حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (3) (قسط 15)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

سمائے روحانی حیی و قیوم کی صفات پر بنیاد

اس کے مقابلہ میں نیا آسمان جو قرآن کے ذریعہ بنا۔ اس کی بنیاد حَیُّی و قَیُّومکی صفات پر رکھی گئی ہے۔ مختلف انبیاء کے کلام مختلف صفات الہٰیہ کے ماتحت نازل ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے۔ کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ یعنی ہر زمانہ نبوت میں اللہ تعالیٰ کا کلام نئی صفات کے ماتحت نازل ہوتا ہے۔ اس جگہ یوم سے مراد نبوت کا زمانہ ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے۔ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ (السجدة:6) یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین تک اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا اور پھر وہ اس کی طرف ایک ایسے وقت میں چڑھنا شروع کرے گا جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گنتی کرتے ہو۔

پس یوم سے مراد زمانہ نبوت ہے۔ اور سماء سے قرآن کریم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم کا نام صحف مرفوعہ بھی آیا ہے اور سماء بھی بلندی کا نام ہے۔ پس اس روحانی آسمان کو بھی سماءکہہ سکتے ہیں۔ اور اس کے لئے صفت حَیُّی و قَیُّوم کو استعمال کیا گیا ہے۔

یہ ثبوت کہ قرآن کریم حَیُّی و قَیُّوم کی صفات کی بنیاد پر ہے قرآن سے بھی اور حدیث سے بھی ملتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے۔ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قرآن کریم کی کون سی آیت سب سے بڑی ہے تو آپ نے فرمایا۔ آیت الکرسی۔(ابو داوٴد کتاب الصلوٰة باب ما جاء فی آیة الکرسی) اور آیت الکرسی کی بنیاد حَیُّی و قَیُّوم پر ہے۔ یہ روایت ابی بن کعب ؓ، ابن مسعود ؓ، ابوذر غفاری ؓ، ابوہریرہ ؓ اور چار پانچ صحابہ ؓسے مروی ہے۔ اور اکثر کتب حدیث میں ہے۔

اعظم اٰیة سے مراد اور حقیقت یہی ہے کہ یہ آیت منبع ہے قرآن کا۔ ورنہ سب آیات ہی اعظم ہیں۔ اور منبع اسی آیت کو کہہ سکتے ہیں۔ جو بطوراُمّ کے ہو۔ یعنی اس میں وہ بات ہے جو قرآن کریم کو دوسری کتب سے بطور اصول کے ممتاز کرتی ہے۔ چنانچہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آیت الکرسی میرے سوا اور کسی نبی کو نہیں ملی۔(در منثور جلد 1 صفحہ 325-326)یوں تو قرآن کریم کی کوئی آیت بھی کسی اور نبی کو نہیں دی گئی۔ مگر آیت الکرسی کے نہ دیئے جانے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے اندر جو صفات ہیں ان کے ماتحت کسی اور نبی پر کلام نازل نہیں ہوا۔ اور وہ صفات حَیُّی و قَیُّوم کی ہی ہیں۔ چنانچہ سورۃ آل عمران میں خدا تعالیٰ کی ان ہر دو صفات کو بیان کر کے قرآن کے نازل ہونے کا ذکر ہے۔ حَیُّی کے معنے ہوتے ہیں زندہ اور زندہ رکھنے والا۔ اور قَیُّوم کے معنے ہیں قائم اور قائم رکھنے والا۔ پس فرمایا یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو زندہ اور زندہ رکھنے والا ہے۔ یعنی یہ کلام ہمیشہ زندہ اور زندگی بخش رہے گا۔ اور پھر یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو قائم اور قائم رکھنے والا ہے۔ پس اس کتاب کو بھی وہ ہمیشہ قائم رکھے گا۔ آیت الکرسی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی صبح کو آیت الکرسی پڑھے تو شام تک اور شام کو پڑھے تو صبح تک شیطان سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل البقرة) اس سے معلوم ہوا کہ قرآن ان صفات کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ صرف یہی کلام ہے جس کے متعلق فرمایا کہ لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ پس وہی کلام جس کے زندہ رکھنے اور محفوظ رکھنے کا وعدہ تھا۔ اور جس سے پہلے کسی کلام کے متعلق یہ وعدہ نہ تھا حالانکہ وہ آسمانی کلام تھے اور جس سے پہلے کلاموں کو لوگ چھوتے تھے اور جس کے چھونے سے لوگوں کو روکا گیا تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ اسی کلام کی طرف اَنَّا لَمَسۡنَا والی آیت میں اشارہ ہے۔ نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر حفاظت سے مراد قرآن کریم کی حفاظت نہ تھی تو کفار کے سوال میں شُہُب کے نزول کے ذکر کے کیا معنے ہیں؟ کفار تو قرآن کے متعلق سوال کرتے تھے۔ پھر یہ کیا جواب ہوا کہ آسمان پر شیطان نہیں جا سکتا اور اگر جاتا ہے تو اس پر شہاب گرتا ہے۔

کتب سابقہ میں تحریف

اب عملاً دیکھ لو پہلی آسمانی کتب کس طرح خراب کر دی گئیں۔ تورات میں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی خود حضرت موسیٰؑ کی موت کا ذکر ہے۔ اسی طرح انجیل میں حضرت مسیحؑ کی موت کا ذکر ہے۔ ژند اوستا کے متعلق خود پارسیوں کا بیان ہے کہ مسلمانوں نے اسے بگاڑ دیا۔ میں کہتا ہوں یہ تو پیچھے دیکھا جائے گا۔ کہ مسلمانوں نے پارسیوں کی آسمانی کتاب میں کیا تصرف کیا لیکن ان کے بیان سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ ان کی کتاب بگڑ چکی ہے۔ ویدوں کی بناوٹ ہی بتاتی ہے کہ وہ بگڑ چکے ہیں۔ وید میں دوسروں کی عورتوں کو اغوا کرنے اور چوری کرنے کے متعلق دعائیں سکھائی گئی ہیں۔ اور ایسے منتر موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اس طرح چوری کرنی چاہئے کہ چور گھر والوں کو نظر نہ آئے۔ جس کتاب میں چوری اور ادھالے کی دعائیں ہوں وہ کیونکر لمس شیطانی سے محفوظ سمجھی جا سکتی ہے۔ اس قسم کی باتوں سے تو صاف ظاہر ہے کہ شیطان نے ان کتابوں کو چھؤا۔ لیکن اس کے مقابلہ میں قرآن نہ صرف دعویٰ طہارت کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ لَایَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ۔ کوئی اسے بگاڑ ہی نہیں سکتا۔ اور اگر کوئی اسے خراب کرنا چاہے گا تو اس پر شُہُب گریں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں دوسری کتب کو لوگ آئے دن بگاڑتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں بائیبل کے متعلق خود عیسائیوں کی طرف سے اعلان ہوا کہ :’’بائیبل سوسائٹی نے کمال دور اندیشی سے نئے ترجمہ کی تھوڑی سی جلدیں اس غرض سے شائع کی ہیں کہ اس ترجمہ پر جو اعتراضات موصول ہوں ان کو پیش نظر رکھ کر مناسب تبدیلیاں کر لی جائیں۔‘‘(اخبار نور افشاں28؍ نومبر 1930ء)

اسی طرح انجیل کا ایک حصہ ہی اڑا دیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یسوع مسیح کے بیماروں کو اچھا کرنے پر جب یہ اعتراض کیا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا جس میں نہانے سے بیمار اچھے ہو جاتے ہیں۔ تو اب عیسائیوں نے اسے نکال دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کسی اور کتاب کا حصہ تھا جو غلطی سے انجیل میں درج ہوگیا۔ مگر ہم کہتے ہیں۔ اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ شیطان نے انجیل کو مس کیا۔ مگر قرآن کو تو کوئی چھو ہی نہیں سکا۔ آخر وجہ کیا ہے کہ دوسری کتابوں کے ماننے والے قرآن کو بگاڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس سے انہیں ڈر کیوں آتا ہے۔ روسی حکومت نے ایک دفعہ چاہا تھا کہ قرآن سے جہاد کی آیتیں نکال دے۔ لیکن ملک میں اتنا شور پڑا کہ حکومت کو مجبور ہو کر اپنے ناپاک ارادہ سے باز رہنا پڑا۔ یہ بھی شُہُب ہی تھے جو اس پر گرے۔ انجیل کے متعلق کیوں ایسا نہیں ہوتا۔ پھر روسی حکومت جو قرآن سے جنگ کی آیات نکالنا چاہتی تھی وہ خود جنگ کی لپیٹ میں آ گئی۔

حفاظت قرآن اور یوروپین مستشرقین

دوسرا ذریعہ جس کی وجہ سے قرآن میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کے لئے حرس مقرر ہیں۔ یعنی اس کے نگران ہیں۔ اس وجہ سے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اس مضمون کو دوسری جگہ زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ۔ فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ۔ فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ۔ مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ۔ بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ۔ کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ یعنی یہ قرآن ایسے صحیفوں میں ہے جو عزت والے بڑی بلند شان رکھنے والے اور پاک ہیں۔ اور یہ صحیفے دور دور سفر کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو بڑے معزز اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہیں۔

یہ آیت ایسی عجیب ہے کہ اسے پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا عیسائی لٹریچر کو مدنظر رکھ کر اتاری گئی ہے۔ میں نے موجودہ عیسائی لٹریچر سے ایسے الفاظ نکالے ہیں جو اس آیت کی تشریح معلوم ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اس کلام کے ہمیشہ محفوظ رکھنے کا سامان ہم نے کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ (۱)یہ کتاب ہمیشہ مکرم رہے گی۔ اس کا ادب ہم لوگوں کے دلوں میں ڈال دیں گے اور لوگ ادب اور تعظیم کی وجہ سے اس کو خراب نہیں کریں گے۔ اس ادب کو سرولیم میور یوں تسلیم کرتا ہے۔

The two sources would correspond closely with each other; for the Coran, even while the Prophet was yet alive, was regarded with a superstitious awe as containing the very words of God; so that any variations would be reconciled by a direct reference to Mahomet himself, and after his death to the originals were they existed, or copies from the same, end to the memory of the Prophet‘s confidential friends and amanuenses.

(The Life of Mahomet by William Muir P. 555 Published in London 1877)

یعنی قرآن کا لوگوں پر اتنا رعب تھا کہ اس کے متعلق وہ خود اپنی عقل سے کوئی فیصلہ نہ کرتے تھے بلکہ رسول سے پوچھتے تھے یا پھر حفاظ اور قرآن کی نقلوں سے مقابلہ کرتے تھے۔ خود بخود کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے۔

دوسری بات اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ مرفوعہ یعنی باطنی طور پر بھی اس میں کوئی خرابی نہیں آسکتی کیونکہ اس کے مطالب کو بلند بنایا گیا ہے۔ اور اس میں علوم ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں۔ کہ انہیں خدا کا کلام یقین نہ کرنے والے سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اور بگاڑتا کوئی اسی وقت ہے جب مطلب سمجھ سکے اور جانتا ہو کہ اس میں یہ تغیر کر دوں گا تو یہ بات بن جائیگی۔ غرض فرمایا۔ قرآن کے مطالب ایسے رنگ میں رکھے گئے ہیں کہ جو لوگ سمجھتے ہیں وہ بگاڑتے نہیں۔ اور جو دشمن ہیں وہ کہتے ہیں اس میں رکھا ہی کیا ہے۔ یہ بے معنی الفاظ کا مجموعہ ہے۔ اس وجہ سے وہ بگاڑنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ سرولیم میور اس بارے میں لکھتا ہے۔

The contents and arrangement of the Coran speak forcibly for its authenticity. All the fragments that could obtained have, with artless simplicity, been joined together. The patchwork bears no marks of a designing genius or moulding hand.

(The Life of Mahomet by William Muir P. 561 Published in London 1877)

اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ کسی نے اسے بگاڑا نہیں۔ تمام ٹکڑے اس سادگی سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے گئے ہیں کہ پتہ لگتا ہے کہ وہ گودڑی جس کے ساتھ چیتھڑے جوڑے گئے ہیں کسی عقلمند نے انہیں نہیں جوڑا۔ اب اس قسم کے مرفوع کلام میں کسی کو جراٴت ہی کب ہو سکتی ہے کہ کچھ داخل کرے۔ جو سمجھتے ہیں وہ بَرَرَۃ ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ اسے ایک بے معنی کلام سمجھتے ہیں اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔

تیسری بات یہ بتائی کہ یہ کتاب ہر نقص سے پاک بنائی گئی ہے۔ اور ایسی اعلیٰ چیز میں جو دخل دے وہ فوراً پکڑا جاتا ہے۔ اس کی مثال کشمیر میں جا کر دیکھو۔ سلطنت مغلیہ کی جو عمارتیں بنی ہوئی ہیں ان میں جہاں جہاں بعد میں دخل دیا گیا ہے۔ اس کا فوراً پتہ لگ جاتا ہے۔ اسی طرح تاج محل کی حالت ہے۔ معمولی عمارت میں اگر کوئی پیوند لگا دے تو وہ چھپ سکتا ہے۔ لیکن اگر تاج محل میں جا کر لگائے تو فوراً پکڑا جاتا ہے۔ پس جو لوگ قرآن کریم کی خوبیوں سے ناواقف ہیں وہ تو اس میں کمی بیشی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اور جو واقف ہوتے ہیں وہ اس کی خوبصورتی میں دخل نہیں دے سکتے۔ کیونکہ اگر دخل دیں تو فوراً ظاہر ہو جائے۔ اس وجہ سے انہیں قرآن کو بگاڑنے کی جراٴت ہی نہیں ہوتی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button