متفرق مضامین

کہکشاؤں کا وسیع نظام خداتعالیٰ کی تخلیق کا شاہکار

(سید عمار احمد)

کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمتوں کے جو راز ہیں ان کا کو ئی احاطہ نہیں کر سکتا اگر تمام سمند ر روشنائی اور تمام درخت قلم بن جائیں تو سمندرخشک اور قلم ختم ہو جائیں گے لیکن خالق کائنات کے اسرار بیان کرنے باقی رہ جائیں گے

ہمارا نظام شمسی جس میں سورج سمیت زمین، چاند اور دوسرے سیارے موجود ہیں، یہ سب مل کر سور ج کے گرد اپنے اپنے مدار میں چکر لگارہے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب کے علم میں یہ بات ہے کہ ہمارا یہ نظام شمسی ایک کہکشاں کے اند ر واقع ہے۔ اس کہکشاں کو Milky Way کہا جاتا ہے۔ نظام شمسی ہماری کہکشاں کے مرکز سے تقریباً 26,000 نوری سال پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری کہکشاں Milky Way تقریباً 2لاکھ نوری سال کی دوری تک پھیلی ہوئی ہے۔ اور یہ اتنی وسیع جگہ ہے کہ یہاں تک کہ اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں تو ایک طرف سے دوسری طرف جانے میں 200,000 سال کا وقت لگے گا۔ نوری سال، لمبائی کی ایک اکائی ہے جو فلکیاتی فاصلوں کے اظہار کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ایک نوری سال تقریباً 9.46 ٹریلین کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے۔

کائنا ت میں کشش ثقل

نظام شمسی میں ایک نہ نظر آنے والی زبردست قوت جس کو کشش ثقل کہتے ہیں، موجود ہے۔ یہ کشش ثقل ہی تمام سیاروں کو سورج کے گرد گھومنے پر مجبور کرتی ہے۔ کائنات میں ہر طرف یہ قوت کار فرما ہے۔ نہ صرف نظامِ شمسی بلکہ کائنات میں اور دیگر نظام بھی آپس میں اسی کشش ثقل کی وجہ سے قائم ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّکُمۡ تُوۡقِنُوۡنَ۔ (الرعد: 3)اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے بلند کیا جنہیں تم دیکھ سکو۔ پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا اور سورج اور چاند کو خدمت پر مامور کیا۔ ہر چیز ایک معین مدت تک کے لئے حرکت میں ہے۔ وہ ہر معاملہ کو تدبیر سے کرتا ہے (اور) اپنے نشانات کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب سے ملاقات کا یقین کرو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سورت الرعد کے تعارف میں فرماتے ہیں: ’’کائنات کے رازوں میں سے سب سے بنیادی بات جو یہاں پیش کی گئی ہے وہ کشش ثقل ( Gravity) کی حقیقت ہے۔ فرمایا کہ زمین و آسمان از خود اتفاقاً اپنے مدار پر قائم نہیں بلکہ تمام اجرام فلکی کے درمیان ایک ایسی پنہاں قوت کام کر رہی ہے جسے تم آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ اس قوت کے نتیجہ میں اپنے مدار پر قائم سارے اجرام فلکی گویا ستونوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ علم فلکیات کے ماہرین کشش ثقل کی یہی تعبیر کرتے ہیں۔ (قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ 399)

کہکشاں اور اس کی مختلف اقسام

ایک کہکشاں ستاروں، گیس، دھول اور تاریک مادے کا ایک بہت بڑا نظام ہے جو کشش ثقل سے جڑا ہوا ہے۔ کہکشاؤں کو ان کی ظاہری خدوخال یا شکل کے مطابق ماہرین فلکیات نے تین بڑی اقسام میں یعنی Elliptical، Spiral اور Irregular میںتقسیم کیا ہے۔ یہ کہکشائیں مختلف سائز یا جسامت کی ہوتی ہیں۔

چھو ٹی کہکشاں اپنی میزبان کہکشاں کے گرد گھومتی ہے

جیسے ہمارے اپنے نظام شمسی کے اندر موجود سیارے کشش ثقل کے ساتھ سورج کے پابند ہیں۔ نہ وہ ایک دوسرے کو پکڑ سکتے ہیں اور نہ ایک دوسرے سے آگے نکل سکتے ہیں بلکہ اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح چھوٹی کہکشائیں ان کی میزبان کہکشاں کے پابند ہیں۔ ایک سیٹلائٹ کہکشاں Satellite Galaxy ایک چھوٹی سی ساتھی کہکشاں ہے جو اپنے سے زیادہ بڑے اور چمکدار میزبان کہکشاں کے گرد کشش ثقل کی وجہ سے مدار میں سفر کرتی ہے۔ زیادہ تر Satellite کہکشائیں Dwarf کہکشائیں کہلاتی ہیں۔ ہماری کہکشاں کے گرد تقریباًپچاس Satellite کہکشائیں چکر لگاتی ہیں جن میں سے سب سے بڑی LMC Large Magellanic Cloud کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اور دوسری Small Magellanic Cloud SMCایک Dwarf کہکشاں ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَلَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَکُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ۔ (یٰس: 41)سورج کی دسترس میں نہیں کہ چاند کو پکڑ سکے اور نہ ہی رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے اور سب کے سب (اپنے اپنے) مدار پر رواں دوا ں ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اس آیت کے نوٹ میں فرماتے ہیں: ’’…اور ایک معنی جو آجکل ماہرین فلکیات نے معلوم کیا ہے وہ یہ ہے کہ سورج اپنے سارے اجرام کے ساتھ ایک سمت میں حرکت کر رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ساری کائنات مجموعی طور پر حرکت کر رہی ہے ورنہ ایک سیارے کا دوسرے سے ٹکر اؤ ہو جانا چاہئے تھا۔ باوجود اس کے کہ پوری کائنات متحرک ہے ان اجرام فلکی کے آپس کے فا صلے اتنے ہی رہتے ہیں۔ یہ ماہرین فلکیات کی تازہ ترین دریافتوں میں سے ہے جس سے ضمنا ًیہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی اور نامعلوم کائنات بھی ہے جس کی کشش کے ساتھ ہی یہ اس کی جانب متحرک ہے۔‘‘(قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ 777)

اللہ تعالیٰ کی صفت اَلْقَیُّوْمُ

حضرت مصلح موعودؓ خالق کائنات کی صفت اَلْقَیُّوْمُ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’اَلْقَیُّوْمُ کی صفت اجرام فلکی میں کشش ثقل کے وجود اور خورد بینی ذرات کے ایک دوسرے سے اتصال اور ایک دوسرے سے ادغام اور ایک دوسرے کے گرد گھومنے وغیرہ افعال پر لطیف رنگ میں اشارہ کرتی ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد2صفحہ 578)

کائنات میں کہکشاؤں کے گروپس ہیں

Milky Way کے علاوہ کائنا ت میں اور بھی کہکشائیں موجو د ہیں۔ کہکشاؤں کا مجموعہ جس میں تقریباً 50آس پاس کی کہکشائیں شامل ہیں، کہکشاں کا ایک گروپ Galaxy Groupکہلاتا ہے۔ ہماری کہکشاں Milky Way جس گرو پ کے اندر موجود ہے اس کو Local Group کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ ایک کروڑ نوری سال کے فاصلے پر محیط ہےیعنی اس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے میں ایک کروڑ نوری سال لگیں گے۔ لوکل گروپ میں تین بڑی کہکشائیںموجودہیںجن کےنامMilky Way, Andromeda اور Triangulum ہیں اور باقی اکثر چھوٹی کہکشائیں جن کو Dwarf Galaxiesکہتے ہیں۔ Dwarf Galaxyایک چھوٹی کہکشاں ہوتی ہے جو کہ تقریباً 1000سے کئی ارب ستاروں پر مشتمل ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ہماری کہکشاں Milky Wayمیں اندازاً 100سے 400 ارب ستارے موجود ہیں۔ کہکشاؤں کو کشش ثقل کے سبب سے Groups، Clusters اور Superclusters میں منظم ہو تا دیکھا جا سکتا ہے۔

کہکشاؤں کے مختلف گروپس مل کر Clusters بناتے ہیں

کہکشاؤں کا جھرمٹ Cluster ایک ایسا ڈھانچہ ہے جو سینکڑوں سے ہزاروں کہکشاؤں پر مشتمل ہوتا ہے جو کشش ثقل سے جڑا ہوتا ہے۔ کلسٹرکہکشاؤں کے بڑے خاندان ہیں جو کشش ثقل کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جس میں کافی مادے ہوتے ہیں جو دور دراز کی کہکشاؤں کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں۔ ایک کلسٹر میں 100 سے 1000 تک یا زیادہ کہکشائیں، ایکس ریز خارج کرنے والی گرم گیس اور بڑی مقدار میں dark matter ہوتے ہیں۔ گلیکسی کلسٹر صاف ستھری شکلوں میں نہیں ہوتے اس لیے یہ طے کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ وہ کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں ختم ہوتے ہیں۔ نسبتا ًقریبی کائنات میں قابل ذکر کہکشاں کلسٹروں میں Virgo Cluster، Fornax Cluster، Hercules Cluster، اور Coma Cluster شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی کلسڑ ز کائنات میں موجود ہیں۔

Virgo Cluster ہماری کہکشاں کے قریب ترین ایک بڑا کلسٹر ہے۔ یہ تقریباً 1300 اور ممکنہ طور پر 2000 تک ممبر کہکشاؤں پر مشتمل ہے۔ یہ زمین سے ایک اندازے کے مطابق 6کروڑ 52 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ کلسٹر تقریباً 1کروڑ 50 لاکھ نوری سال تک پھیلا ہوا ہے۔ Fornax Clusterبھی ہماری کہکشاں کے قریب ترین کہکشاں کلسٹروں میں شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں تقریباً 60 بڑی کہکشائیں ہیں، اور اتنی ہی تعداد میں Dwarf کہکشائیں بھی ہیں۔ Hercules Cluster تقریباً 300 کہکشاؤں کا کلسٹر ہے۔ اس میں زیادہ تر Spiral ساخت والی کہکشائیں موجو د ہیں۔ Coma Clusterتقریباً 10,000 تک کہکشاؤں پر مشتمل ہےاور تمام شکلوں اور سائز کی کہکشاؤں سے بھرا ہوا ہے۔

یہ کائنات ہر لمحہ وسعت پذیر ہے

وَالسَّمَآءَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ۔ (الذّٰریت: 48)اورہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقیناً ہم وسعت دینے والے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں: ’’اس آیت کریمہ میں بِاَیْدٍکا لفظ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو بناتے ہوئے اس میں بے شمار فوائد رکھ دیئے ہیں اور ساتھ ہی یہ ذکر بھی فرمادیا کہ اسے ہم وسیع تر کرتے چلے جائیں گے۔ اس کا یہ حصہ کہ ہم اسے مزید وسعتیں دیتے چلے جائیں گے ایک عظیم الشان اعجازی کلام ہے جو عرب کا ایک امّی نبی اپنی طرف سے ہر گز بیان نہیں کرسکتا تھا۔ یہ امر سائنس دانوں نے جدید آلات کی مدد سے اب دریافت کیا ہے کہ یہ کائنات ہر لمحہ وسعت پذیر ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں تو ہر انسان کو یہ ایک جامد اور ٹھہری ہوئی کائنات دکھائی دیتی تھی۔ (قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ 949)

کہکشاؤں کے Clusters مل کر Superclusters بناتے ہیں

بات یہا ں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ کائنات میں موجود کہکشاؤں کے Clusters مل کر Superclusters بناتے ہیں۔ یہ کائنات کے سب سے بڑے ڈھانچے ہیں۔ کائنات میں سپر کلسٹروں کی تعدادایک کروڑ بتائی جاتی ہے۔ کہکشاؤں کے اتنے بڑے بڑے گروہوں کے بارے میں پڑھنے کے بعدہم اس کائنات کی وسعت کا اندازہ نہیں لگاسکتے کہ کہاں سے کہاں تک ہے۔ ہمار ی کہکشاں Milky Way جس سپرکلسٹر میں موجود ہے اس کا نام Virgo Supercluster ہےاور کم از کم 100کہکشاں گروپ اور کلسٹر اس کے اندر واقع ہیں۔ اس کا سائز 11کروڑ نوری سال ہے۔ Virgo Cluster بھی اسی میں شامل ہے۔

Virgo Supercluster، Supercluster Pavo-Indus، Southern Superlcuster، Hydra Supercluster اورCentaurus Supercluster سب مل کر ایک اور بڑا سپرکلسٹر بناتے ہیں اور اس کو Laniakea Supercluster کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کلسڑ تقریباً 000، 100 کہکشاؤں پر محیط ہے اور اس کا سائز 52کروڑ نوری سال ہے۔ یہ سپر کلسٹر کائنات میں صرف ایک نقطہ کی طرح نظر آتا ہے کیونکہ اس طرح کے کئی اور بڑے مجموعے بھی موجود ہیں جو کہ خلا میں ایک جال کی طرح پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں۔

کائنات کے کنارے پر واقع کہکشائیں بھی انسان پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ڈال رہی ہیں

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سورت لقمان کے تعارف میں فرماتے ہیں: ’’الله تعالیٰ کی نعمتوں کی تو کوئی انتہا ہی نہیں جس نے زمین اور آسمان اور اس میں مخفی تمام طاقتوں کو انسان کی نشوونما کےلئے مسخر کردیا حتی کہ کائنات کے کنارے پر واقع گیلیکسیز (Galaxies) بھی انسان میں مخفی طاقتوں پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ڈال رہی ہیں۔ (قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ 710)

کائنات کی وسعت اور تخلیق میں انسانوں کےلیے بھاری نشان ہے

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ کہہ کر بتایا کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں بڑا بھاری نشان تو ہے مگر اس سے فائده صرف مومن اٹھاتے ہیں دوسرے لوگ اتنا بڑا نشان دیکھنے کے باوجود کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے حالانکہ انسان اگر سوچے توہماری یہ زمین عا لم شمسی کے مقابلہ میں بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک بڑےباغ میں کوئی مالٹا رکھا ہؤا ہو۔ مثلاً شالا مار باغ میں کوئی مالٹایا بیرپڑا ہو تو اس بیریا مالٹے کی جو حیثیت شا لامار کے مقابلہ میں ہے اس زمین کی عالم شمسی کے سامنے اتنی حیثیت بھی نہیں۔ پھر عالم شمسی یعنی سورج کے ساتھ جو سیارے وغیرہ ہیں ان کی حیثیت قطب ستارے کے نظام کے مقابلہ میں اتنی بھی نہیں جتنی ایک بیر کی حیثیت باغ کے مقابلہ میں۔ یا ایک مکھی کی حیثیت شہر کے مقابلہ میں ہو تی ہے۔ پھر قطب ستارے کے ساتھ جو دنیا ہے اس کی حیثیت معلومہ دنیا کے مقابلہ میں اتنی بھی نہیں جتنی ایک مکھی کی شہر کے مقابلہ میں۔ اگر انسان اس کا اندازه لگانا شروع کردے کہ عا لم خلق کے مقابلہ میں مکھی کی کیا حیثیت ہے اور پھر سو چے کہ عالم خلق کے مقابلہ میں انسان جو ایک خورد بینی ذرے کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ وہ اس کے مقابلہ میں ایک خوردبینی ذرے کے اربوں حصہ تو کیا اس کے اربویں حصہ کے اربویں حصہ کی حیثیت رکھتا ہے اس انسان کو پیدا کرنے کا خیال خداتعالیٰ کو کیوں آیا۔ تو یقیناً اسے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا خیال آسکتا ہے اور وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی حیثیت کتنی کمزور ہے اور اس کا غرور کتنا احمقانہ ہے۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد7صفحہ637تا638)

کائنات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمتوں کے جو راز ہیں ان کا کو ئی احاطہ نہیں کر سکتا۔ اگر تمام سمند ر روشنائی اور تمام درخت قلم بن جائیں تو سمندرخشک اور قلم ختم ہو جائیں گے لیکن خالق کائنات کے اسرار بیان کرنے باقی رہ جائیں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button