حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی کے گھر داخل ہونے کا طریقہ اور آداب

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍ ستمبر 2004ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد قرآن کریم کی حسب ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ۔ فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فِیۡہَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدۡخُلُوۡہَاؕ حَتّٰی یُؤۡذَنَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ قِیۡلَ لَکُمُ ارۡجِعُوۡا فَارۡجِعُوۡا ہُوَ اَزۡکٰی لَکُمْ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ۔ (النور: 28-29)

اس کے بعد فرمایا:

اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو۔ یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں پر سلام بھیج لو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ اور اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ تمہیں اس کی اجازت دی جائے۔ اور اگر تمہیں کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جایا کرو۔ تمہارے لئے یہ بہت زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے اور اللہ اسے جو تم کرتے ہو خوب جانتا ہے۔

ہر معاشرے میں ملنے جلنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں، اچھی طرح ملنے والے کو اچھے اخلاق کا مالک سمجھا جاتا ہے… مختلف معاشروں کے ایک دوسرے سے ملتے وقت مختلف حرکات کے ذریعے سے اظہار کے مختلف طریقے ہیں۔ کوئی سر جھکا کر اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے، کوئی رکوع کی پوزیشن میں جا کے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے، کوئی دونوں ہاتھ جوڑ کر، اپنے چہرے تک لے جا کر ملنے کی خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ پھر حال احوال پوچھ کے لوگ مصافحہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن اسلام نے جو ہمیں طریق سکھایا ہے، جو مومنین کی جماعت کو، اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو اپنے اندر رائج کرنا چاہئے وہ ہے کہ سلام کرو۔ یعنی ایک دوسرے پر سلامتی کی دعا بھیجو اور پھر یہ بھی تفصیل سے بتایا کہ سلامتی کی دعا کس طرح بھیجو اور پھر دوسرا بھی جس کو سلام کیا جائے، اسی طرح کم از کم انہیں الفاظ میں جواب دے۔ بلکہ اگر بہتر الفاظ میں گنجائش ہو جواب دینے کی تو بہتر جواب دے۔ اس طرح جب تم ایک دوسرے کو سلام بھیجو گے تو ایک د وسرے کے لئے کیونکہ نیک جذبات سے دعا کر رہے ہو گے اس لئے محبت اور پیار کی فضا بھی تمہارے اندر پید اہو گی۔

پھر یہ بھی بتایا کہ اسلامی معاشرہ کیونکہ امن اور سلامتی پھیلانے والا معاشرہ ہے اس لئے یہ بھی خیال رکھو کہ جب تم کسی کے گھر ملنے جاؤ تو مختلف اوقات میں انسا ن کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں، طبیعتوں کی مختلف کیفیت ہوتی ہے اس لئے جب کسی کے گھر ملنے جاؤ اور گھر والا بعض مجبوریوں کی وجہ سے تمہارے سلام کا جواب نہ دے یا تمہاری توقعات کے مطابق تمہارے ساتھ پیش نہ آئے تو ناراض نہ ہو جایا کرو۔ زود رنجی کا اظہار نہ کیا کرو بلکہ حوصلہ دکھاتے ہوئے، خاموشی سے واپس آ جایا کرو۔ اور اگر اس طرح عمل کرو گے تو ہر طرف سلامتی بکھیرنے والے اور پر امن معاشرہ قائم کرنے والے ہو گے۔

یہ جو دو آیات میں نے تلاوت کی ہیں، آپ نے ان کا ترجمہ بھی سن لیا۔ اس میں اسلام کے حسین معاشرے کو قائم کرنے اور آپس کے تعلقات کو ہمیشہ بہترین رکھنے کے لئے چند بڑی خوبصورت نصائح فرمائی گئی ہیں۔ پہلی بات تو یہ بیان فرمائی کہ تمہارا دائرہ عمل صرف تمہارا اپنا گھر ہے۔ تم اگر آزادی سے داخل ہو سکتے ہو تو اپنے گھروں میں۔ کسی دوسرے کے گھر میں منہ اٹھا کے نہ چلے جایا کرو۔ اس سے تم بہت سی قباحتوں سے بچ جاؤ گے۔

اگر کسی کے پاس ملاقات کے لئے یا کام کے لئے جانا ہے تو پہلے گھر والوں سے اجازت لو اور اجازت لینے کے بہت سے فوائد ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو لکھا ہے کہ بغیر اجازت کسی کے گھر جانے سے ہو سکتا ہے کہ تمہارے پر کوئی اخلاقی الزام لگ جائے، کوئی چوری کا الزام لگ جائے۔ اس لئے اجازت کو اَنا کا مسئلہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری اپنی بھی اسی میں بچت ہے اور گھر والوں سے جو تمہارے تعلقات ہیں ان میں بھی اس میں فائدہ ہے کہ اجازت لے لو۔

پھر بہت ضروری چیز، بہت اہم بات یہ ہے کہ اجازت لینے کا طریق کیاہے۔ فرمایا کہ اجازت لینی کس طرح ہے۔ وہ اس طرح لینی ہے کہ سلام کہہ کر اجازت لو، اونچی آواز میں سلام کہو۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرما تھے، کسی شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر آنے کی اجازت چاہی۔ آپؐ نے اپنے ملازم کو کہا کہ جاؤ اس کو جا کر اجازت لینے کا طریقہ سکھاؤ۔ جو یہ ہے کہ پہلے سلام کرو پھر اندر آنے کی اجازت لو۔ کیونکہ یہی ایک طریق ہے جس سے تم اپنے آپ کو بھی پاک کر رہے ہوتے ہو اور گھر والوں کو بھی سلامتی بھیج رہے ہوتے ہو۔ سلامتی کا یہ پیغام بھیجنے سے یہ احساس بھی رہتا ہے کہ میں نے سلامتی کا پیغام بھیجا ہے اب ان گھر والوں کے لئے میں نے امن کا پیامبر بن کر ہی رہنا ہے ان سے بہتر تعلقات ہی رکھنے ہیں۔ اور پھر گھر والے بھی جو جواب میں سلامتی کا جواب ہی دیتے ہیں تو پھر اس طرح سے دونوں طرف سے محبت کے جذبات کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

گھر میں سلام کہہ کر داخل ہونے کی اجازت کے بارے میں ایک اور روایت میں یوں آتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے قرض کے معاملہ میں حاضر ہوا۔ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو آپؐ نے فرمایا: کون؟ میں نے کہا میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا یہ کیامَیں مَیں لگا رکھی ہے۔ گویا کہ آپؐ نے یہ بات پسند نہیں فرمائی کہ بغیر سلام کے اپنا تعارف کروایا جائے۔ (بخاری کتاب الاستئذان باب اذا قال من ذا)۔ یہ بات آپؐ کو سخت ناپسند تھی کہ کوئی مسلمان ہو اور سلام کو رواج نہ دے اور یونہی گنواروں کی طرح گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرے۔

اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا بھی بڑا واضح حکم ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً(النور: 62)۔ یعنی جب تم گھروں میں داخل ہو تو پہلے اپنے آپ کو سلام کر لیا کرو۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں یعنی اپنے رشتے داروں اور دوستوں کوسلام کہو جو ان مکانوں میں رہتے ہیں اور یاد رکھو کہ یہ سلام تمہارے منہ کا سلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بہت بڑا تحفہ ہے۔ یعنی سلام کا لفظ بظاہر تو بہت معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن ہے بڑے عظیم الشان نتائج پیدا کرنے والا۔ کیونکہ سلام کے لفظ کے پیچھے خداتعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا وعدہ ہے۔ پس جب تم کسی بھائی کو سلام کہتے ہو تو تم نہیں کہتے بلکہ خداتعالیٰ کی دعا اسے پہنچاتے ہو۔ فرمایا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ عموماً ہمارے ملک میں لوگ اپنے گھروں میں داخل ہوتے وقت السلام علیکم نہیں کہتے۔ گویا ان کے نزدیک ایک دوسرے کے لئے تو یہ دعا ہے لیکن اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے لئے نہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب بھی وہ اپنے گھروں میں جائیں السلام علیکم کہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا اے میرے بیٹے! جب تم اپنے گھر والوں کے ہاں جاؤ تو سلام کہا کرو۔ یہ تمہارے اور تمہارے اہل خانہ کے لئے خیر و برکت کا موجب ہو گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button