خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 21؍ جنوری 2022ء
جنگِ بدر میں جب رسول کریمﷺ کے لیے ایک علیحدہ چبوترہ بنایا گیا تو اس وقت سوال پیدا ہوا کہ آج رسول کریمﷺ کی حفاظت کا کام کس کے سپرد کیا جائے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ فوراً ننگی تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس انتہائی خطرہ کے موقع پر نہایت دلیری کے ساتھ آپؐ کی حفاظت کا فرض سرانجام دیا
سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ آج کل حضرت ابوبکرؓ کا ذکر چل رہاہے جو اس خطبہ میں بھی جاری رہے گا۔
سوال نمبر3: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجدنبوی کی تعمیرکی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ مدینہ کے قیام کا سب سے پہلاکام مسجد نبوی کی تعمیرتھا۔ جس جگہ آپؐ کی اونٹنی آکر بیٹھی تھی وہ مدینہ کے دو مسلمان بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت تھی جو حضرت اَسْعدبن زُرَارَہؓ کی نگرانی میں رہتے تھے۔ یہ ایک افتادہ جگہ تھی جس کے ایک حصہ میں کہیں کہیں کھجوروں کے درخت تھے اور دوسرے حصہ میں کچھ کھنڈرات وغیرہ تھے۔ آنحضرتﷺ نے اسے مسجد اور اپنے حجرات کی تعمیر کے لیے پسند فرمایااور دس دینار میں (یعنی اس وقت اس زمانے میں اس کی جو قیمت لگی وہ آپ نے یہاں روپوں میں لگائی تھی) بہرحال دس دینار میں زمین خرید لی گئی اور جگہ کوہموار کرکے اور درختوں کوکاٹ کر مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہو گئی۔ آنحضرتﷺ نے خود دعامانگتے ہوئے سنگِ بنیاد رکھا اور جیسا کہ قبا کی مسجد میں ہواتھا صحابہ نے معماروں اور مزدوروں کا کام کیا۔
سوال نمبر4: رسول اللہﷺ نے مسجد نبوی کی توسیع وتعمیرنو کا ارشاد کب فرمایا؟
جواب: فرمایا: محرم7؍ہجری میں جب نبی کریمﷺ غزوۂ خیبر سے فاتح و کامران لوٹے تو آپؐ نےمسجد نبویؐ کی توسیع اور تعمیر نَوکا ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر5: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صحابہ کے مابین مؤاخات کا کیا ذکر فرمایا ؟
جواب: فرمایا: رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت خارجہ بن زیدؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان عقدِ مؤاخات قائم فرمایا۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ مؤاخات مکہ میں ہوئی تھی۔ جیسا کہ علامہ ابن عسا کرلکھتے ہیں کہ مکہ میں رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر بن خطابؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ پھر جب رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے وہ مؤاخات منسوخ فرما دی۔ سوائے دو مؤاخات کے۔ وہ دو مؤاخات قائم رہیں جن میں سے ایک آپؐ کے اور حضرت علیؓ کے درمیان تھی اور دوسری حضرت حمزہؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ کے درمیان تھی۔
سوال نمبر6: غزوہ بدر کب ہوا؟
جواب: فرمایا: غزوۂ بدر رمضان 2؍ ہجری مطابق مارچ 623ء میں ہوا۔
سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے غزوہ بدرکےموقع پر حضرت مقدادؓ کے کن تاریخی الفاظ کا ذکر فرمایا؟
جواب: فرمایا: نبی کریمﷺ نے صحابہ سے مشورہ طلب کیا اور ان کویہ خبردی کہ مکہ سے ایک لشکر انتہائی تیز رفتاری سے نکل پڑا ہے اس بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ کیا لشکر کے مقابلہ میں تجارتی قافلہ تم کو زیادہ پسندہے؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ یعنی ایک گروہ نے کہا ہم دشمن کے مقابلہ میں تجارتی قافلے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولؐ ! آپ کو تجارتی قافلے کی طرف ہی جانا چاہیے اور آپؐ دشمن کو چھوڑ دیں۔ اس پر رسول اللہﷺ کے چہرۂ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا۔ حضرت ابوایوبؓ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہی واقعہ ہے کہ کَمَاۤ اَخۡرَجَکَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَیۡتِکَ بِالۡحَقِّ ۪ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لَکٰرِہُوۡنَ کہ جیسے تیرے رب نے تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا تھا حالانکہ مومنوں میں سے ایک گروہ اسے یقیناً ناپسند کرتا تھا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ کھڑے ہو گئے اور گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی۔ پھر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی۔ پھر حضرت مقدادؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہؐ !جس کا اللہ نے آپؐ کو حکم دیا ہے اسی طرف چلیے۔ ہم آپؐ کے ساتھ ہیں۔ اللہ کی قسم!ہم آپؐ سے یہ نہ کہیں گے جیسا کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا تھا کہ فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَااِنَّا هٰهُنَاقٰعِدُوْنَ پس جا تُو اور تیرا رب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگ آپؐ کے ساتھ مل کر قتال کریں گے جب تک ہم میں جان ہے۔ اللہ کی قسم! جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر مبعوث فرمایا ہے اگر آپؐ ہمیں برک الغماد بھی لے کر چلیں تو ہم آپؐ کے ہمراہ تلواروں سے لڑائی کرتے ہوئے چلتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ ہم وہاں پہنچ جائیں۔
سوال نمبر8: میدان بدر میں کونسے صحابی کی تجویز پر رسول للہﷺ کے لیے سائبان تیارکیا گیا؟
جواب: فرمایا: حضرت سعد بن معاذ رئیس اوس کی تجویز پر سائبان تیارکیا گیا۔
سوال نمبر9:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت ابوبکرؓ کی بہادری کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’حضرت علیؓ نے ایک دفعہ فرمایا کہ صحابہؓ میں سب سے زیادہ بہادر اور دلیر حضرت ابوبکرؓ تھےاور پھر انہوں نے کہا کہ جنگِ بدر میں جب رسول کریمﷺ کے لئے ایک علیحدہ چبوترہ بنایا گیا تو اس وقت سوال پیدا ہوا کہ آج رسول کریمﷺ کی حفاظت کا کام کس کے سپرد کیا جائے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ فوراً ننگی تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس انتہائی خطرہ کے موقع پر نہایت دلیری کے ساتھ آپؐ کی حفاظت کا فرض سرانجام دیا‘‘۔
سوال نمبر10: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بدر کے دن رسول اللہﷺ کی دعا کرنے کی کیفیت کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آنحضرتﷺ نہایت رقت کی حالت میں خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے دعائیں کررہے تھے اور نہایت اضطراب کی حالت میں فرماتے تھےکہ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَنْشُدُکَ عَھْدَکَ وَ وَعْدَکَ اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَةَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ۔ اے میرے خدا!اپنے وعدوں کو پورا کر۔ اے میرے مالک !اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج اس میدان میں ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ اوراس وقت آپؐ اس قدر کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپؐ سجدہ میں گرجاتے تھے اور کبھی کھڑے ہوکر خداکو پکارتے اور آپؐ کی چادر آپؐ کے کندھوں سے گر گر پڑتی تھی اورحضرت ابوبکرؓ اسے اٹھا اٹھا کر آپؐ پر ڈال دیتے تھے۔
سوال نمبر11: غزوہ بدرکے موقع پر تائیدات سماوی کاحضرت مصلح موعودؓ نےکن الفاظ میں ذکرفرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’بدر کے موقع پر آنحضرتﷺ سے جو ظہور میں آیا وہ بھی چشم بصیرت رکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لئے کافی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے دل میں اللہ تعالیٰ کا کس قدر خوف تھا۔ جنگِ بدر کے موقع پر جبکہ دشمن کے مقابلہ میں آپؐ اپنے جاں نثار بہادروں کو لے کر پڑے ہوئے تھے۔ تائیدِ الٰہی کے آثار ظاہر تھے۔ کفار نے اپنے قدم جمانے کے لئے پختہ زمین پر ڈیرے لگائے تھے اور مسلمانوں کے لئے ریت کی جگہ چھوڑی تھی لیکن خدا نے بارش بھیج کر کفار کے خیمہ گاہ میں کیچڑ ہی کیچڑ کر دیا اور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہو گئی۔ اسی طرح اور بھی تائیداتِ سماوی ظاہر ہو رہی تھیں لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کا خوف آنحضرتﷺ کے دل پر ایسا غالب تھا کہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غنا کو دیکھ کر گھبراتے تھے اور بےتاب ہو کر اس کے حضور میں دعا فرماتے تھے کہ مسلمانوں کو فتح دے۔ ‘‘
سوال نمبر12: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بدرکے بعد حضرت ابوبکرؓ اور ان کے بیٹے کی کیا گفتگو بیان کی؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ ایک دفعہ رسول کریمﷺ کے ساتھ کھانے میں شریک تھے کہ مختلف امور پر باتیں شروع ہو گئیں۔ حضرت عبدالرحمٰن جو حضرت ابوبکرؓ کے بڑے بیٹے تھے اور جو بعد میں مسلمان ہوئے بدر یا احد کی جنگ میں کفار کی طرف سے لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔ انہوں نے کھا نا کھاتے ہوئے باتوں باتوں میں کہا کہ ابا جان اس جنگ میں جب فلاں جگہ سے آپؓ گذرے تھے تو اس وقت میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا اور میں اگر چاہتا تو حملہ کر کے آپؓ کو ہلاک کر سکتا تھا۔ مگر میں نے کہا اپنے باپ کو کیا مارنا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ نے جواب دیا: خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لئے تُو بچ گیاورنہ خدا کی قسم! اگرمیں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا۔
سوال نمبر13: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کی بدرکے قیدیوں کے متعلق کیا رائے بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: عرب میں بالعموم قیدیوں کو قتل کردینے یامستقل طورپر غلام بنالینے کا دستور تھا مگر آنحضرتﷺ کی طبیعت پر یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی اور پھر ابھی تک اس بارہ میں کوئی الٰہی احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میری رائے میں تو ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ آخر یہ لوگ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور کیا تعجب کہ کل کوانہی میں سے فدایانِ اسلام پیدا ہو جائیں … آنحضرتﷺ نے اپنے فطری رحم سے متاثر ہو کر حضرت ابوبکرؓ کی رائے کوپسند فرمایا اور…حکم دیا کہ جو مشرکین اپنا فدیہ وغیرہ ادا کر دیں انہیں چھوڑ دیا جاوے۔ چنانچہ بعد میں اسی کے مطابق الٰہی حکم نازل ہوا۔
سوال نمبر14: غزوہ احدکب ہوا؟
جواب: فرمایا: یہ غزوہ شوال تین ہجری بمطابق 624ء میں مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان ہوا۔
سوال نمبر15: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ احد کے موقع پر صحابہ کی جاںنثاری کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نےلکھا ہے کہ’’جوصحابہ آنحضرتﷺ کے گرد جمع تھے انہوں نے جو جان نثاریاں دکھائیں تاریخ ان کی نظیر لانے سے عاجز ہے۔ یہ لوگ پروانوں کی طرح آپؐ کے ارد گرد گھومتے تھے اورآپؐ کی خاطراپنی جان پرکھیل رہے تھے۔ جووار بھی پڑتا تھا صحابہ اپنے اوپر لیتے تھے اورآنحضرتﷺ کو بچاتے تھے اورساتھ ہی دشمن پربھی وار کرتے جاتے تھے۔ حضرت علیؓ اور زبیرؓ نے بے تحاشا دشمن پر حملے کئے اور ان کی صفوں کو دھکیل دھکیل دیا۔ ابوطلحہ انصاریؓ نے تیر چلاتے چلاتے تین کمانیں توڑیں اوردشمن کے تیروں کے مقابل پرسینہ سپر ہو کر آنحضرتﷺ کے بدن کواپنی ڈھال سے چھپایا۔ سعد بن وقاصؓ کو آنحضرتﷺ خود تیرپکڑاتے جاتے تھے اور سعدؓ یہ تیر دشمن پربے تحاشا چلاتے جاتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ نے سعدؓ سے فرمایا۔ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ برابر تیر چلاتے جاؤ۔ سعدؓ اپنی آخری عمر تک آپؐ کے ان الفاظ کونہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔ اَبُودُجَانہؓ نے بڑی دیرتک آپؓ کے جسم کواپنے جسم سے چھپائے رکھا اورجو تیر یا پتھر آتا تھا اسے اپنے جسم پرلیتے تھے حتی کہ ان کا بدن تیروں سے چھلنی ہو گیا مگر انہوں نے اف تک نہیں کی تاایسا نہ ہوکہ ان کے بدن میں حرکت پیدا ہونے سے آنحضرتﷺ کے جسم کاکوئی حصہ ننگا ہو جاوے اور آپؐ کو کوئی تیر آ لگے۔ طلحہؓ نے آنحضرتﷺ کوبچانے کے لئے کئی واراپنے بدن پرلئے اور اسی کوشش میں ان کا ہاتھ شل ہو کر ہمیشہ کے لئے بیکار ہو گیا مگریہ چند گنتی کے جاں نثار اس سیلاب عظیم کے سامنے کب تک ٹھہر سکتے تھے جو ہر لحظہ مہیب موجوں کی طرح چاروں طرف سے بڑھتا چلاآتا تھا۔ دشمن کے ہرحملہ کی ہرلہر مسلمانوں کوکہیں کا کہیں بہا کرلے جاتی تھی مگرجب ذرا زور تھمتا تھا مسلمان بیچارے لڑتے بھڑتے پھر اپنے محبوب آقا کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔ بعض اوقات توایسا خطرناک حملہ ہوتا تھا کہ آنحضرتﷺ عملاً اکیلے رہ جاتے تھے۔ چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ آپؐ کے اردگرد صرف بارہ آدمی رہ گئے اور ایک وقت ایسا تھا کہ آپؐ کے ساتھ صرف دو آدمی ہی رہ گئے۔ ان جان نثاروں میں حضرت ابوبکرؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدؓ بن وقاصؓ، اَبُودُجَانہ انصاریؓ، سعد بن معاذؓ اور طلحہ انصاریؓ کے نام خاص طورپر مذکور ہوئے ہیں ‘‘۔
سوال نمبر16: غزوہ احد کے موقع پر ابوسفیان نے جب اُعلُ ھُبَل کا نعرہ لگایا تو آنحضورﷺ نے صحابہ کو کیاارشاد فرمایا؟
جواب: فرمایا: جب دامنِ کوہ میں بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (ﷺ )کو مار دیا۔ رسول اللہﷺ نے ابوسفیان کی بات کا جواب نہ دیاتا ایسا نہ ہو دشمن حقیقت حال سے واقف ہوکر حملہ کر دے اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں۔ جب اِسلامی لشکر سے اِس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابو سفیان کو یقین ہو گیا کہ اس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابوبکرؓ کو بھی مار دیا۔ رسول اللہﷺ نے ابوبکرؓ کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں۔ پھر ابو سفیان نے آواز دی ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا۔ تب عمرؓ جو بہت جوشیلے آدمی تھے انہوں نے اس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لیے تیار ہیں مگر رسول اللہﷺ نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو۔ اب کفار کو یقین ہو گیا کہ اِسلام کے بانی کو بھی اور ان کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے۔ اِس پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اُعْلُ ھُبَل۔ اُعْلُ ھُبَل۔ ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اس نے آج اِسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ وہی رسول کریمﷺ جو اپنی موت کے اعلان پر، ابوبکرؓ کی موت کے اعلان پر اور عمرؓ کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرما رہے تھے تا ایسا نہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفار کا لشکرلوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں مارا گیا تو آپؐ کی روح بےتاب ہوگئی اور آپؐ نے نہایت جوش سے صحابہؓ کی طر ف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہؐ ! ہم کیا کہیں؟ فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔ اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔ تم جھوٹ بولتے ہوکہ ہبل کی شان بلند ہوئی،یہ جھوٹ ہے تمہارا۔ اللہ وحدہ لاشرِیک ہی معزز ہے اور اس کی شان بالا ہے اوراس طرح آپؐ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچا دی۔
٭…٭…٭