حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ (Los Angeles) امریکہ کی (آن لائن) ملاقات

ہم انسانیت کی تعظیم کرتے ہیں اسی وجہ سے ہم کسی کے بارے میں اور کسی کے مذہب کے بارے میںغلط باتیں نہیں کرتے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 05؍مارچ 2022ء کو ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ (Los Angeles) امریکہ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ 79ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ نے بیت الحمید مسجد کیلیفورنیا (امریکہ) سے آن لائن شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ جس کے بعد ممبران مجلس اطفال الاحمدیہ کو حضور انور سے اپنے عقائد اور عصر حاضر کی بابت سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ بعض دفعہ بڑے کہتے ہیں کہ بچوں کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ کیا پیارے حضور ہمیں یہ بات مزید سمجھا سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ بچے کیونکہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے یہ کہا جاتا ہے اور ایک روایت بھی ہے۔ کیونکہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس لیے ان کی دعائیں زیادہ سنی جاتی ہیں۔ اور ایسے بعض بڑے جن سے زیادہ گناہ سرزد ہو جاتے ہیں یا وہ جو اپنی نمازوں میں باقاعدہ نہیں ہیں اور ان کی دنیاوی معاملات کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں میں انصاف نہیں کرتے۔ تو ایسے جو ہیں وہ تب ہی دعا کر تے ہیں جب ان کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جہاں تک بچوں کا تعلق ہے وہ دنیاوی معاملات میں زیادہ مصروف نہیں ہوتے۔ وہ اس عمر میں معصوم ہوتے ہیں۔ تو جب وہ دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا ان کی معصومیت کی وجہ سے زیادہ قبول کرتا ہے۔ کیونکہ یہ دعا ان کے دل سے نکلتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو معصوم لوگ پسند ہیں۔ اور ایسے بڑے جو متقی ہوتے ہیں وہ بھی معصوم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں بھی سنتا ہے۔ لیکن اکثر معاملات میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ دنیاوی معاملات میں زیادہ ملوث ہیں جبکہ بچوں کو دنیاوی معاملات کا زیادہ پتا نہیں ہوتا اور وہ معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے گناہ سرزد نہیں ہوئے ہوتے اس لیے ا للہ تعالیٰ ان کی دعائیں زیادہ قبول کرتا ہے۔

ایک اَور طفل نے سوال کیا کہ پیارے حضور تکبر اور خوداعتمادی میں کیا فرق ہے؟ وضاحت فرما دیں۔ اور انسان تکبر سے کیسے بچ سکتا ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو پتا ہے تکبر کیا ہے؟ (طفل نے جواباً عرض کیا کہ تکبر کا ایک حصہ زیادہ پُر اعتماد ہونا ہے)۔ زیادہ خود اعتمادی تکبر نہیں ہے۔ تکبر یہ ہے کہ جب تم یہ سمجھو کہ جو کچھ بھی تم کہہ رہے ہو وہ صحیح ہے اور جو بھی دوسرے کہہ رہے ہیں وہ غلط ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ تم صحیح ہو بلکہ یہ ہے کہ تم کسی دوسرے کی رائے کو برداشت نہ کرو اور تم ان سے اس طریق پر جھگڑا شروع کر دوجو صحیح نہیں ہے۔ اور تم صرف اپنے آپ کو صحیح سمجھو،یہ تکبر ہے۔ جبکہ خود اعتمادی یہ ہے کہ جب بھی تم بات کرو تو تمام شواہد کے ساتھ بات کرو۔ اگر تم سمجھو کہ جو بھی تم کہہ رہے ہو اس کے متعلق تمہارے پاس تمام دلائل ہیں۔ تو تم اپنے دلائل پیش کر سکتے ہو اور دوسرا اگر چاہے تو تمہارے دلائل کو مان سکتاہے۔ یہ خود اعتمادی ہے۔ لیکن اگر تم کسی کے ساتھ بحث کرو اور تمہارے دلائل غلط ثابت ہوجائیں اور لوگ تمہاری بات نہ مانیں اور تم غصہ میں آجاؤ اور ان سے لڑائی کرنا شروع کردو تو یہ تکبرہے۔ خود اعتمادی ہونی چاہیے اور اس کے لیے تمہیں اپنے علم میں اضافہ کرنا ہوگا۔ لیکن بعض اوقات متکبر لوگوں کے پاس علم نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ درست ہیں۔ ایسے لوگ جن کو خود پر اعتماد ہوتا ہے ان کے پاس اپنے دلائل کو ثابت کرنے کے لیے علم ہوتا ہے۔ان دلائل کو کوئی قبول کرے یا نہ کرے لیکن تمہیں علم ہوتا ہے کہ مجھے اس عنوان کے بارے میں مکمل علم ہے۔ پس ان سے لڑائی اور بحث کرنے کی بجائے آپ بس ان کو کہہ دیں کہ ٹھیک ہے۔ جو بھی تم کہہ رہے ہو وہ ٹھیک ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے کہ ایک بادشاہ تھاجو اپنے ہاتھ سے قرآن کریم لکھا کرتا تھا۔ ایک دفعہ ایک عالم اس کو ملنے آیا اور اس نے قرآن کریم لکھا ہوا دیکھا۔ اس عالم نے بادشاہ کو کہاکہ تم نے یہ لفظ صحیح نہیں لکھا۔تو بادشاہ نے اس لفظ کے گرد گول دائرہ بنا دیا۔ اور پھر جب وہ عالم چلا گیا تو بادشاہ نے وہ گول دائرہ مٹا دیا۔ تو جو لوگ بادشاہ کے پاس بیٹھے تھے انہوں نے کہاکہ تم نے کیوں گول دائرہ بنا کر مٹا دیا۔ بادشاہ نے کہا کہ میں نے یہ لفظ ٹھیک لکھا ہے لیکن اس عالم کا خیال تھا کہ وہ صحیح ہے تو میں نے اس لفظ کے گرد گول دائرہ بنا دیا اور بحث نہیں کی تاکہ وہ بھی خوش رہے کہ میں نے اس کا نشان لگا دیاہے۔ تکبر دکھانے کی بجائے بادشاہ نے اعلیٰ درجہ کی عاجزی دکھائی۔ بادشاہ ہونے کے با وجود اس نے خود اعتمادی کا اظہار کیا۔ اور یہ بھی دکھایا کہ ہم کس طرح تکبر سے بچ سکتے ہیں۔

ایک دوسرے طفل نے سوال کیا کہ ہم کس طرح خوش رہ سکتے ہیں؟

حضور انور نے اس طفل سے دریافت فرمایا کہ تمہاری عمر کیا ہے؟ (اس نے عرض کیا کہ نو سال کا ہوں)۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو ہمیشہ مطمئن رہنا چاہیے۔ ہمیشہ یہ سوچو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی چیزوں سے نوازا ہواہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت عطا کی ہے اور جسامت عطا کی ہے۔ آپ کو خوبصورت شکل عطا کی ہے اور آپ کی قوتِ بصیرت بھی اچھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آ پ کو منہ اور زبان عطا کیے ہیں جن کے ذریعہ آپ اچھی بات کر سکتے ہیں۔ کان ہیں جن سے آپ سن سکتےہیں ۔ آپ اللہ کا شکر ادا کریں۔ اور پھر اللہ نے آپ کو تمام سہولیات اور مواقع میسر کیے ہیں کہ سکول جا سکیں اور اپنے آپ کو تعلیم یافتہ بنائیں۔ اللہ نے آپ کو اچھے والدین عطا کیے ہیں اور اچھے بہن بھائی بھی، تو یہ امور آپ کو خوشی دیتے ہیں۔ (حضور انور نے استفسار فرمایا کہ کیا آپ کے بھائی بہن ہیں؟ اس طفل نے بتایا کہ اس کے دو چھوٹے بھائی ہیں۔ ) حضور انور نے فرمایا کہ اگر وہ آپ سے اچھا سلوک نہ بھی کریں تب بھی ہمیشہ خوش رہو اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرو کہ اس نے آپ کو بے شمار چیزیں د ی ہوئی ہیں۔ دیکھو اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ان کو اتنا کھانا بھی نہیں ملتا کہ وہ زندہ رہ سکیں۔ انہیں سکول جانے کا موقع نہیں ملتا۔ بسااوقات انہیں تالاب کا گندا پانی پینا پڑتا ہے۔ جبکہ آپ بوتل یا اپنے ٹونٹی کا صاف پانی پیتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے آپ کو بے شمار چیزوں سے نوازا ہو اہے تو آپ خوش ہوں گے۔ اور اگر آپ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں گےتو اللہ تعالیٰ آپ کو بہت خوش رکھے گا۔ ہمیشہ ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو ان بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ جبکہ آپ کو یہ سب سہولیات میسر ہیں۔ اس لیے آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث ہےکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب مذہب اور تقویٰ اور نیکی کا معاملہ ہوتو ہمیشہ ان لوگوں کی طرف دیکھو جو تم سے بہتر ہوں اور جب دنیاوی امور کا معاملہ ہو تو ہمیشہ ان لوگوں کی طرف دیکھو جو آپ سے نیچے ہیں۔ ایسے لوگ جن کے پاس آپ سے کم سہولیات ہوں۔ یہ بات آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنائے گی اور تم خوش رہو گے۔

ایک طفل نے عرض کیا کہ اس کے دن بھر کے سکول وغیرہ کے کام اکثر الیکٹرانک ڈیوائسز پر ہوتے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ وہ سکرین ٹائم میں کیسے توازن قائم رکھ سکتا ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ آپ اپنی آنکھوں پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں۔ اگر آپ الیکٹرانک ڈیوائسز اور ٹیبلٹس اور سیل فونز پر اپنے سکول کا کام کرتے ہیں تو پھر آپ کو ٹی وی پروگرامز یا دیگر پروگرامز کے لیے اپنے ٹیبلٹس یا دیگر الیکٹرانک ڈیوائسز پر زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر آپ اپنی صحت اور آنکھوں کے حوالہ سے انصاف سے کام نہیں لے رہے ہوں گے۔ اس لیے خود پر زیادہ بوجھ مت ڈالیں اور نہ ہی اپنی آنکھوں پر بوجھ ڈالیں۔

ایک دوسرے طفل نے پوچھا کہ اسلام کے بارے میں منفی رائے دینے والوں کو کیسے جواب دیا جائے؟

حضور انور نے فرمایا کہ اگر وہ آپ کے قریبی دوست ہیں تو انہیں بتانا چاہیے کہ ہمیں اس طرح کی باتیں کرکے ایک دوسرے کے جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہیے۔ آپ انہیں بتا سکتے ہیں کہ میں اپنے مذہب سے محبت کرتا ہوں اور میں ایک مسلمان ہوں، اور اگر تم مجھے اپنا دوست رکھنا چاہتے ہو تو اسلام کے بارے میں غلط باتیں مت کرو۔ پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جملہ مذاہب کی تعظیم کرتے ہیں۔ ہم سب انسانوں کی عزت کرتے ہیں۔ ہم انسانیت کی تعظیم کرتے ہیں اسی وجہ سے ہم کسی کے بارے میں اور کسی کے مذہب کے بارے میںغلط باتیں نہیں کرتے ۔ اگر تو وہ منع ہو جائے تو بہت اچھی بات ہے۔ اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے بندے سے دوری اختیار کر لو۔ لڑائی جھگڑا کرنے کی بجائے اس (دوست) سے دوری اختیار کرو اور کسی اور کو دوست بنا لو۔

ایک اور طفل نے سوال کیا کہ وہ آنحضرتﷺ جیسا کس طرح بن سکتا ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنحضرتﷺ تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہیں۔ ہم آنحضرتﷺ کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے لیکن اگر ہم کوشش کریں تو ہم اچھے کام کر سکتے ہیں۔ آنحضورﷺکوشش فرماتے تھے کہ آپ حقوق اللہ احسن رنگ میں ادا کریں اسی طرح حقوق العباد کو نبھانے کی بھی بھرپور سعی فرماتے تھے۔ تو ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی عبادت کے معیار بلند کرنے چاہئیں۔ ہمیں پانچ وقت نماز کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں ہمیشہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کبھی اپنے ہم مکتب دوستو ں اور بہن بھائیوں سے لڑائی نہ کرو۔ ہمیشہ اچھی زبان کا استعمال کرو۔ گندی زبان کا استعمال نہ کرو اور گالیاں نہ دو۔ اچھی چیزیں سیکھنے کی کوشش کرو۔ قرآن کریم کی تلاوت کرو۔ اور جب قرآن کریم کا دور مکمل کر لو تو پھر اس کا ترجمہ پڑھنے کی کوشش کرو۔ پھر تمہیں پتا لگے گا کہ تمہارے کیا فرائض ہیں؟ یوں تم آنحضورﷺ کے نقوش پا پر عمل پیرا ہو سکتے ہو جو ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہیں۔

ایک اور سوال قرآن کریم کی سورہ ھود کی آیت 109 کے بارے میں یہ ہوا کہ فرمایا گیاہے کہ جنت ایک ایسا تحفہ ہے جو ہمیشہ رہے گا۔ اگر صرف اللہ کی ذات لا فانی ہے پھر انسان کیونکر جنت میں ہمیشہ رہیں گے؟

حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض دوسری جگہوں پر بھی فرمایا ہے کہ جنت دائمی ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے اس لیے جو شخص اس دنیا میں آتا ہے وہ یہاں عارضی طور پر رہتا ہے۔اور موت کے بعد ایک دائمی زندگی ہے۔…جب دائمی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد مجازی رنگ میں ہے۔ ہم جنت کے وقت کا اندازہ نہیں لگا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ اس کا ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے اور دوسری جگہ فرمایا اس کا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ تو اگر آپ ان سالوں کو ظاہری طور پر ضرب دیں تو ہمارے لحاظ سے تو یہ لا محدود ہی بنتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ وہ غیر فانی ہے۔ یہ درست ہے۔ کس طرح؟ یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ہمیں صرف یہ پتا ہے کہ جنت میں بھی کچھ عرصہ کے بعد کوئی زندگی نہیں ہوگی۔ یہ کتنا لمبا عرصہ ہوگا، یہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ غیر فانی ہے۔ دنیا میں رہنے والا شخص اس کا پورا ادراک حاصل نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے استعارہ کے رنگ میں بات بیان فرمائی ہے۔ تو اگر ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے پھر اس کو ایک سو سے ضرب د یں تو یہ ہمارے لحاظ سے تقریباً غیر فانی ہی ہے۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور اپنے فضلوں سے نوازے۔

اللہ حافظ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button