دارالنجاۃ میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ہے
یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچادے کہ … دارالنجاۃ میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ہے
وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جوکدورت واقعہ ہوگئی ہے اُس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں اُن کو ظاہر کردوں۔ اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دُعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اَب نابود ہوچکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔
(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 180)
یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچادے کہ تمام مذاہب موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خداتعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآن کریم لایا ہے اور دارالنجاۃ میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ہے۔
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 132، ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہےکہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں۔ اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جو اُن درخشاں جواہرات پر تھوپا گیا ہے اس سے ان کو پاک صاف کروں۔ خدا تعالیٰ کی غیرت اس وقت بڑی جوش میں ہے۔ کہ قرآن شریف کی عزت کو ہر ایک خبیث دشمن کے داغ اعتراض سے منزّہ ومقدس کرے۔ الغرض ایسی صورت میں کہ مخالفین قلم سے ہم پر وار کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں کس قدر بے وقو فی ہو گی کہ ہم ان سے لٹھم لٹّھا ہونے کو تیار ہو جائیں۔ مَیں تمہیں کھول کر بتلاتا ہوں کہ ایسی صورت میں اگر کوئی اسلام کا نام لے کر جنگ وجدال کا طریق جواب میں اختیار کرےتو وہ اسلام کا بدنام کرنے والا ہو گا۔ اور اسلام کا کبھی ایسا منشاء نہ تھاکہ بے مطلب اور بلا ضرورت تلوار اٹھائی جائے۔ اب لڑائیوں کی اغراض جیسا کہ مَیں نے کہا ہے فن کی شکل میں آ کر دینی نہیں رہیں بلکہ دنیوی اغراض ان کا موضوع ہو گیا ہے۔ پس کس قدر ظلم ہو گا کہ اعتراض کرنے والوں کو جواب دینے کی بجائے تلوار دکھائی جائے۔ اب زمانہ کے ساتھ حرب کا پہلو بدل گیا ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ سب سے پہلے اپنے دل اور دماغ سے کام لیں اور نفوس کا تزکیہ کریں۔ راستبازی اور تقویٰ سے خدا تعالیٰ سے امداد اور فتح چاہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کاایک اٹل قانون اور مستحکم اصول ہے۔ اور اگر مسلمان صرف قیل وقال اور باتوں سے مقابلہ میں کامیابی اور فتح پانا چاہیںتو یہ ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ لاف و گزاف اور لفظوں کو نہیں چاہتا وہ توحقیقی تقویٰ کو چاہتا اور سچی طہارت کو پسند فرماتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ(النحل: 129)۔
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 60-61۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
اس وقت مسیح کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر دوسری وجوہ اور ضروریات کو چھوڑ دیا جاوے تو سلسلہ مماثلت موسوی کے لحاظ سے بھی سخت ضرورت ہے۔اس لئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں آئے تھے۔ غرض مَیں تو بروز کی ایک نظیر پیش کرتا ہوں لیکن جو یہ کہتے ہیں کہ نہیں خود حضرت مسیح ہی دوبارہ آئیں گے انہیں بھی تو کوئی نظیر پیش کرنی چاہئے۔ اور اگر وہ نہیں کر سکتے اور یقیناً نہیں کر سکتے تو پھر کیوں ایسی بات کرتے ہیں جو مُحدثات میں داخل ہے۔محدثات سے پرہیز کرو۔ کیونکہ وہ ہلاکت کی راہ ہے۔ یہودیوں پر غضب الٰہی اسی وجہ سے نازل ہوا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے ایک رسول کا انکار کر دیا۔ اور اس انکار کے لئے ان کو یہ مصیبت پیش آئی کہ انہوں نے استعارہ کو حقیقت پر حمل کیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مغضوب قوم ٹھہر گئی۔ اس کا ہم شکل مقدمہ اب بھی پیش ہے۔ مجھے مسلمانوں کی حالت پر افسوس آتا ہے کہ ان کے سامنے یہودیوں کی ایک نظیر پہلے سے موجود ہے اور پانچ وقت یہ اپنی نمازوں میں غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کی دعا کرتے ہیں اور یہ بھی بالاتفاق مانتے ہیں کہ اس سے مراد یہود ہیں۔ پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس راہ کو یہ کیوں اختیار کرتے ہیں۔ ایک ہی رنگ کا مقدمہ جب کہ ایک پیغمبر کے حضور فیصلہ ہو چکا ہے۔ اب اس فیصلہ کے خلاف مسیح کو خود آسمان سے یہ کیوں اتارتے ہیں؟ آپ ہی مسیح نے ایلیاء کے مقدمہ کا فیصلہ کیا اور ثابت کر دیا کہ دوبارہ آمد سے بروزی آمد مراد ہوتی ہے اور ایلیا کے رنگ میں یحییٰ آیا۔ مگر اب یہ مسلمان اس نظیر کے ہوتے ہوئے بھی اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جب تک خود مسیح کو آسمان سے نہ اتار لیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ تم اور تمہارے سب معاون مل کر دعائیں کرو کہ مسیح آسمان سے اُتر آوے۔ پھر دیکھ لو کہ وہ اترتا ہے یا نہیں۔ مَیں یقینا ًکہتا ہوں کہ اگر ساری عمر ٹکریں مارتے رہو اور ایسی دعائیں کرتے کرتے ناک بھی رگڑے جاویں تب بھی وہ آسمان سے نہیں آئے گا کیونکہ آنے والا تو آ چکا۔
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 3-4،ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)
خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306تا307)
توحید حقیقی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عفّت، عزّت او ر حقّانیت اور کتاب اللہ کے منجانب اللہ ہونے پر ظلم اور زُورکی راہ سے حملے کئے گئے ہیں توکیا خدا تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا نہیں ہونا چاہئےکہ اس کاسرالصلیب کو نازل کرے؟ کیا خداتعالیٰ اپنے وعدہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الحجر:10) کو بھول گیا؟ یقیناً یادرکھو کہ خدا کے وعدے سچے ہیں۔ اس نے اپنے وعدہ کے موافق دنیا میں ایک نذیر بھیجا ہے۔ دنیا نے اس کوقبول نہ کیا مگرخدا تعالیٰ اس کو ضرورقبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کرے گا۔مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق مسیح موعود ہوکر آیا ہوں۔ چاہوتو قبول کرو چاہو تو ردّ کرو۔
مگر تمہارے ردّ کرنے سے کچھ نہ ہوگا۔ خداتعالیٰ نے جوارادہ فرمایا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے پہلے سے براہین میں فرمادیا ہے:صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلہٗ وَکَانَ وَعْدًامَّفْعُوْلًا۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 206،ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)