خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍فروری 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ
٭…حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا اس امّت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہو سکتا۔اگر وہ تمام صحابہ کو مسجد نبوی میں اکٹھا کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امّت ہلاک ہو جاتی
٭…آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد خلافت کے قیام کے حوالے سے حضرت ابو بکرؓ کی ثقیفہ بنی سعدہ میں پُر اثر تقریر
٭… دنیا کے موجودہ خطرناک حالات کے متعلق دعا کی تحریک
محترم خوشی محمد شاکر صاحب سابق مبلغ سیرا لیون و گنی کناکری کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍فروری 2022ء بمطابق 25؍تبلیغ 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 25؍فروری2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
حضرت ابوبکرصدیقؓ کا ذکر ہورہاتھا۔رسول اللہ ﷺ حجة الوداع کےلیے جمعرات یا ہفتے کے دن جبکہ ذیقعدہ کے چھ دن باقی تھے روانہ ہوئے۔اس موقعے پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ میرے پاس ایک اونٹ ہے ہم اس پر اپنا زادِ راہ لاد لیتے ہیں توآپؐ نے فرمایاایسا ہی کرلو۔راستے میں حضرت ابوبکرؓ کےغلام سے وہ اونٹ کہیں گم ہوگیا تو آپؓ اس غلام کو مارنے کے لیے اٹھے مگرحضورﷺ نے محض تبسّم کرتے ہوئے فرمایا کہ اس محرم کو دیکھو یہ کیا کرنے لگا ہے۔ صحابہ کو جب آنحضورؐ کا زادِ راہ گم ہونے کا عِلْم ہوا تو وہ آٹے،کھجور اور مکھن سے تیار کردہ ایک عمدہ حلوہ ’حیس‘ لےکر آئے۔ حضورﷺ نے حضرت ابوبکرؓکو غلام پر غصّہ کرنے سے روکا اور فرمایا کہ اےابوبکر! نرمی اختیارکرو۔ بعد میں حضرت صفوان بن معطلؓ جو قافلے کے پیچھے پیچھے چلا کرتے تھے جب پہنچے تو وہ اونٹ ان کے ساتھ تھا۔
حجةالوداع کے سفر میں ہی ذوالحلیفہ مقام پر حضرت ابوبکرؓ کے ہاں آپؓ کی اہلیہ اسماء بنت عمیسؓ کےبطن سے محمد بن ابوبکر کی پیدائش ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اسما ءغسل کرلیں اور حج کا احرام باندھ لیں اوربیت اللہ کے طواف کے علاوہ حاجیوں کی طرح باقی سب کام کریں۔جب آپؐ وادی عسفان سے گزرے تو حضرت ابوبکرؓسے حضرت ہود اور حضرت صالح کا حلیہ بیان کرتے ہوئےفرمایا کہ یہاں سے وہ دونوں تلبیہ کہتے ہوئے بیت العتیق کے حج کےلیے گزرے تھے۔
حجة الوداع کے موقعےپر جن لوگوں کےساتھ قربانی کے جانور تھےاُن میں حضرت ابوبکرصدیقؓ بھی شامل تھے۔
نبی کریمﷺنے اپنی آخری بیماری میں فرمایا کہ ابوبکر سےکہو کہ وہ لوگوں کو نمازیں پڑھائیں۔ حضرت عائشہؓ نےیہ سوچ کر کہ حضرت ابوبکرؓ حضورﷺ کی جگہ کھڑے ہوئے تو اپنےجذبات پر قابو نہ رکھ پائیں گے حضرت حفصہؓ سے کہہ دیا کہ وہ حضرت عمرؓ سےنماز کی امامت کا کہہ دیں۔ رسول اللہﷺ نے اس بات کو ناپسند کیا اور فرمایا ابوبکر سےکہو وہی لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ان ہی ایّام میں حضورﷺ نے اپنی بیماری میں کچھ تخفیف محسوس کی تو مسجد میں تشریف لائے۔ حضرت ابوبکرؓنماز پڑھارہےتھے ،وہ آپؐ کو دیکھ کر پیچھے ہٹے لیکن حضورﷺ نے اشارےسےمنع فرمایا اور پھر حضرت ابوبکرؓ کےپہلو میں بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکرؓرسول اللہﷺ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے اور لوگ حضرت ابوبکرؓکی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے۔
صحیح بخاری میں مرقوم روایت کے مطابق جس روزحضورﷺ کا وصال ہوا آپؐ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور نمازیوں کو دیکھ کر تبسّم فرمایا حضرت ابوبکرؓ یہ سمجھے کہ حضورﷺ نماز کے لیےباہر تشریف لارہے ہیں۔چنانچہ آپؓ پیچھے ہٹنے لگے مگر حضورﷺ نے انہیں اشارے سے منع کیا اور پردہ ڈال دیا۔
جب حضورﷺ کی وفات ہوئی تو اس وقت حضرت ابوبکرؓ مدینے کے مضافات میں ایک گاؤں سنح میں تھے۔ یہ خبر سن کر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ فوت نہیں ہوئے۔اتنے میں حضرت ابوبکرؓ آگئے اور انہوں نے رسول اللہﷺ کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور آپؐ کو بوسہ دیا اور فرمایا میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ آپؐ زندگی میں بھی اور موت کے وقت بھی پاک و صاف ہیں۔اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !اللہ آپؐ کو کبھی دو موتیں نہیں چکھائے گا۔پھر حضرت ابوبکرؓ باہر تشریف لائے اور حضرت عمر ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے قسم کھانےوالے! ٹھہر جا۔پھر آپؓ نے حمدو ثنا بیان کی اور فرمایا دیکھو جو محمدﷺ کو پوجتا تھا وہ سن لے کہ محمدﷺ تو یقیناً فوت ہوگئے ہیں اور جو اللہ کو پوجتا تھا اسے یاد رہے کہ اللہ زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا۔اس کے بعدآپؓ نے یہ آیت پڑھی کہ اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ۔تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔ اور یہ آیت بھی پڑھی کہ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ…الخ یعنی محمدﷺ تو صرف ایک رسول ہیں آپ سے پہلے سب رسول فوت ہوچکے ہیں۔ کیا اگر آپ فوت ہوجائیں یا قتل کیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بَل پھر جاؤ گے؟…یہ سن کر لوگ اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لوگوں نے یہ آیت حضرت ابوبکرسے سیکھی ہے۔ پھر لوگوں میں سےجس آدمی کو مَیں نے دیکھا وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے مذکورہ بالا دونوں آیات پڑھیں تو صحابہؓ پر حقیقت آشکار ہوئی اور وہ بےاختیار رونے لگے۔ حضرت عمرؓ خود بیان فرماتے ہیں کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ گویا یہ دونوں آیات آج ہی نازل ہوئی ہیں اور میرے گھٹنوں میں میرے سر کو اٹھانے کی طاقت نہ رہی۔ میرے قدم لڑکھڑائے اور مَیں شدّتِ صدمہ سے زمین پر گِر پڑا۔
اسی حوالے سے مسلمانوں کا جو پہلا اجماع ہے اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایک ہی اجماع صحابہ کا ہے کیونکہ اس وقت سارے صحابہ موجود تھے اور درحقیقت ایسا وقت مسلمانوں پر پہلے کبھی نہیں آیا کیونکہ پھر کبھی مسلمان اس طرح جمع نہیں ہوئے۔اس اجتماع میں جب حضرت ابوبکرؓ نےیہ آیت پڑھی تو سارےکےسارے صحابہ نے آپ سے اتفاق کیا۔
حضرت مسیح موعودؑ اسی بات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا اس امّت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ تمام صحابہ کو مسجد نبوی میں اکٹھا کرکے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام نبی فوت ہوچکے ہیں تو یہ امّت ہلاک ہوجاتی کیونکہ ایسی صورت میں اس زمانےکے مفسد علماء یہی کہتے کہ صحابہ کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰؑ زندہ ہیں مگر اب صدیق اکبر کی آیتِ ممدوحہ پیش کرنے سے اس بات پر کُل صحابہ کا اجماع ہوچکا کہ کُل گذشتہ نبی فوت ہوچکے ہیں۔
حضرت ابوبکرؓکی خلافت کے متعلق ذکر آتا ہے کہ صحابہ کرام کو رسول اللہﷺ کی وفات کا علم ہوگیا تو انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور حضرت سعد بن عبادہؓ کو خلافت کے لیے موزوں قرار دیا۔ اس سوال پر کہ اگر مہاجرین نے ان کی بیعت نہ کی تو کیا ہوگا یہ تجویز سامنے آئی کہ ایک آدمی انصار میں سے اور ایک آدمی مہاجرین میں سے خلیفہ ہو۔مگر حضرت سعد بن عبادہؓ نے اسے بنو اوس کی کمزوری قرار دیا۔
جس وقت انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع تھے حضرت عمرؓ اورحضرت ابوعبیدہؓ اور دوسرے بڑے صحابہ مسجد نبوی میں آنحضرتﷺ کے وصال کے سانحۂ عظیم کے بارے میں ذکر کر رہے تھے جبکہ حضرت ابوبکرؓاور حضرت علیؓ اور دوسرے اہلِ بیت رسول کریمﷺ کی تجہیز و تکفین کے انتظامات میں مصروف تھے۔
جب مہاجر صحابہ کو انصار کے اس اجتماع کی اطلاع پہنچی تو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ سقیفہ بنی ساعدہ پہنچے۔ وہاں ابھی بحث جاری تھی۔اس موقعے پر حضرت ابوبکرؓنے نہایت پُر اثر فصیح و بلیغ تقریر فرمائی۔جس میں آپؓ نے عربوں کی گذشتہ حالت اور اوّلین مہاجرین کی رسول اللہﷺ کی تصدیق کرنے کا احوال بیان کیا۔ پھر انصار کے قبولِ اسلام اور رسول اللہﷺ کے مددگار بننے کا بڑا دل نشیں تذکرہ فرمایا۔اس کے بعدانصار کو مخاطب کرتے ہوئےآپؓ نے فرمایا کہ مہاجرین اولین کے بعد ہمارے نزدیک تمہارے مرتبے کا کوئی بھی نہیں۔امیر ہم میں ہوں گے اور تم وزیر۔ ہر اہم معاملے میں تم سے مشورہ لیا جائے گا اور تمہارے بغیر اہم معاملات کے متعلق فیصلہ نہیں کریں گے۔آپؓ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو علم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو مَیں انصار کی وادی میں چلوں گا۔پھر آپؓ نے حضرت سعد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے سعد! تجھے علم ہے کہ تُو بیٹھا ہوا تھا جب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ خلافت کے حق دار قریش ہوں گے۔ حضرت سعدؓ نے کہا کہ آپ نے سچ کہا ہم وزیر ہیں اور آپ لوگ امراء ہیں۔
یہ ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دنیاکے موجودہ خطرناک حالات کے متعلق دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ اسی طرح بڑھتا رہا تو صرف ایک ملک نہیں بلکہ بہت سے ممالک اس میں شامل ہوجائیں گے اور پھر اس کا اثر نسلوں تک رہے گا۔ خدا کرے کہ یہ لوگ خداتعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں اور اپنی دنیاوی خواہشات کی تسکین کے لیے انسانی جانوں سے نہ کھیلیں۔ ان دنوں میں احمدیوں کو بہت دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ جنگ کی ناقابلِ تصور تباہ کاریوں سے انسانیت کو بچاکے رکھے۔ آمین
خطبے کے آخر میں حضورِانور نے مکرم خوشی محمد شاکر صاحب سابق مبلغ سیرالیون اور گنی کناکری کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ مرحوم گذشتہ دنوں انہتر برس کی عمر میں وفات پاگئےتھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نہایت نیک، سادہ مزاج، دعاگو، عبادت گزار، مخلص، بےلوث، غریب پرور، سخی اور خلافت سے والہانہ عشق رکھنے والے پُرجوش داعی الیٰ اللہ تھے۔
حضورِانور نے مرحوم کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭