متفرق مضامین

نظامِ شوریٰ (قسط نمبر2)

(’م م محمود‘)

از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مشورہ دیتے وقت کن امور کا خیال رکھنا چاہئے

’’(۱) ہمارا جمع ہونا کسی دنیاوی غرض اور فائدہ کیلئے نہیں۔ میں تو قادیان کا رہنے والا ہوں باہر سے نہیں آیا۔ آپ لوگوں میں سے بعض زمیندار ہیں جن کا فصلیں کاٹنے کا وقت ہے اُن کا اس وقت گھروں سے نکلنا معمولی بات نہیں مگر وہ کام چھوڑ کر آئے ہیں۔ بعض تاجر ہیں، بعض ملازم ہیں، اُن کو کئی دن کے بعد یہ چُھٹی ملی ہو گی، کئی اور کام انہوں نے کرنے ہونگے مگر اُنہوں نے سب کو قربان کر دیا۔ پس ہم خدا کیلئے جمع ہوئے ہیں اس لئے ہماری نظر خدا پر ہونی چاہئے۔ چونکہ ساری دنیا کا مقابلہ ہے اور اُن کا مقابلہ ہے جو تجربہ میں، انتظام میں، قدرت میں، اختیارمیں ہم سے زیادہ ہیں۔ ان کے پاس مال بھی ہے، اُن کے قبضہ میں فوج بھی ہے، حکومت بھی ہے، لیکن ہم جنہوں نے دنیا کو فتح کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے ہمارے پاس نہ قوت ہے، نہ مال ہے، نہ تجربہ ہے، نہ واقف کار لوگ ہیں۔ گویا ہم ہر بات میں ان سے کمزور ہیں اس لئے ہمارے مشورے تبھی مفید ہو سکتے ہیں کہ خدا پر نظر رکھیں۔ اس لئے پہلی نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ ہر شخص خدا کی طرف توجہ کرے اور دعا کرے کہ الٰہی! میں تیرے لئے آیا ہوں تو میری راہ نمائی کر کسی معاملہ میں میری نظر ذاتیات کی طرف نہ پڑے۔ نہ ایسا ہو کہ کوئی رائے غلط دوں اور اُس پر زور دوں کہ مانی جائے اور اس سے دین کو نقصان پہنچے۔ نہ ایسا ہوکہ کوئی ایسی رائے دے جو ہو تو غلط مگر اس کی چکنی باتوں یا طلاقتِ لسانی سے مَیں اس سے متفق ہو جاؤں۔ میں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ نہ ایسا ہو کہ مجھ میں نفسانیت آجائے یا اپنی شہرت و عزت کا خیال پیدا ہو۔ یا یہ کہ بڑائی کا خیال پیدا ہو۔ یا یہ کہ بڑائی کا خیال آجائے۔ نہ ایسا ہو کہ میری رائے غلط اورمُضرہو۔ نہ یہ ہو کہ میں کسی کی غلط رائے کی تائید کروں۔ میری نیّت درست رہے۔ میری رائے درست ہو اور تیری منشاء کے ماتحت ہو۔ یہ دعا ہر دوست کو کر لینی چاہئے اور ہمیشہ کرنی چاہئے جب بھی ہماری جماعت مشورہ کرنے لگے صرف آج کے لئے ہی نہیں۔

(۲)یہ کہ پہلی نصیحت دعا کے متعلق ہے مگر کوئی دعا قبولیت کا جامہ نہیں پہنتی جب تک اس کے ساتھ عمل نہ ہو۔ مثلاً انسان دعا تو کرے کہ اُسے خدمت دین کی توفیق ملے مگر عملاً ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اسے کیا توفیق ملے گی۔ تو دعا کے ساتھ عمل کی ضرورت ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ آج بھی اور کل بھی اور پھر جب کبھی مشورہ ہو ذاتی باتوں کو دل سے نکال دیا جائے۔ لوگوں نے بعض باتیں دل میں بٹھائی ہوتی ہیں کہ یہ منوائیں گے لیکن مشورہ کے یہ معنی نہیں کہ ایسی باتوں کو بیان کرو بلکہ یہ ہیں کہ اپنے دماغ کو صاف اور خالی کر کے بیٹھو اور صحیح بات بیان کرنی چاہئے۔ عام طور پر لوگ فیصلہ کر کے بیٹھتے ہیں کہ یہ بات منوانی ہے اور پھر اس کی پچ کرتے ہیں۔ مگر ہماری جماعت کو یہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ صحیح بات ماننی اور منوانی چاہئے۔

(۳) یہ کہ جب مشورہ کے لئے بیٹھیں تو مقدم نیت یہ کر لیں کہ جس کام کے لئے مشورہ کرنے لگے ہیں اس میں کس کی رائے مفید ہو سکتی ہے نہ یہ کہ میری رائے مانی جائے۔

(۴) یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ آج بھی اور آئندہ بھی ہر وقت جب مشورہ لیا جائے کسی کی خاطر رائے نہیں دینی چاہئے بعد میں بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ میری تو یہ رائے نہ تھی مگر فلاں دوست نے کہا تھا اس لئے دی تھی۔ روپیہ غبن کرنا اتنا خطرناک نہیں جتنی یہ بات خطرناک ہے مگر یہ ایسی آسان سمجھی جاتی ہے کہ بڑے بڑے مدبّر بھی اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہندوستان کی کونسل کا واقعہ ہے کہ ایک ممبر نے کہا میری یہ رائے نہ تھی مگر فلاں دوست نے چونکہ کہا تھا اس لئے میں نے اُس کی خاطر رائے دیدی۔ تعجب ہے اُس نے اس بات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھا۔ مگر یہ سخت بد دیانتی ہے ہماری جماعت کے لوگ اس سے بچیں اور کسی کی خاطر نہیں بلکہ جو رائے صحیح سمجھیں وہ دیں۔

(۵) کسی اور حکمت کے ماتحت رائے نہیں دینی چاہئے بلکہ یہ مدنظر ہو کہ جو سوال درپیش ہے اُس کے لئے کونسی بات مفید ہے۔ اس کی تشریح میں مثال دیتا ہوں مثلاً ایک سوال پیش ہے کہ فلاں کام جاری کیا جائے۔ بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ کام کو جاری کرنا تو مفید سمجھتے ہیں مگر یہ خیال کرکے کہ اگر جاری ہو گیا تو فلاں اس پر مقرر ہو گا اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ بددیانتی سے بھی کرتے ہیں اور کبھی اس شخص کو مناسب نہیں سمجھتے۔ مگر بجائے اس کے کہ اس کے تقرر کا جب سوال آئے تو اس وقت بحث کریں۔ یا اس طرح کہیں کہ اس کام کو جاری نہیں کرنا چاہئے کیونکہ فلاں کے سوا اور کوئی نہیں جسے اس کام پر لگایا جاوے اور وہ موزوں نہیں یہ کہتے ہیں یہ کام ہی مفید نہیں۔ چونکہ یہ بد دیانتی ہے اس لئے یہ نہیں ہونا چاہئے۔ یا اس طرح کہ ایک کمیشن مقرر کرنا ہے جس کے لئے فلاں کو مقرر کرنا ہے اس پر ان کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ کیا جائے مگر بحث یہ شروع کر دیتے ہیں کہ کمیشن قائم کرنا ہی ٹھیک نہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے اصل معاملہ میں صحیح رائے دینی چاہئے۔

(۶) جو سچی بات ہو اُسے تسلیم کرنے سے پرہیز نہیں کرنا چاہئے خواہ اسے کوئی پیش کرے۔ مثلاً ایک بات ایسا شخص پیش کرے جس سے کوئی اختلاف ہو مگر ہو سچی تو اگر کوئی اُس کو اس لئے چھوڑتا ہے کہ پیش کرنے والے سے اُس کی مخالفت ہے تو بددیانتی کرتا ہے۔

(۷) چاہئے کہ کوئی رائے قائم کرتے وقت جلد بازی سے کام نہ لے۔ کئی لوگ پہلے رائے قائم نہیں کرتے مگر فوراً بات سُن کر رائے ظاہر کرنے لگ جاتے ہیں۔ چاہئے کہ لوگوں کی باتیں سُنیں، ان کا موازنہ کریں اور پھر رائے پیش کریں۔ اور نہ ایسا ہو کہ دوسروں کی رائے پر اتکال کریں۔

ایک تو میں نے یہ کہا ہے کہ دوسرے کے لئے رائے نہ دی جائے اور ایک یہ کہ دوسرے کے کہنے پر رائے قائم نہ کی جائے۔ مثلاً ایک کہے فلاں کام میں خرابی ہے۔ دوسرا بغیر خرابی معلوم کئے یہ کہے کہ ہاں خرابی ہے۔ اسے خود اپنی جگہ تحقیقات کرنی چاہئے۔

(۸)کبھی اس بات کا دل میں یقین نہ رکھو کہ ہماری رائے مضبوط اور بے خطا ہے۔ بعض آدمی اس میں ٹھوکر کھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہماری رائے غلط نہیں ہو سکتی اور پھر حق سے دور ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ بچے بھی عجیب بات بیان کر دیتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں سے بھی مشورہ پوچھتے تھے۔ حدیبیہ کے وقت ہی جب لوگ غصے میں تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہؓ سے پوچھا کہ کیا کیا جائے؟ انہوں نے کہا آپ جا کر قربانی کریں اور کسی سے بات نہ کریں۔ آپ نے ایسا ہی کیا اور پھر سب لوگوں نے قربانیاں کر دیں تو اپنی کسی رائے پر اصرار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ بڑوں بڑوں سے رائے میں غلطی ہو جاتی ہے اور بعض اوقات معمولی آدمی کی رائے درست اور مفید ہوتی ہے۔ مجلس میں علم کی وسعت کے خیال سے بیٹھنا چاہئے۔ ہاں یہ بھی عیب ہے کہ انسان دوسرے کی ہر بات کو مانتا جائے۔ سچی اور علمی بات کو تسلیم کرو اور جہالت کی بات کو نہ مانو۔

(۹) ہمیشہ واقعات کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ احساسات کی پیروی نہ کرنی چاہئے۔ کئی لوگ احساسات کو اُبھار دیتے ہیں ا ور پھر لوگ واقعات کو مدنظر نہیں رکھتے۔ میں نے بھی ایک دفعہ احساسات سے فائدہ اٹھایا ہے مگر ساتھ دلائل بھی پیش کئے تھے۔

ایک مجلس اس بات کے لئے ہوئی تھی کہ مدرسہ احمدیہ کو اُڑا دیا جائے۔ مجلس میں جب قریباً سب اس بات کی تائید کرنے لگے تو میں نے تقریر کی اور اس میں اس قسم کے دلائل بھی دئیے کہ اگر ہم میں علماء نہ ہوئے تو ہم فتویٰ کس سے لیں گے کیا ادھر غیروں کو ہم کافر کہیں گے اور ادھر ان سے فتویٰ لیں گے۔ اس کے ساتھ ہی جذبات سے بھی اپیل کی کہ حضرت صاحبؑ کی یادگار میں یہ مدرسہ قائم کیا گیا ہے۔ اب لوگ کیا کہیں گے کہ آپ کی وفات پر پہلا جلسہ جو ہوا اس میں اس یادگار کو اُڑا دیا گیا!!میری تقریر کے بعد سب نے کہہ دیا نہیں مدرسہ بند نہیں ہونا چاہئے۔ حتیٰ کہ خواجہ صاحب نے جو بند کرنے کی تحریک کرنے والے تھے اُنہوں نے بھی کہا کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ تو احساسات کو تائیدی طور پر پیش کرنا اور ان سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے مگر محض ان کے پیچھے پڑنا یا ان کو اُبھار کر رائے بدلنا خیانت ہے۔ اگر کوئی یہ جانتا ہو کہ اُس کے دلائل کمزور ہیں اور پھر وہ جذبات کو اُبھارے تو وہ بد دیانت ہے۔ اور اگر کوئی یہ جانتا ہؤا کہ دلائل غلط ہیں مگر احساسات کے پیچھے لگ کر رائے دیدے تو وہ بھی بد دیانت ہے۔

(۱۰) دو قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جن میں دینی فائدہ زیادہ ہوتا ہے اور دُنیوی کم۔ دوسری وہ جن میں دُنیوی فائدہ زیادہ ہوتا ہے اور دینی کم۔ چونکہ ہم دینی جماعت ہیں اس لئے ہمیں اس بات کے حق میں رائے دینی چاہئے جس میں دینی فائدہ زیادہ ہو۔

(۱۱) ہمیشہ یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہماری تجاویز نہ صرف غلط نہ ہوں بلکہ یہ بھی مدنظر رہے کہ جن کے مقابلہ میں ہم کھڑے ہیں ان کی تجاویز سے بڑھ کر اور مؤثر ہوں اور ہمارا کام ایسا ہونا چاہئے کہ دشمن کے کام سے مضبوط ہو۔ مثلاً اگر ایسی جگہ ایک مکان بناتے ہیں جہاں پانی کی رَو نہیں آتی۔ وہ اگر زیادہ مضبوط نہیں تو خیر لیکن جہاں زور کی رَو آتی ہو وہاں اگر مضبوط نہیں بنائیں گے تو غلطی ہو گی۔ پس ہماری مجلس شوریٰ میں یہی نہیں ہونا چاہئے کہ اس میں غلطی نہ ہو بلکہ یہ بھی ہو کہ ایسی اعلیٰ اور زبردست تجاویز ہوں جو دشمن کا مقابلہ کر سکیں۔ پھر ایک تو یہ بات ہے کہ دشمنوں کے مقابلہ سے ہماری کوششیں اور تجاویز اعلیٰ ہوں۔ دوسری یہ کہ ہماری تجاویز ہماری پچھلی تجاویز سے اعلیٰ ہوں۔ ان دونوں باتوں کو بھولنے سے قومیں تنزّل میں پڑ جاتی ہیں۔ ان میں سے اگر ایک کو چھوڑ یں تو بھی تنزّل شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک وقت آسکتا ہے جبکہ دشمن نہایت کمزور اور ذلیل ہو جائے جیسا کہ مسلمانوں کے لئے آیا تھا۔ اسی طرح جب ہمارے لئے وقت آیا تو اُس وقت اگر ہماری کوششیں اپنی پچھلی کوششوں سے کم رہیں تو ضرور نقصان ہو گا۔ ایک وقت مسلمان کمزور تھے مگر ایک وقت وہ آیا کہ ان کے دشمن ذلیل ہو گئے اور مسلمان طاقتور ہو گئے اُس وقت مسلمانوں کی طاقت عیسائیوں سے بہت زیادہ تھی مگر اس وقت اس لئے تنزّل میں گر گئے کہ ان کے لشکر کم تھے۔ تو اپنی طاقت کو ہر وقت بڑھانا چاہئے ورنہ نقصان ہوتا ہے مثلاً دشمن کھڑا ہو اور ہم چل رہے ہوں تو اس سے آگے ہوں گے اور اگر دشمن دَوڑ کر آئے اور ہم ذرا تیز قدم کر لیں تو وہ آگے نکل جائے گا۔ اس وقت ہمیں دشمن سے بھی زیادہ تیز دوڑنے کی ضرورت ہو گی۔ تو ہمیں جہاں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہماری تجاویز دشمن کی تجاویز سے اعلیٰ ہوں وہاں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہماری پہلی تجاویز سے بھی اعلیٰ ہوں جب یہ دونوں باتیں مدنظر رہیں تو سوائے اس کے کہ خدا کا غضب بھڑکا دیا جائے دنیاوی لحاظ سے کوئی قوم تباہ نہیں ہو سکتی۔ ان دونوں باتوں کا مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

(۱۲) رائے دیتے وقت یہ بات دیکھ لینی چاہئے کہ جو بات پیش ہے وہ واقعہ میں مفید ہے یا مُضر، مقابلہ میں آکر کسی معمولی سی بات پر بحث شروع ہو جاتی ہے حالانکہ اس کا اصل بات کےمُضریا مفید ہونے سے تعلق نہیں ہوتا۔ پس فروعی باتوں پر بحث نہ شروع کرنی چاہئے بلکہ واقعہ کو دیکھنا چاہئے کہ مفید ہے یامُضر۔

(۱۳) سوائے کسی خاص بات کے یونہی دُہرانے کے لئے کوئی کھڑا نہ ہو۔ ضروری نہیں کہ ہر شخص بولے ہاں اگر نئی تجویز ہو تو پیش کرے۔

(۱۴) چاہئے کہ ہر ایک اپنا وقت بھی بچائے اور دوسروں کا بھی وقت ضائع نہ کرے۔

(خطاب15؍اپریل 1922ءخطابات شوریٰ جلد اول صفحہ6تا12)

٭…٭(جاری ہے)٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button