خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 11؍فروری2022ء

تم تین ہزار تیر انداز ہو یا تیس ہزار مجھے تمہاری کوئی پروا نہیں۔ اور اے مشرکو! میری اس دلیری کو دیکھ کر کہیں مجھے خدا نہ سمجھ لینا مَیں ایک انسان ہوں اور تمہارے سردار عبدالمطلب کا بیٹا یعنی پوتا ہوں۔(حدیث النبی)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

غزوۂ حُنَین، غزوۂ طائف اور غزوۂ تبوک کا تذکرہ

حضرت ابوبکرؓ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر اپنا جو کُل مال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا اس کی مالیت چار ہزار درہم تھی

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 11؍فروری2022ء بمطابق 11؍تبلیغ1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

تاریخ میں

فتح مکہ کے حوالے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک خواب

کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ بیان ہوا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا خواب بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! مجھے خواب دکھایا گیا ہے اور مَیں نے خواب میں آپؐ کو دیکھا کہ ہم مکہ کے قریب ہو گئے ہیں۔ پس ایک کتیا بھونکتے ہوئے ہماری طرف آئی پھر جب ہم اس کے قریب ہوئے تو وہ پشت کے بل لیٹ گئی اور اس سے دودھ بہنے لگا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا شر دور ہو گیا اور نفع قریب ہو گیا۔ وہ تمہاری قرابت داری کا واسطہ دے کر تمہاری پناہ میں آئیں گے اور تم ان میں سے بعض سے ملنے والے ہو۔ یہ تعبیر فرمائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ آپؐ نے فرمایا کہ پس

اگر تم ابوسفیان کو پاؤ تو اسے قتل نہ کرنا۔

چنانچہ مسلمانوں نے ابوسفیان اور حکیم بن حِزام کو مَرُّ الظَّہْرَان کے مقام پر پا لیا۔

(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 5 صفحہ 48، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1988ء)

اِبنِ عُقْبَہ بیان کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان اور حکیم بن حزام واپس جا رہے تھے تو حضرت عباسؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہؐ! مجھے ابوسفیان کے اسلام کے بارے میں خدشہ ہے۔ یہ ذکر تفصیلی پہلے بھی ہو چکا ہے کہ کس طرح ابوسفیان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کی تھی اور اسلام کی برتری کا اقرار کیا تھا۔ بہرحال حضرت عباسؓ نے کہا کہ اسے واپس بلا لیں یہاں تک کہ وہ اسلام کو سمجھ لے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ کے لشکروںکو دیکھ لے۔ ایک دوسری روایت میں ابنِ اَبِی شَیبہ روایت کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان واپس جانے لگا تو حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! اگر آپؐ ابوسفیان کے بارے میں حکم دیں تو اس کو راستہ میں روک لیا جائے۔ ایک دوسری روایت میں ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان واپس جا رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ سے فرمایا: اس یعنی ابوسفیان کو وادی کی گھاٹی میں روک لو۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو جا لیا اور روک لیا۔ اس پر ابوسفیان نے کہا اے بنی ہاشم! کیا تم دھوکا دیتے ہو؟ حضرت عباسؓ نے فرمایا:اہل نبوت دھوکا نہیں دیتے۔ ایک اَور روایت کے مطابق آپؓ نے کہا کہ ہم ہرگز دھوکا دینے والے نہیں البتہ تُو صبح تک انتظار کر یہاں تک کہ تُو اللہ کے لشکر کو دیکھے اور اس کو دیکھے جو اللہ نے مشرکوں کے لیے تیار کیا ہے۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو اس گھاٹی میں روکے رکھا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔

(ماخوذ از سبل الہدیٰ جلد 5 صفحہ 218، فی غزوۃ الفتح الاعظم…، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1993ء)

جب اسلامی لشکر ابوسفیان کے سامنے سے گزر رہا تھا تو اس کا ذکر کرتے ہوئے سُبُلُ الْھُدٰی وَالرَّشَادمیں لکھا ہے کہ ابو سفیان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سبزپوش دستہ نمودار ہوا جس میں مہاجرین اور انصار تھے اور اس میں جھنڈے اور پرچم تھے۔ انصار کے ہر قبیلے کے پاس ایک پرچم اور جھنڈا تھا اور وہ لوہے سے ڈھکے ہوئے تھے یعنی زرہ وغیرہ جنگی لباس میں ملبوس تھے۔ ان کی صرف آنکھیں دکھائی دیتی تھیں۔ ان میں گاہے بگاہے حضرت عمرؓ کی اونچی آواز بلند ہوتی تھی۔ وہ کہتے تھے آہستہ چلو تا کہ تمہارا پہلا حصہ آخری حصہ کے ساتھ مل جائے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دستہ میں ایک ہزار زرہ پوش تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جھنڈا حضرت سَعد بن عُبَادہؓ کو عطا فرمایا اور وہ لشکر کے آگے آگے تھے۔ جب حضرت سعدؓ ابوسفیان کے پاس پہنچے تو انہوں نے ابوسفیان کو پکار کر کہا آج کا دن خونریزی کا دن ہے۔ آج کے دن حرمت والی چیزوں کی حرمت حلال کر دی جائے گی۔ آج کے دن قریش ذلیل ہو جائیں گے۔ اس پر ابوسفیان نے حضرت عباسؓ سے کہا۔ اے عباس! آج میری حفاظت کا ذمہ تم پر ہے۔ اس کے بعد دیگر قبائل وہاں سے گزرے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہوئے اور آپؐ اپنی اونٹنی قَصْوَاء پر سوار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکرؓ اور حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ کے درمیان ان دونوں سے باتیں کرتے ہوئے تشریف لا رہے تھے۔ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان سے کہا

یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

(سبل الہدیٰ جلد 5 صفحہ 220-221، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1993ء)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے تو آپؐ نے دیکھا کہ عورتیں گھوڑوں کے مونہوں پر اپنے دوپٹے مار مار کر ان کو پیچھے ہٹا رہی تھیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے حضرت ابوبکر ؓکی طرف دیکھا اور فرمایا اے ابوبکرؓ! حسان بن ثابت نے کیا کہا ہے! چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے وہ اشعار پڑھے کہ

عَدِمْتُ بُنَیَّتِیْ اِنْ لَمْ تَرَوْہَا

تُثِیْرُ النَّقْعَ موعدھا کَدَاءُ

یُنَازِعْن الْاَعِنَّۃَ مُسْرِحَاتٍ

یُلَطِّمُہُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَاءُ

کہ مَیں اپنی پیاری بیٹی کو کھو دوں اگر تم ایسے لشکروں کو غبار اڑاتے ہوئے نہ دیکھو جن کے وعدوں کی جگہ کَدَاءپہاڑ ہے۔ وہ تیز رفتار گھوڑے اپنی لگاموں کو کھینچ رہے ہیں۔ عورتیں انہیں اپنی اوڑھنیوں سے مار رہی ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس شہر میں وہاں سے داخل ہو جہاں سے حَسّان نے کہا یعنی کَدَاءمقام سے۔

(سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرت خیر العباد جلد 5 صفحہ 227، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1993ء)

(شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 415 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1996ء)

کَدَاءعرفات کا دوسرا نام ہے۔ ایک پہاڑی راستہ ہے جو بیرون مکہ سے اندرون مکہ کو اترتا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہیں سے مکہ میں داخل ہوئے تھے۔

(فرہنگ سیرت صفحہ 242 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)

فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن کا اعلان فرمایا تو حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! ابوسفیان شرف کو پسند کرتا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ

جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا وہ بھی امن میں رہے گا۔

(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیة جزء 3 صفحہ 421 باب غزوة الفتح الاعظم۔دار الکتب العلمیة بیروت 1996ء )

مکہ فتح کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہُبَل بت کے بارے میں حکم دیا۔ چنانچہ وہ گرا دیا گیا اور آپؐ اس کے پاس کھڑے تھے۔ اس پر حضرت زُبیر بن عَوَّام ؓنے ابوسفیان سے کہا۔ اے ابوسفیان! ہُبَل کو گرا دیا گیا ہے حالانکہ تُو غزوۂ احد کے دن اس کے متعلق بہت غرور میں تھا جب تُو نے اعلان کیا تھا کہ اس نے تم لوگوں پر انعام کیا ہے۔ اس پر ابوسفیان نے کہا اے عَوَّام کے بیٹے! ان باتوں کو اَب جانے دو کیونکہ

مَیں جان چکا ہوں کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے علاوہ بھی کوئی خدا ہوتاتو جو آج ہوا وہ نہ ہوتا۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے ایک کونے میں بیٹھ گئے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد جمع تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن تشریف فرما تھے اور حضرت ابوبکرؓ تلوار سونتے آپؐ کی حفاظت کے لیے آپؐ کے سرپر یعنی آپؐ کے سرہانے کھڑے تھے۔

(سبل الہدیٰ جلد 5 صفحہ 235، فی غزوۃ الفتح الاعظم، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، 1993ء)

غزوہ ٔحُنَین

کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ غزوۂ حُنَین جس کا دوسرا نام غزوۂ ہَوَازِن ہے نیز غزوۂ اَوْطَاس بھی کہتے ہیں۔ حُنَین مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان مکہ سے تیس میل کے فاصلہ پر واقع ایک گھاٹی ہے۔ غزوۂ حُنَین شوال آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ہوا تھا۔بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مکہ فتح کرا دیا تو سردارانِ ہَوَازِن اور ثَقِیف ایک دوسرے سے ملے اور یہ لوگ ڈر رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بھی لڑائی کریں گے۔

(السیرۃ الحلبیہ جلد 3 باب ذکر مغازیہ ۔ غزوہ حُنَین صفحہ 151۔ دار الکتب العلمیۃ 2002ء)

(اٹلس سیرت نبویؐ صفحہ 409دار السلام ریاض 1424ھ)

مالِک بن عَوف نَصْرِی نے قبائل عرب کو جمع کیا۔ چنانچہ اس کے پاس ہَوَازِن کے ساتھ بنو ثقیف اور بنو نَصْر اور بنو جُشَمْ اور سعد بن بکر اور چند لوگ بنو ھِلَال میں سے جمع ہو گئے۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 761 ۔ دار الکتب العلمیۃ 2001ء)

یہ سب لوگ اَوْطَاس کے مقام پر جمع ہو گئے۔ اَوْطَاس حُنَین کے قریب ایک وادی ہے۔ مالک بن عوف نے اپنے جاسوس روانہ کیے تا کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر لائیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اکٹھے ہونے کی خبر سنی تو آپؐ نے اپنے اصحاب میں سے ایک شخص عبداللہ بن ابوحَدْرَدْ اسلَمِی کو ان کی طرف خبریں معلوم کرنے کے لیے بھیجا تاکہ ان کی بھی خبر لائیں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہَوازِن کے مقابلے کے لیے کوچ کا فیصلہ کیا اور جنگ کے لیے صَفْوَان بن اُمَیَّہ اور اپنے چچا زاد بھائی نَوفَل بن حارِث سے ہتھیار ادھار لیے۔ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ بنو ہَوازِن سے مقابلہ کے لیے نکلے اور علی الصبح حُنَین کے مقام پر پہنچے اور وادی میں داخل ہو گئے۔ مشرکین کا لشکر اس وادی کی گھاٹیوں میں پہلے سے چھپا ہوا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا اور اتنی شدت سے تیر مارے کہ مسلمان پلٹ کر بھاگے اور بکھر گئے جس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف چند صحابہؓ رہ گئے جن میں حضرت ابوبکرؓ بھی شامل تھے۔

(ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 151 تا 154 باب ذکر مغازیہ ۔ غزوہ حُنَین دار الکتب العلمیۃ 2002ء)

(فرہنگ سیرت صفحہ 49 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)

ابواسحاق سے روایت ہے کہ ایک شخص بَرَاء کے پاس آیا اور کہا تم لوگ حُنَین کے دن پیٹھ دکھا گئے تھے۔ انہوں نے کہا

مَیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی

لیکن جلدباز اور بغیر ہتھیاروں کے لوگ ہَوازِن قبیلہ کی طرف گئے اور وہ تیر انداز قوم تھی۔ انہوں نے ایسے تیروں کی بارش کی گویا ٹِڈی دَل ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ اپنی جگہیں چھوڑ گئے۔

(صحیح مسلم کتاب الجھاد و السیر باب فی غزوة حُنَین حدیث 4616)

ایسے حالات میں مہاجرین میں سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے حضرت علیؓ، حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد ابوسفیان بن حارث اور ان کا بیٹا، حضرت فضل بن عباس اور رَبِیعہ بن حارِث، اسامہ بن زید کا ذکر ملتا ہے کہ یہ ساتھ تھے۔

(السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ 764 غزوة حُنَین/ ثبات الرسول و بعض اصحابہ ۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2001ء)

حضرت ابوقَتَادہؓبیان کرتے ہیں کہ جب حُنَین کا وقت تھا تو میں نے مسلمانوں میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مشرک شخص سے لڑ رہا ہے اور ایک اَور مشرک ہے جو دھوکا دے کر چپکے سے اس کے پیچھے سے اس پر حملہ کرنا چاہتا ہے کہ اس کو قتل کر دے۔ تو مَیں جلدی سے اس کی طرف بڑھا جو اس طرح دھوکے سے ایک مسلمان سے جھپٹنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا اور میں نے اس کے ہاتھ پر وار کیا اور ہاتھ کو کاٹ دیا۔ پھر اس نے مجھے پکڑ لیا اور اس نے مجھے زور سے بھینچا یہاں تک کہ میں بے بس ہو گیا۔پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ وہ ڈھیلا پڑ گیا اور میں نے اس کو دھکا دیا۔ پھر میں نے اس کو مار ڈالا۔ ادھر یہ حال ہوا کہ مسلمان شکست کھا کر بھاگ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ بھاگ گیا۔ کہتے ہیں کہ پھر لوگ لَوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہونے شروع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی مقتول کے متعلق یہ ثبوت پیش کر دے کہ اس نے اس کو قتل کیا ہے تو اس مقتول کا سامان اس کے قاتل کا ہو گا۔ میں اٹھا تا کہ اپنے مقتول سے متعلق کوئی شہادت ڈھونڈوں مگر کسی کو نہ دیکھا جو میرے لیے گواہی دے اور مَیں بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا اور میں نے اس مقتول کا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔ آپؐ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اس مقتول کے ہتھیار جس کا یہ ذکر کرتے ہیں میرے پاس ہیں۔ اس شخص نے یعنی جس کے پاس یہ ہتھیار تھے کہا کہ ان ہتھیاروں کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کچھ اَور دے کر راضی کر لیں۔ یعنی کہتے ہیں کہ جو سامان میرے پاس ہے وہ میرے پاس ہی رہنے دیں اور انہیں کچھ اَور دے دیں۔ حضرت ابوبکرؓ وہاں بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے ایک بزدل کو تو سامان دلا دیں اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ دیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لڑ رہا ہے۔ حضرت ابوقتادہؓ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپؐ نے وہ سامان مجھے دلا دیا۔ میں نے اس سے کھجوروں کا ایک باغ خرید لیا اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں بطور جائیداد بنایا۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى وَيَوْمَ حُنَيْنٍ حدیث 4322)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دیکھو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جنگِ حُنَین کے موقع پر جب مکہ کے کافر لشکر اسلام میں یہ کہتے ہوئے شامل ہو گئے کہ آج ہم اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں گے اور پھر بنو ثقیف کے حملہ کی تاب نہ لا کر میدان جنگ سے بھاگے تو ایک وقت ایسا آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف بارہ صحابی رہ گئے۔ اسلامی لشکر جو دس ہزار کی تعداد میں تھا اس میں بھاگڑ مچ گئی۔ کفار کا لشکر جو تین ہزار تیر اندازوں پر مشتمل تھا آپؐ کے دائیں بائیں پہاڑوں پر چڑھا ہواآپؐ پر تیر برسا رہا تھا مگر اس وقت بھی آپؐ پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے تھے بلکہ آگے جانا چاہتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓنے گھبرا کر آپؐ کی سواری کی لگام پکڑ لی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! میری جان آپؐ پر قربان ہو یہ آگے بڑھنے کا وقت نہیں ہے۔ ابھی لشکرِ اسلام جمع ہو جائے گا تو پھر ہم آگے بڑھیں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے جوش سے فرمایا کہ

میری سواری کی باگ چھوڑ دو

اور پھر ایڑ لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ

اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

یعنی میں موعود نبی ہوں جس کی حفاظت کا دائمی وعدہ ہے۔ جھوٹا نہیں ہوں۔ اس لیے

تم تین ہزار تیر انداز ہو یا تیس ہزار مجھے تمہاری کوئی پروا نہیں۔

اور اے مشرکو! میری اس دلیری کو دیکھ کر کہیں مجھے خدا نہ سمجھ لینا

مَیں ایک انسان ہوں اور تمہارے سردار عبدالمطلب کا بیٹا یعنی پوتا ہوں۔

آپؐ کے چچا حضرت عباسؓ کی آواز بہت اونچی تھی۔ آپؐ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا عباس! آگے آؤ اور آواز دو اور بلند آواز سے پکارو کہ اے سورۂ بقرہ کے صحابیو! یعنی جنہوں نے سورت بقرہ یاد کی ہوئی ہے! اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو!! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے۔

ایک صحابی کہتے ہیں کہ مکہ کے تازہ نَو مسلموں کی بزدلی کی وجہ سے جب اسلامی لشکر کا اگلا حصہ پیچھے کی طرف بھاگا تو ہماری سواریاں بھی دوڑ پڑیں اور جتناہم روکتے تھے اتنا ہی وہ پیچھے کی طرف بھاگتی تھیں۔ یہاں تک کہ عباسؓ کی آواز میدان میں گونجنے لگی کہ اے سورہ بقرہ کے صحابیو! اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو!! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ آواز جب میرے کان میں پڑی تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں زندہ نہیں بلکہ مردہ ہوں اور اِسْرَافِیلکا صُور فضا میں گونج رہا ہے۔ میں نے اپنے اونٹ کی لگام زور سے کھینچی اور اس کا سر پیٹھ سے لگ گیا لیکن وہ اتنا بِدکا ہوا تھا کہ جونہی میں نے لگام ڈھیلی کی وہ پھر پیچھے کی طرف دوڑا۔ اس پر میں نے اور بہت سے ساتھیوں نے تلواریں نکال لیں اور کئی تو اونٹوں پر سے کود گئے اور کئی نے اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑنا شروع کر دیا اور چند لمحوں میں ہی وہ دس ہزار صحابہ کا لشکر جو بے اختیار مکہ کی طرف بھاگا جا رہا تھا آپؐ کے گرد جمع ہو گیا اور تھوڑی دیر میں پہاڑیوں پر چڑھ کر اس نے دشمن کا تہس نہس کر دیا اور یہ خطرناک شکست ایک عظیم الشان فتح کی صورت میں بدل گئی۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 409-410)

غزوۂ طائف

طائف مکہ سے مشرق کی جانب تقریبا ًنوے کلو میٹر پہ ایک مشہور شہر ہے اور حجاز کا پہاڑی شہر ہے۔ یہاں انگور اور دوسرے پھل بکثرت ہوتے تھے۔ اس جگہ بنو ثقیف آباد تھے۔

(فرہنگ سیرت صفحہ178 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)

غزوۂ طائف کے بارے میں آتا ہے کہ ہَوازِن اور ثقیف کے پیشتر شکست خوردہ افراد اپنے سردار مالِک بن عوف نَصْرِی کے ساتھ بھاگ کر طائف آئے تھے اور یہیں قلعہ بند ہو گئے تھے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُنَین سے فارغ ہو کر اور جِعْرَانَہ میں مالِ غنیمت جمع کروا کر تقسیم فرمایا اور اسی ماہ شوال آٹھ ہجری میں طائف کا قصد فرمایا۔

(الرحیق المختوم صفحہ567 المکتبہ السلفیہ لاہور)

جِعْرَانَہ مکہ اور طائف کے راستہ پر مکہ کے قریب ایک کنواں کا نام ہے۔ مکہ سے اس کا فاصلہ ستائیس کلو میٹر تھا۔

(فرہنگ سیرت صفحہ88 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا کتنے روز محاصرہ کیا تھا

اس بارے میں متعدد روایات ملتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں دس سے کچھ زائد راتیں محاصرہ کیا۔ بعض کہتے ہیں آپؐ نے بیس سے کچھ زائد راتیں محاصرہ کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیس دن محاصرہ کیا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس کے قریب راتیں اہل طائف کا محاصرہ کیا۔

(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ388 فی غزوۃ الطائف۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1993ء)

ابن ہشام کہتے ہیں کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سترہ راتیں محاصرہ کیا۔

(السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ792۔ ذکر غزوة الطائف بعد حُنَین۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2001ء)

صحیح مسلم میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ہم نے چالیس راتوں تک ان کا محاصرہ کیا۔

(صحیح مسلم کتاب الزکاۃ باب اعطاء المؤلفۃ قلوبھم علی الاسلام حدیث نمبر 2442)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں ثقیف کا محاصرہ کر رکھا تھا تو آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا اے ابوبکر! مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے مکھن سے بھرا ہوا ایک پیالہ پیش کیا گیا مگر ایک مرغ نے ٹھونگا مارا تو اس پیالے میں جو کچھ تھا سب بہ گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں نہیں سمجھتا کہ آپؐ آج کے دن ان سے جس چیز کا ارادہ رکھتے ہیں وہ حاصل کرلیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوا نہیں دیکھ رہا۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ کیا میں لوگوں میں کُوچ کا اعلان نہ کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں تو حضرت عمرؓ نے لوگوں میں کوچ کا اعلان کر دیا۔ واپس جانے کا اعلان کر دیا۔

(السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ793۔ ذکر غزوة الطائف بعد حُنَین۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2001ء)

غزوۂ تبوک

رجب 9؍ ہجری میں ہوا۔ اس کے بارے میں بیان ہے کہ تبوک مدینہ سے شام کی اس شاہراہ پر واقع ہے جو تجارتی قافلوں کی عام گزرگاہ تھی اور یہ وادی القریٰ اور شام کے درمیان ایک شہر ہے اسے اصحاب الایکہ کا شہر بھی کہا گیا ہے۔ اس کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔

(معجم البلدان جلد دوم صفحہ 14 دار صادر بیروت1977ء)

حضرت ابوبکر ؓغزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک میں بڑا جھنڈا آپؓ کو عطا فرمایا تھا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 131۔ ’’ابوبکر الصدیق‘‘ ومن بنی تیم بن مرَّۃ بن کعب۔ دار الکتب العلمیة بیروت 2017ء)

حضرت ابوبکرؓ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر اپنا جو کُل مال

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا اس کی مالیت چار ہزار درہم تھی۔

(شرح علامہ زرقانی جلد4صفحہ69 ثم غزوۃ تبوک دار الکتب العلمیۃ بیروت)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کرام کو غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور دیگر قبائل عرب کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ بھی آپؐ کے ساتھ چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء کو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور سواری مہیا کرنے کی تحریک فرمائی۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا انہیں تاکیدی حکم دیا اور یہ آپؐ کا آخری غزوہ ہے۔ چنانچہ اس موقع پر جو شخص سب سے پہلے مال لے کر آیا وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔آپؓ اپنے گھر کا سارا مال لے آئے جو کہ چار ہزار درہم تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے کہ نہیں؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ

گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔

حضرت عمر بن خطابؓ اپنے گھر کا آدھا مال لے آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑ کے آئے ہو؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ نصف چھوڑ کے آیا ہوں۔ اس موقع پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے ایک سو اُوقیہ پیش کیے ۔ یہ تقریباً چار ہزار درہم بنتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان بن عَفَّان اور عبدالرحمٰن بن عوف زمین پر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے خزانے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے بہت مال دیا۔ اس موقع پر عورتوں نے بھی اپنے زیورات پیش کیے اور حضرت عاصِم بن عَدِیؓ نے ستر وَسق کھجوریں پیش کیں جو تقریباً دو سو باسٹھ من کے قریب بنتی ہیں۔

(السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 183-184 غزوہ تبوک، دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

(لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 82 ’اوقیہ‘)

(لغات الحدیث جلد 4صفحہ487 ’وسق‘ ،جلد 2 صفحہ 648 ’صاع‘)

اس کی چالیس کلو کے قریب تو ایک من شمار کریں قریباً کوئی ڈیڑھ ہزار ایک ٹن سے اوپر بنتی ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ ٹن کے قریب۔

زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ ہم صدقہ کریں اور اس وقت میرے پاس مال تھا۔ میں نے کہا آج کے دن میں ابوبکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا۔ اگر میں ان سے کبھی سبقت لے جا سکا تو آج کا دن ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کہا مَیں اپنا نصف مال لایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ حضرت عمرؓ نے کہا میں نے عرض کیا کہ اتنا ہی اَور۔ جتنا لایا ہوں اتنا ہی گھر والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ آئے تو حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ وہ سب لے آئے جو اُن کے پاس تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر !تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا ہے۔

حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا۔ اللہ کی قسم! میں ان سے

کسی چیز میں کبھی بھی سبقت نہیں لے جا سکتا۔

(سنن الترمذی کتاب المناقب باب رجاءہ ان یکون ابو بکر ممن یدعی من جمیع ابواب الجنة حدیث : 3675)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ الٰہی دین پر لوگ اپنی جانوں کو بھیڑ بکری کی طرح نثار کرتے تھے۔ مالوں کا تو کیا ذکر، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنا کُل گھر بار نثار کیا حتی ٰکہ سوئی تک کو بھی اپنے گھر میں نہ رکھا اور ایسا ہی حضرت عمرؓ نے اپنی بساط اور انشراح کے موافق اور عثمان نے اپنی طاقت و حیثیت کے موافق عَلٰی ہٰذَا الْقِیَاسِ عَلٰی قَدْرِ مَرَاتِب تمام صحابہ اپنی جانوں اور مالوں سمیت اس دینِ الٰہی پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیعت کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک وہ ہیں کہ بیعت تو کر جاتے ہیں اور اقرار بھی کر جاتے ہیں کہ ہم دنیا پر دین کو مقدم کریں گے مگر مدد اور امداد کے موقع پر اپنی جیبوں کو دبا کر پکڑے رکھتے ہیں۔ بھلا ایسی محبت دنیا سے کوئی دینی مقصد پا سکتا ہے اور کیا ایسے لوگوں کا وجود کچھ بھی نفع رساں ہو سکتا ہے۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ پھرآپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ کہ جب تک مال جو تمہیں پیارا ہے اس کو خرچ نہیں کرو گے اس وقت تک تمہاری نیکی نیکیاں نہیں ہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد6صفحہ40حاشیہ)

حضرت ابوبکرؓ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر ایک صحابی کو دفن کرنا

اس بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ایک مرتبہ میں آدھی رات کے وقت اٹھا تو میں نے لشکر کے ایک طرف آگ کی روشنی دیکھی۔ چنانچہ میں اس کی طرف گیا کہ دیکھوں کہ وہ کیا ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓہیں اور میں نے دیکھا کہ حضرت عبداللہ ذُوالبِجَادَین مُزَنِیؓ فوت ہو گئے ہیں اور یہ لوگ ان کی قبر کھود چکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے اندر تھے جبکہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ان کی میت کو آپؐ کی طرف اتار رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تم دونوں اپنے بھائی کو میرے قریب کرو۔ پس ان دونوں نے حضرت عبداللہ ذُوالبِجَادَینؓ کی میت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اتارا۔ جب آپؐ نے انہیں قبر میں رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَمْسَیْتُ رَاضِیًا عَنْہُ فَارْضَ عَنْہُ کہ

اے اللہ! میں نے اس حال میں شام کی ہے کہ میں اس سے راضی تھا

پس تُو بھی اس سے راضی ہو جا۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اس وقت تمنا کی کہ کاش یہ قبر والا مَیں ہوتا۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 822، کتاب رسول اللہﷺ لصاحب ایلۃ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2001ء)

حضرت عبداللہ ذُوالبِجَادَینؓ کا تعلق قبیلہ بنو مُزَیْنَہ سے تھا۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ یہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ ان کے والد فوت ہو گئے۔ انہیں وراثت میں سے کچھ نہ ملا۔ ان کے چچا مالدار تھے۔ اس چچا نے آپؓ کی کفالت کی حتی ٰکہ آپؓ بھی مالدار ہو گئے اور انہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا تو ان کے چچا نے ان سے سب کچھ لے لیا یہاں تک کہ آپؓ کا تہ بند بھی کھینچ لیا۔ پھر آپؓ کی والدہ آئیں اور انہوں نے اپنی چادر کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور حضرت عبداللہؓ نے ایک حصہ کو بطور تہ بند استعمال کر لیا اور دوسرے حصہ کو اپنے اوپر اوڑھ لیا۔ پھرآپؓ مدینہ آئے اور مسجد میں لیٹ گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ یہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تھے تو لوگوں کو غور سے دیکھتے تھے کہ کون لوگ ہیں، کوئی نیا آدمی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہؓ کی طرف دیکھا تو انہیں اجنبی سمجھا اور حضرت عبداللہؓ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ حضرت عبداللہؓ نے اپنا نسب بیان کیا۔ ایک روایت میں ذکر ہے کہ آپؓ نے عرض کی کہ میرا نام عبدالْعُزَّیٰ ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم عبداللہ ذُوالبِجَادَین یعنی دو چادروں والے ہو۔ پھر فرمایا تم میرے قریب ہی رہا کرو۔ چنانچہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں میں شامل تھے اور آپؐ انہیں قرآن کریم سکھاتے تھے یہاں تک کہ آپؐ نے بہت سا قرآن یاد کر لیا اور آپؓ بلند آواز شخص تھے۔

(ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ 459-460 ، فی غزوۃ تبوک، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

(اسدالغابۃ جلد3 صفحہ 229 دارالکتب العلمیۃ)

حضرت ابوبکر صدیق ؓکی حج کے موقع پر امارت

کے بارے میں ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 9؍ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکو امیرالحج بنا کر مکہ روانہ فرمایا تھا۔ اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک سے واپس آئے تو آپؐ نے حج کا ارادہ کیا۔ پھر آپؐ سے ذکر کیا گیا کہ مشرکین دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر حج کرتے ہیں۔ وہاں مشرکین بھی ہوں گے اور شرکیہ الفاظ بھی ادا کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں۔ یہ بات سن کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال حج کا ارادہ ترک کر دیا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا۔

( الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویہ لابن ہشام، حج ابی بکر بالناس سنۃ تسع ،جلد4صفحہ318-19دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(عمدۃ القاری کتاب الحج باب لا یطوف بالبیت عریان جلد9صفحہ384 مطبوعہ دار احیاء التراث2003ء)

حضرت ابوبکر صدیق ؓتین سو صحابہ کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ بیس قربانی کے جانور بھیجے جن کے گلے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے قربانی کی علامت کے طور پر گانیاں پہنائیں اور نشان لگائے اور حضرت ابوبکرؓ خود اپنے ساتھ پانچ قربانی کے جانور لے کر گئے۔

(السیرۃ الحلبیہ۔جلد3 صفحہ295۔باب سرایہ و بعوثہﷺ/سریہ اُسامہ بن زید …۔دار الکتب العلمیة بیروت لبنان)

روایت میں آتا ہے کہ حضرت علیؓ نے سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات کا حج کے موقع پر اعلان کیا۔ یہ روایت اس طرح ہے کہ ابوجعفر محمد بن علی سے روایت ہے کہ جب سورۂ براة، (سورۂ توبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کو بطور امیرِ حج بھجوا چکے تھے۔ آپؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہؐ! اگر آپؐ یہ سورت حضرت ابوبکرؓ کی طرف بھیج دیں تاکہ وہاں وہ پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اہلِ بیت میں سے کسی شخص کے سوا کوئی یہ فریضہ میری طرف سے ادا نہیں کر سکتا۔ پھر آپؐ نے حضرت علیؓ کو بلوایا اور انہیں فرمایا کہ سورت توبہ کے آغاز میں جو بیان ہوا ہے اس کو لے جاؤ اور قربانی کے دن جب لوگ منیٰ میں اکٹھے ہوں تو اس میں

اعلان کر دو کہ جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج کرنے کی اجازت نہ ہو گی، نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ہاتھآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدت پوری کی جائے گی۔

حضرت علی بن ابوطالبؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی عَضْبَاء پر سوار ہو کر روانہ ہوئے۔ راستے میں ہی حضرت ابوبکرؓ سے جا ملے۔ حضرت ابوبکرؓ سے حضرت علی ؓکی ملاقات عَرْجْ یا وادی ضَجْنَان میں ہوئی۔ عَرْجْ مدینہ اور مکہ کے درمیانی راستہ کی ایک گھاٹی ہے یہاں قافلے پڑاؤ کرتے ہیں اور ضَجنَان مدینہ کے راستے پر مکہ کے نواح میں ایک مقام ہے جو مکہ سے پچیس میل کے فاصلہ پر ہے۔ بہرحال جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علی ؓکو راستے میں دیکھا تو حضرت ابوبکرؓ نے فوراً فرمایا کہ آپؓ کو امیر مقرر کیا گیا ہے یا آپؓ میرے ماتحت ہوں گے؟ یہ عاجزی کی انتہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے تو کیا اَب آپؓ امیر ہوں گے یا میرے ماتحت اس قافلے میں چلیں گے کام کریں گے۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ مَیں آپؓ کے ماتحت ہوں گا۔پھر دونوں روانہ ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے لوگوں کی حج کے امور پر نگرانی کی اور اس سال اہل عرب نے اپنی انہی جگہوں پر پڑاؤ کیا ہوا تھا جہاں وہ زمانہ جاہلیت میں پڑاؤ کیا کرتے تھے۔

جب قربانی کا دن آیا تو حضرت علی ؓکھڑے ہوئے اور لوگوں میں اُس بات کا اعلان کیا جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا اور کہا اے لوگو! جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہو گا اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی اور جس کسی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدت پوری کی جائے گی اور لوگوں کو اس اعلان کے دن سے چار ماہ تک کی مہلت دی تا کہ ہر قوم اپنے امن کی جگہوں یا اپنے علاقوں کی طرف لوٹ جائیں۔ پھر نہ کسی مشرک کے لیے کوئی عہد یا معاہدہ ہوگا اور نہ ذمہ داری سوائے اس عہد یا معاہدے کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی مدت تک ہو۔ یعنی جس معاہدے کی مدت ابھی باقی ہو تواس معاہدے کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا اس کی مقررہ مدت تک پاس کیا جائے گا ۔ ان معاہدوں کے علاوہ کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوگا۔ پھر اس سال کے بعد نہ کسی مشرک نے حج کیا اور نہ کسی نے ننگے بدن طواف کیا۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ عرفہ کے مقام میں آئے اور آپؓ نے لوگوں کو خطاب کیا۔ جب آپؓ خطاب کر چکے تو میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ اے علی! کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچاؤ۔ پس مَیں کھڑا ہو گیا اور مَیں نے انہیں سورۂ براءت کی چالیس آیات سنائیں۔ پھر وہ دونوں حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔

(سیرۃ ابن ہشام۔حج ابی بکر بالناس سنۃ تسع … صفحہ 832 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2001ء)

(سبل الہدی جلد 12 صفحہ 73 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

(البدایہ والنھایہ لابن کثیر جزء7صفحہ228-229 ذکر بعث رسول اللّٰہﷺ ابابکر امیرا علی الحج….. دار ھجر 1997ء)

(معجم البلدان جلد 3 صفحہ 515 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(فرہنگ سیرت صفحہ 198 زوار اکیڈمی کراچی 2003ء)

یہ ذکر ابھی چلے گا۔ اس وقت مَیں

ایک مرحومہ کا ذکر

بھی کرنا چاہتا ہوں ۔گذشتہ دنوں جن کی وفات ہوئی ہے۔ ان کا جنازہ بھی ان شاء اللہ پڑھاؤں گا۔

محترمہ امة اللطیف خورشید صاحبہ۔

یہ کینیڈا میں تھیں اور شیخ خورشید احمد صاحب مرحوم اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ربوہ کی اہلیہ تھیں۔ پچانوے سال کی عمر میں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔

آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والے کی پوتی، حضرت حکیم اللہ بخش صاحب مدرس دربان ڈیوڑھی حضرت اماں جان کی نواسی اور مکرم میاں عبدالرحیم دیانت صاحب درویش قادیان اور آمنہ بیگم صاحبہ کی بڑی بیٹی تھیں۔ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان سے انہوں نے مڈل پاس کیا۔ پھر جامعہ نصرت میں 43ء یا 44ء میں داخلہ لیا۔ دو سال جامعہ نصرت میں پڑھا۔ پھر پرائیویٹ پڑھ کر ادیب عالم کا امتحان پاس کیا۔ ان کی شادی شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل سے ہوئی تھی جیسا کہ میں نے بیان کیا اور ان کا نکاح حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے مسجد مبارک میں پڑھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا ہے۔ عبدالباسط شاہد صاحب مربی سلسلہ کی بہن تھیں جو آجکل یہاں ہیں اور لندن میں بھی کام کرتے رہے ہیں۔ بڑا عرصہ یہ باسط صاحب افریقہ میں بھی رہے۔ ان کے ایک پوتے وقاص احمد خورشید بھی امریکہ میںمربی سلسلہ ہیں۔ یہ اچھا علمی خاندان ہے۔ ایک بہن ان کی امة الباری ناصر صاحبہ بھی ہیں وہ بھی علمی خدمات انجام دیتی ہیں۔

امة اللطیف صاحبہ نے تیرہ سال کی عمر میں لجنہ اماء اللہ کے مختلف عہدوں پر خدمات ادا کرنی شروع کیں اور آپ کی خدمات کا سلسلہ ستر سال تک جاری رہا۔ آپ کو حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓکی ہدایات، حضرت ام المومنین حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ؓکی سرپرستی اور مختلف بزرگوں کی نگرانی میں کام کرنے کی توفیق ملی۔ قادیان میں خدمات کی توفیق ملی۔ پھر تقسیم برصغیر کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ اور حضرت چھوٹی آپا مرحومہ کے ارشاد پر مہاجرات کی انچارج کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی۔ اسی طرح مختلف حیثیتوں سے لجنہ کی خدمت کی توفیق پائی۔ لمبا عرصہ سیکرٹری اشاعت بھی رہیں۔ مدیرہ مصباح 1979ء سے 1986ء تک رہیں۔ 1986ء سے آپ کینیڈا مقیم تھیں۔ وہاں بھی لجنہ اماء اللہ کی اعزازی مشیررہیں۔ تصنیف و اشاعت میں تاریخ لجنہ اماء اللہ کی ابتدائی چار جلدیں، ’’المصابیح‘‘ اور ’’الازھار‘‘ مرتب کرنے میں بھر پور معاونت کی توفیق پائی۔ حضرت چھوٹی آپا کے ساتھ چوالیس سال کام کرنے کی سعادت ملی۔ آپ کے ایما اور نگرانی میں ناصرات الاحمدیہ کا سب سے پہلا اجتماع ہوا۔ امة اللطیف صاحبہ جب سیکرٹری ناصرات تھیں تو آپ نے اپنے خاوند شیخ خورشید صاحب کی معیت میں ’’راہِ ایمان‘‘ اور ’’جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ‘‘ مرتب کیں۔

ان کے بیٹے لئیق احمد خورشید کہتے ہیں کہ والدہ صاحبہ مرحومہ نے اپنے گھر میں تمام بچوں کو ایک گہرا سبق یہ سکھایا تھا کہ اگر جماعت یا خلافت کے خلاف کوئی بات ہو تو اسے بالکل نہ سننا اور اگر کان میں بات پڑ بھی جائے تو اس کو بالکل نہیں دہرانا اور منہ پر نہیں لانا چونکہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائیدات جماعت اور خلافت کے ساتھ ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہر ابتلا اور فتنہ کے بعد خدا تعالیٰ کے نشانات جماعت کے حق میں ظاہر ہوتے ہیں اس لیے تم لوگ بلا وجہ فتنہ میں شامل نہ ہو جانا۔ پھر لکھا ہے کہ آپ جماعت کی ایک چلتی پھرتی تاریخ تھیں۔ بہت ملنسار اور سب کا بھلا چاہنے والی۔ متوکل، خدمت خلق کا بہت شوق تھا اور بہت سے نئے آنے والے مہاجر خاندانوں کو بسانے میں سرگرمی سے حصہ لیتی تھیں جو کینیڈا میں آتے تھے۔

پھر ان کے ایک بچے نے لکھا ہے کہ ہماری امی جان کو خلافت سے والہانہ عشق تھا۔ ہر وقت ہم سب کو خلیفہ وقت کے لیے دعاؤں کی تاکید اور یاددہانی کرواتی تھیں۔ نمازوں کی بےانتہا پابند اور اہتمام سے ادا کرتیں۔ جمعہ کا دن ایک عید کا دن ہوتا تھا۔ قرآنِ مجید سے عشق کے بارے میں کہتی ہیں کہ بےشمار بچوں کو قرآن مجید پڑھایا اور صحیح تلفظ سے ادا کرنے پر تاکید کیا کرتی تھیں۔

ان کے پوتے وقاص خورشید مربی سلسلہ جو ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ دعا اور پڑھائی کی طرف توجہ دلاتی تھیں اور جماعت کی تاریخ کے حوالے سے کہانیوں کے ذریعہ بچوں کو جماعت کی تاریخ سکھاتی تھیں تاکہ ان کی بہتر رنگ میں تربیت ہو۔

ان کی ایک پوتی کہتی ہیں کہ دادی اماں کو نَو پوتیاں نصیب ہوئیں۔ انہوں نے نہ صرف ہم لڑکیوں کی تربیت کی کہ ہم لجنہ اماء اللہ کی خادمہ بنیں بلکہ ادب اور آداب اور صحیح پردہ کیسے کرنا ہے، گھر کی دیکھ بھال، مہمان نوازی، سلائی، اردو میں لکھنا پڑھنا ان ساری چیزوں کے بارے میں ہمارے لیے مستقل راہنما تھیں۔ جیسے جیسے ہم بالغ ہوئے انہوں نے ہمیں اپنے شوہروں اور سسرال والوں کے اچھا خیال رکھنے کی ترغیب دی اور بہت خوش ہوتیں جب ہم انہیں بتاتے کہ ہم نے اپنے سسرال کے ساتھ وقت گزارا ہے۔ ان فرائض کے ساتھ انہوں نے ہمیں اچھی طرح سے تعلیم یافتہ بننے اور کیریئر بنانے کی ترغیب بھی دی۔ سالگرہ نہ منانے جیسی جو غیر اسلامی چیزیں ہیں ان چیزوں پر مضبوطی سے قائم تھیں لیکن انہوں نے سالگرہ اور خاص مواقع کو یادگار بھی بنایا کیونکہ وہ ہمیشہ ہمیں ایک فیملی کے طور پر اکٹھے حمد و ثنا کی نظم پڑھنا اور باجماعت دعاؤں کے لیے کہتی تھیں۔ پھر یہ کہتی ہیں کہ کینیڈا میں بطور احمدی مسلمان آپ ہماری پرورش کا ایک لازمی حصہ تھیں اور انہوں نے ہمیں اس بارے میں بھی سکھایا کہ ہم نے اپنے ایمان اور مغربی معاشرے کو کس طرح ہم آہنگ طریقے سے متوازن کرنا ہے۔

تو یہ ہے ماؤں اور بزرگوں کا کام جو نئی نسل کو سنبھالنے کے لیے ضروری ہے۔

کہ نئی نسل کی کس طرح تربیت کرنی ہے، ان کو دین بھی سکھانا ہے اور اس معاشرے میں رہتے ہوئے بغیر کسی احساس کمتری کے ان کو اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کی طرف توجہ بھی دلانی ہے۔

اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو ان کی نسل کو نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button