حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نومبائعین جماعت احمدیہ برطانیہ کی (آن لائن) ملاقات

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے12؍فروری 2022ء کوبرطانیہ میں رہائش پذیر نو مبائعین سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ 65سے زائد نومبائعین خواتین وحضرات نے بیت الفتوح لندن سے شرکت کی۔

اس ملاقات کے دوران کچھ نو مبائعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے اور جماعت میں شامل ہونے کے واقعات بیان کیے۔ایک نو مبائع نے بتایا کہ میرا نام زبیرظفر ہے اور میں بیالیس سال کا ہوں۔ شادی شدہ ہوں اور میرے تین بچے ہیں۔ نوجوانی کے ایام میں مجھے مذہب اسلام سے بہت محبت تھی۔ میں یہ بات ہمیشہ جانتا تھا کہ اسلام سچا مذہب ہے۔ مگر افسوس کہ ان نوجوانی کے سالوں میں میری سوچ بہت متذبذب تھی۔ سنّی مسلمانوں کے درمیان انتشار کو دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا تھا۔ میں ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہوگا کہ امت مسلمہ دوبارہ اکٹھی ہو جائے۔ ان ایام میں نہ ہی میں کسی احمدی کو جانتا تھا اور نہ کبھی احمدیت کے بارے میں سوائے ان عمومی اعتراضات کے جو جماعت پر کیے جاتے ہیں ، کچھ سنا تھا۔ جو کچھ میں نے احمدیت کے بارے میں سنا اور جس طرح سے میرے سامنے یہ باتیں پیش کی گئیں اس سے مجھے یہ لگتا تھا کہ احمدیت سچی نہیں ہے۔ مجھے ہمیشہ مباحثہ میں حضرت عیسیٰ کا، صلیب کا واقعہ پریشان کر دیتا تھا۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس میں عیسائیوں کو مسلمانوں پر برتری حاصل ہے۔ یہ بات مجھے بہت پریشان کرتی تھی کہ مسلمانوں کے عقائد اس حوالہ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ اور ان کے دلائل کی بنیاد کسی تاریخی حوالے پر نہیں تھی۔ جب میں نے ان تمام سوالات کا جواب تلاش کرنا شروع کیا تو میں نے مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اور اسی تلاش میں مجھے الاسلام ویب سائٹ پر ایک مضمون ملا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کشمیر کے گمشدہ قبائل کے متعلق تھا۔ اس وقت مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ میں ایک احمدیہ ویب سائٹ پر ہوں۔ اس مضمون نے میری آنکھیں کھول دیں اور مجھے مزید علم حاصل کرنے کا تجسس پیدا ہوا۔ اس میں کتاب ’مسیح ہندوستان میں‘کا لنک تھا۔ میں نے یہ کتاب کھولی اور اس کو پڑھنا شروع کردیا بغیر اس بات کو دیکھے کہ کتاب کے مصنف کون ہیں۔ سبحان اللہ! اس کتاب کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔ مجھے ایسا لگا کہ میرے تمام سوالات کے جوابات مجھے مل رہےہیں۔ جب میں اس کتاب کے آخر پر پہنچا اور دیکھا کہ مصنف کون ہیں اور ان کا کیا دعویٰ ہے تو میں بہت پریشان ہوا۔ لیکن میں اس کتاب کے اثر کو نہیں بھول سکتا تھا جو میں نے اس میں پڑھا تھا۔ اس کتاب نے مجھے میرے بہت سے ایسے سوالوں کا جواب دیا جنہوں نے مجھے ایک لمبے عرصہ سے پریشان کیاہو ا تھا۔ اس کتاب سے مجھے اس بات کا بھی پتہ چلا کہ کسر صلیب کے حقیقی معنی کیا ہیں۔ جو کہ آنحضورﷺ کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود کا کام تھا۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو مسلسل پڑھتا رہا اور مجھے آپؑ کی تحریرات سے محبت ہو گئی اور مجھے آپؑ کے دعاوی کے بارے میں یقین ہوگیا۔ اس عرصہ کے دوران میں نے یہ بھی دیکھا کہ جب بھی میرے ذہن میں کوئی سوال آتا تو آپؑ کی تحریرات میں مجھے اس کا جامع جواب مل جاتا۔ میں نے اس وبا میں ایک پورا سال پڑھنے اور دعا کرنے میں لگایا ہے۔ اب اگر میں ایک نظر دوڑاؤں تو میں یہ بات بڑی آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ میں سچائی کو فوراً پہچان گیا تھا۔ لیکن میں سچائی کو قبول کرنے میں خود ہی تاخیر کر رہا تھا۔ میں بہت شکر گزار ہوں کہ میں اس جماعت میں شامل ہوں۔

حضور انور نے فرمایا :جزاک اللہ، ماشاء اللہ۔ بہت ایمان افروز ہے۔

ایک نو مبائعہ نے بتایا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو امام مہدی ماننے سے قبل مجھے تین خوابیں آئی تھیں جن میں یہ اشارہ تھا کہ احمدیت سچی ہے۔ میں نے اپنے اردگرد لوگوں سے، اپنے دوستوں سے جو کہ غیر احمدی ہیں، جماعت کے بارے میں پوچھنا شروع کیا کیونکہ میں بہت متذبذب تھی، گو کہ مجھے خوابیں بھی آئی تھیں۔ مجھے لگا کہ میں سچائی کو قبول نہ کرکے نادانی کر رہی ہوں۔ میرے دوستوں نے مجھے کہا کہ احمدیت کے بارے میں نہ پڑھو کیونکہ وہ تم پر جادو کر دیں گے۔ اس بات نے مجھے کبھی نہیں روکا بلکہ مجھے اَور دلچسپی پیدا ہوئی۔ اور میں نے الاسلام کی ویب سائٹ پر جا کر اور کتابیں پڑھنا شروع کردیں۔ اور ساتھ روزانہ تہجد کے لیے اٹھنے لگی۔ میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میری ہدایت فرمائے اور کوئی نشان دکھائے۔ اور اس موقع پر مجھے ایک تیسری خواب آئی۔ اس خواب میں مَیںنے دیکھا کہ میں نے آپ کا ہاتھ پکڑا ہو اہے۔ اورمیں بیعت کر رہی ہوں اور میں نے لڑکیوں کی ایک قطار دیکھی جنہوں نے کالے رنگ کے حجاب پہنے ہوئے تھے۔ وہ سب آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہی تھیں اور مجھے یقین ہوگیا کہ احمدیت سچی ہے۔

حضورِانور نے فرمایا: ماشاء اللہ۔

ایک دوست نے ذاتی مشکلات میں صبر اور حوصلہ پیدا کرنے کے حوالہ سے راہنمائی طلب کی۔

حضورِانور نے فرمایا کہ جب کبھی بھی آپ پریشان ہوں یا غمگین ہوں تو اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ اگر کبھی نماز کا وقت نہ بھی ہو تو نوافل میں اللہ کے سامنے روئیں کہ وہ آپ کو اس کیفیت سے باہر نکالے اور آپ کے دل کو سکون اور راحت عطا فرمائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ جس کا مطلب ہے کہ دل کے اطمینان اور سکون کے لیے تمہیں اللہ کو یاد کرنا چاہیے۔ تو اب یہی واحد حل ہے اور ساتھ ساتھ آپ کو ایسے دوست بھی بنانے چاہئیں جو آپ کے لیے مدد گا ر ہوں۔

ایک نومبائعہ نے سوال کیا کہ عورتوں کے لیے پردے کے احکامات اسلام میں موجود ہیں لیکن اس حوالے سے مردوں کے لیے کیا حکم ہے؟ اور ہم اسے غیر مسلم پر کس طرح سے واضح کر سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں جہاں عورتوں کوحکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی کرو اور اپنے چہروں کو چھپاؤ اس سے پہلے مردوں کو حکم ہے، اس سے پہلی آیت میں کہ اپنی نظریں نیچی کرو اور عورتوں کو پٹر پٹر نہ دیکھا کرو۔ جو مرد کی فطرت ہے وہ ایسی ہے اور اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے حکم دیا مرد کو کہ عورتوںکو نہ دیکھو، نظریں نیچی رکھو۔ اور ایک حقیقی اسلامی معاشرے میں یہ ہوتا ہے۔ جب اخلاق بگڑ جائیں، جب دینی قدریں نہ ہوں، جب انسان دین سے دور ہو جائے، دنیا دار بن جائے تو پھر صرف دنیاوی چیزیں، دنیاوی خواہشات رہ جاتی ہیں تو اس لیے اسلام عورت کو تو بچانے کے لیے کہتا ہے کہ مرد کی جو فطرت ہے اس نے تو باز نہیں آنا باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نظریں نیچی کرو اور عورتوں کونہ دیکھو۔ اس کے باوجود اس نے ایسی حرکتیںکرنی ہیں ۔ اس لیے قرآن شریف میں بھی لکھا ہے کہ مردوں سے بات کرتے ہوئے تمہارے لہجے میں ذرا تھوڑی سی سختی ہونی چاہیے تاکہ کوئی تمہاری نرم آواز سے غلط مطلب نہ لے لے۔ تو یہ جوانسانی فطرت بنائی ہوئی ہے اس کے تقاضے کے تحت احکامات ہیں اور عورت کو پروٹیکشن دینے کے لیے پردے کا حکم ہے نہ کہ عورت پہ ظلم کرنے کے لیے۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے اگر تم مردوں کی اصلاح کر لو اور ضمانت دے دو کہ مردوں کی اصلاح ہو گئی ہے تو پھر میں تمہیں کہوں گا کہ ہاں عورتوںکے پردے میں بھی relaxation ہونی چاہیے لیکن مرد کی چونکہ اصلاح نہیں ہوتی، جب آدم کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کا مقام دیا اس وقت شیطان نے جب انکار کیا، ابلیس نے جب انکار کیا اور پھر یہ کہا اللہ تعالیٰ کو مجھے مہلت دے کہ میں پیچھے چلانے کی کوشش کروں۔ اللہ نے کہا ٹھیک ہے میں تمہیں مہلت دیتا ہوں اور جو لوگ میرے صحیح بندے ہیں، جو حقیقی بندے ہیں، جو میرے حکموں پر چلنے والے ہیں وہ تمہارے پیچھے نہیں چلیں گے لیکن پھر بھی شیطان نے یہی چیلنج دیا تھا کہ اکثریت میرے پیچھے ہی چلے گی اور یہی ہم دیکھ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اکثریت تمہارے پیچھے نہیں چلے گی بلکہ یہی ہم دیکھتے ہیں کہ اکثریت شیطانوں کے پیچھے ہی چلتی ہے۔ شیطانی خیالات ہی رکھتے ہیں۔ نیک لوگ کم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے کم ہوتے ہیں۔ اس لیے جو مومن عورتیں ہیں ان کو یہی حکم ہے کہ تمہیں خود ہی اپنے آپ کو بچانا چاہیے اس لیے بہتر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے مردوں سے ایک فاصلہ رکھو اور کھلے طور پر ظاہر نہ ہو، کھلے طور پر merge نہ ہو اور جب بات کرو تو تب بھی ایسے لہجے میں بات کرو کہ کوئی تمہاری بات سے غلط میسج نہ لے لے۔ تو نیکی کرنے کے اور پردہ کرنے کے حکم تو دونوں کو ہیں۔

شاملین میں سے ایک نومبائعہ نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہزار سال کا ہے۔ ایک سو سال گزر گئے ہیں نو سو سال رہتے ہیں تو اس کے بعد definitely قیامت آئے گی ؟

حضور انورنے فرمایا کہ ہاں۔ سارے سال اگر ملاؤ تو یہی ہے کہ اس کے بعد قیامت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ بھی وعدہ ہے کہ تمہارے سے جو میں نے پیشگوئیاں کی ہوئی ہیں جو تمہارے سے وعدے کیے ہوئے ہیں وہ پورے کروں گا ،وہ پورے ہوں گے ان شاء اللہ تعالیٰ اور اس کو دنیا دیکھے گی۔ ابھی تو ان میں سے بہت سارے وعدے پورے ہونے باقی ہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی جب عیسائیت پھیلی تھی اس کو تین سو سال سے زائد عرصہ لگا تھا لیکن آپ نے فرمایا کہ تین سو سال نہیں گزریں گے کہ اس سے پہلے تم دیکھ لو گے کہ اسلام احمدیت کی اکثریت دنیا میں قائم ہو گئی ہے تو اس کے بعد ساری باتیں ہونی ہیں۔ ابھی تو بہت ساری پیشگوئیاں پوری ہونے والی ہیں، بہت ساری باتیں ہونے والی ہیں اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن تھا وہ پورا ہو گیا۔ ابھی مشن پورا ہونا ہے اور جب تک یہ پورا نہیں ہوتا اس وقت تک ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی ترقی ہے اور اس نے دنیا پہ غلبہ پانا ہے اور پھر اسلام احمدیت کا غلبہ ہونا ہے اس کے بعد پھر قیامت کے نظارے آنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس وقت پھر برائیاں زیادہ پھیل جائیں گی۔ وہ تو ایک بہت آگے کی بات ہے، ہمارے زمانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس کی فکر نہ کرو۔

شاملین میں سے ایک نے سوال کیا کہ احمدی مسلمانوں اور غیر احمدی مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ آپ احمدیت کے لٹریچر کا مطالعہ کریں خاص طور پر ’Invitation to Ahmadiyyat‘ پڑھیں، جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تصنیف ہے۔ حضورِ انور نے مزید وضاحت فرمائی کہ جیساکہ دیگر مسلمان حضرت مسیح موعودؑ اور امام مہدی کے انتظار میں ہیں، احمدی مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب بطور مسیح موعود اور امام مہدی تشریف لا چکے ہیں۔

آپؑ کے آنے کی نشانیوں کے متعلق تفصیل سے آگاہ فرماتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق گرہن ہوئے جو مہدی کے نشان کے طور پر بیان کیے گئے تھے۔ حضور انور نے مزید فرمایا کہ حضرت مرزا غلا م احمد صاحب کی زندگی میں پیشگوئیوں کے عین مطابق یہ گرہن 1894ء اور 1895ء میں ظاہر ہوئے۔

دیگر نشانات کے متعلق حضور انور نے فرمایا کہ چند دیگر نشانات بھی ہیں کہ ایسے ذرائع نقل و حمل جو آنحضرتﷺ کے وقت میں استعمال ہوتے تھے، انہیں ترک کردیا جائے گا۔ آج کے دور میں لوگ اونٹ اور گھوڑے اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ اس کی بجائے گاڑیوں، ٹرینوں، جہازوں اور بحری جہازوں پر سفر کیے جاتے ہیں، بنیادی بات یہ ہے کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کے آخری دنوں میں جس وجود نے تجدید کے لیے آنا تھا تاکہ مسلمانوں کے ایمان کو مضبوط کرے اور ان کی تجدید کرے وہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے وجود میں آچکا ہے۔ لیکن غیر احمدی آپ کو قبول نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی جس زمانہ کے متعلق تھی یعنی 14ویں صدی میں ، وہ گزر چکاہے۔ اور اس زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے دعویٰ بھی کیا اور پیشگوئیاں بھی من و عن پوری ہوئیں۔

ایک اور نو مبائع نے سوال کیا کہ نو مبائعین کے لیے کیا ہدایت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے قریبی تعلق کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ انہیں سب سے پہلے سورۃ الفاتحہ کے الفاظ سیکھنے چاہئیں، جو قرآن کریم کی پہلی سورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سورۃ الفاتحہ کو عربی میں سیکھنے کی کوشش کریں اورپھر اس کا ترجمہ بھی سیکھیں۔ پھر آپ کو پانچ وقت نماز ادا کرنی چاہیے اور اگر ممکن ہوسکے تو با جماعت ادا کریں۔ اس کے علاوہ آپ نوافل ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو مضبوط ایمان سے نوازے۔ اس حوالہ سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ کبھی کوئی نماز نہ چھوڑیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ پانچ وقت نماز ادا کرنا فرض ہے۔ نہایت باقاعدگی سے نمازیں ادا کریں اور سجدوں کے دوران رو ر و کر اللہ سے مدد مانگیں۔ پھر چند ماہ میں آپ اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کریں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button