احمدی کا باپ کبھی نہیں مرتا
احمدی كا باپ کبھی نہیں مرتا بلكہ وه خلیفہ وقت کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
مورخہ 25؍دسمبر 2011ء كو خاكسار صبح دس بجے Gatwick ایئرپورٹ پر اپنے ابا جان کو surpriseدینے کےلیے پاكستان روانہ ہو رہا تھا۔ میرے ابا جان (مرزا نصیر احمد صاحب ایڈووکیٹ) دمہ کے مریض تھےاور28؍مئی 2010ء كو جب دارالذکر پر دہشت گرد حملہ ہوا تو والد صاحب بھی وہاں موجود تھے اور اس حملے میں بموں اور گولیوں کے بارودکی وجہ سے ان كی بیماری مزید بڑھ گئی تھی۔ پچھلےایک دو سال سے ڈاکٹرز بھی ان كی صحت كے حوالے سے کافی مایوس تھے اس لیے خاکسار نے ارادہ کیا كہ اِس دفعہ ابا جان کے پاس ایک دو ماہ رہ کر ان کی خدمت كروں گا۔ ایئرپورٹ پر میں کافی خوش تھا کہ کل صبح کی چائے ابا جان کے ساتھ پی رہا ہوں گا۔
تقریباً ساڑھے دس بجے میری بات پاكستان میں موجود میرے بھتیجے سے ہوئی تو اس نے بتایا كہ ابا جان ہسپتال میں داخل ہیں۔ خاکسار کافی پریشان ہوا، ایک دن پہلے ابا جان سے میری بات ہوئی تھی اور وه ٹھیک تھے۔ بہر حال جب میری اپنے بھائی سے بات ہوئی تو انہوں نے كہا كہ بس دعا کرو! ابا جان کی حالت کافی تشویش ناک ہے۔ خاکسار boardingکی قطار میں تھا کہ بھائی کا فون آگیا كہ ابا جان اپنے مالک حقیقی سے جاملے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
خاکسار کے لیے یہ خبر اتنی تکلیف ده تھی كہ اس كا بیان ممكن نہیں۔ میں ابا جان كو سرپرائز دینے جا رہاتھا لیكن ابا جان مجھے سرپرائز دے گئے۔ جب میں جہاز میں بیٹھا تو آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ابا جان سے دوستی اور محبت والے لمحات یاد آنے شروع ہوگئے۔ سوچوں كا دھارا كسی اَور طرف چل نكلا اور میرے دل میں خیال آیا كہ اب خوشی اور غمی میں کس سے مشورہ لوں گا؟ کس کواپنی کامیابیوں اورچھوٹے بڑے مسائل کے وقت دعا کے لیے کہوں گا؟ ایك طرف ایسے سوالات جنم لے رہے تھےهے تو دوسری طرف ابا جان كی محبت بھری یادیں ذہن كے پردے پر نمودار ہو كر اس نعمت سے محرومی كے احساس كو مزید المناك بنا رہی تھیں۔
ایک دم اللہ تعالیٰ نے خاکسار کی توجہ ان خیالات سےموڑ دی اور میرے ذہن میں ڈالا گیا كہ یہ درست ہے كہ میرے والد صاحب فوت ہو گئے ہیں لیكن دعاؤں، شفقتوں، عندالضرورت راہنمائی حاصل کرنے اور خوشی غمی کے مواقع پر امید کے منبع کے طور پر خلیفۂ وقت کی ذات موجود ہےاور خلافت نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ یہ خیال كسی نعمت سے كم نہ تھا۔ یہ میرے رستے میںزخموں پر مرہم بن كر نازل ہوا دل كے جذبات سكون پا گئے اورایسے لگا جیسے سسكتے بچے كو ماں كی گود مل گئی ہو۔ یہ سوچتے ہی میرے آنسو بھی رک گئے اور بےساختہ میری زبان پر یہ جملہ آیا كہ
احمدی كا باپ کبھی نہیں مرتا بلكہ وه خلیفہ وقت کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
خلافت اللہ تعالیٰ کا خاص تحفہ ہے اور خلیفہ وقت ایک روحانی باپ کی طرح ہے۔ خاکسار خلیفہ وقت کی اس عاجزکے ساتھ شفقت اور بعض دعاؤں کی قبولیت کے واقعات بطور تحدیثِ نعمت پیش کرتا ہے۔
میرے اباجان ہمیشہ جلسہ سالانہ کے لیے آتے۔ ایک سال ان کی طبیعت کچھ ناساز تھی۔ حضور انورسے ملاقات کے دوران اباجان نے اپنی صحت کے لیے دعا کی درخواست کی تو حضور نے دعا کے ساتھ رخصت فرمایا۔ اسی شام
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے مکرم بشیر صاحب کا فون آیا کہ حضور نے آپ کے والد صاحب کے لیے دو ہومیو پیتھک ادویات تجویز کی ہیں یہ آپ ہومیوپیتھی کی ڈسپنسری سے لے لیں۔
ایک روحانی باپ ہی اپنی اولاد کی ایسی فکر کر سکتا ہے۔ یہ خلیفہ وقت کی ہم ناچیزوں كے ساتھ محبت ہے کہ آپ نے یاد رکھا اوریہی نہیں بلكہ پھر جلسے کے دنوں میں مجھ سے ابا جان کی طبیعت کے بارے میں دریافت فرمایا۔
MTAکے تحت ابا جان اور شیخ مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ سے پاکستان میں احمدیوں کے1974ء اور1984ء کے حالات کے بارے میں ایك انٹرویو ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے ایک دو دن بعد ابا جان کی ملاقات تھی۔
حضور نے فرمایا کہ مَیں نے آپ لوگوں کا انٹر ویو نشر ہونے سے پہلے بڑے غور سے سنا کہ کہیں آپ لوگ واپس پاکستان جا کر مشکلات میں نہ آجائیں۔
ذرا غور كریں كہ وه امور جن كا ہمیں بھی خیال نہیں رہتا ان كے بارے میں بھی خلیفہ وقت ایك باپ كی طرح سوچتا ہے۔
2006ء میں خاکسارکو کچھ ذاتی پریشانیوں کا سامنا تھا۔ حضور انور سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ دعا کی درخواست کی۔ حضور نے بڑے غور سے سنا اور میری کیفیت دیکھتے ہوئے مجھے حوصلہ اور تسلی دی۔ اس کے ایک دو روز بعد مجلس خدام الاحمدیہ یوکےکا سالانہ اجتماع تھا۔ خاکسار فوٹو گرافی کی ڈیوٹی کر رہاتھا۔ حضور انورکھیلوں کا مقابلہ ملاحظہ فرمانے کے لیے تشریف لائے۔ تھوڑی دیر کے لیے خاکسار کسی کام سے ادھر اُدھر ہوا تو حضور انور نے محترم مرزا فخر احمد صاحب سے جو اس وقت صدر خدام الاحمدیہ تھے میرے بارے میںپوچھا۔
مجھ حقیر سےخادم كی حیثیت ہی كیا ہے لیكن خلیفۂ وقت كا وجود عظیم وجود ہے كہ مجھ جیسوں كا بھی اس قدر خیال كہ خود دریافت فرمایا كہ وه نظر نہیں آرہا۔
میرے بڑے بھائی مرزا نسیم احمد28؍مئی کے واقعہ میں دارالذکر میں شدید زخمی ہوئے تھے اور ہسپتال میں داخل تھے۔ دوسرے دن اطلاع ملی کہ دہشت گرد ہسپتال پہنچ گئے جس کی وجہ سے بھائی اور دیگر احمدی مریض کافی پریشان تھے۔ بھائی نے فون پر مجھے حضور انور سے دعا کی درخواست کے لیے کہا۔ یہ خبر سن کر خاکسار بھی کافی پریشان ہوا۔ چنانچہ مسجد فضل پہنچا تاکہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری جاکر دعا کی درخواست لکھ کر دوں اور اگلے دو چار دنوں میں ملاقات کا موقع مل جائے تو براہ راست بھی دعاؤں کی درخواست کردوں تاکہ تسلی ہو جائے۔ لیکن خوش قسمتی سے خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ حضور عصر کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے اور مجھے دیکھتے ہی فرمایا کیوں یہاں پریشان کھڑے ہو۔ میں نے ساری بات بتائی تو
حضور نے فرمایا کہ اپنے بھائی سے کہیں کہ وہ گھبرائیں نہیں، انشاءاللہ الله تعالیٰ بہتر کرے گا۔
اسی طرح میرے بہنوئی اور کزن مرزا ناصر احمد آف راولپنڈی کو cancerکی بیماری ہو گئی۔ ایک جماعتی پروگرام کے اختتام پر خاكسار نے حضور انور سے دعا کی درخواست کی اور عرض كیا كہ بہنوئی کو کچھ ڈاكٹر کہتے ہیں کہ وہ فوراً آپریشن کروا لیں اور کچھ كہتے ہیں كہ ابھی نہ كروائیں۔
حضور انور نے کچھ توقف کے بعد گاڑی میں بیٹھتے ہوئے فرمایا کہ آپریشن کروا لیں۔
اللہ کے فضل سے آپریشن کامیا ب رہا اور بھائی پچھلے15 سال سے صحت مند ہیں۔
جب 2005ء میں حضورپُرنور کینیڈا کے دورےپر تشریف لے گئے تو وہاں میرے بہنوئی کی بہن نے حضورِ انور سے دعا کی درخواست کرتے ہوئے اپنے بھائی كا نام مرزا ناصراحمد بتایا تو حضور نے فرمایا ہاں ندیم نے بتایا تھا، حالانکہ میری کزن نے میرا کوئی حوالہ نہیں دیاتھا اور صرف اپنے بھائی کا نام لیا جوحضور کو یاد تھا۔ ایسا پیار، شفقت اور محبت کا سلوک دنیا کا کوئی سیاسی یا عام مذہبی لیڈر نہیں کر سکتا۔ یہ صرف ایک ایسا مذہبی لیڈر ہی کر سکتا ہےجو دن رات مشرق مغرب اور شمال جنوب کے احمدیوں کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔
ایک بار خاکسار اپنے چھوٹے بیٹے مزرالبید احمد کو جبکہ وہ پانچ یا چھ سال کا تھا کسی جماعتی کا م کی وجہ سے اسکول کی چھٹی کے بعد سیدھا دفتر پرائیویٹ سیکرٹری لے گیا۔ وہ مسلسل رو تارہا یہاں تک کہ دفتر میں بھی رو رہا تھا۔ اس وقت دن کے 3بج کر 40منٹ ہوئے تھے۔ اچانک حضورِ انور اپنے دفتر سے باہر تشریف لائے اور مجھے فرمایا کہ کیوں اس کو رلا رہے ہو؟ پھر میرے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے دفتر ساتھ لے گئے۔ خاکسار بھی ساتھ تھا۔ حضور انور نے اس کوپیار کیا اور چاکلیٹ دی۔ وہ مسکراتا ہوا باہر آیا اور اس بہانے میری بھی حضور انور سے ملاقات ہوگئی۔
بلا شبہ ہر احمدی کے پاس جو اس در سے فیض پاچکا ہے حضورِانور کی محبت اورشفقت بھرے واقعات کے تذکرے موجود ہیں۔ لیکن مختصراً یہی عرض كرتا ہوں كہ جلسہ سالانہ کے سٹیج کے ڈیزائن کے سلسلے میں یا فوٹو گرافی کے حوالے سے حضورِانور بہت شفقت فرماتے ہیں۔
حضور انور ایک آرٹ ڈائریکٹر کے طور پرمجھے ڈیزائن میں بھی گراں قدرمشورے دیتے ہیں اور قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات بتاتے ہیں جس سے ڈیزائن بہت بہتر ہوجاتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی حضور انوراکثر اس ناچیز سے بھی دریافت فرماتے ہیں کہ تمہاری artistic senseکیا کہتی ہے؟ جس کے جواب میں کہتا ہوں كہ حضور انور كے ارشاد پر عمل سے اب بہتر ہو گیا ہے۔ اگر ایک دو بار جسارت کرکے میں نےکچھ کہا بھی تو حضور انورنے ازراہِ شفقت فرمایا کہ ایسا کرلو۔
آخر پر یہی كہتا ہوں كہ خلافت ایک ایسا پاک وجود اور دعاؤں کا خزانہ ہے جو ہمارے دکھ سکھ میں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے، اپنی دعاؤں سے ہمیں روحانی اور د نیاوی طور پر مضبوط کرتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو خاص محبت سے گلے لگاتا ہے۔ یہی وه وجود ہےجو پوری جماعت کو ایک خاندان کے طور پر اکٹھا رکھتا ہے۔ خدا تعالیٰ کاا حسان ہے کہ اس نےہمیں ایسا خلیفہ عطافرمایا ہے جو محبت بھری دعاؤں کانہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ اس کا محبت بھرا سلوک دلوں كو اسیر كرلیتا ہے۔ خلفائے احمدیت کی محبت وشفقت اوردعاؤں کے فیض کا سلسلہ اتنا وسیع اور اتنا دلگداز ہے کہ بیان کا یارانہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی الله عنہ نے كیا خوب فرمایاہے كہ’’تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔‘‘(برکات خلافت،انوار العلوم جلد2صفحہ158)
سائے میں تیرے دھوپ نہائے بصد نیاز
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز