متفرق مضامین

اسلامی قانون میں قذف، زنا بالرضا یا زنا بالجبر کے ثبوت کا طریق اوراس کی سزا (قسط سوم)

(’ایچ ایم طارق‘)

اگر گواہوں کے ذریعہ جرم زنا ثابت ہوجائے تو اس کی سزا حدّ نافذ ہوگی اور اگر دیگر ثبوت و قرائن سے زنابالجبر ثابت ہوتواس کی تعزیری سزا اسلامی ریاست میں قانون کے مطابق نافذ ہوگی۔ غیر اسلامی ریاست کی صورت میں موجود نظام حکومت کے مطابق فیصلے پر عملدرآمد ہوگا۔

زناکاری اور اس کی تشہیر و اشاعت فحشا کی تعزیری سزا

زنا کی سزا سو کوڑے کا حکم مدینہ میں 5 نبوی میں سورت نور میں نازل ہوا۔ اس سے قبل مدینہ میں پہلے سے موجود بدکاری کے اڈوں کا خاتمہ اور استیصال کرنےکےلیےسورۂ احزاب میں منافقوں کو متنبہ کر دیا گیاکہ اگروہ زناکاری اوراس کی تشہیر و اشاعت سے باز نہ آئے تو انہیں موت تک کی سزا دینے سے بھی دریغ نہیں کیاجائے گا۔ فرمایا: لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰـفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِیْ الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَآ اِلَّا قَلِیْلًا۔ مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا۔ سُنَّۃَ اللّٰہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْـلًا (الاحزاب: 61تا 63) یعنی اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینہ میں جھوٹی خبریں اڑاتے پھرتے ہیں باز نہیں آئیں گے تو ہم ضرور تجھے (ان کی عقوبت کے لئے) ان کے پیچھے لگا دیں گے۔ پھر وہ اس (شہر) میں تیرے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑا۔ (یہ) دھتکارے ہوئے، جہاں کہیں بھی پائے جائیں پکڑ لئے جائیں اور اچھی طرح قتل کئے جائیں۔ (یہ) اللہ کی سنّت ان لوگوں کے متعلق بھی تھی جو پہلے گزر چکے ہیں اور تُو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔

آیت میں لفظ تقتیلسے قتل یا سنگساری بھی مراد لی جاسکتی ہے۔ سنگساری کا طریق اس لیےرائج ہوا تاسب لوگ مل کر مجرم کو اس کے انجام تک پہنچائیں اور قتل کا الزام کسی ایک فرد پر نہ آسکے اور قبائل میں اس کے نتیجہ میں انتقامی لڑائیوں کا سدّباب ہو۔

توریت میں بھی سنگساری کا حکم تھاجس کا نفاذآغاز اسلام میں ایسے یہودی مجرموں کے علاوہ بعض مسلمانوں پربھی ہوا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃالاحزاب کی مذکورہ بالا آیات سے زنا کی سزا قتل مراد لیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہودیوں کی مقدس کتاب اور اسلام کی مقدس کتاب کی رو سے یہ عقیدہ متفق علیہ مانا گیاہے کہ جو شخص ایسا ہو کہ خدا کی کتابوں میں اس پر ملعون کا لفظ بولا گیاہو۔ وہ ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم اور بے نصیب ہوتاہے۔ جیساکہ اس آیت میں یہی اشارہ ہےمَلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓااُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً یعنی زناکار اور زناکاری کی اشاعت کرنے والے جو مدینہ میں ہیں یہ لعنتی ہیں یعنی ہمیشہ کے لئے خدا کی رحمت سے رد کئے گئے اس لئے یہ اس لائق ہیں کہ جہاں ان کو پاؤ قتل کرو۔ پس اس آیت میں اس بات کی طرف یہ عجیب اشارہ ہے کہ لعنتی ہمیشہ کے لئے ہدایت سے محروم رہتاہے اور اس کی پیدائش ہی ایسی ہوتی ہے جس پر جھوٹ اور بدکار ی کا جوش غالب رہتاہے اوراسی بنا پرقتل کرنے کاحکم ہوا کیونکہ جو قابل علاج نہیں اورمرض متعدی رکھتاہے اس کامرنا بہترہے۔‘‘ (تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد 15صفحہ237-238)

یہاں دو باتیں خاص طورپر قابل توجہ ہیں۔ اوّل یہ کہ قتل کی یہ تعزیری سزا زناکاری کے ساتھ اس کی اشاعت کرنے والوں کے لیے ہے، دوم یہ کہ جب زنا کا مرض متعدی ہو اور قابل علاج نہ ہوتوصرف اس صورت میں سزا موت ہے۔ اشاعت زنا کاری کے نتیجہ میں نہ صرف زنا کے عادی مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہےبلکہ بلیک میلنگ کے رستے کھلتے اور اس دلدل سے نکلنے کی خواہش رکھنے والا بھی ان کے چُنگل سےباہرنکل نہیں سکتا اور ایک اور قسم کے جبری زنا کی زنجیرمیں جکڑا جاتا ہے۔

سورۂ احزاب میں زنا کاری اور اس کی اشاعت کی سزا کے احکام نازل ہونے سے کچھ عرصہ بعد سورۃ النور کی آیت تجلید میں کوڑوں کا یہ حکم نازل ہوا: اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۔ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰ خِرِ۔ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (سور ۃ النور: 3)زنا کار عورت اور زنا کار مرد، پس ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور اللہ کے دین کے تعلق میں ان دونوں کے حق میں کوئی نرمی (کا رُجحان) تم پر قبضہ نہ کر لے اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ اور ان کی سزا مومنوں میں سے ایک گروہ مشاہدہ کرے۔

آیت کاحکم اکثرعلماء کے نزدیک عام نہیں خاص ہے اس لیے صرف کنوارے مرد یا عورت کی سزا سو کوڑے ہے جبکہ شادی شدہ مرد یا عورت زنا کے مرتکب ہوں تواس کی سزا سنت رسولؐ کے مطابق رجم ہےان کے نزدیک سنت نے قرآن کی تخصیص کر دی۔

ہمارے نزدیک سوکوڑے کی سزا کا حکم عمومی ہےاورکنوارے یا شادی شدہ دونوں کی یہی سزا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک شادی شدہ کی سزا کوڑے ہی ہوں گے سوائے اس کے کہ Adultery(بدکاری) کا عادی ہو اور لڑکیوں کو خراب کرے۔ اس کو بے شک Stoning کا مستحق سمجھیں گے۔ مگر شرائط وہی ہیں کہ چار عینی گواہ ہوں جو ملنے قریباً ناممکن ہوتے ہیں۔‘‘ (فائل مسائل دینی 1958ء)

البتہ سورۃ الاحزاب کے مشروط حکم کے مطابق جب زناکے مجرم عادی ہوں اوراس کی تشہیر واشاعت سے معاشرہ کو خراب کریں تو ان کی سزا موت ہوسکتی ہے۔

اسلامی ریاست مدینہ میں اس حکم پرعملدرآمد کی تین مثالیں ملتی ہیں۔

1.جہینہ قبیلہ کی عورت فاطمہ غامدیہ کو ناجائز حمل کے اعتراف پررجم کیاگیا۔ (مسلم کتاب الحدود باب حد الزنا )

2.ایک نوکر نے اپنے مالک کی بیوی سے زناکیا۔ اس عورت کوحضورؐ کے حکم سے رجم اورنوکر کو بھی سوکوڑے اورایک سال کی جلاوطنی کی سزا ہوئی۔ (المعجم الاوسط للطبرانی جزء6صفحہ302 )

3.ماعزبن مالک اسلمی کےچار بارسرعام زنا کےاعتراف پررجم کی سزادی گئی۔ یہ بھی مذکور ہے کہ ماعزسے حضورﷺ نے کئی سوالات کرکے تحقیق کے بعد اس کے مسلسل اقرار پر سزا دی۔ (بخاری کتاب المحاربین۔ باب رجم المحصن)

زنا بالجبر کی تعزیری سزاموت کی دوسری دلیل

قرآن شریف کی ایک اور آیت سے بھی زنابالجبر کی تعزیری سزا ہاتھ پاؤں کاٹنےیا جلاوطنی یا موت تک ہوسکتی ہے۔ جس کا استنباط اس آیت محاربت سےہوتاہے۔ فرمایا: اِنَّمَا جَزَآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ۔ ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (المائدہ: 34)یعنی یقیناً اُن لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں یہ ہے کہ انہیں سختی سے قتل کیا جائے یا دار پرچڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں یا انہیں دیس نکالا دے دیا جائے۔ یہ ان کے لئے دنیا میں ذلت اور رسوائی کا سامان ہے اور آخرت میں تو اُن کے لئے بڑا عذاب (مقدر)ہے۔

اس آیت کی شان نزول کی ایک روایت کے مطابق یہ آیت قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جن کے جرائم میں قتل، ڈاکہ، فساد کے علاوہ زنا کا جرم بھی تھا جو انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کی بیوی سے کیا۔ (تفسیر ابن جریر جلد 6صفحہ 105مطبوعہ مصر)

یہ امر قابل ذکر ہے کہ امام بخار ی نے اپنی صحیح میں رجم کا باب دوسرے محدثین کی طرح کتاب الحدود میں نہیں بلکہ کتاب المحاربین میں باندھا ہے اور اس کتاب کی ابتدا آیتِ محاربت سے کی ہے جس میں یہ اشارہ مقصود ہے کہ امام بخاری کے نزدیک رجم کی سزا آیت ِمحاربت سے مستنبط ہوتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کاکوڑوں کی سزا کے علاوہ خاص حالات میں رجم کےحوالے کاذکرہوچکا ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی زنابالجبر کی سزا کے بارے میں راہ نمائی

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آیت محاربت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرے نزدیک کیونکہ سنگسار کالفظ قطعیت کے ساتھ یہاں ملتاہے اور چونکہ ا س فساد میں صرف زنا نہیں بلکہ بالجبر شامل ہو سکتاہے تووہ محض زناکی سزا نہیں ہوگی بلکہ ایسا زناجس میں سے ایک عورت پر ظالمانہ حملہ ہواہے اس کو ہمیشہ کے لئے مجروح کرکے رکھ دیاگیاہے۔ یہ عام زنا نہیں ہے…۔

پس یہ آیت سنگسار کے ان کیسوں پر اطلاق کرے گی جیسے مثلاً کسی زنابالجبر کے کیس میں انتہائی ظالمانہ حرکت ہوتی ہے۔ اگروہاں سوکوڑے عام مارے جائیں اورباقیوں کو بھی، تو یہ بات کوئی انسانی فطرت کے مطابق نہیں ہے…۔‘‘ (درس القرآن فرمودہ 24؍رمضان المبارک بمطابق 11؍فروری 1992ء)

اسلامی سزاؤں کے نفاذکا اصول

اسلامی قانون کے مطابق حدودوقصاص سے متعلق جرائم کی سزاؤں کا نفاذ صرف اسلامی حکومت میں ہوسکتا ہے۔ دیگر کسی نظام حکومت کے تابع ہونے کی صورت میں اس حکومت کے قانون کے مطابق عملدرآمدہوگا۔

زنابالجبر کی شکایت کے بارے میں قرآن و سنت سے راہ نمائی

اس مسئلہ میں فقہاء میں اختلاف ہے کہ زنابالجبر کےلیے چارگواہوں کی شرط ضروری ہےیانہیں۔ اکثر فقہاء کے نزدیک ایسے معاملہ میں چارگواہ ضروری نہیں البتہ بعض فقہاء احناف نے زنا بالجبر کےلیے بھی چار گواہ کی شرط رکھی ہے اوربعد ثبوت اس کی سزا بھی زنا کی طرح سوکوڑے ہی بیان کی ہے۔

جیساکہ علامہ ابن عبد البر (متوفی: 463ھ)لکھتے ہیں: ’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زبردستی اور جبراً زنا کرنے والا موجب حد ہے، اگر اس پر وہ گواہیاں پیش کر دی جائیں جو حد کو لازم کرتی ہیں یا پھر وہ خود اس کا اقرار کر لے۔‘‘ (الاستذکارجزء7صفحہ146)

اسی طرح حنفی فقہ کے بزرگ عالم علامہ سرخسی(متوفی: 483ھ) لکھتے ہیں: ’’جب گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ ایک شخص نے ایک عورت کو مجبور کر کے اس کے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا ہے تو اس شخص پر تو حد نافذ کی جائے گی، مگر عورت پر نہیں کی جائے گی…اس لیے کہ اس نے فعل زنا کی تکمیل کی اور اس لیے کہ اس کا جبراً یہ کام کرنا رضا مندی سے کرنے سے زیادہ سنگین ہے۔‘‘ (المبسوط جزء9 صفحہ54)

البتہ اس بارہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ زنابالجبر کے دعویٰ پر پہلے مرحلہ میں جرم زنابالرضا یا زنابالجبر کی نوعیت کی تعیین و تفریق اور ثبوت کےلیے قاضی گواہ طلب کرسکتا ہے۔ جب یہ ثابت ہوجائے کہ شکایت کے مطابق واقعہ زنابالجبر کا ہے تو اس کے گواہ موجود نہ ہونے کی صورت میں پہلے ملزم کے اقرار و انکار کا جائزہ لیاجائے گا۔ اس کے انکار کے بعد موجود گواہی یا ثبوت و قرائن قابل غور ہوں گے۔ مثلاً سی سی ٹی وی فوٹیج(CCTV Footage)، فرانزک ٹیسٹ(Forensic Test) اور میڈیکل رپورٹ DNAٹیسٹ وغیرہ

اگر گواہوں کے ذریعہ جرم زنا ثابت ہوجائے تو اس کی سزا حدّ نافذ ہوگی اور اگر دیگر ثبوت و قرائن سے زنابالجبر ثابت ہوتواس کی تعزیری سزا اسلامی ریاست میں قانون کے مطابق نافذ ہوگی۔ غیر اسلامی ریاست کی صورت میں موجود نظام حکومت کے مطابق فیصلے پر عملدرآمد ہوگا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button