متفرق مضامین

خلافت کے ساتھ خدا

(شیخ رفیق احمد طاہر۔ یوکے)

نبي دنيا سے اپنا کام کرکے ہوتا رخصت ہے

تو اس کا مقصد اعليٰ بڑھاتي يہ خلافت ہے

خلافت ماننے والوں سے گر دنيا بھي ٹکرائے

کرے تسخير يہ سب کو خلافت ايسي طاقت ہے

’خليفہ ‘جانشين، قائم مقام يا نائب کو کہتے ہيں۔ خلافت کي دو اقسام ہيں۔ انبياء، خليفةاللہ کہلاتے ہيں اور ان کے جانشين، خليفة الرسول۔

خلیفۃ اللہ کا نزول

سُنّتِ خداوندی ہے کہ جب زمین پر بسنے والے لوگ بگڑ جاتے ہیں اور معبود حقیقی سے منہ پھیر لیتے ہیں، صراطِ مستقیم کو چھوڑ کر ضلالت وگمراہی کی راہوں میں گم ہوجاتے ہیں، فسق و فجور اور ظلم و تعدّی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور عذاب الٰہی کو آواز یں دینے لگتے ہیں تو رحیم و کریم خدا تکمیل رحمت کی خاطر، سعید روحوں کو بچانے کی خاطر اور عذاب کے مستحق اور حد سے بڑھ جانے والوں کو تنبیہ کی خاطر اپنے کسی انتہائی پیارے اور بزرگ انسان کوخلعتِ نبوت عطا فرماتاہے۔ اس کی آمد سے تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں۔ گمراہی کے اندھیرے کافور ہو جاتے ہیں اور صداقت کی روشنی ہر سُو پھیلنے لگتی ہے۔ معرفت کے جام انڈیلےجاتے ہیں۔ روحانیت کی لذّتیں بانٹی جاتی ہیں اور مومنین، اک عجب وارفتگی کے عالم میں حق و صداقت کےاس مہر تاباں کے گرد پروانوں کی طرح منڈلانے لگتے ہیں ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر صحابہ کرام کی ایسی ہی کیفیت کا نقشہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے اشعار میں یوں کھینچا ہے:

اَحْیَیْتَ اَمْوَاتَ القُرُوْنِ بِجَلْوَلۃٍ

مَا ذَا یُمَاثِلُکَ بِھٰذَا الشَّانٖ

تَرَکُوْا الْغُبُوْقَ وَ بَدَّلُوْا مِنْ ذَوْقِہٖ

ذَوْقَ الدُّعَاءِ بِلَیْلَۃِ الاَحْزَانٖ

فَطَلَعْتَ یَا شَمْسَ الھُدیٰ نُصْحًالَّھُمْ

لِتُضِیْئَھَمُ مِنْ وَّجْھِکَ النُّوْرَانِیْ

تو نے صدیوں کے مردوں کو ایک ہی جلوہ سے زندہ کر دیا ،کون ہے جو اس کام میں تیرانظیر ہو سکے؟

انہوں نے شام کی شراب چھوڑ دی اور اس کی لذّت کو غم کی راتوں میں کی جانے والی دعا کی لذّت سے بدل دیا۔

سو تُونے اےآفتاب ہدایت ! ان کی خیر خواہی کے لیے طلوع کیا تاکہ اپنے نورانی چہرہ سے تُو ان کو منوّر کر دے۔

یہ دنیا دارِ فانی ہے خدا تعالیٰ کے مقدس اور برگزیدہ نبی حق و صداقت کی تخم ریزی کرنے کے بعد جب اس بے وفا گھر سے رخصت ہو جاتے ہیں تو اس ننھےپودے کی نگہداشت اور آبیاری کے لیے خدا تعالیٰ کی دوسری قدرت ظاہر ہوتی ہے۔

خلیفۃ الرسول

نبی کی وفات کے بعد شیطان خصلت مخالفین کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ اب یہ سلسلہ کچھ ہی دنو ں کا مہمان ہے۔ اس کے مقابل پر مومنین وقتی طور پر شدید بے چینی اورا ضطرب میں مبتلا ہو جاتےہیں۔ تب خدا تعالیٰ کی رحمت پھر جوش میں آتی ہے اور وہ سورت ا لنور میں مومنین کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا فرماتا ہے جو کہ حسب ذیل ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِم۪ۡ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ (النور: 56)تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ الٰہی وعدہ پوری شان کے ساتھ پورا ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات صحابہ رضوان اللہ علیہم کے لیے ایک سانحہ عظیم تھی۔ ایسا شخص ان سے جدا ہوا کہ آپ کے علاوہ ایسا محبوب دل نواز چشم فلک نے نہ دیکھا تھا نہ قیامت تک دیکھنا نصیب ہونا تھا۔ آپ کی وفات پر صحابہ سہم سے گئے، حواس باختہ ہو گئے اور ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگے۔ یہاں تک کہ حضرت عمرؓ جیسے جری صحابی بھی اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکے اور کہنا شروع کیا کہ جو بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات یافتہ کہے گا میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ (بخاری)

ایسے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ باہر سے تشریف لائے آپ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مبارک کو بوسہ دیا اور منبر پر چڑھ کر یہ اعلان فرمایا: لوگو تم میں سے جو کوئی محمدؐ کی عبادت کرتا تھا تو محمدؐ یقیناً فوت ہوگئے اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی عبادت کرتا ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔

پھر آپؓ نے سورت آل عمران کی درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں: وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ۔ (آلِ عمران: 145)اور محمدنہیں ہے مگر ایک رسول۔ یقینا ًاس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر یہ بھی وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اس عارفانہ نکتہ نے صحابہؓ کو عظیم حوصلہ عطا کیا کہ ہاں ! اگر ہمارا حیّ وقیوم خداہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں تو ہمیں کس بات کا ڈر ہے۔ وہ تو ہمیشہ کے لیے زندہ ہے اور قائم ہے۔ بعد ازاں تلاوت فرمودہ آیاتِ قرآنی نے انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ کیا کہ آنحضرتؐ وفات پا گئے۔

خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کا پہلا نظارہ

مخبر صادق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی تھی کہ ’’تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔ پھر اللہ اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہوگی۔ یہاں تک کہ اللہ کارحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ پھر آپ خاموش ہوگئے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 273)

چنانچہ اس الٰہی تقدیر کے مطابق لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ کو خلیفہ چنا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور ان سارے نیک عہدوں کی تجدید کی جو اس سے قبل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر کر چکے تھے۔ مو منوں کے قافلے کو امیر عطا ہوا، اور یہ قافلہ ایک بار پھر کشاں کشاں اپنی منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہوا۔ تائید ایزدی اور نصرت الٰہی کے جلوے پھر سے ظاہر ہونا شروع ہوئے اور دین کو تمکنت عطا ہوئی۔

تاریخی سبق

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ ،پھر حضرت عثمانؓ اور آخری خلیفہ راشد کے طور پر حضرت علیؓ کا انتخاب عمل میں آیا۔ پھر جب مسلمانوں نے خلافت کی ناقدری کی تو یہ نعمت اٹھا لی گئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان خلافت سے وابستہ رہے وہ دنیا کی عظیم ترین قوم بن گئے۔ دنیا میں جو بھی ان کے مقابل کھڑا ہواخائب و خاسر ہوا۔ یہاں تک کہ قیصرو کسریٰ جیسی عظیم الشان سلطنتیں پارہ پارہ ہو گئیں اور ان عا جز مسلمانوں کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ جب تک مسلمانوں نے خلافت کے دامن کو تھام کررکھا، خدائے عزّوجل نے مسلمانوں کا ہاتھ تھا مے رکھا۔ مگر جب انہوں نے خلافت کے دامن سے علیحدگی اختیار کی اور اللہ جلّ شانہٗ کو چھوڑا تو وہ رفعتوں اور بلندیوں کے آسمان سے گرے اور قعر مذلّت کی عمیق ترین پنہائیوں میں گم ہوگئے۔

اسلام کی نشأۃ ثانیہ

پھر وہ وقت آیا جب ایمان کے ثریا پر اٹھ جانے کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ اسلام کا فقط نام اور قرآن کی صرف رسم باقی رہ گئی۔ قرآن کے حروف رہ گئے، عمل ختم ہو گیا۔ اس پر اہل ایمان مضطرب ہوئے، سعید روحیں بے چین ہوئیں تو خدا تعالیٰ کی رحمت کاملہ میں جوش پیدا ہوا۔ اس رحیم و کریم اورسمیع و علیم خدا کے دربار تک یہ پکار پہنچی

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ

الٰہی نوشتوں کے مطابق مہدی دوراں کا ظہور عمل میں آیا۔ زخمی دلوں کوتسکین و راحت کا پھاہا نصیب ہوا۔ توحید پھیلنے لگی، شرک کی نحوست بھاگنے لگی اور تثلیث ٹوٹنے لگی۔ اور وہ سعید روحیں جو کبھی یسوع مسیح کی خدائی کا دم بھرتی تھیں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے گیت گانے لگیں۔

خلافت علیٰ منہاج نبوت کا دوسرا نظارہ

اب اسی حدیث مبارکہ کے آخری حصّے کا پورا ہونے کا وقت آ چکا تھا۔ دوبارہ خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کی ضرورت تھی۔ سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی وفات پر دشمن اور مخالفین بہت پُرامید نظر آتے تھے۔ بالکل ویسی ہی صورت حال تھی جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تھی۔ مومنوں کی صفیں بکھرنے کو تھیں۔ حاسدوں کی سازشیں رنگ لانے کو تھیں۔ وہ اس نوتعمیر شدہ عمارت کے گرنے کا نظارہ کرنے کے لیے بے چین تھے۔ مگر اسی حیّ وقیوم خدا نے دوبارہ خلافت اورتمکنت دین کا وعدہ پوری شان سے پورا فرمایا۔ خدا تعالیٰ کی تقدیر نے حضرت مولوی حکیم نورالدینؓ کا انتخاب فرمایا اور آپ کو وہ طاقت اور بصیرت عطا فرمائی جس نے سب مخالف منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ اس بظاہر گرتی ہوئی عمارت کو از سر نو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کردیا گیا۔ مومنین کی حفاظت کے لیے خلافت کا مضبوط قلعہ قائم ہوگیا اور مومنین کا یہ قافلہ اپنے امام کی زیر قیادت کامیابیوں کے نئے سفر پر گامزن ہوگیا۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا: ’’میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا ا ور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘(روحانی خزائن جلد20 تذکرۃ الشہادتین صفحہ 67)

گو کہ احمدیت کا یہ الٰہی درخت حضورؑ کی زندگی میں ہی بڑھنا اور پھولنا پھلنا شروع ہو گیا تھا اور اس کی شاخوں پر لاکھوں پھل بھی لگ چکے تھے۔ مگر خلافت کی نگہداشت اور آبیاری نے اس درخت کو اکنافِ عالم تک پہنچا دیا ہے۔ آج اس درخت کی شاخیں دنیا کے ہر حصے میں پہنچ چکی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ کیے گئے خدائی وعدے کچھ تو آپ کی زندگی ہی میں پورے ہوگئے تھے، باقی خلافت کے ذریعہ پورے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ گویا کہ خلافت کا زمانہ نبوت کے دَورہی کا تسلسل ہے۔ وہی رحمتیں، وہی برکتیں، وہی انعامات، وہی تائید،ات وہی نصرتیں، وہی سلوک، وہی پیار، وہی انوار جو مسیح پاک کے زمانہ میں آسمان سے اترتے تھے آج بھی موسلادھار بارش کی طرح نازل ہو رہے ہیں۔ یہ خلافت کی برکات نہیں تو اور کیا ہے؟

اب میں خلفائے احمدیت کی تائید و نصرت کے چند نظارے نہایت اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔

حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ

آپ کو اللہ تعالیٰ نے وہی کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی جو کردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ادا کرنے کی توفیق پائی تھی۔ آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے لوگ دوبارہ ایک مرکز اور محور کے گرد اکٹھے ہوگئے۔ بکھرے ہوئے موتی ایک لڑی میں پروئے گئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے نظام خلافت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپؓ نے جماعت کو یہ باور کرا دیا، ’’بیعت وہ ہےجس میں کامل اطاعت کی جائے اور کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے۔‘‘(الفرقان خلافت نمبر مئی، جون 1941ء)

آپ کی علمی خدمات میں قرآن کریم کی تفسیر حقائق الفرقان کے نام سے ایک بیش بہا خزانہ ہے۔ اسی طرح طب کے میدان میں آپ کی مہارت کا فیض عام ’’بیاض نورالدین‘‘کے نام سے جاری ہے۔ توکل علی اللہ کے حوالے سے آپ کی سوانح عمری قیامت تک کمزور ایمانوں کو مضبوط کرنے میں ممد رہے گی۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ

آپؓ کا وجود الٰہی بشارتوں اور پیش گوئیوں کا مصداق تھا۔ آپ ’مصلح موعود‘ تھے ۔آپ کو خدا تعالیٰ کی خاص تائید حاصل تھی۔ آپ کا 52 سالہ دَور خلافت ایک زرّیں دور تھا۔ آپؓ کے دَور میں خلافت کو مزید استحکام حاصل ہوا۔ فتنوں کا تدارک ہوا۔ جماعت کی ترقی کی نئی راہیں متعین ہوئیں۔ نظارتوں اور ذیلی تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی۔ شوریٰ کا نظام جاری ہوا۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر جماعت کو حفاظت سے پاکستان پہنچانا برکات خلافت کا ایک شاندار مظاہرہ ہے۔

تحریر و تقریر اور قائدانہ صلاحیتوں کا حامل آپ جیسا شخص بہت کم پیدا ہوتا ہے۔ آپؓ کی علمی خدمات میں تفسیر کبیر، تفسیر صغیر اور اسلام کا اقتصادی نظام کے علاوہ بے شمار دیگر تصانیف خطبات اور خطابات شامل ہیں۔

آپؓ کا منظوم کلام جو کہ کلام محمود کے نام سے موسوم ہے، 200سے زائد نظموں کا حیرت انگیز مجموعہ ہے۔ کلام محمود کی پہلی نظم جو کہ آپ نے 1903ء میں صرف 14 برس کی عمر میں تحریر فرمائی، سے صاف پتا چلتا ہے کہ آپ کو بچپن ہی میں وہ عرفان حاصل تھا جو کہ محض خوش نصیبی سے کسی کسی کو کبھی کبھی عمر گزرنے کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ اس نظم کے دو اشعار درج ذیل ہیں:

موسیٰ کے ساتھ تری رہیں لن ترانیاں

زنہار میں نہ مانوں گا چہرہ دکھا مجھے

سجدہ کناں ہوں در پہ تیرے اے میرے خدا

اٹھوں گا جب اٹھائے گی یاں سے قضا مجھے

حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالثؒ

اِنَّا نُبَشِّرُ کَ بَغُلامٍ نَافِلَۃًلَّکَ(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد22صفحہ 229) کے مصداق، حضرت مسیح موعودؑ کے پوتے اور حضرت مصلح موعودؓ کے فرزند آپؓ کی وفات کے بعد 8؍نومبر 1965ءکو مسند خلافت پربا ذنِ الٰہی متمکن ہوئے۔

آپؒ کے دَور میں افریقہ میں اشاعت اسلام کی نئی راہیں کھلیں۔ آپؒ نے ان ممالک کا دورہ بھی فرمایا اور نصرت جہاں سکیم بھی جاری فرمائی۔ 1974ء کے پرآشوب دور میں آپؒ نے انتہائی خندہ پیشانی اور جرأت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا۔ آپ نے جماعت کی خوب احسن طریقے پر راہنمائی فرمائی اور ڈھال بن کر حفاظت بھی فرمائی۔آپؒ کو قومی اسمبلی میں خدائی تائیدو نصرت کے ساتھ جماعت کا موقف بڑے مؤثر انداز میں پیش کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔ حضورؒ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بہت دعائیں کیں۔ خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا وَسِّعْ مَکَانَکَ اِنَّا کَفَیۡنٰکَ الۡمُسۡتَہۡزِءِیۡنَ یعنی جو ہمارے مہمان آتے ہیں ربوہ میں ان کی تم فکر کرو اور جو اپنی طرف سے تحقیر کا ذلیل کرنے کامنصوبہ یہ بنا رہے ہیں اس کے لیے میں کافی ہوں تمہیں۔ 11دن 40گھنٹے اور10منٹ سوال وجواب کیے میرے ساتھ۔ اور ایسا لگتا تھا کہ ہر سوال کے وقت خدا تعالیٰ میرے ساتھ کھڑا ہے۔ یا اس کا فرشتہ کہنا چاہیے جہاں مجھے جواب نہیں آتا تھا مجھے جواب سکھایا جاتا تھا۔

الٰہی تائید کے ساتھ آپ کے مقدس لبوں سے نکلنے والا ایک جملہ ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ‘‘ آج عالمی سطح پر جماعت احمدیہ کی پہچان بن چکا ہے اور تبلیغی ہتھیار بھی۔

حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ

آپؒ 10؍جون 1982ءکو خلیفہ منتخب ہوئے۔ آپ کا دَور جماعت کی ترقی کے لیے نہایت ولولہ انگیز تھا۔ ابتدا میں ایک جابر ڈکٹیٹر کی جانب سے جماعت کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس برسراقتدار فوجی حکمران کو اس مرد حق نے ایسی جرأت اور بے خوفی سےللکارا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ شعر پوری طرح آپؒ پر صادق آیا:

سر سے میرےپاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں

اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کرکے مجھ پہ وار

آپؒ نے ان الفاظ میں اس کو تنبیہ کی:

کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغِ دعا

آج بھی اذن ہوگا تو چل جائے گی

وہ بدبخت پھر بھی باز نہ آیا تو آپ نے اسے للکارتے ہوئے پھر ان الفاظ کے ساتھ جھنجھوڑا: ’’جماعت احمدیہ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک والیٰ رکھتی ہے، ایک ولی رکھتی ہے۔ جماعت احمدیہ کا ایک مولا ہے اور زمین و آسمان کا خدا ہمارا مولیٰ ہے لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔ خدا کی قسم جب ہمارا مولیٰ ہماری مدد کو آئے گا تو کوئی تمہاری مدد نہیں کرسکے گا۔ خدا کی تقدیرجب تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کرے گی تو تمہارے نام ونشان مٹا دیئے جائیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ14؍دسمبر1984ء)

سبحان اللہ! کیا ہی پیارا اور وفادار خدا ہے جس نے اپنے قائم کردہ خلیفہ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو تقدیر میں بدل دیا۔ 17؍اگست 1988ء کو اس جابر فوجی حکمران کاطیارہ حادثہ کا شکار ہوا اور وہ فوجی آمر بعینہٖ اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جیسا کہ مردِ حق نے فرمایا تھا۔

آپؒ کے دور میں دعوت الیٰ اللہ کے نئے ابواب رقم ہوئے۔ عالمی بیعت کا آغاز ہوا۔ اور سعید روحوں کو احمدیت میں امان نصیب ہوئی۔

واقفینِ زندگی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آپؒ نے وقفِ نو کی تحریک فرمائی۔ خلافت کے ساتھ خدا ہے۔ جوروئے زمین پر اس وقت اپنے سب سے پیارے شخص کے ہر کام میں اور ہر لفظ میں بر کت ڈالتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے یہ تحریک بھی بے انتہا کامیابی سے ہمکنارہوئی۔ MTA کا اجرا بھی آپ کے عظیم کارناموں میں سے ایک ہے۔ آپؒ کی ساری تحریکات، منصوبوں اور کارناموں کا سرسری ذکر کرنے کے لیے بھی ایک دفتر درکار ہے۔ آپ ایک بہترین مقرر، ایک اعلیٰ درجہ کے مصنف، کامیاب ہومیو ڈاکٹر، اور بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ ایک شعر جو آپ کی ذات پر چسپاں ہوتا ہے اسی پر اکتفا کرتا ہوں :

کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم جہاں سے

تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے

حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ ا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات کے بعد جماعت اضطراب کی کیفیت میں مبتلا تھی کہ یہ عظیم خلا کیسے پر ہوگا۔ اس حالتِ خوف کو امن میں بدلتے ہوئے، حیّ و قیوم خدائے عظیم و برتر نے ایک اَور مبارک وجود حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ا لعزیز کو خلعت خلافت سے نوازا۔ اور اِنّی مَعَکَ یَا مَسْرُوْر کا وعدہ نبھاتے ہوئے جماعت کو پھر سے ترقی کی راہوں پر پوری رفتار کے ساتھ گامزن کردیا۔ ترقی کی نئی راہیں کھلنے لگیں۔ ترقی کے نئے انداز اپنائے گئے جو کہ زمانہ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ ہمارے پیارے امام کو دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں پیغام حق پہنچانے اور بڑے بڑے جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی توفیق عطا ہوئی۔ وقت حاضر کی ضرورت ’امن‘کی شعاعیں آپ کے وجود سے پھوٹنے لگیں اور امن کے پیغامات آپ کے وجود سے جاری ہونے لگے۔

اسی طرح وقت کے تقاضوں کے مطابق جماعت کی تربیت پر آپ کی بہت توجہ ہے۔ ہماری سب ضرورتوں کا آپ کواحساس ہے۔ آپ کی ذات میں مومنوں کو ایک شفیق باپ نصیب ہوا ہے۔ وہ ساری برکتیں جو مسیح پاک کے وجود کے ساتھ وابستہ تھیں اور بعد میں آنے والے خلفاء کے ساتھ وابستہ تھیں پھر سے جاری و ساری ہیں۔ نظام وصیت ہو یا تحریک جدید اور وقف جدید، ایم ٹی اے ہو یا تحریک وقف نو۔ سب کاموں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت وسعت اور ترقی نصیب ہوئی ہے۔ الحمدللہ

خلافت کے ساتھ خدا ہے

خلافت خدا تعالیٰ کے اپنے ہاتھ کا لگایا ہواپوداہے۔ تاریخ شاہدہے کے رب ذوالجلال ہمیشہ اس کی حفاظت فرماتارہا ہے اور انشاءاللہ فرماتا رہے گا۔ یہ ننھا پودا اب خدا تعالیٰ کے فضل سےایک مضبوط درخت بن چکا ہے۔ اس کی باثمر شاخیں اکناف عالم میں پھیل چکی ہیں۔

خلافت کے ساتھ خدا ہے۔ خلافت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ آپ کے خلفاءپر بھی صادق آتے ہیں: ’’کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا۔ دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا۔ میں اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی‘‘(انوارالاسلام، روحانی خزائن جلد 9صفحہ23)

ہے سر رہ پر مرے وہ خود کھڑا مولیٰ کریم

پس نہ بیٹھو میری رہ میں اے شریران دیار

حرف آخر

ہم وہ خوش نصیب ہیں جنہوں نے خلافت خامسہ کے انتخاب کے موقع پر آپ کے پہلے حکم ’’بیٹھ جائیں ‘‘ کی تعمیل کی اور اطاعت کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ ساری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ مگراطاعت لمحوں کی بات نہیں بلکہ عمر بھر کے عمل کا نام ہے۔ ہم نے بیعت کی ہے، تو اپنے آپ کو خلیفۃ المسیح کے ہاتھ پر بیچ دیا ہے۔ ہم نے یہ اقرار کیا ہے ’’تو ہمارا ہوا، ہم ترے ہوگئے ‘‘ اے امیر المومنین! ہم ترے ہوگئے۔ ہمیں آپ سے محبت ہے۔ خلافت ہمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ مگر محبت کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ محبت کرنے والے محبوب کے ہر حکم کی تعمیل اور وفا کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خلافت کا وعدہ ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیں ان شرائط پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

خلافت کی ہیں برکتیں بے شمار

خلافت تا قیامت زندہ باد!

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button