خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 4؍مارچ 2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭…حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی تین خوبیوں کا حوالہ دےکر اُن کی بیعت کی تو ساری قوم نے بھی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی

٭… حضرت ابوبکرؓ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سےوہ مقام ملا کہ ساری دنیا اُن کا ادب و احترام کے ساتھ نام لیتی ہے

٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آیت استخلاف سے سلسلہ خلافتِ موسویہ اور سلسلہ خلافت محمدیہ میں مماثلت ثابت ہے

٭… دنیا کے فکرانگیز حالات کے پیشِ نظر درود شریف کے ورد، استغفار کرنے اور بعض دعائیں کرنے کی تحریک

٭… مکرم ابوالفرج الحسنی صاحب آف شام کی وفات پر ان کا ذکر ِخیراور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 4؍مارچ 2022ء بمطابق 04؍امان 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 4؍مارچ 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

تاریخ طبری میں پہلے خلیفۂ راشد کے انتخاب کے موقع پر حضرت حباب بن منذرؓکی رائے تھی کہ چونکہ مہاجرینِ قریش انصار کے زیر سایہ ہیں اس لیے اس معاملہ میں انصار کا یہ فیصلہ تسلیم کیا جائے کہ ایک امیر انصار میں سے اور ایک امیر مہاجرینِ قریش میں سےہو جبکہ حضرت بشیر بن سعدؓ کی رائے تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم قریش امارت کی زیادہ مستحق اور اہل ہے لیکن سنن کبریٰ للنسائی میں ہے کہ اس موقع پرحضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں ہوسکتیں نیز انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑ کر اُن کی تین خوبیوں کا حوالہ دیا کہ اِذْ ھُمَا فِیْ الْغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا یعنی اور جب وہ دونوں غار میں تھے تو وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔تو اس موقع پر غار میں کون دو اشخاص تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی کون تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اَور کس کے ساتھ تھے؟ یہ کہہ کر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی تو ساری قوم نے بھی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی۔ یہ بیعت سقیفہ اور بیعت خاصہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔

حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ بیعت کے دوسرے دن حضرت عمرؓ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اے لوگو! میں نے کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے لیکن میں نے اس کا ذکر کتاب اللہ میں کہیں نہیں پایا اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی وصیت فرمائی تھی لیکن میں سمجھتا تھا کہ ہم پہلے فوت ہو جائیں گےاور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے آخری ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملات کو ایک ایسے آدمی کے ہاتھوں میں دے دیا ہے جو تم میں سب سے زیادہ بہتر ہیں اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں۔ اور ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ کے مصداق ہیں۔ پس اٹھو اور اُس کی بیعت کرو۔ پس لوگوں نے بیعت سقیفہ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی۔

حضرت ابوبکرؓ نے بیعت عام والے دن ایک خطبہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! یقینا ًمیں تم پر والی مقرر کیا گیا ہوں لیکن میں تم میں سے سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں تو میرے ساتھ تعاون کرو اور کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ اگر میں اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر میں نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں۔

حضرت علیؓ کی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرنے کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے یا دوسرے دن حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی۔حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو کبھی نہیں چھوڑا اور نہ ہی حضرت ابوبکرؓکے پیچھے نماز کی ادائیگی انہوں نے ترک کی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے اوّل اوّل حضرت ابوبکرؓ کی بیعت سے بھی تخلّف کیا تھا مگر پھرخدا جانے ایک دفعہ کیا خیال آیا کہ پگڑی بھی نہ باندھی اور فوراً ٹوپی سے ہی بیعت کرنے آ گئے اور پگڑی پیچھے منگوائی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے دل میں خیال آگیا ہو گا کہ یہ تو بڑی معصیت ہے اسی واسطے اتنی جلدی کی۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ مکہ کے ایک معمولی تاجر تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے آپؓ کو وہ مقام ملا کہ آج ساری دنیا اُن کا ادب و احترام کے ساتھ نام لیتی ہے۔آپؓ کے والد کو کسی نے جا کر خبر دی کہ مبارک ہو ابوبکرؓ خلیفہ ہو گیا ہے۔پہلے تو اُن کو یقین نہ آیا لیکن جب اُن کو یقین دلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ اکبر! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی کیا شان ہے کہ ابوقحافہ کے بیٹے کو عربوں نے اپنا سردار مان لیا۔ حضرت خلیفة المسیح الاوّل فرماتے ہیں کہ یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کا احسان اپنے ذمہ نہیں رکھتا۔ وہ اُس سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ دے دیتا ہے جس قدر کوئی خدا کے لیے دیتا ہے۔ ابوبکرؓنے مکہ میں ایک معمولی کوٹھا چھوڑا تھا لیکن خدا تعالیٰ نےاُس کے بدلے میں اُسے ایک سلطنت کا مالک بنا دیا۔

حضرت ابوبکرؓ نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ اُن کے جسم پر ایک یمنی چادر کا جوڑا ہے لیکن اُس کے سینے پر دو داغ ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب سے متعلق فرمایا۔ یمنی جوڑے سے مراد یہ ہے کہ تمہیں اچھی اولاد ملے گی اور دو داغوں سے مراد دو سال کی امارت ہے یعنی تم دو سال مسلمانوں کے حاکم رہو گے۔

انتخابِ خلافت کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے ذاتی مصارف کے لیے سالانہ چھ ہزار درہم کا وظیفہ منظور کیا گیا لیکن جب حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو حکم دیا کہ جو وظیفہ میں نے بیت المال سے لیا ہے وہ سارے کا سارا واپس کر دیا جائے اور اُس کی ادائیگی کے لیے میری فلاں فلاں زمین بیچ دی جائے۔چنانچہ جب حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے اور وہ رقم اُن کے پاس پہنچی تو وہ رو پڑے اور کہا اے ابوبکرصدیقؓ تم نے اپنے جانشین پر بہت بھاری بوجھ ڈال دیا ہے۔

چاروں خلفائے راشدین میں سے حضرت ابوبکرؓ کا سوا دو سال کا مختصر دور خلافت ایک سنہری دور کہلانے کا مستحق تھا کیونکہ حضرت ابوبکرؓ کو سب سے زیادہ خطرات ومصائب کاسامنا کرنا پڑالیکن خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کی بدولت حضرت ابوبکرؓ کی کمال شجاعت،جوانمردی اور فہم و فراست سے تھوڑے ہی عرصہ میں دہشت و خطرات کے سارے بادل چھٹ گئے اور سارے خوف امن میں تبدیل ہو گئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابوبکرؓ کو حضرت موسیٰؑ کے پہلے خلیفہ حضرت یوشع بن نون کے ساتھ مشابہت دیتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کو پیش آنے والے مسائل و مصائب اور فتوحات و کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ کی آیت سے سلسلہ خلافتِ موسویہ اور سلسلہ خلافت محمدیہ میں مماثلت ثابت ہے۔ مماثلت کی پہلی بنیاد ڈالنے والا حضرت ابو بکرؓ اور مماثلت کا آخری نمونہ ظاہر کرنے والا مسیح خا تم الخلفاء یعنی محمدیہ سلسلۂ خلا فت کا سب سے آخری خلیفہ ہے۔ خدا نے یشوع بن نون اور حضرت ابوبکرؓ کی مشابہت کو دونوں خلافتوں کے اوّل سلسلہ میں اور حضرت عیسیٰ بن مریم اور اِس امت کے مسیح موعودؑ کی مشابہت کو دونوں خلافتوں کے آخری سلسلہ میں اجلیٰ بدیہیات کرکے دکھلا دیا۔جس طرح بنی اسرائیل حضرت موسیٰؑ کی وفات کے بعد یوشع بن نون کی باتوں کے شنوا ہو گئے تھے اور سب نے اپنی اطاعت ظاہر کی یہی واقعہ حضرت ابوبکرؓ کو پیش آیا اور سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں آنسو بہا کر دلی رغبت سے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کو قبول کر لیا۔

آیتِ استخلاف کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ خدانے مومنوں کو جو نیکو کار ہیں وعدہ دے رکھا ہے کہ اسی سلسلہ خلافت کی مانند سلسلہ قائم کرے گا جو حضرت موسیٰؑ کے بعد قائم کیا تھااور دین اسلام کو زمین پر جمادے گا اور اس کی جڑ لگا دے گا اور خوف کی حالت کو امن کی حالت کے ساتھ بدل دے گا۔ اس آیت میں صاف طور پر فرما دیا ہے کہ خوف کا زمانہ بھی آئے گا اور امن جاتا رہے گا مگر خدا اس خوف کے زمانہ کو پھر امن کے ساتھ بدل دے گا۔ سو یہی خوف یشوع بن نون کو بھی پیش آیا تھا اور جیسا کہ اس کو خدا کے کلام سے تسلی دی گئی ایسا ہی حضرت ابوبکرؓ کو بھی خدا کے کلام سے تسلی دی گئی۔

حضورِ انور نے دنیا کے موجودہ خوفناک حالات کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ اب تو ایٹمی جنگ کی بھی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔ پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ اس کے نتائج اگلی نسلوں کو بھی بھگتنے پڑیں گے۔اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان لوگوں کو عقل دے۔ اِن دنوں میں درود بھی بہت پڑھیں استغفار بھی بہت کریں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک وقت میں جماعت کو خاص طور پر تلقین فرمائی تھی کہ رکوع کے بعد کھڑے ہو کے رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ کی دعا کیا کریں تو اس کو بھی آج کل بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ حسنات سے بھی نوازے اور ہر قسم کے آگ کے عذاب سے سب کو بچائے۔(آمین)

حضورِانور نے آخر میں مکرم ابوالفرج الحسنی صاحب آف شام کی وفات پر ان کا ذکر خیرکرتےہوئے ان کی جماعتی خدمات کا بھی تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان کا نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button