انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹس اینڈ انجنیئرز (IAAAE) کے انٹرنیشنل سمپوزیم 2022ء کی اختتامی تقریب سے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹس اینڈ انجنیئرز کی بے لوث اور مثالی خدماتِ انسانیہ
(اسلام آباد، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل، ۵؍ مارچ ۲۰۲۲ء) امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایوانِ مسرور اسلام آباد، ٹلفورڈ میں منعقد ہونے والے IAAAE کے سالانہ انٹرنیشنل سمپوزیم برائےسال ۲۰۲۲ء سے اختتامی خطاب فرمایا۔
حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد چھ بجکر ۳۷ منٹ پر ایوانِ مسرور میں رونق افروز ہوئے اور حاضرین و شاملین کو ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کی دعا کا تحفہ عطا فرمایا۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا جو ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی جانی پہچانی آوازمحترم عبدالرزاق شیخ نے کی۔ موصوف نے ہی تلاوت کی جانے والی سورۃ النورکی آیت ۳۶ کا ترجمہ بزبانِ انگریزی پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
بعد ازاں مکرم رافع ظفر صاحب نے آج کے سمپوزیم کی ایک مختصر رپورٹ پیش کرتے ہوئے دن بھر کی کارروائی کا احاطہ کیا۔ انہوں نے دنیابھرمیں ایسوسی ایشن کے نمائندگان کی جانب سے پیش کی جانے والی سالانہ رپورٹس کے چیدہ چیدہ نکات پیش کیےجن میں واٹر فارلائف، سولر پینلز اور ماڈل ولیج جیسے پراجیکٹس کا ذکر کیا۔
رپورٹ کے بعد حضورِ انور نے ہال کے ساؤنڈ سسٹم کے بارے میں استفسار فرمایا کہ کیا یہ ٹھیک طرح سے چل رہا ہے، کیا شاملین کو سٹیج سے پیش کی جانے والی رپورٹ کی سمجھ آئی ہے؟ نیز ساؤنڈ سسٹم کی انتظامیہ کو آواز بہتر کرنے کی ہدایت فرمائی۔
جس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے چیئرمین IAAAE محترم اکرم احمدی صاحب کوایسوسی ایشن کی خدمات پر مشتمل ایک تفصیلی پریزنٹیشن پیش کرنے کی دعوت دی۔ جس پر موصوف نے سال 21/2020ءکے لیے ایسوسی ایشن کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس ایسوسی ایشن کا قیام حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے افریقہ کے غریب ممالک میں خدمت انسانیت کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمایا تھا۔ بعد ازاں حضور انور کی راہنمائی اور ہدایت کے مطابق اس کا دائرہ کار دنیا کے تمام ممالک تک پھیلا دیا گیا۔ سب سے اہم پراجیکٹ واٹر فار لائف ہے جس کے لیے ایسوسی ایشن کے ممبران نے افریقہ کے دور دراز ممالک میں انتھک محنت کے بعد بہت سے کنویں بنائے جن کے ذریعہ مقامی لوگوں کو پانی کی سہولت مہیا کی گئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور انور کی راہنمائی کے ساتھ گزشتہ کورونا وبا کے عرصہ میں بھی ہمارے رضا کار احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس کام کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے آج اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارے افریقن بھائی اب اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے قابل ہورہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اب تک 2667 ہینڈ پمپس لگائے جائے چکے ہیں۔ہیومینٹی فرسٹ کے تعاون سے اب تک 20 ڈرلنگ واٹر پمپس لگائے گئے ہیں۔ یہ پراجیکٹس مکمل کرنے کے بعد ان کی مرمت و دیکھ بھال بھی ساتھ ساتھ کی جارہی ہے۔ ان ممالک میں سولر سسٹم بھی مہیا کیے گئے ہیں جن سے مقامی آبادی بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آلٹر نیٹو انرجی کے 60 سسٹم تین افریقن ممالک میں لگائے جاچکے ہیں۔ انہوں نے بینن اور گھانا میں اسٹریٹ لائٹس ،روڈ ورکس اور واٹر ٹینکس بنانے اورلگانے میں ایسوسی ایشن کے کاموں کا بھی ذکر کیا۔ اسی طرح انہوں نے برکینا فاسو ،تنزانیہ اور مالی میں بھی ایسوسی ایشن کی جانب سے مکمل کیے جانے والے پراجیکٹس کا ذکر کیا۔انہوں نے مختلف ممالک میں مسرور انٹر نیشنل ٹیکنیکل کالج پراجیکٹس کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا ایسوسی ایشن کی تمام خدمات اور تمام پراجیکٹس مکمل ہونے کی اہم وجہ صرف اور صرف خلیفہ وقت کی دعائیں اور راہنمائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آئندہ بھی ان خدمات کو پہلے سےبڑھ کر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
بعد ازاں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سات بج کر ۱۷ منٹ پر خطاب کے لیے منبر پر رونق افروز ہوئے۔ تشہد و تعوّذ کے بعد حضورِ انور نے فرمایا کہ الحمد للہ! کورونا وبا کی پابندیوں کی وجہ سے تین سال کے بعد انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹس اینڈ انجنیئرزکو اپنا سالانہ سمپوزیم منعقد کرنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ الحمدللہ ایسوسی ایشن نے پچھلے سالوں میں بہت ہی شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ اگر اس کے قیام سے جائزہ لیا جائے تو اب ان کے کاموں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا ہے۔IAAAE اب جدید ترین خطوط پر کام کررہی ہےاور دنیا کے مختلف ممالک میں واٹر فار لائف اور سولر سسٹم کی سہولتیں مہیا کر رہی ہے۔ ماڈل ولیج پراجیکٹس بھی کم سے کم قیمت پر مکمل کیے جارہے ہیں جوکہ انسانیت کی عظیم خدمت ہے۔مجھے علم ہے کہ آپ کے ممبران بے انتہا محنت سے کام کر رہے ہیں اور سستے سے سستے آلات خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ دو سال میں نو ممالک کے لوگوں نے واٹر فار لائف پراجیکٹ سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ افریقہ کے دُور دراز ممالک میں صاف پانی کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے اور IAAAEایسے علاقوں میں صاف پانی لوگوں کے گھروں تک پہنچا رہی ہے جس سے اُن لوگوں کی خوشی قابل دید ہے۔ اسی طرح سولر سسٹم کے ذریعہ بھی لوگوں کے گھروں میں نہ صرف روشنی کا انتظام کیا گیا بلکہ میڈیا تک رسائی کی سہولت بھی مہیا کی گئی جس سے اب اُن لوگوں کو دنیا کے اصل حالات کا اندازہ ہورہا ہے۔
حضور انورنے فرمایا کہ چند سال قبل میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ IAAAE دنیا کے دور دراز علاقوں میں پینے کاصاف پانی پہنچانے کا انتظام کرے۔ یہ میرے لیے خوشی کا باعث ہے کہ آپ نے اس بارہ میں اچھا کام کیا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ IAAAE ماڈل ویلیج سکیم کے تحت مفوضہ کام سے بہتر کام کر گئے ہیں۔ IAAAE کےہر وقت یہ پیشِ نظر ہے کہ دنیا کے حالات کے مطابق کس طرح کام کیا جائے۔ دنیا کی حالت تشویش ناک اور خطرناک ہے۔ خصوصاً آج کل جو دنیا میں ہو رہا ہے اور یوکرائن ، رشیا اور یورپ کے درمیان جو ہو رہا ہے اس سے دنیا کے ایک بڑے خطے میں جنگ پھیلنےکے نتیجہ میں ہونے والا نقصان انسان کے وہم و گمان سے بالا ہے۔ اور ایسی تباہی آنے والی ہے کہ انسان نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ IAAAEکو چاہیے کہ بنی نوع انسان کے لیے اپنی کوششوں کو بڑھائے اور ہر قسم کے حالات سے نپٹنے کی تیاری کرے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ لوگوں نے زیرِ زمین بنکر بنائے ہیں جس میں بہت سی ضروریات مہیا ہوں گی۔ یہ امیر لوگوں کے لیے تو کافی ہوں گی لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے لیے یہ ممکن نہیں۔ یہ بھی غلط خیال ہے کہ یہ بنکر انہیں بچا لیں گے۔ وہاں رہنے کے نتیجہ میں نفسیاتی مسائل، بے چینی اور گھبراہٹ پیدا ہو گی۔ پھر امیر لوگ کیا کریں گے جب وہ بنکر سے نکلنے کے بعد دنیا کی تبدیل شدہ ہیئت دیکھیں گے کہ جن لوگوں پر ان کا تکیہ تھا وہ تو لقمہ اجل بن گئے۔ اور دنیا ایک ظلمت اور اندھیروں کی لپیٹ میں آ گئی ہو گی۔ ان لوگوں کو خیال کرنا چاہیے کہ ان حالات کے نتیجہ میں فرد واحدپر اس کا کیا اثر ہو گا۔ دنیا کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ دنیا کے راہنما ہوش سے کام لیں مبادا دیر ہو جائے۔ اور ہمیں اس بارہ میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔ ایسی جنگ کے بعد انسانیت کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہو گا کہ دنیا از سرِ نو تعمیر کی جائے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس بارہ میں بڑا کام کیا جائے۔ IAAAE اس بارہ میں ایک تفصیلی پلان بنائے۔ ان کے لیے جو بے گھر ہو جائیں گے ایک رہائشی سکیم کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ احمدی آرکیٹٰکٹس کو عام حالات میں بھی سستے گھروں کے پراجیکٹس کے متعلق سوچنا چاہیے جو جماعت کے فائدہ کے ہوں۔ آپ کو ایسے پلان بنانے چاہئیں کہ ہماری مساجد، مشن ہاؤسز اور دیگر پراجیکٹس بہترین معیار، کم خرچ اور ماحول دوست ہوں۔ خدا نخواستہ اگر بڑے پیمانے پر جنگ ہو گئی تو ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا کے کئی خطے شدید تباہی سےبچ جائیںگے۔ افریقہ، جزائر اور دور دراز کے علاقے براہِ راست متاثر نہ ہوں گے۔ فرمایا کہ ہمیں ایسے مستقبل کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ مغربی دنیا کا امن اور حفاظت قائم نہ رہ سکے تو وہ کام دوسرے علاقوں میں کیے جا سکیں اور ان کم ترقی یافتہ ممالک کو مضبوط بنا سکیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ان علاقوں میں کیسے کام کیا جائے تا کہ یہ پسماندہ اقوام بڑے وقار کے ساتھ کھڑی ہو سکیں اوردنیا کی ازسرِنو تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ IAAAE کو چاہیے کہ وہ ایک دور اندیش منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرے۔ تا کہ اس زمانے کے حالات ٹھیک ہو بھی جائیں تو جماعت اور IAAAE ایک ادارے کے طورپر مستقبل کے لیے کام کرتی رہے۔ ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کم وسائل کے ساتھ بہترین انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی اور وسائل ان کو مہیا ہوں۔ آپ کا پلان یہ ہو کہ یہ اقوام کیسے قرضے کے بوجھ سے اپنے آپ کو نکال سکیں اور دنیا کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آخر میں مَیںیہ بھی کہنا چاہوں گا کہ IAAAE ایک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ قائم کر رہی ہے۔ جیساکہ اکرم احمدی صاحب نے اس کا ذکر کیا ہےنائیجیریا میں یہ قائم ہو رہا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ جلد از جلد اس پراجیکٹ کو مکمل کریں۔ اور پھر بہترین رنگ میں آپ اس کو manageبھی کر سکیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ نائیجیرین عوام اور افریقہ کی دوسری اقوام بھی اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں ۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ اَور کالجز کا پیش خیمہ ہو گا جو افریقہ کے مختلف ممالک میں لوگوں کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے لیے ممد و مددگار ثابت ہو۔ اور ان لوگوں کی ترقی اور اقوام کی ترقی کا ذریعہ بنے۔ حضور انور نے فرمایاکہ خدا کرے ان اقوام کی تمام بےچینیاں جو پسماندگی کی وجہ سے ان میں سرایت کی ہوئی ہیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔ اور اگر ان کے حالات بہتر ہوئے، میں دعا کرتا ہوں تو پھر ایسی خود غرضی کے طریق پر یا نہج پر نہ چلیں جو آج کی بڑی طاقتوں کا وطیرہ ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ مغربی اقوام کی یہ لالچ ان کی ایسی نا بجھنے والی پیاس ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اور وہ کمزور اقوام پر اپنے زور اور جبر کے ساتھ مسلط ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ ختم ہونے والی بھوک چاہے وہ رشیا کی ہو یا دوسری مغربی طاقتوں کی بنی نوع انسان کو اس رستے پر لے گئی ہے کہ دنیا کا امن تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور بہت ہی گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان حالات، اس تنازع کا حل جلد از جلد ہو۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اگر مغربی اقوام کی وجہ سےدنیا میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تو ہم نے انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنی ہے اور اس آگ کو بجھانا ہے۔ یہ ہمارا فرض اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نے معاشرے کو از سر نو تعمیر کرنا ہے اور انسانوں کو غموں سے نجات دلانی ہے۔ ان کے غموں کا ، دکھوں کا مداوا بننا ہے۔
حضور انور نے فرمایا :ہمیں دعا کرنی چاہیےاوربہترین Infrastructure بنانا چاہیے تاکہ خدمتِ انسانیت کی جائے اور اگر جنگ نہ بھی ہو تب بھی پسماندہ علاقوں کے افراد بھی مستقبل میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں ۔ بعض آپ میں سے سوچتے ہوں گے کہ جو میں کہہ رہا ہوں یہ آپ کے بس کی بات نہیں، یہ آپ کے دائرہ کار میں شامل نہیں۔ لیکن آپ جب خلوص کے ساتھ اس کے لیے محنت کریں گے اور جانفشانی سے کام کریں گے تو ہم ایسے زبردست پلان بنا سکتے ہیں، ایسے پراجیکٹ بنا سکتے ہیں کہ دنیا کی حکومتیں اور دنیا کے لیڈر ہماری پیشہ ورانہ صلاحتیوں اور ہمارے تجربے سے فیض اٹھائیں اور ہماری طرف دیکھیں ۔
حضور انور نے فرمایا: میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی قابلیت کو مزید فضلوں سے نوازے اور آپ کے کاموں کو اور آپ کے پراجیکٹس کو مزید ترقی عطا فرمائے۔ آپ جہاں دنیا کے پسماندہ علاقوں میں ان لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں، مَیں دعا کرتا ہوں کہ IAAAE اپنی ترقی کا اگلا قدم اٹھائے تاکہ آپ آئندہ آنے والی نسلوں کی بقا اور ان کی ترقی کے ضامن بنیں۔ آخر میں مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ IAAAE کے تمام ممبر مسلسل اسی جذبے اور خلوص کے ساتھ خدمت کرتے رہیں جیسا کہ وہ پہلے سے کر رہے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی پر خلوص کوششوں کی جزا عطا فرمائے۔
حضورِ انور کا خطاب سات بج کر ۴۴ منٹ پر اختتام پذیر ہوا جس کے بعد اجتماعی دعا کے ساتھ یہ بابرکت محفل اپنے انجام کو پہنچی۔ بعد ازاں حضورِ انور ہال کے زنانہ حصے میں تشریف لے گئے۔ اور پھر سات بج کر ۴۸ منٹ پر ہال سے روانہ ہو گئے۔