس کا ہر پھول بغیر رنگ و خوشبو کے تھا۔ مذہب ایک خشک فلسفہ اور عبادات رسمی جسمانی مشقت کے سوا کچھ بھی نہیں تھیں۔ بہت سے مسلمان علماء ہندوستان کو دار الحرب سمجھتے تھے۔ اس لیے جمعہ پڑھنا ناجائز تھا۔ بعض جمعہ کے ساتھ ظہر کی نماز احتیاطی ادا کرتے تھے۔ عورتوں کا مسجدوں میں آنا کلیۃً ممنوع تھا۔ ان کی دینی و دنیاوی تعلیم پر بھی پابندیاں تھیں۔ مردو زن انگریزی پڑھنا حرام سمجھتے تھے۔سائنس کو مذہب کے برعکس قرار دیا جاتا تھا۔تمام نئی ایجادات مثلاً ریل، تصویر، ریڈیو، ٹیلی فون، اور پریس کے خلاف فتاویٰ دیے گئے۔ قرآن پڑھتے تھے مگر حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا، اس کا ترجمہ بے ادبی کے مترادف تھا۔حضرت شاہ رفیع الدین نے حضرت مسیح موعودؑ کی پیدائش سے چند سال پہلے 1233ھ میں قرآن کا پہلا لفظی ترجمہ کیا تو ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے ۔نماز میں اپنی زبان میں دعائیں کرنا غلط تھا۔ اور نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا نماز کا لازمی حصہ تھا۔ مذہبی جلسوں اور اجتماعات کو خلافِ شریعت قرار دیا جاتا۔ چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل مثلاً آمین بالجہر کہنے یا تشہد میں انگلی اٹھانےپر مناظرے اور مجادلے بلکہ ہاتھا پائی عام تھی۔ اور تکفیر کا ایک بازار گرم تھا۔ جس کے نتیجے میں کوئی ایک بھی مسلمان باقی نہیں رہ گیا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب دردمند مسلمان آسمان سے مسیح اور زمین سے مہدی کے منتظر تھےاور 6،4 ماہ میں اس کی امید لگائے بیٹھے تھےتب ۔

وہ آیا منتظر جس کے تھے دن رات

معمہ کھل گیا روشن ہوئی بات

دنیا کے ایوانوں میں پذیرائی

حضرت مسیح موعودؑکے قلب منورکی تجلی سے وہ صبح صادق ظہورپذیر ہوئی جس کے متعلق خدا نے خبر دی تھی کہ (ترجمہ): زمین کے باشندوں کے خیالات اور رائیں بدلائی جائیں گی۔ (تذکرہ،صفحہ189)وہ حقائق جن کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑپر کفر کے فتوے لگائے گئے آج وہی باتیں دنیا کے ایوانوں میں گونج رہی ہیں ۔ اس شعرکے مصداق کہ

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

امام آخرالزماں کے پیش کردہ سچے دینی عقائد اورناقابل تسخیر نظر یات کی دنیا بھر کے دانشور تحسین کرتے ہیں ۔مثلاً

کسر صلیب:حضرت مسیح موعودؑنے 1891ء میں وفات مسیح کا اعلان کیا اورلندن میں 1978ء میں کسرصلیب کانفرنس میں برطانیہ، سپین، چیکو سلوواکیہ اوربھارت کے مسلمان اور عیسائی محققین نے مسیح کی صلیبی موت سے نجات اور کشمیرمیں وفات کا برملا اعلان کیا۔

موازنۂ مذاہب کے مشہور ہسپانوی سکالر فیبر قیصر (A.Faber Kaiser)قبر مسیح کی تحقیق کے لیے خود کشمیر گئے اورانتہائی محنت و قابلیت سے قابل قدر تاریخی معلومات فراہم کرکے ایک ضخیم کتاب شائع کی جس کا نام ہی یہ رکھا کہJesus Died in Kashmir یعنی یسوع کشمیر میں فوت ہوئے ۔

دَورحاضر میں بہت سے عرب زعماء حضرت مسیح کی طبعی وفات کے قائل ہوچکے ہیں۔ السید محمد رشید اور السید عباس محمود العقاد نے تسلیم کیا کہ عقلی ،نقلی اور تاریخی اعتبار سے سرینگرکے محلہ خانیار میں واقع مقبرہ حضرت مسیح علیہ السلام ہی کا ہے ۔ (تفسیر المنار جلد6صفحہ43ناشردارالمعرفہ بیروت۔ حیاة المسیح فی التاریخ و کشوف العصر صفحہ255تا256،ناشر دارالکتاب العربی بیر وت 1969ء)ایرانی مفسر مولانا زین الدین نے اپنی تفسیر میں لکھا ۔حضرت مسیح علیہ السلام کو یہود کے ہاتھوں بہت تکالیف برداشت کرنا پڑیں جس پر آپ نے مشرق کارخ اختیار کیا اور کشمیر اورمشرقی افغانستان کے اسرائیلی قبائل کی طرف ہجرت کرگئے اورانہیں وعظ ونصیحت فرمائی ۔

یاجوج ماجوج:حضرت مسیح موعودؑنے مغربی اقوام کے مذہبی اورسیاسی فتنوں کو دجال اوریاجوج ماجوج قرار دیا۔ آج عرب لیڈر بھی اسے تسلیم کرتے ہیں ۔الشیخ عبداللہ بن زید آل محمود وزیر مذہبی امور قطراور الشیخ عبدالرحمٰن بن سعدی کے نزدیک یاجوج ماجوج سے مراد روس، امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی اقوام ہیں (رسالہ ’’لامہدی ینتظر‘‘ صفحہ 75تا79 مطبوعہ ریاست قطر)

ریسرچ اسکالر علی اکبر صاحب لکھتے ہیں:’’یورپی اقوام ہی یاجوج و ماجوج ہیں اور آسمان میں تیر چلانے سے مراد طاقتور راکٹ ہیں‘‘۔(اسرائیل قرآنی پیشگوئیوں کی روشنی میں صفحہ28مکتبہ’’شاہکار‘‘لاہورجون1976ء)

مولانا ابوالجمال احمد مکرم صاحب عباسی چڑیا کوٹی (رُکن مجلس اشاعة العلوم حیدرآباد دکن )نے پادریوں کو دجال اورریل کو خر دجال قراردیا۔(حکمت بالغہ جلد 2صفحہ126تا142مطبع دائرة المعارف النظامیہ حیدر آباد دکن 8جمادی الاولیٰ 1332ھ ۔5؍اپریل 1914ء )

ام الالسنہ:1895ء میں ناقابل تردید دلائل سے حضرت مسیح موعودؑنے عربی کو ام الالسنہ قرار دیا۔عیسائی ماہر لغت رائل عرب اکیڈمی کے ممتاز ممبر اور لغة العرب کے ایڈیٹر انستاس الکرمی (1947-1866ء) نے 1935ء میں ببانگ دہل عربی کے ام الالسنہ ہونے کا اعلان کیا ۔ (بحوالہ الفضل سالانہ نمبر1978ء صفحہ37)

برصغیر کے مولانا عبدالرحمٰن طاہر سواتی لکھتے ہیں۔عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے میں شک نہیں ۔(تاریخ الادب العربی اردو ایڈیشن صفحہ26ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہورجون 1961ء )

مفتی محمد شفیع صدر مدرسہ دارالعلوم کراچی لکھتے ہیں۔ حکومت الٰہیہ کی دفتری زبان عربی ہے کہ سب سے پہلے انسان کو وہی سکھائی گئی اور بالآخر جنت میں پہنچ کر تمام انسانوں کی زبان وہی ہو جائے گی۔(مقدمہ المنجد عربی اردو ناشر دارالاشاعت کراچی جولائی 1973ء )

ختم نبوت :جماعت احمدیہ پر ختم نبوت کے انکار کا الزام لگا کر بہت فساد کیے گئے مگر اب ایک طبقہ ہمارا موقف ہی بیان کر رہا ہے مولانا اللہ یارلکھتے ہیں :’’جبریل ولی اللہ کے پاس آسکتے ہیں۔ صرف وحی شرعی اوروحی احکامی کا سلسلہ ختم ہواکیونکہ دین مکمل ہوچکا ہے ‘‘(’’دلائل السلوک ‘‘صفحہ127)

مسئلہ جہاد: جہاد کے سلسلے میں حضرت مسیح موعودؑ پر بہت طعن وتشنیع کی گئی مگر آج تمام عالم اسلام اسی حقیقت کو بیان کرنے پر مجبور ہے جو حضور نے بیان فرمائی تھی ۔مولانا زاہدالحسینی لکھتے ہیں:’’یہ جہاد بالقلم کا دورہے آج قلم کا فتنہ بڑا پھیل گیاہے آ ج قلم کے ساتھ جہاد کرنے والا سب سے بڑا مجاہد ہے‘‘۔ ( ماہنامہ خدام الدین لاہور ۔یکم اکتوبر 1965ء بحوالہ تبصرہ از ابو قیصرآدم خان صاحب صفحہ440ربوہ 1976ء)

سعودی عرب کے شاہ فیصل نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا کہ جہادصرف بندوق اٹھانے یا تلوار بے نیام کرنے کا نام نہیں بلکہ جہاد تواللہ تعالیٰ کی کتاب اوررسول مقبولﷺ کی سنت کی طرف دعوت دینے ، ان پر عمل پیرا ہونے اورہرقسم کی مشکلات ،دقتوں اورتکالیف کے باوجود استقلال سے ان پر قائم رہنے کا نام ہے۔(رسالہ ام القریٰ مکہ معظمہ ۔24؍اپریل 1965ء بحوالہ تبصرہ از ابو قیصرآدم خان صاحب صفحہ438ربوہ 1976ء)

ایرانی عالم آیت اللہ مرتضیٰ مطہری لکھتے ہیں: ’’پیغام قرآن مجیدنے بنیادی طور پر وضاحت کردی ہے کہ جہاد،بالادستی اور اقتدار کی جارحانہ جنگ نہیں جارحیت کے مقابلہ کا نام ہے۔ پاکستان کے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ نے کہا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اپنی نوجوان نسل کے ہاتھ میں کتاب کی بجائے بندوق تھمائی ۔ درحقیقت آج دنیا کا مقابلہ بندوق سے نہیں بلکہ قلم کے ذریعے کیا جا سکتاہے۔‘‘(روزنامہ جنگ راولپنڈی 9؍مئی 2006ء )

معروف دینی اسکالرشاہ بلیغ الدین لکھتے ہیں:’’اسلام انسانی کشت وخون کوحرام قرار دیتا ہے۔ قرآن میں حکم ہے کہ ’’ایک بے گناہ انسان کو مارنا پوری قوم کو ختم کردینا ہے‘‘۔جہاد اورقتال یعنی جنگ یہ دونوں الگ الگ صورتیں ہیں۔ مسلمان اس وقت تک لڑائی پر نہیں نکل سکتاجب تک مذاکرات اورسفارتی تعلقات سے امن برقرار رکھنے کی پوری کوشش نہ کرے۔ اس کے بعد اگر مخالف میدان جنگ میں نکل آئے اوردونوں فوجیں آمنے سامنے ہوںتوبھی مسلمانوں کو حکم ہے کہ ایک مرتبہ اورصلح کی کوشش کریں اگر مخالف نہ مانے تو بھی اس صورت میں مسلمانوں کو حکم ہے کہ اپنی طرف سے پہل نہ کریں دشمن حملہ کردے توصرف اپنے بچاؤ کے لئے ہتھیار اٹھائیں ۔ یہی قرآن کا حکم ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جنگ اگر تم پرتھوپ دی جائے تب تم مدافعت کرسکتے ہو‘‘۔(مضمون مطبوعہ نوائے وقت مورخہ 5؍نومبر2006ءادارتی صفحہ)

انگریز کا انصاف:حضرت مسیح موعودؑنے حکومت برطانیہ کے انصاف اورامن پسندی کو سراہا، مدتوں دشمن اس پر معترض رہے مگر آج یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ انگریز استعمار نہیں بلکہ برصغیر کا معمارتھا اور اس کاانصاف یاد کرکے روتے ہیں۔ حسن نثار اپنے کالم میں لکھتے ہیں:’’آج پورے برصغیر میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے … انفراسٹرکچر ہو یا دیگر سسٹمز سب گورے کے گیان ودھیان کا نتیجہ ہے ورنہ مقامیوں نے توکبھی ماچس تک نہ دیکھی تھی۔ انگریز نے سول و ملٹری ڈھانچہ کے ساتھ ساتھ دنیا کا عظیم ترین نظام آبپاشی دیا۔ بہت سے نئے شہر آباد کئے، ریلوے کا جال بچھایا،پل اورسرنگیں تعمیر کیں، سکولوں ،کالجوں اوریونیورسٹیوں کی چین بنائی، ٹیلی گراف ،ٹیلی فون ، بجلی اوربینکنگ سے لے کر عدالتی نظام تک …یتیم خانوں سے لے کر پھولوں کی نمائش کے تصور تک …میز کرسی کے استعمال سے لے کر دہلی میں پہلے طبیہ کالج کی تعمیر تک …جو کچھ ہے اسی استعمارکی یاد ہے ۔ ہم نے توصرف جعلی الاٹمنٹوں کی ٹیکنالوجی ایجاد کی یا مختلف قسم کے مافیا ز تخلیق کئے اورآج بھی انگریز کے دیئے ہوئے نظام کے’’ لنڈے‘]کو ہی کانٹ چھانٹ کر پہن رہے ہیں ۔(روزنامہ ایکسپریس فیصل آباد،اتوار23؍جولائی 2006ء )

مذہب و سائنس: مسیح موعود کے علم کلام کا اعجاز ہے کہ اب مذہب اور سائنس میں مطابقت پیدا کی جاتی ہے سائنس کی ہر نئی ایجاد کو خلاف شرع کہنے والے اور ان کو استعمال کرنے والوں پر فتوے لگانے والے آج دوسروں سے بڑھ کر استعمال کر رہے ہیں تصویر کے دلدادہ ہیں ۔ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نہایت متحرک ہیں جدید ترین ذرائع سفر اور رسل ورسائل استعمال کرتے ہیں اور خدا کی پناہ کہ مسیح موعود کے خلاف استعمال کرتے ہیں مگر ابنائے دنیا کا یہی دستور ہے ۔

آسمانی نشانات کا سیل رواں

مسیح موعودؑزمین سے آیا مگر درحقیقت آسمان سے اترا۔اسی لیے اس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے نزول کا لفظ استعمال کیا تھا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ظاہر ہونے والے عقائد صحیحہ بھی آسمانی نشان ہی ہیں ان کے علاوہ ظاہری طور پر بھی بے شمار آسمانی نشان منظر عام پر آئے۔ ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1۔ وہ نشان جو خالص آسمان پر ظاہر ہوئے۔ اور یہ مزید کئی شقوں میں اپنے جلوے دکھاتے رہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے زمانہ میں اجرامِ فلکی میں چار قسم کے نشان وقوع پذیر ہوئے۔

٭…پیشگوئیوں کے مطابق آپ کے دعویٰ کے بعد 1894ء میں سورج اور چاند گرہن کا نشان رمضان کے مہینہ میں واقعہ ہوا اوریہ واقعہ آپ کی جماعت کے قیام کے 6 سال بعد 1311ہجری میں ظاہر ہوا۔ اس طرح رمضان کے مہینہ میں کسی مامور من اللہ کی صداقت کے لیے ظاہر ہونے والا یہ نادر واقعہ تھا۔

٭…حضرت اقدس ؑکی پیدائش کے سال۔دعویٰ کے سال اور مختلف اہم سالوں میں بعض ستاروں کا نایاب طور پر طلوع ہونا جو سائنس کی دنیا میں معمول نہیں ہے۔مثلاً پیشگوئیوں کے مطابق 1882ء اور 1883ء میں ستارہ ذو السنین طلوع ہوا جو غیر معمولی روشن اور دمدار ستارہ تھا۔نیزمتفرق دمدار ستارے ظاہر ہوتے رہے۔ 1860ء تا 1887ء تین عظیم دمدار ستارے طلوع ہوئے اور پھر 1880 تا 1887 کئی ستارے طلوع ہوئے۔

٭…1885ء میں ستارے ٹوٹنے کا نشان ظاہر ہوا اور 1907ء میں شہاب ثاقب گرنے کا واقعہ پیش آیا۔

٭…حضور کی وفات کے ایک ماہ بعد 30؍جون 1908ء کو ایک دمدار ستارہ گرنے کا واقعہ پیش آیا جو اب تک کی معلوم تاریخ میں سب سے بڑا واقعہ ہے۔

٭…حضرت مسیح موعود ؑکی پیدائش کے وقت مشتری اور زحل ستاروں کی تاثیرات۔(ان نشانات کی تفصیل کے لیے دیکھیے مضمون مطبوعہ رسالہ موازنہ مذاہب اپریل 2020ء۔الفضل آن لائن لندن 4۔7؍فروری 2020۔٫ بعنوان ’’حضرت مسیح موعود کے لئے اجرام فلکی کی گواہی‘‘)

2۔وہ آسمانی نشان جو زمین پر خدائی قدرت کے ساتھ ظاہر ہوئے۔اس میں تبشیری اور انذاری دونوں قسم کے نشان شامل ہیں۔

٭…تبشیری نشانات میں آپ کی ذات، اولاد، دوست، جماعت کی وسعت و قبولیت عامہ کے ہزاروں نشان ہیں۔ ان میں خصوصیت سے پیشگوئی مصلح موعود، کثرت اولاد، نظام خلافت اور نظام وصیت کا قیام، تبلیغ کا زمین کے کناروں تک پہنچنا، بیسیوں اقوام میں احمدیت کے نفوذ کی پیشگوئیاں شامل ہیں۔ انہی میں مسلم ٹیلیویژن احمدیہ کے متعلق بھی عظیم پیشگوئیاں ہیں۔

٭…انذاری پیشگوئیوں میں طاعون کے بارے میں پیشگوئی، لیکھرام، ڈوئی، اور متعدد علماء کی مباہلہ کے نتیجے میں ہلاکت کی پیشگوئیاں شامل ہیں۔ غیر معمولی زلازل ،عالمی جنگوں نیز زار روس، کسریٰ ایران، نادر شاہ حاکم افغانستان، جاپان ،کوریا کے متعلق حیرت انگیز پیشگوئیاں موجود ہیں۔یہ پیشگوئیاں اور خدا کا کلام آپ کے مجموعہ الہامات ’’تذکرہ‘‘ میں موجود ہیں اور ایمانوں کو تازہ کرتی رہتی ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑنے آسمانی نشان دکھاتے ہوئے اپنے مخالفین کو متعدد کتب یا علمی دلائل کا رد کرنے کی دعوت دیتے ہوئے بار بار کثیر رقوم کے انعامی چیلنج دیے مگر آج تک کوئی مقابلہ پر نہیں آیا۔ان کتب میں خصوصیت کے ساتھ براہین احمدیہ، اعجاز المسیح، اعجاز احمدی شامل ہیں۔ نیز توفی کے معنوں اور الدجال کے معنوں کے متعلق بھی بھاری رقوم کے انعامی چیلنج موجود ہیں۔(ملاحظہ ہو حضرت مسیح موعودؑ کے انعامی چیلنج)

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button