متفرق مضامین

تیرے آن دی خوشی اچ کندھاں رنگیاں

(احسان اللہ قمر۔ یوکے)

یہ ایک روداد نہیں بلکہ ایک قلبی واردات ہے جس سے بہت سے قارئین اپنی زندگیوں میں گزرے ہوں گےاور وہ جان سکتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کی موجودگی انسانی قلب پر کس طرح اثر کرتی ہے۔ گویا ایک مقناطیسی کشش معلوم ہوتی ہے جو آپ کے وجود کو اپنی جانب متوجہ رکھتی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک منظوم کلا م میں فرماتے ہیں:

کسی نے یہ پوچھی تھی عاشق سے بات

وہ نسخہ بتا جس سے جاگے تو رات

کہا نیند کی ہے دوا سوز و درد

کہاں نیند جب غم کرے چہرہ زرد

وہ آنکھیں نہیں جو کہ گریاں نہیں

وہ خود دل نہیں جو کہ بریاں نہیں

تو انکار سے وقت کھوتا ہے کیا

تجھے کیا خبر عشق ہوتا ہے کیا

مجھے پوچھو اور میرے دل سے یہ راز

مگر کون پوچھے بجز عشق باز

(ست بچن، روحانی خزائن جلد 10صفحہ168)

عشق کی اپنی زبان ہے۔ اور ہر انسان اپنی ذات میں اس جذبے کو الگ طرح سے محسوس کرتا ہے۔ اس جذبے کے کچھ رنگ اس تحریر میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ اس ہفت رنگی جذبے میں رنگ کر کس طرح ایک عاشق اپنے محبوب کی پسند اور ناپسند کو اپنی پسند اور ناپسند بناتا ہے۔ اور کیسے عشق انسان کو اپنے وجود سے اس طرح بیگانہ کرتا ہے کہ نہ تو اسے اپنی راتوں کی نیندیں یاد رہتی ہیں اور نہ دنیا کا اور کوئی کام۔

اپریل 2019ءمیںحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لندن سے اسلام آباد منتقل ہو ئے تو مجلس انصار اللہ برطانیہ نے خلیفۃ المسیح کے قرب کی چاہ میں مسجد فضل کے سامنے واقع سرائے انصار کی طرح اسلام آباد کے نواح میں بھی ایک مہمان سرائے کی خرید کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ اسلام آباد کے قرب میں واقع شہر فارنہم میں ایک عمارت دیکھی گئی۔ 4؍مئی 2019ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے منظوری عطا فرمائی اور دسمبر 2019ء کو یہ عمارت مجلس انصار اللہ کے نام ہو گئی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔

خریداری کے معاً بعد تعمیراتی کام کا آغاز کر دیا گیا۔ تزئین و آرائش کا مرحلہ مکمل ہو ا تو ہر چند کہ حضور پُر نور ایدہ اللہ تعالیٰ نے22؍مارچ 2020ء کو عمارت کا نام ’’سرائے ناصر‘‘ عطا فرمادیاتھا، لیکن اُن دنوں وباکی شدّت کے باعث افتتاح نہیں کیا جا سکتا تھا۔

امسال حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت افتتاح کے لیے 5؍فروری 2022ء کی تاریخ منظورفرمائی۔ الحمدللہ اس بابرکت افتتاح کی تفصیل الفضل انٹرنیشنل کے صفحات کی زینت بن چکی ہے۔ لیکن افتتاح کے دن کی منظوری سے لے کر افتتاح کے دن تک کا سفر عشق و محبت کی ایک ایسی داستان ہے جس کو اِجمالی طور پر قارئین کے ساتھ اس غرض سے بانٹنا مقصود ہے کہ آپ بھی محبت کے اُن کیف آگیں لمحات میں شامل ہو سکیں۔

جس کو بھی افتتاح کی تیاری میں ذرہ بھر بھی شمولیت کی توفیق ملی اس کا جذبہ اور خوشی دیدنی تھی۔ دن رات کی تفریق کا ہوش ختم ہو چکا تھا۔ اب پروگرام اور تزئین کی باریکیوں کی جانب توجہ تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کس رستے سے تشریف لائیں گے؟ آپ ایدہ اللہ کی نشست کہاں ہو گی؟ دورے کے دوران کن کن ممکنہ اشیا کی ضرورت پڑ سکتی ہے؟ حضرت صاحب کو کھانے کے لیے کیا پیش کیا جائے؟ کون سے برتن خلیفۂ وقت کوچائے اور دیگر لوازمات پروسنے کے شایان ہوں گے؟ کون سی چیز کہاں سے آئے گی اور کس خوش نصیب کے نام کا قُرعہ اس کی خریداری کے لیے نکلے گا؟ کون سا فرنیچر کہاں مناسب ہو گا؟ اور کون سی خوشبو سے ماحول کو معطر کیا جائے گا؟ کسی کمرے میں کسی چیز کی کمی نہ رہ جائے، صفائی ناقص نہ ہو۔ اھلاً و سہلاً و مرحبا کا بینر کہاں لگایا جائے کہ خلیفۂ وقت کی نظر اس پر پڑےاور افتتاحی تختی کی نقاب کشائی کے لیے ڈوری کو کیسے باندھا جائے کہ حضور انور کو دِقّت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ غرض ہر ایک مقام پر دل کو ایک دھڑکا لگا ہوا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور سب کچھ بخوبی انجام پاسکے۔

اس سارے عرصے میں کارکنان بہت بشاشت اور محبت سے ان تھک محنت کرتے رہے۔ سرشاری کا یہ عالم تھا کہ رات کے پچھلے پہر تک کام کر کے گھر پہنچنے والے عشاق چاک و چوبند علی الصبح پھر سرائے ناصر موجود ہوتے۔ اس کیفیت اور نظّارے کوبزبان شاعر بیان کروں تو قصہ کچھ یوں ہو:

وے میں ان حد منتاں نیں منگیاں

تیرے آن دی خوشی اچ کندھاں رنگیاں

فیر اُڈیکاں دی نماز نیت لئی

مقررہ وقت پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے قافلے کی آمدہوئی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ چند لمحے گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر ہی بیٹھے رہے اور محترم صدر صاحب مجلس انصاراللہ سے کچھ باتیں کیں۔ پھر گاڑی سے باہر آکر منتظر چہروں پر پیار بھری ایک نظر ڈالی اور افتتاحی تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروانےکے بعد سرائے ناصر کا معائنہ کیا۔ دورانِ معائنہ حضور کے ساتھ محترم صدر صاحب مجلس انصار اللہ برطانیہ، محترم امیرصاحب برطانیہ اور قافلے کے ساتھ آئے ہوئے چند دیگر بزرگان تھے۔

بات محض عقیدت پر محمول نہیں، حضور کے چہرے پر نظر پڑتے کیفیت کچھ یوں تھی کہ

اے تن میرا چشماں ہووے، تے میں مرشد ویکھ نہ رجّاں ہو

لُوں، لُوں دے منڈھ لکھ لکھ چشماں، اک کھولاں اک کجّاں ہو

میرا یہ جسم مجسم آنکھ بن جائے اور مرشد کو دیکھتے دیکھتے میرا دل نہ بھرے۔ اے کاش میرے جسم کے ایک ایک بال میں لاکھوں آنکھیں ہوتیں تو میں اُسے دیکھنے کے لیے ایک آنکھ کھولتا اور ایک بند کرتا۔

جیسا کہ شروع میں ذکر ہوا کہ کس قدر احتیاط اور فکر سے تمام انتظامات مکمل کیے گئے تھے لیکن حضور کی باریک بین نظر نے دیکھ لیا کہ رہائشی کمروں میں مہمانوں کے لیے سلپرزکی کمی ہے نیز ہر کمرے میں ٹیلیویژن بھی ہونا چاہیے۔

محترم صدر صاحب مجلس نے ارشاد فرمایا تھا کہ باہر شدید ٹھنڈ ہے اور جب تک حضور انور ایدہ اللہ سرائے ناصر کے اندر موجود ہوں، احباب اندر دفتر میں انتظار کر سکتے ہیں۔ لیکن مجلس عاملہ کے تمام اراکین تمام وقت باہر اپنی اپنی جگہوں پر پُر سکون کھڑے منتظر رہے کہ مباداحضور انورایدہ اللہ تعالیٰ واپسی کے لیے باہر تشریف لے آئیں اور وہ اپنے دلدار کے دیدار سے محروم رہ جائیں۔ سلطان باہو کہتے ہیں

اتنا ڈٹھیاں مینوں صبر نہ آوے، تے میں ہور کدے ول بھجّاں ہُو

مرشد دا دیدار ہے باہوؔ، مینوں لکھ کروڑاں حجّاں ہُو

چائے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ باہر تشریف لائے۔ حاضرین پر اپنے مخصوص انداز میں پیار بھری نظر ڈالی اور بلند آواز سے سلام کرکے گاڑی میں تشریف فرما ہو گئے۔ قافلہ روانہ ہوا تو تمام افراد کے ہاتھ خلیفۂ وقت کو الوداعی سلام کہنےکے لیے ہوا میں بلند ہوئے جس کے جواب میں حضور نے بھی مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ بلند فرمایا۔ اور یوں یہ مختصر سا پر کیف لمحہ اپنے اختتام کو پہنچا لیکن یہ نقش چھوڑ گیا کہ

مردانِ خدا خدا نہ باشد

لیکن زخدا جدا نہ باشد

سچ ہے کہ خدا کے بندے گرچہ خدا تو نہیں ہوتے مگر خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے۔

مجلس عاملہ کے اراکین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے تشریف لے جانے کے بعدمحترم صدر صاحب انصار اللہ کے گرد جمع ہو گئے کہ جان سکیں حضور انور نے کیا فرمایا؟ گویا پوچھ رہے ہوں کہ کیا یہ حقیر کاوش قبول ہوئی اور صدر صاحب کے چہرے کی مسکراہٹ اُن کے الفاظ سے پیشتر مکمل جواب دے چکی تھی۔ محترم صدر صاحب نے حضور انور کے قیام کی تمام تر تفاصیل سے آگاہ کیا۔ ا ور یوں شکر گزاری کی ایک کیفیت نے پورے وجود کو سمیٹ لیا کہ خلیفۂ وقت ہم سے خوش خوش رخصت ہوئے ہیں۔

یہ ایک روداد نہیں بلکہ ایک قلبی واردات ہے جس سے بہت سے قارئین اپنی زندگیوں میں گزرے ہوں گےاور وہ جان سکتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کی موجودگی انسانی قلب پر کس طرح اثر کرتی ہے۔ گویا ایک مقناطیسی کشش معلوم ہوتی ہے جو آپ کے وجود کو اپنی جانب متوجہ رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ اس خاکستر میں محبت کی چنگاری موجود رہے۔ خلیفۃ المسیح کی صحبت ہمارے دلوں کی پیاس بن کرہمارے اندر موجود رہے کہ آج کے اس مادی دَور میں روحانیت کا چشمہ اگر کہیں مل سکتا ہے تو اس کا منبع یہی وجود اطہر ہے۔ محبت کی یہی وہ چنگاری جسے آج ہمیشہ سے بڑھ کر اپنے دلوں میں سلگانے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ شعلہ ہے جو شیطان اور اس کے لشکریوں کا ہر منصوبہ، ہر چال، ہر حربہ، فکری خَلْفِشار اور اندیشہ جلا کر بھسم کر دیا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمہ وقت اپنی تائید و نصرت کے معجزات دکھائے اور وساوس ڈالنے والے ہر شیطان کو ناکام و خائب و خاسر کرے۔ ہم خدا کے اس بندے کے ساتھ جڑے رہیں اور اس بابرکت قافلہ سالار کے قدموں پر اپنے قدم رکھتے ہوئے اپنی زندگی کا سفر طے کرتے رہیں تاکہ راہ سے بھٹک نہ جائیں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button