متفرق مضامین

اسلامی قانون میں قذف، زنا بالرضا یا زنا بالجبر کے ثبوت کا طریق اوراس کی سزا (قسط دوم)

(’ایچ ایم طارق‘)

قرآن کریم سےعورت کے دعویٰ زنا بالجبر کے متعلق راہ نمائی

زنابالجبر کا معاملہ انتہائی نازک ہوتا ہے خصوصاً ایسی صورت حال میں جب گواہ بھی میسر نہ ہوں تو بہت مشکل پیش آتی ہے اور طبعاً صنف نازک کےلیے معاشرے میں ’’مظلومیت‘‘اورہمدردی کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔

قرآن شریف میں ایک عورت کی طرف سے حضرت یوسفؑ پرزنابالجبر کے الزام اور اس کے فیصلہ کی نظیر سورت یوسف میں موجود ہے اس سورت کے آغاز میں اسے’’ حقائق پر مشتمل بہترین بیان‘‘قرار دیا۔ (یوسف: 4)توآخرسورت میں فرمایا کہ انبیاء کے واقعات کے بیان میں عقل مندوں کےلیے عبرت کا سامان ہے۔ (یوسف: 112)اس تناظرمیں اس نظیرسے بہترین راہ نمائی اخذ کی جاسکتی ہے۔

واقعہ کے مطابق عزیز مصر کی بیوی زلیخا نے اپنے کنعانی غلام حضرت یوسفؑ کوبَد ارادے سے اپنے گھر کے دروازے بندکرکے اپنی طرف بلایا جبکہ حضرت یوسفؑ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اس سے بچنے کی خاطر دروازے کی طرف بھاگے تو وہ عورت بھی پیچھے بھاگی۔ اس کشمکش میں حضرت یوسفؑ کا کرتہ پیچھے سے پھٹ گیا۔ اتفاق سےعین موقع پرعزیزمصربھی پہنچ گیاتو اس کی عورت نے الٹا حضرت یوسفؑ پر یہ الزام لگادیا کہ ایسے شخص کی سزا قید کے سوا کیا ہوسکتی ہے جوآپ کی بیوی سے بدی کا ارادہ کرے۔ حضرت یوسفؑ نے اس الزام سے انکار کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ دراصل اس عورت نے ہی میری مرضی کے خلاف بدی کرنا چاہی۔ اس پر افراد خانہ میں سے ایک گواہی دینے والے نے صاحب خانہ اور مالکہ کے رعب کے باوجودیہ گواہی دےدی اور اپنے بیان میں یہ کہا کہ اگر تو حضرت یوسفؑ کا کرتا آگے سے پھٹا ہے تو وہ جھوٹے اورعورت سچی ہے اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو عورت جھوٹی اور حضرت یوسفؑ سچے ہیں۔ جب عزیز مصر نے کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوادیکھا تو یہ فیصلہ سنایا کہ یہ عورتوں کی چالبازی ہے اور عورتوں کی چالبازی بہت بڑی ہوتی ہے۔ (یوسف: 23تا29)

قرآن کریم کے اس پُرحکمت بیان سے درج ذیل امور کا استنباط ہوتا ہے:

1.اس واقعہ سےقرائن کی شہادت کے جواز کا پتہ چلتا ہے کہ حسب ضرورت قرائن سے بھی شہادت اخذکی جاسکتی ہے یا اگر اکیلی گواہی میں نقص ہوتو گواہی کی تقویت کےلیے قرائن قویہ سے مزیدمدد لی جاسکتی ہے جیساکہ اس واقعہ کے صرف ایک گواہ نے گھر کی مالکہ کے رعب سے گول مول گواہی دی مگر ساتھ ہی کرتہ کے پیچھے سے پھٹا ہونے کے مضبوط قرینہ کابھی ذکرکردیا(جو دوسرے گواہ کا متبادل ٹھہرا)۔ یوں مبہم گواہی کے ساتھ قرینہ قویّہ نے ایک فرد کی گواہی کو دوگواہوں کے برابرتقویت دے دی۔

2.اس واقعہ میں زنابالجبر کی شکایت کرنے والی مدعیہ کا وقوعہ کے فوری بعد شکایت کی صورت میں فیصلہ نسبتاً آسان ہوگیا۔ جبکہ تاخیرکے نتیجہ میں شواہد و قرائن ضائع ہوجانے سے دونوں فریق کی حق تلفی یا نقصان کا احتمال ہوسکتاہے جیسے اس واقعہ میں پیچھے سے تازہ پھٹا ہوا کرتہ حضرت یوسفؑ کوالزام سے بری کرنے میں بطورقرینہ قویّہ ممدثابت ہوا۔

3.تیسری بات اس واقعہ سے یہ مستنبط ہوتی ہے کہ عورت باوجود کمزور اور مظلوم، لائق ہمدردی طبقہ سمجھے جانےکے بعض دفعہ نفسانی خواہش سے چالبازی اور مکاری سے ظالم ہوکر جھوٹا الزام بھی لگا سکتی ہے۔ (یوسف: 29-30)

4.عزیز مصر نےاپنے فیصلہ میں عورت کو ظالم اور خطاکار قرار دے کر اپنے گناہ کی معافی مانگنے کی نصیحت کی اور حضرت یوسفؑ کو بری قرار دے کر اس واقعہ کو بھول کر اعراض کرنے کامشورہ دیا(یوسف: 30) تاکہ اس کی عورت کی عزت محفوظ رہے۔ مگر بعد میں عزیز مصرنے بیوی کے غلط اصرار اور ارادۂ گناہ کے عزم صمیم کے آثار دیکھ کر حضرت یوسفؑ کو کچھ عرصہ کےلیےقیدکردینے کا فیصلہ کیا۔ تو اس سے آزادی حضرت یوسفؑ نے اس وقت تک گوارا نہ کی جب تک زنا کی تہمت سے میری بریّت نہ ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’یوسفؑ جو ایک نبی تھا اس پر ایک جھوٹا الزام اقدام زنالگاکر اس کو قید کیاگیا اور پھر مدت کے بعد معافی دی گئی تو اس نے اس معافی کو قبول نہ کیا۔ حالانکہ نائب السلطنت کا عہدہ بھی ملتا تھا بلکہ صاف کہا کہ جب تک زنا کی تہمت سے میری بریّت نہ ہومیں زندان سے باہر قدم رکھنا نہیں چاہتا۔ ‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ509)

عہد نبویؐ سے زنابالجبر کے متعلق راہ نمائی

رسول کریمﷺ کے زمانہ میں زنابالجبر کا صرف ایک واقعہ ملتا ہے۔ حضرت وائل بن حجرؓ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کی ایک عورت رات کے وقت نماز پڑھنے آ رہی تھی کہ راستہ میں ایک شخص نے اسے زبردستی دبوچ لیا اور اس پر اپنی چادرڈال کربدکاری کی۔ اس عورت کے چلانے پر لوگ آگئے اور اس عورت نے جس راہ گیر کی طرف اشارہ کیا کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ انہوں نے اسے پکڑلیا۔ اور رسول کریمﷺ کے پاس لے آئے جب آپؐ نے اس کے رجم کا حکم دیا یا دینے لگے تو وہ شخص جس نے اس سے زیادتی کی تھی، کھڑا ہوااور اعتراف جرم کرلیا۔ رسول کریمﷺنے اس عورت سے کہا کہ اللہ نے تمہیں بخش دیا اور دوسرے شخص کو کہا کہ تم نے اچھی بات کہی اور مجرم کے رجم کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ پر تقسیم کی جائے تو وہ ان سب کی طرف سے قبول ہوجائے۔ (ترمذی کتاب الحدود… باب ماجاء فی المرأۃ اذا استکرھت علی الزنا وابوداؤد)

فنّی لحاظ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ خودامام ترمذی نے اس حدیث کے بارہ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ غریب روایت ہے اور اس کی سند متصل نہیں۔ (ترمذی کتاب الحدود …باب باجاء فی المرأۃ اذا استکرھت علی الزنا)

درایتاًبھی اس روایت میں کمزوری پائی جاتی ہے جیساکہ راوی کے مطابق عورت نے جس شخص پر الزام لگایا آنحضورﷺ نے مزید تحقیق کے بغیراسےرجم کرنے کا حکم دے دیا۔ جورسول اللہﷺ کے سابقہ دستور اور ارشادات کے سراسرخلاف ہے۔ کیونکہ یہ صرف اس صورت میں ممکن تھا جب وہ شخص خوداعتراف کرتا یا عورت کوئی بیّنہ پیش کرتی۔ مگر ماخوذغیرمجرم شخص کے انکار کے باوجود نبی کریمﷺ کبھی اس کے رجم کا فیصلہ نہیں فرماسکتے تھےاورنہ ہی آپؐ نے ایساکیا۔ اس لیے لازماً آپ نےتحقیق کےلیے توقف فرمایاہوگاجس کا روایت میں ذکر نہیں۔ اس کے بعد اصل مجرم کے پیش ہونے پر اسے ہی سزا ہوئی۔ چنانچہ یہی بات اس حدیث کی تشریح میں علمائے سلف نے بھی لکھی ہے:

’’اور یہ بات مخفی نہیں کہ محض ایک عورت کے دعویٰ زنابالجبر پر کسی شخص کو رجم کا فیصلہ سنانا بظاہر مشکل امر ہے کیونکہ رجم کا حکم بغیر کسی دلیل و شہادت یا مجرم کے اعتراف کے بغیر نہیں ہوسکتا اور محض عورت کا دعویٰ دلیل نہیں ہوتا بلکہ وہ الزام لگانے کی صورت میں حد قذف اور اسّی کوڑوں کی سزا کی مستحق ہوتی ہے۔ پس راوی کے الفاظ کہ ’’رجم کا حکم دے دیا‘‘ کا یہ مطلب ہوسکتاہے کہ جب آپؐ رجم کا فیصلہ سنانے لگے۔ راوی نے یہ ظاہری معاملہ دیکھتے ہوئے محض آخری فیصلہ کا ذکر کردیا کہ مجرم کو امام کے پاس فیصلہ کےلیے لے جایا گیا اور امام اس کی تحقیق و تفتیش میں مصروف ہوا جس کے بعد فیصلہ سنایاگیا۔ ‘‘(عون المعبود (شرح ابوداؤد)وحاشية ابن القيم جزء12صفحہ 28)

اس واقعہ سے دوسری یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ عورت کی طرف سے زنابالجبر کے الزام میں غلطی کے امکان کی گنجائش ہوسکتی ہے اس لیے جب ملزم کے انکارکی صورت میں مزید شواہد و قرائن کی جانچ کے بغیر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا تو بعد تحقیق کوئی شواہد و قرائن نہ ملنے پر آخری صورت یہی رہ جاتی ہے کہ جس پر الزام ہو وہ قسمیں کھا کر بری الذمہ ہوجائے اورجھوٹے فریق کا فیصلہ خدا تعالیٰ کے قہر و عذاب پر چھوڑدیا جائے۔

حضرت عمرؓ کے زمانہ کے واقعات

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی زنابالجبر کے ایسے دوواقعات کاذکرملتا ہے۔ پہلے واقعہ میں حضرت عمرؓ نے قرائن قویّہ کی روشنی میں تحقیق کرواکر فیصلہ فرمایا۔ وقوعہ کے مطابق ہذیل قبیلہ کے ایک مہمان نےان کی لونڈی سے زنا بالجبر کرنا چاہا۔ اس دوران ہاتھا پائی میں اس لونڈی نےاسے پتھر ماراجس سے وہ ہلاک ہو گیا، حضرت عمرؓ نے اس الزام اور واقعہ قتل کی تفتیش کروائی توقرائن کے مطابق دونوں کے نشانات حسب بیان مدعیہ مبینہ مقام پر پائے گئے جس پر حضرت عمرؓ نے مقتول کے بارہ میں یہ فیصلہ فرمایا: ’’ذَاكَ قَتِيلٌ اللّٰهِ وَاللّٰهِ لَا يُؤدَى أَبَدًا‘‘یہ اللہ کا مارا ہوا ہے اس کی دیت ادا نہیں ہو گی۔‘‘ اور اس لونڈی کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ (سنن البیہقی جزء 8صفحہ586)

حضرت عمرؓ کے فیصلہ کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ زنابالجبر کرنے والے ظالم بدبخت کو اللہ تعالیٰ کا قہر وعذاب نوبت قسم وانکار سے پہلے بھی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ جیساکہ اس واقعہ سے ظاہر ہے۔

دوسرا واقعہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں یہ ہوا کہ ایک عورت نوجوان انصاری پر فریفتہ ہوگئی جب وہ اس کے قابو میں نہ آیا تو اس نے حیلہ سازی سے انڈے کی سفیدی اپنے کپڑوں اور رانوں کے درمیان لگائی اور حضرت عمرؓ کے پاس فریاد کرتی آئی کہ یہ شخص میرے ساتھ زبردستی زیادتی کا مرتکب ہوا ہے اور مجھے میرے خاندان میں رسوا کرڈالاہے اور بطور ثبوت اپنے اوپرانڈے کی سفیدی پیش کی۔ حضرت عمرؓ نے اس نوجوان کی سزا کا ارادہ کیا تو اس شخص نے فریاد رسی کرتے ہوئے مزید تفتیش کی درخواست اورحلفیہ بیان دیا کہ وہ ہرگز بدفعلی کا مرتکب نہیں ہوا، نہ ہی اس کا ارادہ کیا۔ البتہ اس عورت نے مجھے میری مرضی کے خلاف بہکانے کی کوشش کی مگر میں بچارہا۔

حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کے سپرد مزید تحقیق کا معاملہ کیا اور فرمایا کہ ان دونوں کے بارہ میں اپنی رائے دیں۔ حضرت علیؓ نے کپڑے میں سفیدی وغیرہ کے آثار دیکھے پھر شدید ابلتا ہوا گرم پانی منگوایا اور کپڑے پر ڈالاتو وہ سفیدی منجمد ہوگئی۔ پھر حضرت علیؓ نے اس سفیدی کو لے کر پہلے سونگھا پھر اس کا ذائقہ محسوس کیا تو انڈے کی سفیدی ہی نکلی۔ حضرت علیؓ نے عورت کو ڈانٹ ڈپٹ کی تو اس نےغلط الزام لگانے کا اعتراف کرلیا۔ (الطرق الحكمية في السياسة الشرعية لابن قيم الجوزية (المتوفى: 751ھ) جزء1صفحہ44)

الغرض زمانۂ نبویؐ و خلفائے راشدین سے زنابالجبر کے جن معدودے چند واقعات کا پتہ چلتا ہے ان میں کسی ایک واقعہ میں بھی زنابالجبر کے محض بلاثبوت دعویٰ پر کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی اور جس مجرم کو رجم کی تعزیری سزا دی گئی وہ اس کے اقرار جرم کے بعد تھی۔ ورنہ مدعیہ خاتون نے غلط فہمی میں کسی راہ گیر پر الزام لگا دیا اور حضرت عمرؓ کے زمانہ کی خاتون کا زنا بالجبر کا دعویٰ زلیخا کی طرح حیلہ سازی پر مبنی ثابت ہوا۔

مذکورہ بالا دوسرےواقعہ سے کسی کے بلا ثبوت دعویٰ زنابالجبر پر کارروائی کرنے کی مشکلات کا خوب اندازہ ہوتا ہے اور ایسے الزام کے پیش کردہ ثبوت یا قرائن کی کتنی چھان بین ہونی چاہیے۔ خصوصاً جبکہ دوسرا فریق حلفیہ بیان کے ذریعہ اس واقعہ کی تردید کررہا ہوجیساکہ مذکورہ بالا واقعہ میں ہے تو بلا ثبوت دعویٰ قبول نہیں کیا جا سکتا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button