متفرق مضامین

نظامِ شوریٰ (قسط نمبر1)

(’م م محمود‘)

از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ

سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ نے آج سے سو سال قبل 1922ء میں جماعتِ احمدیہ میں باقاعدہ مجلسِ مشاورت کے نظام کاآغاز فرمایا۔ حضورؓ 1922ء تا1960ء خودبنفس نفیس مجلسِ مشاورت میں شمولیت فرماتے رہے۔ آپؓ نے قدم قدم پر نہ صرف مجلسِ مشاورت کے انتظامی ڈھانچے کے بارہ میں راہنمائی فرمائی بلکہ نظامِ جماعت میں مجلسِ شوریٰ کی اہمیت کو اجاگر فرمایا۔ مجالسِ شوریٰ کے موقع پرآپؓ کی ارشاد فرمودہ نصائح آپؓ کی خداداد ذہانت، آسمانی فراست اورکلمۃ اللہ ہونےکا ایک بیّن ثبوت ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گویا آپؓ نے سالہاسال عہدیداران و افرادِ جماعت کو انگلی تھام کرنظامِ شوریٰ کی اہمیت، افادیت اور طریق کے متعلق آگاہ فرمایا۔ اسی طرح آپؓ کے بعد خلفائے سلسلہ مختلف ادوار میں شوریٰ کی اہمیت اور انتظامی امور کی بابت راہنمائی فرماتے رہے ہیں اور آج خلافتِ خامسہ کے مبارک اور تاریخی دور میں ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قیادت میں چہاردانگِ عالم مختلف اقوام اور ممالک میں نظامِ شوریٰ جاری ہے۔

ذیل میں حضرت مصلح موعودؓ کے مجلسِ شوریٰ کے موقع پر ارشاد فرمودہ خطابات میں سے وہ ارشادات پیش ہیں جو آپؓ نے مجلسِ مشاورت کے انتظامی امور سے متعلق بیان فرمائے۔

شوریٰ کی ضرورت

’’سب سے پہلے میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مجلس جس کو پُرانے نام کی وجہ سے کارکن کانفرنس کے نام سے یاد کرتے رہے ہیں کیا چیز ہے؟ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ اپنے معاملات میں مشورہ لے لیا کریں۔ مشورہ بہت ضروری اور مفید چیز ہے اور بغیر اِس کے کوئی کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ اِس مجلس کی غرض کے متعلق مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہئے کہ ایسی اغراض جن کا جماعت کے قیام اور ترقی سے گہرا تعلق ہے ان کے متعلق جماعت کے مختلف لوگوں کو جمع کر کے مشورہ لے لیا جائے تاکہ کام میں آسانی پیدا ہو جائے یا ان احباب کو ان ضروریات کا پتہ لگے جو جماعت سے لگی ہوئی ہیں تو یہ مجلس شوریٰ ہے۔ میں پورے طور پر تو نہیں کہہ سکتا کہ باہر کی کانفرنسیں کن اغراض کے لئے منعقد ہوتی ہیں مگر یہ مجلس شوریٰ ہے۔‘‘ (خطاب15؍ اپریل 1922ء، خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ3-4)

پہلی کانفرنسوں اور اِس میں فرق

’’اِس میں اور پہلی کانفرنسوں میں جو ہوتی رہی ہیں فرق ہے اور وہ یہ کہ پہلی کانفرنسیں صدر انجمن کے سیکرٹری کے بُلانے پر ہوتی تھیں مگر یہ خلیفہ کے بُلانے پر منعقد ہوئی ہے۔ اُن کانفرنسوں کا کام محدود اور شاید طریقِ عمل بھی مختلف تھا۔ مگر اِس کا کام بہت زیادہ اور وسیع اور اس کا طریقِ عمل بھی مختلف ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اُن کا طریقِ عمل کیا تھا مگر ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اُن کانفرنسوں کی وجہ سے دو متضاد خیال پیدا ہوگئے تھے۔

ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی اُس میں مَیں بھی شامل تھا۔ اُس سے مَیں نے معلوم کیا کہ اس کے ساتھ ہی دو متضاد خیال پیدا ہوگئے۔ بعض نے کہا کہ اس کانفرنس کا فیصلہ قطعی ہو اور مجلس معتمدین کا فیصلہ اس کے ماتحت ہو۔ جہاں تک مجھے یاد ہے شملہ کے دوستوں نے یہ سوال اُٹھایا تھا اور بہت سے لوگوں نے اس کی تائید کی تھی۔ وہ جو اس کانفرنس کو بُلانے والے تھے اُنہیں یہ بات کھٹکی اور انہوں نے ایسی تقریریں کیں کہ فیصلہ انجمن کا ہی ناطق ہو۔ چنانچہ پہلے تو بجٹ منظوری کے لئے پیش کیا گیا لیکن پھر مشورہ کے لئے قرار دیا گیا۔

میرے خیال میں اِس رنگ میں کانفرنس کا نتیجہ یہی ہونا چاہئے تھا کہ کانفرنس جس میں ساری جماعت کے قائم مقام ہوں ایک محدود آدمیوں کے مجمع کے اُوپر برتری کا خیال پیدا ہو مگر چونکہ کانفرنس منعقد کرنے والوں کی نیّتیں اَور تھیں اِس لئے انہوں نے کانفرنس کا کوئی اصل قائم نہ کیا۔ اُن کا خیال تو یہ تھا کہ اِس طرح خلافت کو نقصان پہنچایا جائے اور جماعت کی رائے کو اپنے ساتھ ملا لیا جائے۔ جب یہ بات حاصل ہو جائے گی تو خلافت کا فیصلہ کر لیں گے مگر چونکہ کانفرنس اُن کے ہی خلاف ہو گئی اِس لئے انہوں نے توڑ دی۔‘‘ ( خطاب15؍ اپریل 1922ءخطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ4)

شوریٰ کی اغراض

’’(۱) جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں قاعدہ تھا احباب سے ضروری معاملات کے متعلق مشورہ لیا جائے، اُس وقت ریلیں نہ تھیں اور ایسے سامانِ سفر نہ تھے جیسے اب ہیں اِس لئے قاعدہ یہ تھا کہ مدینہ کے لوگوں کو جمع کر لیا جاتا۔ خلفاء کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا کہ مدینہ کے لوگوں سے مشورہ لیا جاتا مگر اب چونکہ سامانِ سفر بہت پیدا ہو گئے ہیں ا ور آسانی سے لوگ جمع ہو سکتے ہیں اور میں نہیں جانتا آگے اور ترقی کہاں تک ممکن ہے ہو سکتا ہے ہوائی جہازوں کی وجہ سے سفر میں ایسی آسانی ہو جائے کہ کلکتہ کے لوگ یہاں مشورہ کر کے اُسی دن واپس جا سکیں۔ ایسی صورت میں مجلس مشاورت کو زیادہ وسیع کرنا ضروری ہے کیونکہ وسعت سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے اِس لئے میں نے احباب کو بُلایا ہے کہ وہ اپنی اپنی رائے بتائیں تاکہ اگر کوئی مفید ہو تو اس سے فائدہ اُٹھائیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ باہر کے لوگ مقامی حالات سے واقف نہیں مگر سارے معاملات ایسے نہیں ہیں کہ جن میں مشورہ دینے کے لئے پچھلے حالات سے واقف ہونا ضروری ہو۔ بعض معاملات عقلی ہوتے ہیں اُن میں باہر کا آدمی بھی اُسی طرح بلکہ بعض حالات میں اچھی رائے دے سکتا ہے جیسا کہ قادیان کا رہنے والا دے سکتا ہے۔

(۲) باہر کے احباب یہاں کی تکالیف سے واقف نہیں ہوتے اُنہیں جب کہا جاتا ہے کہ چندہ دو تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ اتنا روپیہ جاتا کہاں ہے اور اُن میں حالات کی ناواقفیت سے اتنا جوش پیدا نہیں ہوتا جتنا واقفیت سے پیدا ہو سکتا ہے اِس لئے میں نے سمجھا کہ اُن کو واقفیت کرائی جائے اور کارکنوں کی مشکلات کا اندازہ لگانے کا موقع دیا جائے۔

(۳) بعض کاروباری آدمی ایسے ہوتے ہیں جو مشورہ دے سکتے ہیں ۔گورنمنٹ کے کام کرنے والے بڑے ماہر ہوتے ہیں مگر اُن کو بھی ایکسپرٹ منگانے پڑتے ہیں جن سے مشورے لیتے ہیں۔ ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں اُن کو بُلایا گیا ہے تاکہ وہ اپنے تجربہ کی بناء پر مفید مشورہ دیں۔

(۴) بعض احباب قادیان آنے میں سُست ہیں اس طرح انہیں یہاں آنے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے پھر یہ کہ جو لوگ جلسہ کے ایام میں یہاں آنے سے محروم رہتے ہیں وہ اس موقع پر فائدہ اُٹھا سکیں اور قادیان سے ان کازیادہ تعلق ہو۔‘‘ (خطاب15؍ اپریل 1922ءخطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ5-6)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشورہ کا طریق

آنحضرتﷺ کے زمانہ میں صحابہ کرامؓ اپنے آقا ومطاع کو جس طریق سے مشورہ دیا کرتے تھے اُس کا ذکر کرتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا:

’’(۱) جب مشورہ کے قابل کوئی معاملہ ہوتا تو ایک شخص اعلان کرتا کہ لوگ جمع ہو جائیں اِس پر لوگ جمع ہو جاتے۔ عام طور پر یہی طریق رائج تھا کہ عام اعلان ہوتا اور لوگ جمع ہو کر مشورہ کر لیتے اور معاملہ کا فیصلہ خلیفہ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کر دیتے۔

اِس زمانہ میں اِس طریق میں بعض دقتیں ہیں جو آج کل کی رسم و رواج کا نتیجہ ہیں اس لئے میں قادیان کے لوگوں سے مشورہ لیتا ہوں مگر اِس طریق سے نہیں بلکہ اس کی شکل میں تغیر کر کے۔ حضرت صاحبؑ بھی اس طرح نہیں لیتے تھے اور مَیں نے بھی حضرت صاحبؑ کو دیکھ کر اس میں تبدیلی کی جو اِس زمانہ کے حالات کی وجہ سے ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت میں ہر جماعت کا سردار اور امیر ہوتا تھا جو لوگ جمع ہوتے وہ جو بات سنتے اُس کا جواب خود نہ دیتے بلکہ کہتے ہمارا امیر جواب دے گا ہمارا حق نہیں کہ بولیں۔

اِس بات کا اُن میں خاص احساس تھا اور ہر ایک کھڑا نہیں ہو جاتا تھا بلکہ ان کا سردار جواب دیتا تھا جمع تو سارے ہوتے تھے مگر بولتا وہی تھا جسے انہوں نے اپنا امیر منتخب کیا ہوتا تھا۔ بعض دفعہ آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں جوش میں آکرکوئی بول پڑا کہ ہم اِس طرح کریں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری بات نہیں مانتا اپنے سردار سے کہو وہ آکر کہے۔ چونکہ عام طور پر مشورہ کے لئے علم اور تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں تو اگر سَو باتیں پیش کی جائیں تو بچے بھی کچھ نہ کچھ اپنی رائے دے د یں گے اور آج کل ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہر ایک رائے دینے کی قابلیت کا دعویدار ہوتا ہے اور رائے دیتا ہے مگر رائے وہی دے سکتا ہے جو سوچ سکتا اور تجربہ رکھتا ہو اس لئے ہر ایک رائے قابلِ توجہ نہیں ہوتی اور نہ اس سے کوئی مفید نتیجہ نکلتا ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت میں سردار مشورہ دیتے تھے ہر ایک نہیں بولتا تھا مگر اب ہر ایک بول پڑتا ہے اس لئے چند ایک کو بُلالیا جاتا ہے اور الگ مشورہ کر لیا جاتا ہے اور اگر الگ نہ کیا جائے تو نام لے دئیے جاتے ہیں کہ فلاں فلاں مشورہ دیں اس لئے اوّل تو کوئی بولتا ہی نہیں اور اگر کوئی بولنے کی جرأت کرے تو اس سے بھی بعض دفعہ مفیدنتیجہ نکال لیا جاتا ہے۔ اب بھی اگر وہی طریق ہو کہ سردار ہوں تو اسی طرح مشورہ ہو سکتا ہے مگر ابھی چونکہ ایسا رواج نہیں اِس لئے مشورہ کے لئے آدمی منتخب کرنے پڑتے ہیں۔

(۲) دوسرا طریق مشورہ کا یہ تھا کہ وہ خاص آدمی جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مشورہ کا اہل سمجھتے اُن کو الگ جمع کر لیتے باقی لوگ نہیں بُلائے جاتے تھے۔ جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مشورہ لیتے تھے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے تیس کے قریب ہوتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب کو ایک جگہ بُلا کر مشورہ لے لیتے۔ کبھی تین چار کو بُلا کر مشورہ لے لیتے۔

(۳) تیسرا طریق یہ تھا کہ آپ کسی خاص معاملہ میں جس میں آپ سمجھتے کہ دو آدمی بھی جمع نہ ہونے چاہئیں علیحدہ علیحدہ مشورہ لیتے۔ پہلے ایک کو بُلا لیا اُس سے گفتگو کر کے اس کو روانہ کر دیا اور دوسرے کو بُلا لیا۔ یہ ایسے وقت میں ہوتا جب خیال ہوتا کہ ممکن ہے رائے کے اختلاف کی وجہ سے دو بھی آپس میں لڑ پڑیں۔

یہ تین طریق تھے مشورہ لینے کے اور یہ تینوں اپنے اپنے رنگ میں بہت مفید ہیں۔ مَیں بھی ان تینوں طریق سے مشورہ لیتا ہوں۔‘‘ (خطاب15؍ اپریل 1922ءخطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 6-7)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button