متفرق مضامین

جرنیلی سڑک؍ گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ

(منور علی شاہد۔ جرمنی)

یہ جنوبی ایشیا کی سب سے قدیم اور عظیم سڑک ہے جس نے اس خطے میں تجارت اورکلچر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے

بچپن میں جب ہم نے ہوش سنبھالا تو جی ٹی روڈ کا نام سنا گوجرانوالہ، سیالکوٹ شہر جانا ہوتا تو سنتے کہ جی ٹی روڈ کے راستے جانا ہے، کیونکہ موٹر وے بننے سے پہلے یہی واحد ایک سڑک تھی جو پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے چھوٹے بڑے شہروں کو جاتی ہے۔ اس قدیم اور تاریخی سڑک کے کنارے آباد پاکستانی شہروں میں لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، جہلم، راولپنڈی ،پشاور جیسے اہم اضلاع اور ساتھ منسلک سینکڑوں چھوٹے دیہات شامل ہیں۔ اسی طرح تاریخی عمارتیں، مقبرے اور قلعے بھی اسی سڑک کے کنارے بنتے، ٹوٹتے اور مٹتے رہے ہیں۔ لاہور کے تاریخی مقامات میں شالا مارباغ، چوبرجی، مقبرہ دائی انگہ وغیرہ شامل ہیں جو جرنیلی سڑک کے کنارے یا گرد و نواح میں تعمیر ہوئے تھے۔ یہ جنوبی ایشیا کی سب سے قدیم اور عظیم سڑک ہے جس نے اس خطے میں تجارت اورکلچر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

گو کہ اب موٹر وے بن چکی ہے لیکن اس سڑک کی افادیت اور اہمیت میں کمی نہیں آئی، اگرچہ اس کے استعمال میں کمی ہوئی ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظرنامہ ،سیاسی لانگ مارچوں وغیرہ میں اس سڑک کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اکبر بادشاہ اسی جرنیلی سڑک کے راستے لاہور آتا تھا ۔ اسی سڑک کے کنارے لاہور کی مشہور قدیم آبادی دھرمپورہ آباد کی تھی جہاں آج حضرت میاں میرؒ کا مزار موجود ہے۔

جی ٹی روڈ کوئی معمولی سڑک نہیں ہے بلکہ یہ صدیوں پہلے کی تعمیر کردہ ایک ایسی سڑک ہے جو کئی بار شکست وریخت کا شکار ہوئی اور کئی بار اس کی مرمت ہوئی اوریہ سڑک پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کوآپس میں ملاتی ہے، پرانے زمانے میں جب کوئی سرحد، پاسپورٹ نہیں ہوا کرتا تھا، اسی سڑک کے ذریعے کابل سے کلکتہ، دہلی، بمبئی تک براستہ لاہور سفر ہوا کرتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق کبھی یہ کلکتہ سے نکل کرآگے ڈھاکہ، چٹاگانگ (موجودہ بنگلہ دیش) تک جایا کرتی تھی۔ آج کے جو شہر اس قدیم سڑک کے کنارے یا گرد و نواح میں آباد ہیں ان کے کچھ نام یوں ہیں: افغانستان کے شہر کابل اس کے ایک کنارہ پر واقع ہے۔ اگر وہاں سے سفر کا آغاز کیا جائے تو پھر جلال آباد، تورخم کے راستے پاکستان میں لنڈی کوتل، ولی خیل، جمرود، پشاور، نوشہرہ، ٹیکسلا، اٹک، اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم، گجرات گوجرانوالہ، لاہور، واہگہ بارڈر کے راستے بھارت میں داخل ہوتی ہے اور پھراٹاری، امرتسر، جالندھر، لدھیانہ، امبالا، الٰہ آباد، پانی پت، کلکتہ وغیرہ سے گزر کر بنگلہ دیش میں داخل ہوتی ہے اور بالآخر چٹاگانگ پہنچتی ہے۔

ایک انگریز تاریخ دان ’’رڈیارڈ کپلنگ‘‘نے جی ٹی روڈ کےبارے لکھا تھا کہ ’’یہ ایک عظیم شاہ کار ہے، دنیا میں اکثر شہر دریاؤں کے کنارے آباد ہوئے مگر جی ٹی روڈ واحد شاہراہ ہے جس نے سب سے زیادہ شہر آباد کیے اور برصغیر کی ترقی میں اس کا کردار اہم رہا ہے۔‘‘

یاد رہے کہ یہ جی ٹی روڈ ہی ہے جس کے ذریعے تقسیم ہند کے وقت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی انسانی ہجرت ہوئی تھی، یہ ہجرت پیدل، تانگوں، گھوڑوں اور ٹرینوں کے ذریعے ہوئی جس کے لیے گرینڈ ٹرنک روڈ اور ٹریک، دونوں استعمال ہوئے تھے۔

یہ ہزاروں کلو میٹر طویل سڑک پرانے وقتوں کے انسانوں کی ہمت اور عزم کی ایک نشانی ہے۔ سولہویں صدی میں اس کی از سر نو تعمیر و مرمت کی گئی اور سڑک کے دونوں اطراف میں نئی سہولیات فراہم کی گئیں، تاریخ میں یہ سڑک عوامی فلاح کی تاریخی یادگار ہے جو شیر شاہ سوری کے نام لکھی گئی جس نے عوامی فلاحی کاموں میں غیرمعمولی شہرت حاصل کی تھی اوروہ بادشاہ کمال کا منتظم بھی تھا۔ اسی سڑک کی تعمیر کے بعد سینکڑوں سال تک اس کے گردو نواح میں بڑے بڑے شہر، باغات اور دیگر تعمیرات ہوتی رہیں جو آج تاریخ کا حصہ ہیں۔

اس سڑک کو موجودہ صورت میں تعمیر کرنے والا شیر شاہ سوری بادشاہ کہا جاتا ہے جس کی حکومت کی ابتداسولہویں صدی میں ہوئی تھی، سوری کا اصل نام فرید خان تھا۔ وہ1486ءمیں پیدا ہوا تھا۔ جونپور میں تعلیم حاصل کی۔ اکیس سال کی عمر میں والد کی جاگیر کو سنبھالنا شروع کیا، وہ اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال تھا۔ بعد ازاں جنوبی بہار کا گورنر بنا۔ پھر شہنشاہ بابر کی کچھ عرصہ ملازمت کی۔ بنگال، بہار اور قنوج پر قبضہ کیا۔ شہنشاہ ہمایوں کو شکست دےکر بالآخر1539ءمیںہندوستان پر اپنی حکمرانی قائم کی۔ اپنے دور حکمرانی میں تعمیراتی اور فلاحی کاموں کے سبب ’’ہندوستانی نپولین‘‘کے لقب سے شہرت پائی، تاریخ دانوں نے شیر شاہ سوری کو برصغیر کی تاریخ کا فاتح اور مصلح قرار دیا ۔ اس کے مخالفین بھی اس کی خصوصیات اور قابلیت کے مداح تھے۔ بارود کے ذخیرہ میں آگ لگنے کے نتیجے میں مئی1545ء میں اس کا انتقال ہو گیا اور پھر اس کے بعد سوری سلطنت کو کوئی قابل جانشین میسر نہ آسکا اور بعد میں ہمایوں نے دوبارہ حملہ کرکے سوری سلطنت سے تخت واپس لے لیا۔ 1539ءتا1545ء کے قلیل عرصہ کی حکمرانی میں شیر شاہ سوری نےغیر معمولی کارنامے سر انجام دیے اور نت نئی اصلاحات کیں جن کی بدولت وہ آج بھی تاریخ میں زندہ ہے۔

جی ٹی روڈ (جرنیلی روڈ) کی تعمیراور توسیع اس کا ایک سنہری کارنامہ تھا۔ اس سڑک کی تعمیر کے بنیادی مقاصد میں سرکاری پیغام رسانی کو بہتر اور تجارت کو تیز تر کرنا شامل تھا۔ تاریخ کے مطابق اٹھارہویں صدی تک یہ جرنیلی سڑک نقل و حمل اور تجارتی اعتبار کے علاوہ جنگی نقطہ نگاہ سے بھی انتہائی اہمیت کی حامل رہی ۔کوس میناروں کی تعمیر کے علاوہ سڑک کے کنارے سایہ دار اور پھل دار درخت لگائے گئے تھے۔ دیگر بڑی بڑی شاہراہوں کی تعمیر ان کی حفاظت، مسافروں کے لیے سہولیات کی فراہمی اور راستوں پر چلنے والے قافلوں اور مسافروں کے لیے سرائیں، عبادت گاہیں، درختوں کا ہرایک کوس کے فاصلے پر لگانا وغیرہ اسی کے کارنامے تھے جن کی بدولت آج بھی اس مثالی سڑک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

جی ٹی روڈ2500کلو میٹرلمبی ہے۔ اس تاریخی قدیم سڑک کے کچھ اصلی حصے اور ’’کوس مینار‘‘تینوں ممالک میں یاد گار کے طور پر آج بھی موجود ہیں۔ اس کا نام ’’جرنیلی سڑک‘‘تھا۔ کہیں اس کو سڑک اعظم اور کہیں عظیم الشان شاہراہ لکھاگیا ہے۔ اسی سڑک پرمغل دَور کی سلطنت کے تین دارالحکومت، دہلی، آگرہ اور لاہور کواقع ہیں۔ جرنیلی سڑک کا نام برطانوی دَور میں بدل کرگرینڈ ٹرنک روڈ(جی ٹی روڈ) رکھ دیا گیا۔جرنیلی سڑک کو یہ نام دینے کی وجہ یہ تھیں کہ اس سڑک کے دونوں اطراف درخت تھے اور یہ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی سڑک تھی جو آگرہ سے سوری کے گاؤں سفران تک جاتی تھی۔ اور خاص بات یہ ہے کہ دو ہزار سال پرانے شہر’’ٹیکسلا‘‘ اس دَور کی تعمیر کردہ سڑک کے کچھ حصے آج بھی وہاں موجود ہیں۔

لاہور میں گڑھی شاھو اور مغلپورہ کے قریب کراچی پھاٹک کے پاس کوس میناربطور یادگارموجود تھے۔ یاد رہے کہ ’’کوس‘‘ زمانہ قدیم میں سفر کا ایک پیمانہ ہوا کرتا تھا جیسا کہ آج کل میل یا کلومیٹر ہے۔ ایک کوس قریباً 3کلو میٹر کے لگ بھگ ہوا کرتا تھا۔ بچپن میں ہم کہانیوں میں بھی ’’کوسوں دور‘‘ کا لفظ سنا کرتے تھے، ان میناروں کی گنتی کے تناسب سے فاصلے اور جگہوں کا تعین ہوتا تھا اور مسافروں کی راہنمائی ہوتی تھی۔ ان میناروں کی اونچائی30 فٹ تک ہواکرتی تھی اور بادشاہ کے سفر کے راستوں میں تو خاص طور پر یہ تعمیر کیے جاتے تھے۔ ان کی تعمیر سے شاہراہ، مسافروں اور نقل و حرکت کے سامان کی حفاظت کا کام بھی لیا جاتا تھا۔

اس سڑک کی تعمیر کے بعد افغانستان سے لےکر کلکتہ بھارت تک کے لوگ بآسانی سفر کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔اس نے تجارت، ثقافت کو خطے میں فروغ دینے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ علاوہ ازیں مسافروں اور جانوروں کے لیے سڑک کے کنارے سرائیں اور پینے کے پانی کی ’’باؤلیاں‘‘ بھی تعمیر کرائی تھیں۔ اردو میں ’’باؤلی‘‘ ایک ایسے لمبے اور چوڑے کنویں کو کہا جاتا ہے جس میں سیڑھیاں بنی ہوتی ہیں۔ قلعہ روہتاس (سوری کا تعمیر کردہ)جہلم سے نکلنے والی قدیم جرنیلی سڑک کے کنارے شیر شاہ سوری کے دَور کا تعمیر کردہ سیڑھیوں والا کنواں (باؤلی) اکیسویں صدی میں بھی مقامی چرواہوں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ میانوالی سے لاہور کی طرف آتے ہوئے ’’پھجراں ‘‘ ہے جہاں شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ ’’باؤلی‘‘ آج بھی موجود ہے، جسے محکمہ آثار قدیمہ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس زمانے میں بنائی گئی باؤلیاں اتنی بڑی اور چوڑی ہوا کرتی تھیں کہ گھوڑے، ہاتھی اس میں اتر جاتے تھے۔ ایسی باؤلیوں کا استعمال زمانہ قدیم میں مذہبی اور سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی کیا جاتا رہا ہے، خشک سالی کے موسم میں ایسی باؤلیوں کے ذریعے پانی کو محفوظ کیا جاتا تھا۔ پاکستان میں آج بھی کچھ باؤلیاں موجود ہیں۔ بھارت میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

جی ٹی روڈ کی تعمیر کے بعد کے ادوار میں اس کے کناروں اور گردو نواح میں بہت تعمیرات ہوئیں جن کا ایک مضمون میں ذکر ممکن نہیں ہے۔ کلکتہ پر جب برطانوی حکومت کا جھنڈا لہرایا گیا تو یہی جرنیلی سڑک دفاعی نقل و حمل اور دیگر اہم آمدو رفت کا ذریعہ بنی۔

1849ءکے بعد ہندوستان پر میں انگریز حکومت نے اس جرنیلی سڑک کے ساتھ ساتھ اس دَور کی ضرورت کے مطابق جدید ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنے کے لیے ٹرینوں کے ٹریک کا جال بھی بچھایا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی لاہور سے پشاور کی جانب ٹرین کا سفر اختیار کیا جائے تو سفر کے دوران جی ٹی روڈ بھی کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button