حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ صدران حلقہ جات جماعتہائے احمدیہ برطانیہ کی (آن لائن) ملاقات

عہدیدار، صدران اور عاملہ کے ممبران اپنے آپ کو خادم سمجھیں ، عہدیدار نہ سمجھیں، خادم سمجھیں

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 13؍فروری 2022ء کو برطانیہ کی جماعتوں کے صدران سے آن لائن ملاقات فرمائی ۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ 100سے زائد صدران جماعت نیز ممبران نیشنل عاملہ اور ریجنل صدران نے بیت الفتوح لندن سے آن لائن شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد صدران جماعت کو حضور انور سے سوالات کرنے اور راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

صدرصاحب جماعت Tootingنے سوال کیا کہ تیسری عالمی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات پر حضور کچھ راہنمائی فرمانا پسند فرمائیں گے؟

حضور انور نے فرمایا کہ آپ کی جماعت نے کیا تیاری کی ہوئی ہے؟ …اگر عالمی جنگ ہوتی ہے تو پھر وہاں بنکروں کی ضرورت ہو گی۔ آپ نے کھود لیے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس تو چھوٹا سا سینٹر ہے حضور۔

حضور انور نے فرمایا تو پھر؟ جب عالمی جنگ ہوتی ہےگورنمنٹ خود ہی راہنمائی کر دے گی۔ عالمی جنگ جو ہو گی تو جو حالات آجکل پیدا ہو رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر یوکرائن اور رشیا کی جنگ شروع ہو گئی تو یہ عالمی جنگ میں نہ منتج نہ ہو جائے کہیں، اور اس کے نتیجہ میں پھر ہو سکتا ہے کہ نیو کلیئر ہتھیار بھی استعمال ہوں تو مَیں تو پہلے ہی کہتا رہتا ہوں کہ حکومتوں کو ہوش کرنی چاہیے لیکن بظاہر رشیا کہتا ہے ہمارا کوئی ارادہ نہیں۔ امریکہ اور یورپ کا ارادہ ہے کہ انہوں نے ضرور جنگ کرنی ہی کرنی ہے اور جو حالات ہیں وہ ایسے ہیں کہ یوکرائن کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا نہ یورپ نہ رشیا۔ تو دیکھتے ہیںاونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ آپ لوگوں کا کام ہے دعا کرنا ۔دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ عالمی جنگ سے بچائے۔ اور آپ کے پاس چھوٹا سا سینٹر ہے آپ اور تو کچھ کر نہیں سکتے۔ نہ گھروں میں بنکر بنا سکتے ہیں۔ جو ہوگا پھر دیکھی جائے گی۔ دعا ہی ہے جو آپ کوبچا سکتی ہے ۔

نیز فرمایا کہ میں سمجھا تھا آپ سوال کرنے لگے ہیں کہ ہماری جماعت میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے جہاں ہماری افراد جماعت کی سو فیصد تعداد ایسی ہو جائے جو پانچ وقت نمازیں پڑھتے ہیں اور بڑے خشوع و خضوع سے نمازیں پڑھتے ہیں اور کس طرح ہم کوشش کریں کہ ساری جماعت قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی بن جائے۔ اور کس طرح ہم کوشش کریں کہ ساری جماعت میں اللہ تعالیٰ سے تعلق ایسا پیدا ہو جائے کہ بالکل ان کو ہلا نہ سکے۔ تویہ آپ لوگوں کی کوششیں ہیں جو آپ کا کام ہے وہ کریں۔ جب جنگ ہو گی تو یہی چیزیں آپ کو بچا بھی لیں گی۔

ایک دوست نے سوال کیا کہ آجکل جماعت میں کچھ والدین اپنی بچیوں کے رشتہ کے بارے میں کافی پریشان رہتے ہیں اور مناسب رشتہ کی تلاش میں کافی struggleکرتے ہیں۔ ایسے والدین اور نظام جماعت کو پیارے حضور کیا نصیحت فرمائیں گے؟

حضور انور نے فرمایا کہ پچھلی نصیحتیں جو میں کر چکا ہوں وہ ابھی تک آپ کے سامنے نہیں آئیں ۔ سوال یہ ہے کہ رشتوں کا پرابلم تو ہر جگہ ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے رشتوں کے لیے جن کو یہ ہوتا ہے کہ وہ جماعت کے اندر رشتے ہوں لیکن اگر کوئی ایسے مسائل ہوں اور عمریں لڑکیوں کی بڑھ گئی ہوں اور کوئی خاص حالات پیدا ہو جائیں تو پھر ان کے حالات کے مطابق جو رشتوں کے بارے میں ہدایات لینی ہوتی ہیں وہ والدین خود لکھ کے پوچھ لیتے ہیں اور میں نظام جماعت کو اس کے مطابق بتا بھی دیتا ہوں کہ ان سےکیا سلوک کرنا ہے ۔ تو یہ پرابلم آج سے نہیں پیدا ہوئی۔ یہ ہمیشہ سے ہے اور ہر ملک میں ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے زمانے میں بھی تھی تبھی آپ نے کہا تھا کہ رشتہ ناطہ کے سیکرٹریان وہ elect نہ ہوں، appointہوں اور ایک سے زیادہ بھی بنائے جا سکیں۔ وہ اس لیے بنائے گئے تھے کہ اس وقت بھی رشتوں کے مسائل پیدا ہو رہے تھے اور اب بھی اور ان کا حل یہی ہے کہ جو جماعت کوشش کر سکتی ہے کرنی چاہیے اس کے لیے میں مختلف مجالس میں، لجنہ میں بھی ، خدام میں بھی یہ کہہ چکا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہمیں فرمایا ہے کہ تم رشتوں کے لیے دین کو دیکھو۔ تو اس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے۔ اس کے لیے تربیت کی ضرورت ہے، اپنے شعبہ تربیت کو جماعتی طور پہ فعال کریں۔ لجنہ بھی اپنے طور پہ کریں، خدام الاحمدیہ اپنے طور پر کریں، انصار اللہ اپنے طور پر کریں۔ تو ایک ایسا ماحول پیدا ہو جائے گا جو دینی ماحول ہو گا۔ تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس تربیت کی وجہ سے ایک ایسادینی ماحول پیدا ہو گیا ہے جہاں لڑکا اور لڑکی دونوں یہ چاہتے ہیں کہ دین کو ترجیح دی جائے اور دین پر عمل کرنے والے ہمیں رشتے میسر آئیں۔ تو یہ تو آپ لوگوں کا کام ہے کہ کتنی تربیت کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لڑکے جو ہیں وہ اپنے طور پہ باہر چلے جاتے ہیں لڑکے شادیاں کرنے لگ جاتے ہیں بعض دفعہ۔ لڑکیوں کے ماں باپ جو ہیںوہ بھی اس طرف توجہ نہیں دیتے بعض ایسے بھی ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے گو بہت زیادہ تو نہیں لیکن پھر بھی بڑھتی جا رہی ہے جو کہتے ہیں کہ لڑکیاں ہماری پڑھ رہی ہیں ابھی اور لڑکیوں کی خود خواہش ہوتی ہے ہم بہت زیادہ پڑھ لیں۔ لڑکے اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے پھر وہ ایک تعلیم میں فرق پیدا ہو جاتا ہے اس کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں بعض لوگ جو اس فرق کو نہیں دیکھتے اور اللہ کے فضل سے ان کے رشتے ہوئے اور گزارہ ہو بھی رہا ہے تو یہ تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر شعبہ تربیت آپ کا فعال ہوجائے اور ہر تنظیم کا فعال ہو جائے اور ہر ایک کو یہ باور کرا دیا جائے کہ دین کو ہم نے فوقیت دینی ہے تو نہ لڑکے باہر جا کر رشتے کریں گے نہ لڑکیوں کے مسائل پیدا ہوں گے نہ لڑکیوں کے لیے بعض بلا وجہ کی خود ساختہ روکیں پیدا ہوں گی۔ تو یہ کام رشتہ ناطہ کے سیکرٹریان کا بھی ہے اور تربیت کے سیکرٹریان کا بھی ہے کہ وہ کام کریں اور اپنے ساتھ ایک جوائنٹ effort ہو،مشترکہ کوشش ہو جو ذیلی تنظیموں کو ملا کر کی جائے۔ ٹھیک ہے۔ تبھی یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔نہیں تو ظاہر ہے جب جماعت بڑھے گی تو یہ مسائل بھی زیادہ بڑھیں گے اور پیدا ہوں گے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ہماری تربیت صحیح ہو اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق۔ ٹھیک ہے۔

ایک دوسرے صدر صاحب نے عرض کی کہ آجکل احباب جماعت مختلف شہروں اور مختلف ملکوں سے یہاں پہ Aldershot یا مرکز کی طرف منتقل ہو رہے ہیں تو ان سے جب رابطہ کیا جاتا ہے تو ان میں سے بعض عہدیداروں سے بے اعتماد یا ناراض ہوئے ہوتے ہیں جس وجہ سے وہ جماعتی پروگراموں میں کم شامل ہوتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ یہ تو میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں۔ خطبات میں بھی ذکر کر چکا ہوں مختلف سالوں میں۔ آجکل تو ذرا کیونکہ صحابہ کا ذکر چل رہا تھا اس لیے اتنا نہیں آیا لیکن اس سے پہلے کے میرے خطبات دیکھ لیں صحابہ سے پہلے کے۔ کافی دفعہ میں اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ عہدیداران کو لوگوں کے ساتھ کیسا تعلق رکھنا چاہیے ۔ ایک تو یہ کہ عہدیدار کو ہمیشہ احساس ہونا چاہئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا کہ سَیّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ۔ عہدیدار صدران اور عاملہ کے ممبران اپنے آپ کو خادم سمجھیں عہدیدار نہ سمجھیں، خادم سمجھیں۔ بعض دفعہ لوگ میرے پاس آتے ہیں کہ مجھے فلاں عہدہ ملا ہے تو میں اکثر ان کو کہا کرتا ہوں یہ نہ کہو کہ فلاں عہدہ ملا ہے یہ کہو فلاں خدمت ملی ہے یہ خدمت کا موقع اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے اور اس خدمت کے موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اس سے اپنے فرائض ادا کر کے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ نہ دیکھیں کہ ہم نے فلاں افسر کی خوشنودی حاصل کرنی ہے یا ہمیں افسری مل گئی ہے تو ہم نے اپنا رعب ڈالنا ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ۔ آپس میں رحم کا سلوک ہونا چاہئے۔ عہدیدار کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ نرمی اور پیار سے بات کریں اور لوگوں کا اعتماد قائم کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عہدیداروں کا یہ بھی کام ہے کہ جو راز ہیں لوگوں کے ان کو راز رکھیں نہ یہ کہ ایک بات آج کسی سے سنی اور دوسرے کو جا کر بتا دی یا اپنے عاملہ ممبر کو بتا دی۔ وہ عاملہ ممبر کے پیٹ میں بات نہیں رہی اس نے کسی اور کو بتا دی یا گھر میں کہیں ذکر ہو گیا جانے یا انجانے میں۔ وہ پھر باہرنکلی اور لوگوں تک پہنچی۔ اس سے اعتماد میں کمی آتی ہے۔ تو سب سے پہلا کام تو عہدیداروں کاہے کہ اپنا اعتماد قائم کریں۔ چھوٹی چھوٹی جماعتیں یہ جماعتیں اس لیے ہی بنائی گئی ہیں ناں ایک مرکزی طور پر ایک لندن کی جماعت بنائی جاسکتی تھی یا زیادہ سے زیادہ ریجن میں تقسیم کر کے بنائی جا سکتی تھی۔ حلقے جو بنائے گئے ہیں وہ اس لیے بنائے گئے ہیں کہ دو سو ،چار سو، پانچ سو آدمیوں تک آپ کی accessآرام سے ہو سکتی ہے تو ان سے ذاتی رابطہ رکھیں۔ اب Queenنے جو خط لکھا اپنی پلاٹینم جوبلی پہ نیچے لکھا ہوا تھا Your Servant Elizabeth۔ آپ لوگوں کو تو اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ تم servantبنو اور سیاسی طور پر نہیں بنو بلکہ حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے بنو۔ تو اس لیے پہلی بات تو عہدیداروں کی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور لوگوں کا اعتماد قائم کرنے کے لیے ان کے راز کو راز رکھیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب اس طرح کا تعلق پیدا ہو گا تو ان کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ اگر تمہاری کچھ ریزرویشنز ہیں، تحفظات ہیں تو ایک قضا کے بعد دوسری قضا کا مرحلہ بھی موجود ہے۔ پھر آخری جو مرافعہ عالیہ کا مرحلہ ہے وہاں جا سکتے ہو اور اگر ہر جگہ تمہارے خلاف فیصلہ ہوتا ہے تو پھربھی تم اگرسمجھتے ہو کہ یہ غلط ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس کو مان لو اور جماعت کو مقدم رکھو۔ کوئی قاضی کسی کا واقف تو نہیں ہوتا ۔اب وہاں ربوہ میں جو قاضی بیٹھے ہوئے ہیں وہ یہاں سے سن رہے ہیں وہ کسی باہر والوں کے واقف تو نہیں اور یہ بہت سارے قاضی یہاں بھی جو مقرر ہوتے ہیں،بورڈ میںوہ لوگوںکے واقف نہیں ہوتے جو ان کے پاس کیس لے کے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ کسی کی سائیڈ لی گئی، favour کی گئی وہ بھی غلط ہے۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اس میں فیور کی گئی یہ کیا یہ کیا حالانکہ اب نظام ایسا بن چکا ہے خلافت رابعہ کے زمانے سے کہ خلیفہ وقت کے پاس اپیل نہیں ہوتی اس کے باوجود بعض دفعہ لوگوں کی شکایات دور کرنے کے لیے قضا کے فیصلے میں منگوا لیا کرتا ہوں۔ خود اپنی صوابدید پہ اور پھر میں دیکھتا ہوں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو فیصلے ہوئے ہوتے ہیں وہ صحیح ہوتے ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ دونوں فریق راضی ہو جائیں۔ جس کے خلاف فیصلہ ہو گا بہرحال اس کو کچھ نہ کچھ ناراضگی ہو گی۔ اس کے کچھ تحفظات ہوں گے اور سو فیصد فیصلہ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ صحیح ہوا ہے اگر ستر پچھتر اسّی فیصد صحیح فیصلہ ہے تو بہرحال اس کو تسلیم کر لینا چاہئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کہ نظام میں اور ہمارے آپس کے تعلقات میں کوئی رخنہ نہ پڑے۔ تو یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب آپ کے ان لوگوں سے ذاتی تعلقات ہوں جب آپ ان کو سمجھا سکیں آپ کی بات ماننے کو تیار ہوں ان کو اعتماد ہو کہ صدر جماعت یا سیکرٹری تربیت یا سیکرٹری امور عامہ یا اور کوئی سیکرٹری جو ہے وہ جب ہمیں سمجھا رہا ہے تو ہمارا بھائی اور دوست بن کے سمجھا رہا ہے اور ہمیں بات مان لینی چاہیے۔ اگر اس طرح کی سوچ بنا دیں گے تو لوگ سمجھیں گے بھی۔ باقی جہاں تک فیصلہ صحیح یا غلط ہونے کا سوال ہے یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرما دیا کہ بعض دفعہ ایک چرب زبان جو ہے وہ اپنے حق میں میرے سے فیصلہ کروا سکتا ہے لیکن اس میں میرا قصور نہیں۔ اس نے گو فیصلہ اپنے حق میں کروا لیا لیکن اگر وہ غلط فیصلہ ہے تو اس نے اپنے پیٹ میں آگ بھری۔ تو یہ کہنا کہ قاضی جان بوجھ کے غلط فیصلہ کرتے ہیں یہ بھی غلط ہے۔ وہ اگر کرتے ہیں تو بعض دفعہ بعض دلائل اور بعض شواہد جو ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ان کی روشنی میں وہ کر لیتے ہیں جس طرح انہوں نے اس کو سمجھا اور پھر اپیل کے حق بھی ہیں اپیل در اپیل۔ تو اس لیے ایک تو یہ قضا کا جہاں تک معاملہ ہے تو ان کو یہ بتاناچاہئے۔ جہاں تک رشتوں کا معاملہ ہے تو یہ تو صدر جماعت کا اور وہاں کی مقامی عاملہ کا کام ہے ناں کہ اپنے لوگوں کے لیے ان کے دوست بن کے ان کے ساتھی بن کے کھڑے ہوں اور ان کے معاملات اور ان کے کیس جو ہیں وہ احسن رنگ میں پیش کریں اپنی نیشنل انتظامیہ کو بھی اور اگر ضرورت ہو تو مجھے بھی۔ تو جب اس طرح آئیں گے معاملات اور تربیت بھی پوری طرح ہو رہی ہو گی اور آپ کے ذاتی تعلقات بھی ہوں گے اور لوگوں کا آپ پہ اعتماد بھی ہو گا تو یہ مسائل بہت حد تک کم ہو جائیں گے۔ سو فیصد کم نہیں بھی ہوں گے تو بہت بڑی تعداد میں کمی آ جائے گی۔

ایک صدر صاحب جماعت نے عرض کی کہ کچھ احباب ایسے ہیں جو اپنے آپ کو احمدی تو کہتے ہیں مگر ہم ان سے پورا تعاون نہیں لے پا رہے۔ وہ نہ اجلاسات میں آتے ہیں نہ پروگراموں میں نہ نمازوں کے لیےمسجدمیں ۔حضور انور ہماری اس حوالہ سے راہنمائی فرمادیں کہ ہم اور کیا کر سکتے ہیں؟

حضور انور نے استفسار فرمایا کہ جلسوں پہ آ جاتے ہیں جمعہ پڑھ لیتے ہیں؟ آپ کے ساتھ عید پڑھ لیتے ہیں؟ صدر صاحب نے عرض کی کہ کبھی کبھار۔پھر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ عید بھی کبھی کبھار پڑھتے ہیں؟ اس پر انہوں نے عرض کی کہ ایسے بھی ہیں بیچ میں۔

حضور انور نے فرمایا اچھا۔ کمال ہے۔ بڑے بڑے بگڑے ہوئے لوگ جو ہیں وہ بھی سال کے بعد ایک نماز عید کی پڑھ لیتے ہیں۔ ان کو سمجھاتے رہیں کہ اگر تم جماعت کاممبر اپنے آپ کو سمجھتے ہو تو پھر اس کو دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا فرمایا ہوا ہے اور ان شرائط کی پابندی کرنے کی کوشش تو کرو۔ اپنا عہد دہراتے ہو تو اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش تو کرو۔ اور آہستہ آہستہ سمجھاتے رہیں۔ اگر خود کوئی انکار کر دیتا ہے کہ میں احمدی نہیں ہوں اور مجھے نہ چھیڑو تو اَور بات ہے نہیں تو اس کو سمجھانا آپ کا کام ہے۔پیار سے سمجھاتے رہیں قریب لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ بگڑے ہوئے ہوتے ہیں ان کو قریب لانا بھی آپ لوگوں کا ہی کمال ہے ۔ آپ لوگ جس طرح مَیں پہلے کہہ چکا ہوں ناں دوست بن کے لوگوں کے رہیں۔ اگر کوئی اس طرح نہیں آتا ناں تو یہ (رویہ)نہ ہو جائےکہ اس کو کہو چلو نماز پہ آیا کرو یا فلاں دن اجلاس ہے تو اجلاس پہ آؤ یا اپنا چندہ وقف جدید دو، تحریک جدید دو۔ ٹھیک ہے۔ اس کو کچھ نہ کہیں۔ ایسے لوگوں کو صرف فون کر کے مہینے میں ایک دفعہ حال پوچھ لیا کریں کیا حال ہے آپ کا؟ ایسے ہی آہستہ آہستہ وہ لوگ آپ کے قریب آنا شروع ہو جائیں گے ۔ کوئی ڈیمانڈ نہیں کرنی۔ ان سے کچھ نہیں کہنا صرف ان کا حال پوچھنا ہے کہ مجھے خیال آیا آپ کا حال پوچھ لوں السلام علیکم، وعلیکم السلام۔ یا اگر اس کے گھر کے قریب سے گزرے تو دیکھا اگر مناسب وقت ہے، اس وقت بندہ مل سکتا ہے اور ڈسٹرب نہیں ہو گا تو اس کا گھر knock کر کے کہہ دیا السلام علیکم میں یہاں سے گزر رہا تھا میں نے کہا آپ کو سلام کرتا جاؤں۔ کیا حال ہے آپ کا؟ ٹھیک ہیں۔ بس۔ کیونکہ آپ ہماری جماعت میں ہیں اس لیے مجھے خیال آیا کہ ممبران سے ملنا چاہئے۔ السلام علیکم کہنے آیا تھا میں۔ اس طرح اگر آپ تعلقات رکھیں گے تو لوگ پھر آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ محنت کرنی پڑتی ہے بس صدر صاحب۔ یونہی نہیں مل جاتے۔

ایک صدر صاحب جماعت نے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احباب جماعت مالی قربانیوں کی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں لیکن نظام وصیت میں اس تیزی سے شامل نہیں ہو پا رہے۔ حضور انور سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے کہ اس میں تیزی سے اضافہ ہوسکے۔

حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ مالی قربانی میں تحریک جدید اور وقف جدید کے چندے کے لیے اور چندہ عام کی وصولی کے لیے جتنی آپ کوشش کرتے ہیں اتنی کوشش آپ کا شعبہ تربیت جو ہے نمازیں پڑھانے کے لیے نہیں کرتا۔ نہ ان کو قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دلانے کی کرتا ہے۔ مال کے عشرے تو منا لیتے ہیں تربیت کا عشرہ جو مناتے ہیں وہ بھی اس قسم کا مناتے ہیں کہ چلو کوئی شامل ہو گیا کوئی نہ ہوا اور اس میں وہ زور نہیں ہوتا توجہ نہیں ہوتی۔ تو آپ کا سارا زور جو ہوتا ہے ساری مشینری جو ہوتی ہے مال اکٹھا کرنے پہ لگی ہوئی ہے ۔یہ ٹیکس تو نہیں ہم نے اکٹھا کرنا اصل چیز تو تربیت ہے۔ اگر تربیت ہو جائے گی تو چندہ خود بخود آنا شروع ہو جائے گا۔ اس لیے شعبہ تربیت کو فعال کریں اور جب شعبہ تربیت فعال ہو گا تو شعبہ وصیت کی خود بخود مدد ہو جائے گی۔ شعبہ وصیت اپنے طور پر بھی کام کرے کہ وصیت کی طرف جائیں رسالہ الوصیت پڑھیں۔ رسالہ الوصیت کے مختلف اقتباسات نکال نکال کے چھوٹے چھوٹے پیسجز (passages)جس میں وصیت کی اور نظام جماعت کی اور نظام خلافت کی توجہ دلائی گئی ہے وہ لوگوں کے گھروں میں بھیجا کریں۔ آپ ٹیکسٹ میسج بھیج دیتے ہیں کہ نماز کا وقت بدل گیا تو یہ میسج ہے فوری طور پر وائرل ہوتا ہے آپ کی جماعت میں۔ اول سرکلر تو جاتا کوئی نہیں۔ فونوں پہ میسج چلے جاتے ہیں تو فونوں پہ روزانہ ایک اقتباس ڈال دیا کریں تو لوگ پڑھ لیا کریں گے۔ اس بہانے ان کی تربیت ہوتی جائے گی۔ جب تربیت ہو گی تو خود بخود نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور جب رسالہ الوصیت سے اقتباسات پڑھ کے دیکھیں گے کہ نیکی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، خلافت سے تعلق کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے، خلافت کی اہمیت کے بارے میں توجہ دلائی گئی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کے بارے میں اس میں توجہ دلائی گئی ہے، وصیت کی اہمیت کے بارے میں توجہ دلائی گئی ہے تو پھر تربیت بھی ہو جائے گی، وصیت کی طرف توجہ بھی ہو جائے گی، نمازوں کی طرف توجہ بھی ہو جائے گی اور سیکرٹری مال کا کام خود بخود ویسے ہی پورا ہو جائے گا۔

ایک دوست نے عرض کی کہ جب ہم جما عت احمدیہ کا پیغام پہنچانے کے لیے بُک سٹال لگاتے ہیں تو اگر کوئی دہریہ آجائے تو اسے کیا دلائل دینے چاہئیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو انہیں بتانا چاہیے کہ آپ خدا پہ ایمان رکھتے ہیں اور آپ خدا تعالیٰ کے بارے میں اپنے ذاتی تجربات رکھتے ہیں اور یہ کہ آ پ کے پاس آپ کی دعاؤں کے قبولیت کے نشان ہیں۔ آپ انہیں بتا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے ذریعہ پیشگوئیاں کرکے پھر انہیں پورا کرتا ہے۔ جو پیشگوئیاں قرآن کریم میں مذکور ہیں وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں پوری ہوئیں اور آج بھی پوری ہو رہی ہیں ۔ اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کی غلامی میں بھجوایا گیا ہے اور آپ نے جو پیشگوئیاں کیں وہ بھی پوری ہوئیں۔ آپ انہیں بتا سکتے ہیں کہ ان پیشگوئیوں کو دیکھنے کے بعد ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا مگر یہ کہ ہم کسی ایسی ہستی کو قبول کرلیں جو غیب کا علم رکھتی ہے۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ اس کے علاوہ جب ہماری دعائیں قبول ہوتی ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ایک ایسی ہستی ہے جو دعاؤں کو قبول کرتی ہے۔ بسا اوقات وہ دعائیں غیر معمولی طریق پر قبول ہوتی ہیں اور بظاہر ناممکن حالات میں قبول ہوتی ہیں۔ یوں ان پیشگوئیوں کے ساتھ ساتھ قبولیت دعا کے ذاتی واقعات بھی ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان کا ذکر کریں گے تو یا تو لوگ آپ کی بات سنیں گے یا پھر وہ آپ پر ہنسی مذاق کرکے چلے جائیں گے۔ ایسے طنز اور ہنسی مذاق پر آپ کو خاموش رہنا چاہیے کیونکہ آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی فرمائےہمارا کام تو صرف لوگوں تک پیغام پہنچانا ہے۔ آپ کو ہمیشہ یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو فرمایا ہے کہ کسی کو مسلمان بنانے کےلیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button