اختلافی مسائل

مسلمان کی تعریف…تب اور اب

غیراحمدیوں کے ہاں مسلمان کی بس یہی ایک تعریف اور معیار رہ گیا ہے کہ صرف وہ شخص مسلمان کہلا سکتا ہے جو اُن کی خود ساختہ، قومی اسمبلی سے منظور شدہ ’ختمِ نبوت‘ تعریف کو تسلیم کرے۔ یہ تعریف1974ءکے بعد رائج ہوئی ہے۔اس سے پہلے احمدیوں یا غیر احمدیوں کے مابین مسلمان کی تعریف میں کوئی اختلاف نہ تھا۔

سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی تحریرات و ملفوظات میں جابجا اس امر کو واضح فرمایا ہے۔ صرف ایک اقتباس بطور تبرک پیشِ خدمت ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں:’’…خدائے تعالیٰ جانتا ہے کہ مَیں مسلمان ہوں اور ان سب عقائد پر ایمان رکھتا ہوں جو اہل سنت والجماعت مانتے ہیں اور کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا قائل ہوں اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہوں…‘‘(نشان آسمانی ،روحانی خزائن جلد4 صفحہ313)

اس مضمون میں قرآن و حدیث سے، جسے بدقسمتی سے غیراحمدی حضرات عملاً ترک کرچکے ہیں، مسلمان کی تعریف ، جو کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے لٹریچر میں متعدد بار بیان کی جاچکی ہے، بیان کرنے کی بجائے غیراحمدی علماء کے ایسے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں جو مسلمان کی وہی تعریف بیان کرتے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے یعنی کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا قائل مسلمان سمجھا جاتا ہے۔

٭…اشرف علی تھانوی صاحب:

’’مولانا محمد قاسم کو کسی نے کافر کہا تھا۔ آپ نے خبر سن کر فوراً یہ پڑھا ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘۔ اور فرمایا کہ اگر میں ایسا ہی تھا مگر اب تو نہیں اور یہی دلیل ہے کامل مسلمان ہونے کی‘‘(ملفوظات اشرف علی تھانوی جلد19صفحہ95)

’’ایک صاحب نے حضرت حاجی صاحبؒ کی تکفیر کی تھی۔حالانکہ حضرت حاجی صاحب ایسے مغلوب الحال بھی نہ تھے جو یہ احتمال ہو کہ غلبہ حال میں کوئی بات خلاف شرع منہ سے نکل گئی ہوگی۔ آپ نے بےساختہ فرمایا کہ اگر میں عنداللہ مومن ہوں تو سارے جہان کی تکفیر مضر نہیں اور اگر عنداللہ کافر ہوں تو سارے جہان کا مؤمن کہنا مفید نہیں۔‘‘(ایضًاصفحہ96)

٭…مولوی ثناءاللہ امرتسری صاحب:

’’صرف کلمہ شریف لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ معنی سمجھ کر بالیقین پڑھ لینے سے داخل اسلام ہوجاتا ہے۔‘‘( فتاویٰ ثنائیہ جلد اول صفحہ270)

٭…مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی:

’’آیت کا منشا یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کررہا ہے اس کے متعلق تمہیں سرسری طور پر یہ فیصلہ کردینے کا حق نہیں ہے کہ وہ محض جان بچانے کے لئے جھوٹ بول رہا ہے۔ہوسکتا ہے کہ وہ سچا ہو اور ہوسکتا ہے کہ جھوٹا ہو۔ حقیقت تو تحقیق ہی سے معلوم ہوسکتی ہے۔ تحقیق کے بغیر چھوڑ دینے میں اگر یہ امکان ہے کہ ایک کافر جھوٹ بول کر جان بچا لے جائے، تو قتل کردینے میں اس کا امکان بھی ہے کہ ایک مومن بے گناہ تمہارے ہاتھ سے مارا جائے۔ اور بہرحال تمہارا ایک کافر کو چھوڑ دینے میں غلطی کرنا اس سے بدرجہا زیادہ بہتر ہے کہ تم ایک مومن کو قتل کرنے میں غلطی کرو۔‘‘(تفہیم القرآن از سیّد ابوالاعلیٰ مودودی جلد اول صفحہ 384تا385)

منیر انکوائری رپورٹ کے مطابق جب اس کمیشن کے فاضل جج حضرات نے علماء سے مسلمان کی تعریف دریافت کی تو انہوں نے مندرجہ ذیل جوابات دیے:

٭…مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری صاحب صدر جمعیت العلماء پاکستان:

’’اول۔ وہ توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو۔ دوم۔ وہ پیغمبر اسلام کو اور تمام انبیائے سابقین کو خدا کا سچا نبی مانتا ہو۔ سوم۔اس کا ایمان ہو کہ پیغمبر اسلام صلعم انبیاء میں آخری نبی ہیں (خاتم النبیین) چہارم۔ اس کا ایمان ہو کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام پیغمبر اسلام صلعم پر نازل کیا۔ پنجم۔ وہ پیغمبر اسلام صلعم کی ہدایات کے واجب الاطاعت ہونے پر ایمان رکھتا ہو۔ ششم ۔ وہ قیامت پر ایمان رکھتا ہو۔‘‘

٭…مولانا احمد علی صاحب صدر جمعیت العلماءاسلام مغربی پاکستان:

’’وہ شخص مسلم ہے جو (1) قرآن پر ایمان رکھتا ہو اور (2) رسول اللہ صلعم کے ارشادات پر ایمان رکھتا ہو۔ ہر شخص جو ان دو شرطوں کو پورا کرتا ہے مسلم کہلانے کا حقدار ہے۔اور اس کے لیے اس سے زیادہ عقیدے اور اس سے زیادہ عمل کی ضرورت نہیں۔‘‘

٭…مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی:

’’وہ شخص مسلم ہے جو (1) توحید پر (2) تمام انبیاء پر (3) تمام الہامی کتابوں پر (4) ملائکہ پر (5) یوم الآخرۃ پر ایمان رکھتا ہو۔‘‘

٭…غازی سراج الدین منیر صاحب:

’’میں ہر اس شخص کو مسلمان سمجھتا ہوں جو کلمہ لا الٰہ الا اللہ پر ایمان کا اقرار کرتا ہے اور رسول پاک صلعم کے نقش قدم پر چل کر زندگی بسر کرتا ہے۔‘‘

٭…مفتی محمد ادریس صاحب جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد، لاہور:

’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اقرار کرتا ہے وہ مسلم ہے، اس کو توحید الٰہی رسالت انبیاء اور یوم قیامت پر ایمان رکھنا چاہئے۔‘‘

٭…حافظ کفایت حسین صاحب ، ادارہ تحفظ حقوق شیعہ:

’’جو شخص (1) توحید (2) نبوت (3) قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مسلمان کہلانے کا حقدار ہے۔یہ تین بنیادی عقائد ہیں جن کا اقرار کرنے والا مسلمان کہلا سکتا ہے۔‘‘

٭…مولانا عبدالحامد بدایونی صاحب ۔ صدر جمعیت العلماءپاکستان:

’’جو شخص ضروریات دین پر ایمان رکھتا ہے وہ ’مومن‘ہے اور ہر مومن مسلمان کہلانے کا حقدار ہے…جو شخص پنج ارکان اسلام پر اور ہمارے رسول پاک صلعم پر ایمان رکھتا ہے وہ ضروریات دین کو پورا کرتا ہے۔‘‘

٭…مولانا امین احسن اصلاحی صاحب:

’’مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک سیاسی مسلمان دوسرے حقیقی مسلمان۔ سیاسی مسلمان کہلانے کی غرض سے ایک شخص کے لیے ضروری ہے کہ (1) توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو۔(2) ہمارے رسول پاکؐ کو خاتم النبیین مانتا ہو یعنی اپنی زندگی کے متعلق تمام معاملات میں ان کو آخری سند تسلیم کرتا ہو۔ (3) ایمان رکھتا ہو کہ ہر خیر و شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔(4) روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو۔ (5) قرآن مجید کو آخری الہام الٰہی یقین کرتا ہو۔(6) مکہ معظمہ کا حج کرتا ہو۔(7) زکوٰۃ ادا کرتا ہو۔(8) مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتا ہو۔(9) اسلامی معاشرے کے ظاہر قواعد کی تعمیل کرتا ہو۔ (10) روزہ رکھتا ہو۔ جو شخص ان تمام شرائط کو پورا کرتا ہو وہ ایک اسلامی مملکت کے پورے شہری کے حقوق کا مستحق ہے…اگر کوئی شخص ان دس امور پر ایمان کا محض اقرار ہی کرتا ہو، گو ان پر عمل کرتا ہو یا نہ کرتا ہو تو یہ اس کے مسلمان ہونے کے لئے کافی ہے۔‘‘

(منیر انکوائری رپورٹ صفحہ 338-339)

جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگرچہ الفاظ مختلف ہیں لیکن تمام علماء مسلمان کی کم و بیش ایک جیسی ہی تعریف بیان کرتے ہیں سوائے مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری صاحب صدر جمعیت العلماء پاکستان کے جنہوں نے بلا ثبوت نبی اکرمﷺ کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ کو رکن اسلام بتایا ہے۔ لیکن یہ تب کی بات ہے جب علماء نے احمدیہ مسلم جماعت کے دلائل سے عاجز آکر ریاستی طاقت کا سہارا نہیں لیا تھا اور اپنا من گھڑت عقیدہ بزور و جبر منوانا شروع نہیں کیا تھا۔اب صورت حال بالکل مختلف بلکہ متضاد ہوچکی ہے۔ غیراحمدیوں نے جہاں اس معاملہ کے متعلق قرآن و سنت کو ترک کردیا ہے وہاں وہ اب اپنے علماء کی ان باتوں کو بھی تسلیم نہیں کرتے جن کا اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے۔ گویا معاملہ اب دلائل سے نکل کر پتھروں تک آ پہنچا ہے جو طائف کے سرداروں نے اپنے اوباش لونڈوں کے ہاتھوں میں تھمادیے تھے۔ لیکن ہم بھی اپنے آقاﷺ کے اسوہ پر چلتے ہوئے لہولہان ہوتے ہوئے بھی ان پتھر مارنے اور مروانے والوں کے لیے ہدایت ، رحم اور سلامتی کی دعائیں کرتے رہیں گے۔انشاءاللہ العزیز۔

(مرسلہ:انصر رضا۔ واقفِ زندگی۔ کینیڈا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button