الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

مکرم ظہور احمد کیانی صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍اگست 2013ء میں مکرم ظہور احمد کیانی صاحب کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے جنہیں اورنگی ٹاؤن کراچی میں 21؍ اگست کو شہید کر دیا گیا۔

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں شہید مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ظہور صاحب 21؍اگست 2013ء کو اپنے کسی دوست کے ساتھ سوا گیارہ بجے گاڑی چیک کرنے کے لیے گئے۔ گاڑی کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔ جب آپ باہر آئے تو اسی اثناء میں آپ کے ایک غیرازجماعت پڑوسی نورالحق صاحب بھی باہر آ گئے اور یہ تینوں گاڑی دیکھنے چلے گئے۔ یہ تینوں جب کار چیک کر کے واپس آرہے تھے تو ایک موٹرسائیکل پر دو حملہ آور آئے جن میں سے ایک نے موٹرسائیکل سے اتر کر ظہور صاحب پر اندھادھند فائرنگ شروع کر دی جس پر نور الحق صاحب نے حملہ آور کے ہاتھ پر جھپٹا مارا جس پر حملہ آور کے ساتھی نے اُن پر بھی فائرنگ کردی اور فرار ہو گئے۔ ظہور صاحب کی بیٹی نے جب فائرنگ کی آواز سنی تو اُس نے اوپر کھڑکی سے دیکھاکہ دو موٹرسائیکل سوار اس طرح فائر کر کے دوڑے جا رہے ہیں۔ وہ چائے پی رہی تھی۔ کھڑکی پر کھڑی تھی۔ اُس نے چائے کا کپ حملہ آوروں پر پھینکا تو اُس پر بھی انہوں نے فائرنگ کی۔ گھر کی کھڑکی پر بھی فائر آکے لگے۔ لیکن بہرحال بچی بچ گئی۔ ظہور صاحب تو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ شہادت کے وقت مرحوم کی عمر47سال تھی۔ اور ان کے غیرازجماعت پڑوسی نورالحق صاحب بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے۔

ظہور صاحب شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے چچا یوسف کیانی صاحب اور مکرم محمد سعید کیانی صاحب کے ذریعہ سے ہوا تھا۔ آپ دونوں کو 1936ء میں بیعت کرنے کی توفیق ملی تھی۔ دونوں ہی صاحبِ علم تھے اور باقاعدہ مطالعہ کرنے کے بعد بیعت کی توفیق پائی۔ پھر اُس کے بعد مرحوم شہید کے والد اور دیگر تین چچا بھی احمدیت میں شامل ہو گئے۔ ان کا خاندان پریم کوٹ مظفر آباد کشمیر سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ 1966ء میں پیدا ہوئے تھے۔ 1976ء میں کراچی شفٹ ہوگئے۔ وہیں انہوں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ پھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ملازمت اختیار کرلی۔ شہادت کے وقت آپ محکمہ کسٹم کے اینٹی سمگلنگ یونٹ میں بطور کلرک خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ظہور صاحب انتہائی ملنسار، مالی قربانی میں صفِ اول کے مجاہدین میں شامل تھے۔ اسی طرح مہمان نوازی آپ کا خاص وصف تھا۔ ہر جماعتی عہدیدار کی عزت کرتے اور کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع نہ دیتے۔ شہید مرحوم موصی بھی تھے۔ اسی طرح تبلیغ کا بھی شوق تھا۔ ان کو 2009ء میں ایک شخص کی بیعت کروانے کی بھی توفیق ملی۔ آپ کی شہادت کے بعد ہسپتال میں اور بعد میں جنازے کے موقع پر آپ کے دفتر سے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور ہر ایک نے شہید مرحوم کے اعلیٰ اخلاق و عادات کی تعریف کی۔ اُن کا ایک ساتھی جو اُن کی شہادت کے بعد اُن کے جسدِ خاکی کے ساتھ رہا اُس نے رو رو کر ذکر کیا کہ شہید مرحوم انتہائی پُرشفقت اور صلح جُو طبیعت کے مالک تھے۔ کام کے حوالے سے کئی مواقع پر جب ہمیں غصہ آ جاتا تو وہ ہمیں صبر کی تلقین کرتے تھے۔ اُن کے افسران نے بتایاکہ ظہور احمد کیانی ہمارا ایک بہادر اور جانباز سپاہی تھا جو بہت تھوڑے عرصے میں ہی ہر ایک کو اپنا گرویدہ کر لیتا تھا۔ آج ہم ایک اچھے ساتھی سے محروم ہوئے ہیں۔ آپ کے سسر بشیر کیانی صاحب نے بتایا کہ شہید مرحوم خاندان میں ہر ایک کی مدد کیا کرتے تھے۔ مالی لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آپ کو وسعت دی تھی۔ لہٰذا پورے خاندان میں جب بھی کوئی ضرورت ہوتی آپ اُس کی مدد کرتے۔ خاندان کے علاوہ بھی کوئی ضرورتمند آپ کے دروازے سے خالی نہیں جاتا تھا۔ بچوں کے ساتھ بھی آپ کا تعلق انتہائی شفقت کا تھا۔ بچوں کی ضروریات کا مکمل خیال رکھتے۔ ان کی تعلیم کی فکر رہتی۔ اُن کی گہری نگرانی کرتے۔ آپ کی اہلیہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو جو اتنا اچھا دل دیا تھا تو شاید اس شہادت کے لیے ہی یہ اچھا دل دیا تھا۔ بچوں کو کبھی نہیں ڈانٹتے تھے۔ کہتی ہیں کہ شہادت سے پہلے مجھے کہا کہ میری جوتی صاف کر دو۔ میں ابھی آتا ہوں۔ پھر مسکرا کر نیچے اترے۔ حملے کے بعد کہتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ جب گھر سے باہر آئی اور اُنہیں دیکھا تو انہوں نے مجھے اور بچوں کو اُس زخمی حالت میں مسکرا کر دیکھا جیسے الوداع کہہ رہے ہوں اور پھر اپنی جان اپنے خالق حقیقی کے سپرد کر دی۔

حضورانور نے فرمایا کہ ایم ٹی اے پر جو میرا خطبہ جاتا تھا، بچوں کو ہمیشہ کہتے تھے یہ سننا ہے۔ اس پر ناراضگی کا بھی اظہار کرتے تھے کہ خطبہ کیوں نہیں سنا۔ ان کی بڑی پابندی تھی۔ بیٹیوں کے ساتھ خاص شفقت اور محبت کا سلوک تھا۔ آپ کے پسماندگان میں آپ کی اہلیہ طاہرہ ظہور کیانی صاحبہ کے علاوہ تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ عمران کیانی بیس سال کی عمر ہے۔ کامران کیانی چودہ سال۔ سرفراز تین سال۔ اوربیٹیاں نورالصباح، نورالعین، عطیۃالمجیب، فائقہ ظہور ہیں۔

………٭………٭………٭………

مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍ستمبر 2013ء میں مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے جنہیں اورنگی ٹاؤن کراچی میں 18؍ستمبر کو شہید کر دیا گیا۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں شہید مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب ابن مکرم بشیر احمد کیانی صاحب 18؍ستمبر 2013ء کی صبح ساڑھے سات بجے موٹرسائیکل پر ملازمت کے لیے روانہ ہوئے، گھر سے ابھی کچھ دُور ہی گئے تھے کہ ایک سپیڈ بریکر پر جب موٹرسائیکل کی رفتار کم ہوئی تو دو موٹرسائیکل سوار آپ کے قریب آئے اور دو گولیاں آپ کی بائیں پسلیوں کے قریب فائر کیں جس سے آپ موٹرسائیکل سے نیچے گر گئے اور گرنے کے بعد اُٹھنے کی کوشش کی جس پر حملہ آوروں نے سامنے کی طرف سے آپ پر فائر کیے۔ خود کو بچانے کے لیے بایاں ہاتھ انہوں نے آگے کیا جس پر حملہ آوروں نے آپ کے ہاتھ پر فائر کیا اور پھر آپ کے سینے پر تین گولیاں فائر کیں۔ جب آپ گر گئے تو آپ کے سر پر پیچھے سے بھی ایک گولی فائر کی جس کی وجہ سے آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر شہید ہو گئے۔ گزشتہ ماہ آپ کے بہنوئی محترم ظہور احمد کیانی صاحب کو بھی اس علاقہ میں شہید کیا گیا تھا۔

مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد کے دو چچا مکرم محمد یوسف کیانی صاحب اور مکرم محمد سعید کیانی صاحب کے ذریعہ ہوا۔ آپ دونوں کو 1936ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کے والد کے دونوں چچا بڑے صاحب علم تھے، علم دوست تھے۔ انہوں نے باقاعدہ مطالعہ کرنے کے بعد بیعت کی توفیق حاصل کی تھی۔ شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق پریم کوٹ مظفر آباد آزاد کشمیر سے تھا۔ شہید مرحوم یکم دسمبر 1984ء کو کراچی میں پیدا ہوئے اور کراچی میں ہی انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ پھر پانچ سال قبل پاکستان ملٹری آرڈیننس میں بطور سویلین ڈرائیور ملازمت اختیار کی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 29سال تھی۔ شادی 2009ء میں ثوبیہ صاحبہ سے ہوئی جو راجہ عبدالرحمٰن صاحب آف کوٹلی کشمیر کی بیٹی تھیں۔ شہید مرحوم انتہائی مخلص، صلح جُو، نرم خُو اور خاموش طبیعت کے مالک تھے۔ جماعتی خدمات کے حوالے سے ہمیشہ تعاون کرتے تھے۔ جب کسی ڈیوٹی کے لیے بلایا جاتا تو ہمیشہ اطاعت کا مظاہرہ کرتے۔ ان کے بھائی مکرم اعزاز احمد کیانی صاحب نے بتایا کہ شہادت سے ایک روز قبل اپنے بہنوئی مکرم ظہور احمد کیانی صاحب شہید کے ذکر پرآبدیدہ ہو گئے۔ اُن کی بہت عزت کیا کرتے تھے اور بڑے بھائی اور باپ کا مقام دیا کرتے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرا کہ آپ نے اُن کے گھر جا کر اُن کے بچوں کی خیریت نہ معلوم کی ہو۔ اُن کی شہادت کا ان پربڑا گہرا اثر تھا۔

شہید مرحوم کی والدہ نے بتایا کہ چار بہنوں کے بعد بہت دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بیٹا عطا فرمایا تھا۔ سوچ سمجھ کے بات کیا کرتا تھا، میرے ساتھ انتہائی پیار اور عقیدت کا تعلق تھا، ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ہاتھ ملا کر خدا حافظ کہہ کر جاتا تھا۔ میری دوائی کا خاص خیال رکھتا تھا۔ بہنوں کا اس طرح خیال رکھتا جیسے بڑا بھائی ہو۔ بہت نرم طبیعت تھی۔ جب بھی گھر میں کوئی چیز لاتا تو خواہش ہوتی کہ سب کو دوں۔

ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ شہید مرحوم بہت اچھی طبیعت کے مالک تھے۔ ہر ایک کا فرض ادا کیا۔ اچھے بیٹے، اچھے بھائی، اچھے باپ اور اچھے شوہر تھے۔ کہتی ہیں جب کبھی مَیں پریشان ہوتی تو تسلی دیتے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلاتے۔ بچوں کے ساتھ انتہائی شفقت کا سلوک کرتے۔ ان کے بہنوئی کی گزشتہ ماہ شہادت ہوئی تو بار بار کہتے رہے کہ کاش مَیں اُن کی جگہ ہوتا۔ شہید مرحوم نے پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ محترمہ، ایک بیٹی عزیزہ درّ عدن اعجاز عمر چار سال اور ایک بیٹا برہان احمد عمر ڈیڑھ سال چھوڑے ہیں۔

………٭………٭………٭………

مکرم بشیر احمد کیانی صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍نومبر 2013ء میں مکرم بشیر احمد کیانی صاحب کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے جنہیں اورنگی ٹاؤن کراچی میں 21؍ اگست کو شہید کر دیا گیا۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں شہید مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مکرم بشیر احمد صاحب کیانی جو مکرم عبدالغفور صاحب کیانی کے بیٹے تھے اورنگی ٹاؤن کراچی میں یکم نومبر کو شہید کردیے گئے۔ آپ اپنے ہمسائے محمد اکرم قریشی صاحب کے گیارہ سالہ بیٹے عزیزم محمد احمد واجد کے ہمراہ جمعہ کے لیے مسجد بیت الحفیظ کی طرف پیدل ہی جارہے تھے کہ مسجد کے قریب پہنچے تو پیچھے سے ایک موٹرسائیکل پر دو نامعلوم حملہ آوروں نے آ کر آپ پر فائرنگ کر دی۔ شدید زخمی ہو گئے۔ ایک گولی ان کو کنپٹی پر لگی، دو گولیاں سینے میں لگیں۔ ساتھ جانے والے بچے کی ٹانگ کی پنڈلی میں بھی ایک گولی لگی جو آر پار گزر گئی۔ بہرحال فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہاں پہنچ کر بشیر احمد کیانی صاحب کی شہادت ہو گئی۔ حملہ آوروں کی فائرنگ سے بازار میں کھڑے دو غیرازجماعت بھی زخمی ہوگئے۔

بشیر احمد کیانی صاحب شہید کے بڑے داماد ظہور احمد کیانی صاحب کو 21؍ اگست کو شہید کیا گیا تھا اور ان کے بیٹے اعجاز احمد کیانی کو 18؍ستمبر کو اسی علاقے اورنگی ٹاؤن میں دشمنانِ احمدیت نے شہید کیا تھا۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دو چچا مکرم یوسف کیانی اور سعید کیانی صاحب کے ذریعہ ہوا۔ 1936ء میں انہوں نے بیعت کی اور مطالعہ کرنے کے بعد جماعت مبائعین میں شامل ہوئے۔ بشیر کیانی صاحب میٹرک کی تعلیم کے بعد آرمی میں بطور سپاہی بھرتی ہو گئے اور 1979ء میں آپ کا ٹرانسفر کراچی ہو گیا اور یہیں سے آپ ریٹائر ہوئے۔ مرحوم کی عمر 68 سال تھی۔ بڑے خوش اخلاق تھے اور جذباتی طبیعت کے مالک تھے۔ دعوتِ الی اللہ کے انتہائی شوقین تھے۔ جب کہیں موقع ملتا تو دوست احباب کو تبلیغ کرتے۔ انتہائی دلیر اور بہادر شخصیت کے مالک تھے۔ یکے بعد دیگرے داماد اور بیٹے کی شہادت کے بعد خوفزدہ نہیں تھے بلکہ اپنی اولاد کو حوصلے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ شہادت کے روز اپنے بیٹے اعزاز احمد کیانی کو کہا کہ ہم نے خود اپنی حفاظت کرنی ہے اور یہاں سے جانا نہیں۔ قائد علاقہ لکھتے ہیں کہ ان کے بیٹے اعجاز کیانی صاحب کی شہادت کے بعد جب وہ خاندان کے افراد کو چھوڑنے کے لیے ائیرپورٹ گئے تو اعجاز کیانی صاحب شہید کی والدہ کے غم کی حالت کو دیکھتے ہوئے وھیل چیئر منگوائی، جسے دیکھ کر بشیر کیانی صاحب نے کہا کہ ابھی تو میرا ایک ہی بیٹا شہید ہوا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ ہم ابھی سے بیٹھ جائیں؟ غیرت رکھنے والے تھے۔ سعودی عرب میں ان کی آرمی سروس کے دوران پوسٹنگ ہوئی لیکن شرط یہ تھی کہ اپنے پاسپورٹوں پر احمدیت کا نام نہ لکھیں۔ انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا۔ بے شک مَیں نہ جاؤں، یہ شرط مجھے قبول نہیں۔

ان کی ایک عزیزہ نے لکھا کہ کراچی میں آپ کے دو عزیز شہید کر دیے گئے تو میں نے اُن کو کہا کہ کراچی چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ بڑے غم کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے، آنکھوں میں آنسو تھے تو ایک دم جھکی ہوئی کمر کو سیدھی کر کے کھڑے ہوگئے۔ کہنے لگے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ ہم نے تو احمدیت کو زمین کے کناروں تک پھیلانا ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ کراچی چھوڑ دیں۔ یہ قربانیاں ہمارے حوصلے کو بلند کرنے والی ہیں، دشمن ہمارے ایمان کمزور نہیں کر سکتا۔

شہید مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ فاطمہ بشیر کیانی صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے اعزاز کیانی اور شہباز کیانی نیز پانچ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ طاہرہ ظہور کیانی جو شہید کی بیوہ ہیں۔ پھر ناہیدہ طیب، شاہدہ بشیر، ساجدہ بشیر اور وجیہہ کنول۔

………٭………٭………٭………

مکرم چودھری حامد سمیع صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍جون 2013ء میں مکرم چودھری حامد سمیع صاحب آف گلشن اقبال کراچی کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ چودھری عبدالسمیع خادم صاحب کے بیٹے تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا محترم چودھری عبدالرحیم صاحب آف گورداسپور کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے 1924ء میں بیعت کی تھی۔ بیعت کے بعد انہیں اپنے والدین کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ اُن کے والد ان کی ہتھیلیوں پر چارپائی کے پائے رکھ کے باندھ دیا کرتے تھے اور خود چارپائی پر سو جایا کرتے تھے اور اس طرح وہ ساری رات اسی حالت میں بندھے رہتے تھے۔ اس وجہ سے ان کی ہتھیلیوں میں نشان بھی پڑ گئے تھے۔ آخر 1929ء میں پھر یہ لاہور آ گئے اور وہیں رہائش اختیار کرلی۔ حامد سمیع صاحب کی پیدائش بھی لاہور میں ہوئی۔ تعلیمی لحاظ سے یہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے اور ان کے والد بھی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھے اور ان کی اپنی چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کی فرم تھی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 48 سال تھی اور موصی تھے۔ 11؍جون 2013ء کو ان کی شہادت ہوئی جب یہ تقریباً ساڑھے چھ بجے شام اپنی فرم واقع جناح روڈ کراچی سے کار کے ذریعے روانہ ہوئے اور دو غیر از جماعت دوست بھی ان کے ہمراہ تھے۔ جب یہ اپنے دفتر سے کچھ آگے نکلے ہیں تو موٹرسائیکلوں پر سوار نامعلوم حملہ آوروں نے گاڑی کے دونوں اطراف سے ان پر اندھادھند فائرنگ شروع کر دی۔ کم و بیش چھ گولیاں آپ کے ماتھے، کمر اور چہرے پر لگیں جس سے آپ موقع پر شہید ہوگئے جبکہ دونوں دوست شدید زخمی ہوئے۔

شہید مرحوم اپنے حلقے کے سیکرٹری مال بھی تھے۔ پہلے خدام الاحمدیہ اور اب انصاراللہ کے شعبہ مال میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ بڑے خوش طبع تھے، ہمدرد تھے۔ بااخلاق انسان تھے اور ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ انتہائی خیال اور محبت کرنے والے شخص تھے۔ اپنی اہلیہ کے ساتھ بھی، بچوں کے ساتھ بھی، دوسروں کے ساتھ بھی انتہائی شفقت کا سلوک کرنے والے تھے۔ ان کے صدر صاحب حلقہ کہتے ہیں کہ شہید مرحوم انتہائی اطاعت گزار طبیعت کے مالک تھے، خاکسار نے مئی میں تحریک کی کہ مئی میں ہی چندے کی ادائیگی مکمل ہو جائے تو انہوں نے فوراً اپنی ادائیگی کر دی بلکہ کچھ زیادہ دے دیا اور اپنی شہادت سے ایک دن قبل موصیان کی میٹنگ کا انعقاد کیا اور بڑے پُر اثر انداز میں وصایا اور چندوں کے نظام کی اہمیت بیان کی۔ اچھے بولنے والے بھی تھے۔ انٹرن شپ کے لیے احمدیوں کی کافی مدد کیا کرتے تھے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ محترمہ صبا حامد صاحبہ، دو بیٹیاں عروسہ حامد چودہ سال کی، بارعہ حامد سات سال کی اور بیٹا راسخ احمدنو سال کا ہیں۔

………٭………٭………٭………

مکرم ملک اعجاز احمد صاحب شہید

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 9؍ستمبر 2013ء میں مکرم ملک اعجاز احمد صاحب آف اورنگی ٹاؤن کراچی کی شہادت کی تفصیل شائع ہوئی ہے جنہیں 4؍ستمبر 2013ء کو بعمر 36 سال دو موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں شہید مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ مکرم ملک یعقوب احمد صاحب کے بیٹے تھے۔ گارمنٹ فیکٹری میں اپنے بھائی مکرم ملک رزاق احمد صاحب کے ہمراہ stitching کی ٹھیکیداری کا کام کیا کرتے تھے۔ دونوں گھر سے فیکٹری جانے کے لیے اپنی علیحدہ علیحدہ موٹرسائیکلوں پر نکلے تو اپنے بھائی سے پیچھے کچھ فاصلے پر تھے۔ راستے میں کھڑے دو نامعلوم افرادنے اُن کے قریب آکر بائیں طرف سے کان کے قریب فائر کیا تو گولی سر سے آرپار ہوگئی جس سے آپ موقع پر شہید ہو گئے۔ وقوعہ کے بعد حملہ آور موٹرسائیکل پر فرار ہو گئے۔

شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑدادا میاں احمد صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے حضرت چودھری غلام رسول بسراء صاحبؓ کی تبلیغ سے متاثر ہوکر خلافتِ ثانیہ کے دَور میں بیعت کی۔ وہ بیعت کے وقت جوڑا کلاں خوشاب میں رہائش پذیر تھے مگر مخالفت کی وجہ سے چک 99 شمالی سرگودھا شفٹ ہوگئے جہاں پر جماعت کی نمایاں خدمت کی توفیق ملی۔ وہاں مسجد کی تعمیر میں بھی ان کے والدملک یعقوب احمد صاحب نے بڑا کردار ادا کیا۔ اُن کی عمر 90 سال ہے۔ ان کی والدہ وفات پاچکی ہیں۔ 1990ء میں یہ لوگ سرگودھا سے کراچی اپنے بہنوئی مکرم محمد نواز صاحب شہید کے پاس شفٹ ہو گئے تھے جنہیں گزشتہ سال ستمبر میں شہید کردیا گیا تھا۔ اُن کی شہادت کے موقع پر بار بار اس بات کا اظہار کرتے کاش یہ سعادت مجھے نصیب ہوتی۔

شہید مرحوم انتہائی مخلص اور محبت کرنے و الے ہمدرد انسان تھے۔ ہر ایک سے خوش ہو کر ملتے۔ کسی کی دل شکنی ان کو پسندنہ تھی۔ بچوں کے ساتھ انتہائی محبت کے ساتھ پیش آتے۔ اپنے بچوں کے علاوہ اپنے بھائی کے بچوں کے ساتھ بھی انتہائی شفقت سے پیش آتے جو آپ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ جماعت کے لیے بہت ایمانی غیرت رکھتے تھے۔ جب کسی شہادت کا ذکر سنتے تو اپنے دل پر گہرا اثر لیتے۔ نظامِ جماعت کی آپ کامل اطاعت کرتے۔ جب کسی کام کے لیے کہا جاتا تو فوراً بشاشت کے ساتھ کرتے۔ پسماندگان میں والد کے علاوہ اہلیہ محترمہ راشدہ اعجاز صاحبہ، ایک بیٹی عزیزہ ماہ نور اعجاز عمر 12 سال اور دو بیٹے عزیزم جواد احمد عمر 10 سال اور عزیزم منظور اعجازعمر 8 سال چھوڑے ہیں۔

………٭………٭………٭………

مکرم جواد کریم صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍جون 2013ء میں مکرم جواد کریم صاحب کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مکرم جواد کریم صاحب جو مکرم کریم احمد دہلوی صاحب مرحوم کے بیٹے تھے اور گرین ٹاؤن ضلع لاہور میں رہتے تھے۔ 17؍جون 2013ء کو چار نا معلوم افرادنے ان کے گھر کے اندر گھس کر فائرنگ کر کے ان کو شہید کر دیا۔ یہ مکان کی اوپر کی منزل میں رہائش پذیر تھے اور نچلی منزل میں ان کے بڑے بھائی امتیاز عدنان صاحب اور والدہ بھی رہتی تھیں۔ رات تقریباً آٹھ بجے چار نامعلوم افراد آئے۔ دوباہر کھڑے رہے اور دو اندر گیراج میں چلے گئے اور وہاں شاید انہوں نے کریم صاحب کو بلایا۔ بہر حال گیراج والوں کے ساتھ ان کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ اسی اثناء میں ایک حملہ آور نے ان پر فائر کیا، گولی دل پر لگی اور آر پار ہو گئی۔ شور سن کے ان کے بھائی بھی باہر نکلے تو حملہ آوروں نے ہوائی فائر کیا اور یہ کہتے ہوئے فرار ہوگئے کہ اب تمہاری باری ہے۔ مکرم جواد کریم صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن راستے میں ہی انہوں نے جامِ شہادت نوش فرما لیا۔

شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑنانا حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ آف بلوگڑ دہلی کے ذریعے ہوا تھا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اگرچہ شہید کے پڑدادا اعجاز حسین صاحب مرحوم نے بھی خط کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرلی تھی لیکن دستی بیعت کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ ان کے دادا مکرم بابو نذیر احمد صاحب دہلی میں لمبا عرصہ امیر جماعت رہے ہیں۔ شہید مرحوم کی عمر 33 سال تھی۔ وصیت کے بابرکت نظام میں شامل تھے۔ اپنا کاروبار کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ ڈاکٹر ہیں، ان کا اپنا کلینک ہے۔ کلینک کے انتظامی معاملات بھی شہید مرحوم کے ہی سپرد تھے۔ انتہائی نرم طبیعت کے مالک تھے۔ چھوٹوں بڑوں کا ادب کرنے کا ان میں خاص امتیاز تھا۔ مخلص انسان تھے۔ ہر کسی سے تعاون کرتے اور ہر کسی کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ان کا گھر لمبے عرصے تک نماز سینٹر بھی رہا۔ زعیم حلقہ بھی رہے اور پھر مقامی طور پر اور ضلع میں بھی خدام الاحمدیہ کا کام کرتے رہے۔ والدہ مرحومہ نے شہادت کے دن ذکر کیا کہ جواد کریم نے اپنا ایک خواب مجھے سنایا تھا کہ چند لوگ مجھے مار رہے ہیں اور بڑا بھائی میرے پاس کھڑا ہے، مجھے نہیں بچاتا۔ تو موقع پر بھی اس طرح ہی ہوا کہ جب ان پر فائرنگ ہو رہی تھی بڑا بھائی باہر نکلا اور بچا نہیں سکا۔ ایک لحاظ سے اس طرح بھی خواب پوری ہو گئی۔

چندے کے معاملے میں بھی بہت کھلے دل کے تھے اور دوسروں کو بھی تحریک کیا کرتے تھے۔ اپنے بھائی کو شہادت سے ایک دن قبل کہا کہ یاد رکھو کہ اگر مَیں فوت ہو جاؤں تو میرا حساب کتاب صاف ہے اور میں بقایا دار نہیں ہوں۔

صدر صاحب حلقہ کہتے ہیں کہ ہمارے حلقے کے ایک ممبر جو چندے کی ادائیگی میں ذرا سست تھے، شہید مرحوم نے مسلسل ان سے رابطہ رکھا اور نہ صرف ان کو چندے کے معاملے میں چست کیا بلکہ نظامِ وصیت میں بھی شامل کروایا۔

شہید مرحوم کی اہلیہ محترمہ کے علاوہ تین چھوٹے بچے ہیں، بیٹی ھبۃ الجوادچھ سال، طلحہ جواد تین سال اور صفوان جواد چار ماہ کا ہے۔ ان کے ایک بھائی ہیں۔

شہادت کے وقت ان کی والدہ رضیہ کریم صاحبہ زندہ تھیں لیکن تدفین کے لیے جب ان کا جنازہ ربوہ لے جایا گیا تو پیچھے سے والدہ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور اُن کی بھی وفات ہوگئی۔ مکرمہ رضیہ کریم دہلوی صاحبہ کے والد محترم حکیم محمد احمد دہلوی صاحب مرحوم دہلی سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ 1947ء میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ پہلے یہ گھرانہ خانیوال میں رہا، پھر ان کی شادی ہوئی تو یہ لاہور آگئیں۔ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں۔ سکول کی ہیڈمسٹرس کے طور پر ریٹائر ہوئی تھیں۔ اپنے حلقے کی سیکرٹری اصلاح و ارشاد بھی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی جماعتی کاموں میں آگے لانے میں ان کا بہت ہاتھ تھا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button