امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لجنہ اماء اللہ جرمنی کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 20؍فروری 2022ء کو ممبرات لجنہ اما ء اللہ جرمنی سے آن لائن ملاقات فرمائی ۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ250 سے زائد ممبرات لجنہ اما ء اللہ نے اس آن لائن ملاقات میں بیت السبوح فرانکفرٹ جرمنی سے آن لائن شرکت کی۔
ملاقات کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہواجس کے بعد لجنہ اماء اللہ کو حضورانور سے اپنے عقائد نیز عصر حاضر کے مسائل کے بارے میں راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔
ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ کیا اسلام پر اعتراض یا criticismکیا جاسکتا ہے؟
حضور انور نے فرمایا سوال یہ ہے کہ سوائے مسلمانوں کے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اسلام کو criticiseکرتے ہیں۔ اگر تم کہو کہ ایک مسلمان اسلام پہ اعتراض کر سکتا ہے کہ نہیں تو تمہارے اندر جو سوال پیدا ہوتے ہیں ان کو تمہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت نمازیں رکھی ہیں۔تمہارے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے یہ پانچ نمازیں کیوں ہیں۔ اس کا حل تلاش کرو۔ روزے کیوں ہیں اس کا حل تلاش کرو۔ اب تو سائنسدان بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ روزے بڑی فائدہ مند چیز ہیں۔ نمازیں ریگولیٹ کرتی ہیں، انسان کوڈسپلن کرتی ہیں ۔ اور خدا تعالیٰ کی ذات پہ سوال ہے یا اور بہت سارے احکامات پہ سوال ہیں، پردے پہ سوال ہے ہر ایک کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔ ابھی میں نے جمعہ کے خطبہ میں ہی حضرت مصلح موعوؓد کا حوالہ پڑھا تھا ۔ حضرت مصلح موعوؓد نے یہی کہا تھا کہ جب میں گیارہ سال کا تھا تو مجھے اعتراض پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ہونے کاکیا ثبوت ہے ؟ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سچا ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ اسلام کی سچائی کا کیا ثبوت ہے؟ تو اس پر میں نے پھر سوچنا شروع کیا اور پھر مجھے جب اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق پتا لگ گیا کہ وہ ہے اور ثابت ہو گیا پھر مجھے سمجھ آ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آپ کی اتباع میں اس زمانے کی اصلاح کے لیےآئے ہیں۔ انسان کے دل میں، پڑھے لکھے لوگوں کےدل میں سوال تو پیدا ہوتے ہیں، لیکن اس اعتراض کو اعتراض برائے اعتراض کر کے پھر صرف اس پہ خاموش نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ جس طرح حضرت مصلح موعوؓد نے کہا میں نے تحقیق کی ،جستجو کی اور میں نے کہا میں یہاں سے نہیں اٹھوں گا جب تک مجھے جواب نہیں مل جاتے۔ اگر تمہیں اسی دن،اگلے دن جواب نہیں ملتے پھر سوچو پھر لوگوں سے پوچھو پھر لٹریچر پڑھو۔ اب تو اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں لٹریچر بھی اتنا موجود ہے، اس زمانے میں تو نہیں تھا۔ اس کے سوالوں کے جواب تمہیں آسانی سے مل سکتے ہیں۔ اگر تمہارے ذہن میں اسلام کے بارے میں یا اسلام کے کسی حکم کے بارے میں سوال اٹھتا ہے تو معین کر کے کیا پوچھنا چاہتی تھی، یہ کہ کسی مسلمان کے دل میں اسلام کے متعلق کوئی سوال اٹھ سکتا ہے کہ نہیں یہ کہنا چاہتی تھی؟
حضور انور نے مزید فرمایا کہ ہاں تو یہ کہو ۔ ڈر ڈر کے کیوں سوال کرتی ہو کھل کے سوال کرو۔ کیا ہم اسلام کی تعلیم پر کوئی اعتراض کر سکتے ہیں۔ سوال یہ بناؤ کہ ہم اسلام کی تعلیم کو جس کی سمجھ نہ آئے اس کے متعلق سوال کر سکتے ہیں کہ یہ کیوں ہے یا یہ میرے نزدیک غلط ہے۔ تمہارے نزدیک غلط ہے تو اس کا صحیح حل تلاش کرو۔ جن کو علم ہے ان سے پوچھو۔ تمہارے مربی ہیں ،تمہاری پڑھی لکھی عورتیں ہیں،سمجھ نہیں آتی تو پھر مجھے سوال لکھ کے بھیج سکتی ہو کہ یہ سوال ہے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ دین تو وہی ہوتا ہے جس کی سمجھ بھی آئے تبھی انسان صحیح طرح دین پہ عمل بھی کر سکتا ہے۔ اگر صرف اس لیے دین کو مان لیا کہ میرے اماں ابا احمدی مسلمان تھے تو میں بھی احمدی مسلمان ہوں تو اس کا تو کوئی فائدہ نہیں جب تک تمہیں خود پتا نہ لگے کہ احمدیت کیا چیز ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا دعویٰ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا شریعت لے کر آئے تھے، قرآن کریم کے کیا حکم ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میںکیا چاہتا ہے۔ یہ ساری چیزیں جب تک تمہیں پتا نہ لگیں تم پکی احمدی مسلمان بن ہی نہیں سکتی اس لیے یہ سوال پڑھے لکھے کے ذہن میں اٹھتے ہیں ضرور اٹھنے چاہئیں لیکن اس پہ ضدی ہو کے اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے بلکہ اس کا حل تلاش کرنا چاہیے اور اس وقت تک نہ چھوڑو جب تک اس کا حل نہ مل جائے۔
ایک دوسری ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ ہم کیا عمل کریں کہ ہمارے اندر عاجزی اور انکساری پیدا ہو؟
حضور انور نے فرمایا کہ اپنے آپ کو عاجز سمجھو۔ایک تو اللہ تعالیٰ سے پانچ وقت کی نمازوں میں دعا کیا کروکہ اللہ تعالیٰ میرے اندر تکبر نہ پیدا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں تکبر کو نہیں پسند کرتا اس لیے اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعا مانگنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر سے بچا کے رکھے۔ پھر جب لوگوں سے ملو تو اچھے اخلاق دکھا کے ملو ہر ایک کوسلام کرو ۔ اور ہر ایک سے ہنس کے مسکرا کے بات کرو اور بہرحال یہ دیکھو کہ میں احمدی مسلمان ہوں میں نے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے۔
ایک اَور ممبر لجنہ اماء اللہ نے عرض کی کہ میرا سوال ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا پھر بھی احمدیوں پر کیوں ظلم ہوتا ہے؟
حضور انور نے استفسار فرمایا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ کیا کہتا ہے اللہ تعالیٰ کا سب سے پیارا نبی کون تھا؟ انہوں نے عرض کی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔حضور انور نے فرمایا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ تو کیا مکہ میں آپؐ پہ تیرہ سال ظلم نہیں ہوتے رہے؟ انہوں نے عرض کی ۔جی ہوتے رہے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ ہوتے رہے ہیں۔ اس کے بعدپھر جب مدینہ آئے تو وہاں بھی بہت ساری مشکلات کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ پھر جب فتح مکہ ہوئی اس کے بعد بھی تو پھر ظالموں نے حملہ کیا، اس کے بعد بھی جنگ ہوتی رہی۔ پھر منافقین بھی سر اٹھاتے رہے۔ پھر خلفائے راشدین آئے، ان کے زمانے میں بھی ظلم ہوتے رہے۔ جہاں جہاں تھوڑے مسلمان ہوتے تھے ان پر ظلم ہوتے رہے۔ تو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں کہتا ہے میں لوگوں کو آزماتاہوں۔ دیکھتا ہوں کہ تمہارا ایمان کتنا مضبوط ہے۔ تمہارے پہ جب ظلم ہوتا ہے زیادتی ہوتی ہے تم پھر بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولتے اور لوگوں سے نہیں ڈرتے اور دل میں صرف اللہ کا خوف رکھتے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ تمہیں reward دیتا ہے۔ یہ دنیا جو ہے یہاں بھی دے دیتا ہے اور اگلے جہاں میں بھی rewardدیتا ہے۔ اب دیکھو تم لوگ یہاں بیٹھے ہوئے ہو تمہارے والدین پہ، ماں باپ پہ اگر ظلم ہوئے پاکستان میں تو وہاں سے آ گئے، وہاں اگر ظلم برداشت کر کے آئے اور اپنی دولت یا روپیہ لٹا کر آئے اور تم لوگوں کو نقصان پہنچایا گیا کاروبار جلائے گئے تو یہاں آ کے اللہ تعالیٰ نے اور بےشمار دے دیا اس سے بڑھ کر دے دیا۔ ظلم کرنے والے ایک وزیر اعظم نے کہا کہ میں احمدیوں کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دوں گا۔ بھیک مانگیں گے پیالہ لے کے لوگوں سے، پیسے مانگا کریں گے، ایسا ان کا حال کروں گا۔ اس کاحال کیا ہوا اس کو تو اللہ تعالیٰ نے مار دیا اور اس کے اپنے جرنیل نے ہی اس کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ اور احمدی جن کے ہاتھوں میں کشکول پکڑانا تھا آج دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اللہ کے فضل سے اب جماعت ترقی بھی کر رہی ہے اور ہر جگہ ہم مسجدیں بھی بنا رہے ہیں ،مشن بھی بنا رہے ہیں، تبلیغ بھی کر رہے ہیں، اور ذاتی طور پر بھی احمدی بہتر حالات میں ہو رہے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ آزماتا ہے دیکھنے کے لیے کہ تمہارے اندر کتنا ایمان ہے۔ تو ظالموں کو تو ظلم کی سزا دے دیتا ہے ساتھ تم لوگوں کو بھی آزماتا ہے اور دیکھتا ہے اور اس دنیامیں بھی جزا دیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی جزا دیتا ہے۔ یہ ہمیشہ ہر نبی کے ساتھ ہوتاآیا ہے۔ ہر نبی پہ ظلم ہوا ہر نبی کی جماعت پہ ظلم ہوا لیکن اللہ تعالیٰ آخر میں ان کو بچا لیتاہے اور ان کو کامیاب کرتا ہے۔
ایک اَور ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو سکول کی کتابوں میں خاکے چھپے ہیں ان کے خلاف ہم کیا کر سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ تم ان کو بتاؤ کہ اس طرح اگر ہم ایک دوسرے کے مذہب کے جو لیڈر ہیں، جو کسی مذہب کے فاؤنڈر ہیں یا نبی ہیں یا رسول ہیں ان کے خلاف بولیں گے تو اس طرح سکول میں یا معاشرے میں امن اور سلامتی قائم نہیں رہ سکتی۔ بےشمار جگہ مَیں نے یہ لیکچر دیے ہیں اگر تم کتاب Pathway to Peace پڑھو اس میں بھی تمہیں بہت ساری باتیں پتا لگ جائیں گی۔ تم میری وہ کتاب پڑھ سکتی ہو، جرمن زبان میں بھی چھپی ہوئی ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو خاکے چھاپے اس پہ بھی میں نے بہت سارےخطبات دیے تھے ۔ ان کو بھی پڑھو۔ دنیا میں اس طرح امن نہیں قائم رہ سکتا ۔ دنیا میں امن قائم رکھنا ہے تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی کسی کے ماں باپ کو برا کہے تو لڑائی ہو جائے گی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیں اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ پیارے ہونے چاہئیں۔ اس لیے ان سے کہو کہ دیکھو میں اس طرح تمہارے سے خوش نہیں رہ سکتی۔ امن قائم رکھنا ہے آپس میں محبت اور پیار سے رہنا ہے تو ہمیں عزت و احترام سے رہنا پڑے گا۔ ان سے کہنا لیکن ہم حضرت عیسیٰ کی عزت کرتے ہیں، حضرت موسیٰ کی عزت کرتے ہیں ہم سارے نبیوں کی عزت کرتے ہیں، ہم سارے نبیوں کو مانتے ہیں اور یہی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا تاکہ دنیا میں امن اور پیار قائم ہو۔ تم لوگ اگر ایسی باتیں کرو گے تو امن قائم نہیں رہ سکتا اور ہمارے جذبات کو تم hurtکر رہے ہو گے۔
٭…٭…٭