حالاتِ حاضرہ

(آصف محمود باسط)

(بزبان حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ)

یہ دو دہائیوں پہ بچھی داستان ہے

گر آنکھ ہو تو اِس میں خدا کا نشان ہے

اِس عرصۂ طویل میں کہتا رہا یہی

کہ اقتدارِ اعلیٰ خدا ہی کی شان ہے

سو حرص اور ہوس کی سیاست کو چھوڑ دو

’’کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو‘‘

مغرب کو اپنی حشمت و ثروت پہ ناز تھا

مشرق کی کم نگاہی کا دامن دراز تھا

دونوں نے اپنی آس زمیں سے لگائی تھی

افلاک کی تہوں میں مگر اصل راز تھا

اُس راز کی طرف میں بلاتا رہا اِنہیں

راہِ قیامِ امن دکھاتا رہا اِنہیں

اِن اہلِ اقتدار کو مدعو کبھی کیا

جانا پڑا تو اِن کے گھروں تک بھی مَیں گیا

یا پھر کبھی خطوط بصد دردِ دل لکھے

ہر بار ایک بات کہی، جیسے بن پڑا

ایسا نہ ہو کہ اُس کے غضب کو پکار لو

اب بھی تعلقات خدا سے سنوار لو

اب جنگ سَوادِ مشرق و مغرب کے در پہ ہے

قصرِِ انانیت کی تباہی بھی سر پہ ہے

قرآں ہے جس کا نام، پناہیں اُسی میں ہیں

اور منزلِ مراد اُسی کی ڈگر پہ ہے

اب امن و اتفاق کا رستہ اِسی میں ہے

’’چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اِسی میں ہے‘‘

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button