متفرق مضامین

منافقوں کی واضح نشانیاں

(’میم سین‘)

قرآن کریم اور احادیث میں منافقین کی علامات تفصیل سے بیان ہوئی ہیں جن سے وہ آسانی سے پہچانے جاسکتے ہیں

سورت البقرۃ کی ابتدائی سترہ آیات میں مومنوں، کافروں اور منافقوں تین گروہوں کا ذکر ہے۔ قرآن کریم اور احادیث میں منافقین کی علامات تفصیل سے بیان ہوئی ہیں جن سے وہ آسانی سے پہچانے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر اس مضمون میں کیا جاتا ہے۔

1.یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا۔ (البقرۃ:10)وہ بظاہر بیعت کر کے اپنے آپ کو مومنین کی جماعت میں شامل کرتے ہیں اور دل میں مومنین سے بغض اور کینہ رکھتے ہیں اور سازشوں میں ملوث ہو کر سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ اور مومنوں کو دھوکا دے کر ناکام کر سکیں گے لیکن دراصل وہ اپنے نفسوں کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔ مومن ترقی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں اس لیے حسرت اور ناکامیاں منافقوں کا مقدر بن جاتی ہیں۔

2.فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا۔ (البقرۃ: 11)منافقین کے دلوں میں چھپی ہوئی بیماری ہوتی ہے جوفتنوں اور ابتلاؤں کے نتیجے میں اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ان کے وجود سے پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہی ہوتی ہے ہر صاحب بصیرت آنکھ کو ان کی بیماریاں نظر آنے لگتی ہیں۔ بیماری کے لفظ نے یہ بھی بتا دیا کہ وہ ہر وقت بے چین رہتے ہیں کہ کسی طرح ہم الٰہی جماعت کو نقصان پہنچا سکیں۔ مومنوں کی ساکھ خراب کر سکیں۔ ان کی یہ بے چینی اور بے قراری بھی ا ن کی بیماری کی ایک نشانی ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی طرح مومنوں کو بھی کسی طرح بے چین کر سکیں۔

3.وَاِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ (البقرۃ: 12) جب ا ن کو کہا جائے کہ فساد مت مچاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو تمہاری اصلاح کر رہے ہیں حالانکہ وہ خود فسادی ہیں۔ مثلاً جب وہ مومنوں کی نیکی اور تقویٰ اور ان پر ہونے والے اللہ کے افضال کی باتیں سنتے ہیں تو ان کے سر میں جوں تک نہیں رینگتی لیکن جب وہ کھوج لگا کر کسی ایک خرابی پر اطلاع پا جائیں تو اسے خوب اچھالتے اور مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں تاکہ فساد ہو۔

4.قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ (البقرۃ: 14)جب ا ن کو کہا جائے کہ دوسرے مومنوں کی طرح ایمان لاؤ اور سلسلہ کی اطاعت کرو تو وہ کہتے ہیں کہ تم تو بے وقوف ہو۔ تمہاری اطاعت تو بہروں، گونگوں اور اندھوں کی اطاعت ہے۔ تمہارے دماغ بند ہیں۔ اس طرح کی باتیں کر کے مومنوں کو ہنسی اور ٹھٹھے کا نشانہ بناتے ہیں۔ ا ن کی اطاعت کو جہالت اور بے و قوفی سے تعبیر کرتے ہیں اوراظہار رائے کی آزادی کے نام پر نظامِ جماعت پر تنقید کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

5.وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ (البقرۃ: 15)ان کے لیڈروں کو اللہ تعالیٰ شیطان کہتا ہے گویا وہ نیکی تقویٰ اور خدا خوفی سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ ہر ابتلا اور فتنہ میں جو سب سے زیادہ زبانیں دراز کر رہے ہوں اور منافقوں کے سرغنہ بنتے دکھائی دیں ان میں شیاطین والی تمام صفات موجود ہوں گی۔

6.صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ(البقرۃ: 19)وہ بہرے گونگے اور اندھے ہوتے ہیں۔ گویا جب ا ن کو قرآن اور حدیث اور دلائل سے سمجھایا جائے تونہ وہ غور کرتے ہیں نہ سنتے ہیں اورافواہوں اور الزام تراشیوں کو حقیقت کا رنگ دے کر فتنے کی آگ کو بھڑکانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ منافق کبھی بھی دلائل اور براہین سے بات نہیں کرتے۔ وہ صرف اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور مومنوں کی کمزوریوں کو خوب اچھالتے ہیں۔

7.وَاِذَاۤ اَظۡلَمَ عَلَیۡہِمۡ قَامُوۡا (البقرۃ: 21)منافقوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے کہ آسائش کے دنوں میں تو مومنوں کے ساتھ چلتے ہیں لیکن تھوڑا سا بھی ابتلا اور فتنہ درپیش ہوتو فوراً رک جاتے ہیں اور اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔

8.یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا (النور: 20)منافقوں کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ ا ن کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ مومنوں میں بے حیائی پھیل جائے۔ ا س کے لیے وہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کوئی موقع مل جائے۔ جونہی ان کو کوئی موقع ملے خواہ انہی کے ساتھیوں نے کوئی ناپاک الزام لگایا ہو جیسے حضرت عائشہؓ پر منافقوں نے ہی ناپاک الزام لگایا پھر اس کی خوب تشہیر شروع کر دیتے ہیں۔ منافق اشاعت فحشاء کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وہ اصلاح کے نام پر ایسی ناپاک باتوں کو خوب زور و شور سے پھیلاتے ہیں تاکہ مومنوں کی طرف بے حیائی منسوب کرکے انہیں بدنام کر سکیں۔ حالانکہ شریعت تو یہ کہتی ہے کہ تم نیکی کی باتیں پھیلاؤ اور شر کی باتیں دباؤ۔ اگر کسی میں برائی یا عیب دیکھو تو اس کی ستاری کرو۔ اس طرح قیامت کے روز اللہ تمہاری ستاری کرے گا۔

9.لَوۡلَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا (النور: 13)منافقوں کی فطرت میں بدظنی ہوتی ہے۔ کسی پر الزام لگنے کی دیر ہےکہ اس کو مجرم بنا کر ا س کی خوب تذلیل کرتے ہیں۔ ملزم کو مجرم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ معاملےکویوں پھیلایا جاتا ہے کہ گویا جرم ثابت ہو گیا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ یہ توقع رکھتا ہے کہ اگر تم کسی بھائی کی بابت کوئی بری بات سنو تو ہرگز قبول نہ کرو بلکہ حسن ظن رکھو اور ایسی بری بات کو جھٹک دوکہ یہ مومنانہ شان ہے۔ منافقوں کی فطرت میں بدظنی اور مومنوں کی فطرت میں حسن ظن ہوتا ہے۔

10.اِذۡ تَلَقَّوۡنَہٗ بِاَلۡسِنَتِکُمۡ وَتَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِکُمۡ مَّا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ (النور: 16) منافق بے ثبوت الزامات کو فوراً اپنی زبانوں پر لیتے اورپھیلاتے ہیں حالانکہ اس کی حقیقت کا ابھی ان کو علم بھی نہیں ہوتا۔ وہ بے حیائی کی باتوں سے خوب زبان درازی کرتے ہیں۔ جبکہ مومن طبعاً حیادار ہوتاہے۔ آنحضورﷺ فرماتے ہیں کہ اسلام کا بنیادی خلق حیا ہے۔ جس میں حیا نہیں رہی وہ جو چاہے کرتا پھر ے۔ اس کا پھر خدا اور اس کے رسول سے کوئی تعلق نہیں۔

11.ہُمُ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ لَا تُنۡفِقُوۡا عَلٰی مَنۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ۔ (المنافقون: 8)منافقوں کی ایک بڑی واضح نشانی یہ ہوتی ہےکہ وہ مومنوں کو چندے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ الٰہی جماعت پر ایسے ایسے ناپاک جھوٹے الزامات لگاتے رہتے ہیں اور کمزور مومنوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ چندوں کا پیسہ خورد برد ہو رہا ہے یا عہدیدار ان عیاشیاں کرتے ہیں یا یہ پیسہ صحیح جگہ خرچ نہیں ہو رہا۔ کبھی غریب مومنوں کو غربت کا خوف دلاتے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں سے وہ سمجھتے ہیں کہ اب ہم مومنوں کو چندہ دینے سے روکنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ لیکن وہ ان سب سازشوں میں ناکام رہتے ہیں اور مومن اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں۔

12.حَتّٰی یَنۡفَضُّوۡا (المنافقون: 8)ایک اور بھاری علامت منافقوں کی یہ ہے کہ ا ن کی دلی تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ مومنوں کی جماعت کو پراگندہ کر دیں اور امام کے ساتھ جڑے ہوئے مومنوں کو منتشر کر دیں۔ اس کے لیے وہ بے شمار سازشیں کرتے اور افواہیں پھیلاتے اور گندے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مومنوں کی جماعت میں بے چینی پھیلے جس سے لوگوں میں نفور کا مادہ پیدا ہو اور وہ بھی معترضین میں شامل ہوں۔ جب کوئی ایسا بد قسمت ان کے جال میں پھنستاہے یا کسی کی غلطی پراصلاح کی غرض سےاسےسزادی جاتی ہےتو ا س کو مظلوم بنا کر اس کی خوب حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مگر منافق اس کو خوش آمدید کہتے، اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے اور ا س کو فتح مبین سے تعبیر کرتے ہیں۔ یوں ایک طرف وہ اس شخص کوجماعت سےدورکردیتےہیں تودوسری جانب منافقوں کی اخلاقی گراوٹ روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔

13.وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، (صحیح بخاری)نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ منافق کی چار خاص علامتیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ چنانچہ منافقین کی مخالفت میں جھوٹ کی ملونی ضرور شامل ہوتی ہے۔ کبھی وہ امام وقت کی بات کو غلط معنی دے کر بیان کریں گے تاکہ لوگوں کے دلوں میں نفا ق کا بیج بو سکیں۔ کبھی وہ امام کی باتوں میں تحریف کر کے آگے پھیلاتے ہیں۔ بہرحال ان کی ایک بڑی نشانی ان کا سچائی سے دور اور جھوٹ کے نزدیک ہونا ہے۔

14.وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ۔(صحیح بخاری)منافق کی ایک علامت یہ ہے کہ جب وہ جھگڑا کرتا ہے تو بدزبانی کرتا ہے۔ خاص طور پر جب مومنوں کے ساتھ کوئی بات بحث کا رنگ اختیار کر لے تو منافق ضرور بد زبانی پر اتر آئے گا جو ا س کے اندر گند بھرا ہوتا ہے وہ وہ ضرور الٰہی سلسلے کے خلاف نکالے گا۔ جبکہ مومن کا خاصہ ہے کہ وہ نرم زبان میں گفتگو کرتا ہے۔

15.فَقَالَ اتَّقِ اللّٰهَ يَا مُحَمَّدُ(صحیح بخاری)منافقوں کی ایک بھاری علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ امام وقت جسے خدا نے کھڑا کیا ہوتا ہے پر بھی زبان درازی کرتے ہیں۔ بعض بدبخت منافق نبی کریمﷺ کے سامنے جا کر کہتے کہ اے محمد اللہ کا تقویٰ اختیار کر۔ گویا وہ اپنے آپ کو متقی سمجھتے اور دوسروں کو یہ بتاتے ہیں کہ نعوذ باللہ تمہارا نبی اب متقی نہیں رہا کیونکہ یہ انصاف سے فیصلہ نہیں کررہا۔ اس حد تک وہ بے باک اور بد زبان ہو جاتے ہیں۔ اس موقع پر نبی کریمﷺ نے پیشگوئی فرمائی کہ اس کی نسل سے ایسے بدبخت لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو اللہ کے بنائے ہوئے امام کے بارے اسی قسم کی زبان استعمال کریں گے۔ اس وقت مومن سمجھ جائیں کہ وہ پیشگوئی پوری ہو گئی یہ پکے منافق ہیں۔ مومنین ایسےلوگوں کی باتوں میں ہرگز نہیں آتےبلکہ توبہ واستغفارسےکام لیتےہیں۔

16.وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا (النساء: 90) منافقوں کی آخری دلی تمنا اور آرزو یہی ہوتی ہے کہ مومنوں کو بھی کافر بنا دیں۔ اس کے لیے وہ دن رات کوشاں رہتے ہیں۔ ا ن کو نیکی تقویٰ کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ ا ن کی کوششوں کا سارا مدار اس بات پر مرکوز ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح مومنوں کو گمراہ کر کے ایک امام اور ایک نظام سے الگ کر دیں۔ حالانکہ اس الٰہی سلسلے کے سوا اس وقت دنیا میں اور کوئی ایسی جماعت نہیں ہوتی جس کا خدا تعالیٰ کی طرف سے بنایا جانے والا امام ہواور ساری جماعت ا س کی والہانہ اطاعت کرتی ہو۔ اس اطاعت سے نکالنے کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں لیکن ناکام و نامراد رہتے اور مومنوں کو اور زیادہ مضبوط ہوتے دیکھ کر حسد کی آگ میں اور زیادہ جلتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button