حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (3) (قسط نمبر16۔ آخری)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان

پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کے ظاہری سامان بھی رکھے ہیں۔ جس طرح اس کی اندرونی حفاظت کے تین ذرائع بتائے تھے اسی طرح بیرونی حفاظت کے بھی تین ذرائع بیان کئے۔ اول فرمایا بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ۔ سَفَرَۃکے ایک معنی لکھنے والے کے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ یہ کتاب ایسی قوم کے ہاتھ میں دی گئی ہے کہ جوں جوں یہ نازل ہوتی گئی لکھی جاتی رہی۔ اور جو بات لکھ لی جائے وہ محفوظ ہو جاتی ہے۔

پھر فرمایا۔ یہ کتاب ایسے لکھنے والوں کے سپرد کی گئی ہے جو کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ہیں۔ یعنی معزز لوگ ہیں اور نیک اور پاک ہیں۔ پس مطلب یہ ہوا کہ ہمیشہ مخلص لکھنے والے اسے ملتے رہیں گے جو روپیہ یا لالچ کے سبب سے نہیں لکھیں گے۔ بلکہ بڑے پایہ کے لوگ ہوں گے جو ہر ایک قسم کی عزت رکھتے ہوں گے اور اپنے ہم عصروں میں خاص مقام رکھتے ہوں گے۔ وہ لوگ محض نیکی کی خاطر قرآن لکھا کریں گے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جن کی کوئی غرض بگاڑنے سے وابستہ نہ ہو اور ہوں وہ نیک وہ کبھی بگاڑ نہیں سکتے۔ پس اس وجہ سے قرآن کریم کے اس قدر صحیح نسخے دنیا میں پھیل جائیں گے کہ اس میں بگاڑ ہی ناممکن ہوجائے گا۔

اب دیکھو یہ کتنی زبردست بات ہے۔ اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اس کو پورا کیا ہے۔ بڑے بڑے زبردست بادشاہ جو مذہبی علماء نہیں تھے کہ تعلیم قرآنی کے بگاڑنے میں ان کا فائدہ ہو۔ اور پھر مختلف ممالک کے قرآن کریم کے لکھنے کے بوجہ ثواب عادی تھے۔ ہندوستان کے بادشاہوں میں سے اورنگ زیب مشہور ہے جس نے کئی نسخے قرآن کریم کے لکھے۔ اسی طرح صلیبی جنگوں کے متعلق ایک کتاب حال ہی میں چھپی ہے۔ اس میں اسامہ بن منفذ اپنے والد سلطان شہزاد کے متعلق جو شام کی ایک حکومت کے بادشاہ تھے لکھتا ہے کہ وہ یا تو فرنگیوں سے لڑتے یا شکار کھیلتے اور یا پھر قرآن لکھا کرتے تھے۔ چنانچہ مرتے وقت ان کے لکھے ہوئے 43 قرآن موجود تھے۔

دوسرے معنی سَفَرَۃ کے سفر کرنے والے کے ہیں۔ ان معنوں کی رو سے یہ مطلب ہوا کہ نہ صرف قرآن کریم بکثرت لکھا جائے گا۔ بلکہ فوراً دنیا کے چاروں گوشوں میں پھیل جائے گا اور اس وجہ سے بگڑنے سے محفوظ ہو جائے گا۔ اگر کوئی مصر میں بگاڑنا چاہے گا تو عرب، شام، ہندوستان وغیرہ ممالک میں جو قرآن موجود ہوگا۔ وہ بگاڑ کو ردکر دے گا۔ غرض فرمایا یہ کتاب سفر کرنے والے بزرگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے تا کہ وہ اسے سارے ملکوں میں لے جائیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی تمام عرب، افریقہ اور ابی سینا میں پہنچ گیا تھا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند سال بعد کے عرصہ میں فلسطین، شام، عراق، فارس اور افغانستان، چین، اناطولیہ، مصر، ہندوستان اور یونان وغیرہ ممالک میں پھیل گیا۔ پس ان بے غرض لکھنے والوں اور پھر اس طرح مختلف ممالک میں پھیل جانے کی وجہ سے اس میں کسی تبدیلی کا ہونا ناممکن ہو گیا۔ اور پھر اس میں شک کرنا بھی ناممکن ہو گیا۔ کیونکہ سب ملکوں کے نسخے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔ اور اب تو پریس کے نکل آنے کی وجہ سے اس کی اشاعت کی کوئی حد ہی نہیں رہی۔

پھر شروع اسلام میں مسلمانوں میں جو اختلاف ہوا۔ وہ بھی قرآن کریم کی حفاظت کا موٴید ہو گیا۔ سَفَرَۃ کے معنی اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالنے والوں کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے اس کے یہ معنی بھی لئے جا سکتے ہیں کہ مختلف حملہ کرنے والی فوجوں کے افسروں یا جماعتوں کے لیڈروں کے ہاتھ میں یہ قرآن ہوگا۔ جو سب کے سب نیک ہوں گے۔ اور اس طرح مختلف مخالف جماعتوں کے ہاتھوں میں قرآن کریم کا بغیر اختلاف کے ہونا اسے بالکل محفوظ کر دے گا۔ اور کوئی جماعت اسے بگاڑ نہیں سکے گی۔ کیونکہ دوسری جماعت فوراً اس پر گرفت کر سکے گی۔

یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کی طاقت کا قائل ہوا ہے۔ مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خود قرآن نے ایک مکی سورۃ میں ان سب دلائل کو جمع کر دیا تھا۔ سرولیم میور لکھتا ہے۔

It is conceivable that, either Ali, or his party, when thus arrived at power, would have tolerated a mutilated Coran – mutilated expressly to destroy his claims? Yet we find that they used the same Coran as their opponents, and raised no shadow of an objection against it.

(The life of Mahomet by William Muir Page 559, Published in London 1877)

یعنی ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ قرآن میں کوئی تغیر کیا گیا ہے۔ مسلمانوں میں جب لڑائیاں ہوئیں تو وہ ایک ہی قرآن رکھتے تھے۔ اور کسی نے کسی فریق کے قرآن کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اسی طرح لکھتا ہے۔

So far from objecting to Othman‘s revision, Ali multiplied copies of the edition among other MSS. Supposed to have been written by Ali, one is said to have been preserved at Mashhed Ali as late as the fourteenth century, which bore his signature.

(The life of Mahomet by William Muir Page 559, Published in London 1877)

یعنی دوسرے کئی مصنفوں نے بھی قرآن کریم کے جلد سے جلد پھیل جانے اور مختلف لڑنے والے گروہوں کے پاس ہونے کو اس میں تبدیلی ہونے کے لئے ناممکن بتایا ہے۔

مگر قرآن کریم کو دیکھو اس نے پہلے ہی اس تفصیل سے اس حقیقت کو ظاہر کر دیا تھا کہ وہ خود ایک زبردست نشان ہے۔ قرآن نے بتا دیا تھا کہ یہ بکثرت لکھا جائے گا۔ دور دراز ملکوں میں پھیل جائے گا۔ مسلمانوں میں جنگیں ہوں گی اس لئے اسے کوئی بگاڑ نہ سکے گا۔ اور یہ ایسی پختہ دلیلیں ہیں کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تسلیم کر لیا حالانکہ یہ باتیں اس وقت بیان ہوئیں جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں تھے اور جب قرآن کے بگڑنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔

سَفَرَۃ کے ایک معنی جھاڑو دینے اور پردہ اٹھا دینے کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ اس کتاب کو ایسے لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے جو اس خس و خاشاک کو جو تعلیم قرآن پر پڑ کر اسے مسخ کر دینے کا موجب ہو سکتا تھا دور کرتے رہیں گے۔ اور پھر اس کی تعلیم کو اس کی اصلی حالت پر لاتے رہیں گے اور جو اس کے پوشیدہ مطالب کو ظاہر کرتے رہیں گے۔ اور اس کے بلند مطالب کو لوگوں کے سامنے لا کر اس کی قبولیت اور تاثیر کو تازہ کرتے رہا کریں گے جو اس فن کے لوگوں میں کِرَام ہوں گے۔ یعنی ماہرین فن ہوں گے اور بَرَرَۃ ہوں گے یعنی امور خیر میں وسیع دسترس رکھنے والے ہوں گے۔ اور اس طرح وہ نہ صرف خود خدمت کریں گے بلکہ اور بہت سے خادم بنا کر چھوڑ جائیں گے۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس آیت میں تین ہی صفات کتاب کی اور تین ہی کتاب کے حاملوں کی بیان ہوئی ہیں۔ لیکن کِرَام کے سوا جو دونوں میں متحد ہے باقی دونوں صفات میں فرق ہے۔ کتاب کےلئے مَرْفُوْعَة اور مُطَہَّرَۃ فرمایا ہے اور انسانوں کےلئے سَفَرَۃ، بَرَرَۃ۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو درحقیقت اس اختلاف میں بھی اتحاد ہے۔ سَفَرَۃ کا جوڑا مَرْفُوْعَة سے ہے۔ کیونکہ اونچی چیز اوجھل ہوتی ہے۔ اور سَفَرَ کے معنی خفا ءکو دور کرنے کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب سَفَرَتِ الرِّیْحُ الْفَیْحَ عَنْ وَجْہِ السَّمَاءِ کہیں تو اس کے معنی ہوتے ہیں کَشَفَتْہُ یعنی ہوا نے گرد و غبار کو اڑا کر مطلع صاف کر دیا۔ اس طرح مُطَہَّرَۃکے مقابلہ میں بَرَرَۃ فرمایا ہے۔ کیونکہ مُطَہَّرَۃکے معنی ہیں جس میں طہارت کے سب سامان ہوں اور بَرَرَۃ کے معنی بھی یہی ہیں کہ جن میں سب اصول خیر ہوں۔ پس کتاب کی تینوں صفات کے مقابلہ میں ویسی ہی تین صفات والے انسانوں کا ذکر کیا جو اس کی حفاظت کریں گے۔

اللہ اللہ!! کیسا زبردست دعویٰ ہے اور کس طرح اس دعویٰ کو زبردست طاقتوں سے پورا کیا گیا ہے۔ سب سے پہلا قدم غلطی کی طرف رسول کریم ﷺکی وفات پر اٹھنے لگا تھا۔ جب کہ آپؐ کی وفات میں شبہ پیدا ہو گیا۔ اور گویا آپؐ کو خدائی کا مقام ملنے لگا تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے سورۃ نور کی آیت استخلاف کے ماتحت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کر کے یہ اختلاف دور کر دیا۔ انہوں نے قرآن کریم ہی کی یہ آیت پیش کی کہ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ (آل عمران:145)اور اس طرح پیش کی کہ اس اختلاف کے بانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے نہ رہ سکے اور گر گئے۔ مگر غور کر کے دیکھو کہ مسیح کے بعد کیا ہوا۔ ابھی وہ زندہ ہی تھے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد بگاڑ شروع ہو گیا۔ اور حضرت موسیٰؑ کی بھی زندگی میں ہی خدا تعالیٰ سے لوگ شرک کرنے لگے وہاںحضرت ہارونؑ جیسے اور مسیح ؑکے وقت پطرس جیسے لوگ کچھ نہ کر سکے اور حواریوں کی موجودگی میں گمراہی شروع ہو گئی گو حواری خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ان کی تعریف آتی ہے اور شرک بھی بہت بعد جا کر پھیلا ہے لیکن خرابی شروع ہو گئی تھی۔ جو اباحت کے رنگ میں تھی۔

اس کے بعد جس جس زمانہ میں تغیر ہوا اس کی اصلاح ہو گئی۔ اور ہمیشہ امت محمدیہؐ میں ایسے انسان پیدا کئے جاتے رہے جو قرآن کریم کے ذریعہ ہر قسم کے اختلافات کو دور کرتے رہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کی حالت بدلتی چلی گئی اور اصلاح کرنے والے کوئی پیدا نہ ہوئے۔ اس آخری زمانہ میں ہی دیکھ لو کہ کس طرح اسلام کو پھر خدا تعالیٰ اپنی اصل حالت پر لے آیا ہے اور قرآن کریم کس طرح اپنے اصلی مفہوم پر قائم ہو گیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں جتنی خرابیاں قرآن کریم کی غلط تفسیریں کرنے کی وجہ سے پیدا ہو چکی تھیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر دور کر دیا۔ اور قرآن کریم کو اسی طرح اجلا کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیا جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا۔

حفاظت قرآن کا دائمی وعدہ

پس قرآن کریم کی دائمی حفاظت کا جو وعدہ خدا تعالیٰ نے کیا وہ پورا ہوا۔ اور کوئی شخص آج تک نہ ظاہری طور پر قرآن کو بگاڑ سکا اور نہ باطنی طور پر۔ اور جب آج تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ وعدہ پورا ہوتا رہا ہے تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ خداتعالیٰ نے خود بتا دیا ہے کہ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ (المائدة:4)آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے۔ اور تم پر اپنے احسان کو پورا کر دیا ہے۔ پس جب مکمل دین آ گیا اور نعمت کامل ہو گئی تو اب اور کسی دین کی ضرورت ہی نہ رہی۔ اب جو بھی مامور آئے گا اسی کی تائید میں آئے گا۔ اور اس وجہ سے قرآن قیامت تک بگڑ نہیں سکے گا۔ اگر قرآن کو کوئی بدل سکتا ہے تو خدا ہی بدل سکتا ہے لیکن خدا نے اپنے متعلق بتا دیا کہ قرآن کو بالکل مکمل کر دیا گیا ہے۔ اور انسانوں کے بدل نہ سکنے کے متعلق ہر قسم کی حفاظت کے سامان کر دیئے گئے ہیں۔ پس اب قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔

دوستوں کو ایک نصیحت

میں دوستوں کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب سے ریل جاری ہوئی ہے ایک نقص پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ ادھر جلسہ کے آخری دن لیکچر ختم ہوا ادھر سب لوگ واپس جانے شروع ہو جاتے ہیں۔ جنہیں مجبوری ہو رخصت ختم ہو چکی ہو وہ تو جا سکتے ہیں لیکن جو ٹھہر سکتے ہوں انہیں ضرور ٹھہرنا چاہئے۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیںجنہیں سارے سال میں جلسہ کے موقع پر ہی آنے کا اتفاق ہوتا ہے انہیں چاہئے کہ جلسہ کے ختم ہونے کے بعد بھی ٹھہرا کریں۔ یہاں کی مسجدوں میں دعائیں کریں۔ یہاں کے لوگوں سے ملاقات کریں۔ یہاں کا کاروبار دیکھیں۔ بہشتی مقبرہ میں جو لوگ دفن ہیں ان کے لئے دعائیں کریں۔

اب میں دعا کرتا ہوں کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ جلسہ کامیاب کیا ہے اسی طرح وہ آئندہ بھی ہمیں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button