اختلافی مسائل

کیا خدا نے غلطی کی جو سب باطل معبودوں کو مردہ قرار دیا؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات مسیح کی ایک دلیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’…حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر صریح دلالت کرتی ہیں یہ آیت قرآن شریف کی ہے۔ وَالَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ۔ اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ ۚ وَمَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ۔ (النحل: 21تا22)یعنی جو لوگ بغیر اللہ کے پرستش کئے جاتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ آپ پیدا شدہ ہیں اور وہ سب لوگ مر چکے ہیں زندہ نہیں ہیں۔ اور نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔

پس اس مقام پر غور سے دیکھنا چاہیے کہ یہ آیتیں کس قدر صراحت سے حضرت مسیح اور ان تمام انسانوں کی وفات کو ظاہر کر رہی ہیں جن کو یہود اور نصاریٰ اور بعض فرقے عرب کے اپنے معبود ٹھہراتے تھے۔ اور ان سے دعائیں مانگتے تھے۔ یاد رکھوکہ یہ خدا کا بیان ہے اور خدا تعالیٰ اس بات سے پاک اور بلند تر ہے کہ خلاف واقعہ باتیں کہے۔ پس جس حالت میں وہ صاف اور صریح لفظوں میں فرماتا ہے کہ جس قدر انسان مختلف فرقوں میں پوجا کئے جاتے ہیں اور خدا بنائے گئے ہیں وہ سب مر چکے ہیں ایک بھی ان میں سے زندہ نہیں ۔ تو پھر کس قدر سرکشی اور نافرمانی اور خداکے حکم کی مخالفت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سمجھاجائے۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُن لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کو خدا بنایا گیا ہے یا جن کواپنی مشکل کشائی کے لئے پکارا جاتا ہے بلکہ وہ ان سب لوگوں میںسے اول نمبر پر ہیں کیونکہ جس اصرار اور غلو کے ساتھ حضرت عیسیٰ کے خدا بنانے کے لئے چالیس کروڑ انسان کوشش کر رہا ہے اس کی نظیر کسی اور فرقہ میں ہر گز نہیں پائی جاتی۔ ‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ398تا399)

سورت النحل کی انہی آیات کے متعلق مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ’’یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جا رہی ہے، وہ فرشتے، یا جن، یا شیاطین، یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ اصحابِ قبور ہیں۔ اس لیے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں، ان پر اَمْواتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملے میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لیے مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کر دیتے ہیں۔ اب لا محالہ اس آیت میں اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز، گنج بخش، اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے۔ تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیتِ عرب کی تاریخ سے اس کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ کون پڑھا لکھا نہیں جانتا ہے کہ عرب کے متعدد قبائل، ربیعہ، کلب، تغلِب، قُضَاعَہ، کِنانہ، حَرث، کعب، کِندَہ وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے، اور یہ دونوں مذاہب بری طرح انبیاء، اولیاء اور شہداءکی پرستش سے آلودہ تھے۔ پھر مشرکینِ عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا۔ بخاری میں ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ ودّ، سُواع، یغوث، یعُوق، نسر، یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ اِساف اور نائلہ دونوں انسان تھے۔ اسی طرح کی روایات لات اور مُناۃ اور عُزّیٰ کے بارے میں بھی موجود ہیں۔ اور مشرکین کا یہ عقیدہ بھی روایات میں آیا ہے کہ لات اور عُزّیٰ اللہ کے ایسے پیارے تھے کہ اللہ میاں جاڑا لات کے ہاں اور گرمی عُزّیٰ کے ہاں بسر کرتے تھے۔ سُبْحٰنَہ وَ تَعَالیٰ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔‘‘(تفہیم القرآن از ابو الاعلیٰ مودودی جلد 2صفحہ 532تا533، ادارہ ترجمان القرآن لاہور)

مولانا امین احسن اصلاحی(پیدائش: 1904ء، وفات: 15؍ دسمبر 1997ء)ایک عالم دین، مفسر قرآن، ممتاز ریسرچ سکالر اور جاوید احمد غامدی کے استاد سورۃ النحل کی انہی آیات کے متعلق اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ’’ان دونوں آیتوں میں سے پہلی آیت تو تمام معبودان باطل سے متعلق عام ہے اور دوسری آیت خاص ان کے ان آباء واجداد سے متعلق ہے جن کی وہ پرستش کرتے تھے۔ فرمایا کہ اللہ کے سوا جن کو یہ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایسوں کوحاجت روائی کے لیے پکارنا محض نادانی ہے۔ پھر ان کے ان آباء واجداد کی طرف جن کو انہوں نے معبود بنا رکھا تھا، اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تو مردہ ہیں، ان کو پتہ بھی نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ مطلب یہ کہ مردوں کو پکارنے سے حاصل! ’’اموات‘‘ کے ساتھ ’’غیرُ اَحیاء‘‘ کی صفت تاکید مزید کے طور پر ہے یعنی مردہ بے حس۔ ‘‘(تدبر القرآن از امین احسن اصلاحی، جلد نمبر چہارم صفحہ 399، فاران فاؤنڈیشن لاہور، مطبع: کیو، وائی پرنٹرز میکلوڈ روڈ لاہور، 2009ء )

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ایک اَور آیت ہے جو بڑی صراحت سے حضرت عیسیٰ کی موت پر دلالت کر رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اَمْوَاَتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ یعنی جس قدر باطل معبودوں کی لوگ زمانہ حال میں پرستش کر رہے ہیں وہ سب مر چکے ہیں اُن میں کوئی زندہ باقی نہیں۔ اب بتلاؤ کیا اب بھی کچھ خدا کا خوف پیدا ہوا یا نہیں؟ یا نعوذباللہ خدا نے غلطی کی جو سب باطل معبودوں کو مردہ قرار دیا‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 91)

(مرسلہ:ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button