یادِ رفتگاں

مکرم خوشی محمد صاحب شاکر مربی سلسلہ

(طاہر مہدی امتیاز احمد۔ مینیجر الفضل انٹرنیشنل لندن)

مکرم خوشی محمد صاحب ابن مکرم غلام محمد صاحب گھسیٹ پورہ ضلع فیصل آباد کے رہائشی تھے۔ ان کی پیدائش سے قبل ان کے دو بھائی سوکھا پن کی بیماری سے فوت ہو چکے تھے۔ بچپن میں انہیں بھی سوکھا پن کی بیماری ہو گئی۔ ان کے والد صاحب نے دعا کی کہ اگر میرا بچہ بچ گیا تو اسے وقف کروں گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا دی۔ میٹرک میں سائنس کے مضامین کے ساتھ 67 فیصد نمبر حاصل کیے۔ باہمنی والا میں جو ان کے گاؤں سے دو میل دور ہے میٹرک کیا اور وقف کر کے جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہوئے۔ آپ بہت محنتی تھے۔ جامعہ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی جاری رکھی۔ مربی سلسلہ بننے کے بعد ایم اے کیا۔ اپنے گاؤں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ذہین طلبہ میں شمار ہوتے تھے بلکہ اپنے گاؤں کے ذہین ترین احباب میں سے تھے۔ آپ کی سادہ طبیعت تھی۔ سادہ لباس پہنتے مگر پُروقار۔ ہم چند دوست ان کی شادی کے موقع پر بھی ان کے گاؤں گئے تھے، مگر اب یادیں ہی رہ گئی ہیں۔

1970-1971ء کی بات ہے، مَیں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھتا تھا۔ جامعہ احمدیہ میں سارا سال کھیل کے میدان مصروف رہتے تھے۔ جامعہ احمدیہ کی سالانہ کھیلیں ہوا کرتی تھیں۔ مکرم خوشی محمد صاحب ہر میدان میں دکھائی دیتے خواہ فٹ بال، کبڈی ہوا یا رسہ کشی۔

آپ مضبوط جسم کے مالک تھے۔ جامعہ کی کھیلوں کا ایک مقابلہ دس میل پیدل چلنے کا ہوا کرتا تھا۔ فٹ بال گراؤنڈ کے 45 چکر تیز چلنا ہوتا تھا ۔ جس کے روح وروواں مکرم خوشی محمد صاحب ہوا کرتے تھے اور اکثر یہ جیت جاتے۔

خاکسار میٹرک پاس کر کے 13؍ ستمبر 1972ء کو جامعہ احمدیہ میں داخل ہوا اور 16؍ ستمبر1972ء کو جامعہ احمدیہ میں بطور طالب علم تعلیم شروع کی۔ مجھے دیانت گروپ میں شامل کیا گیا۔ اتفاق سے مکرم خوشی محمد صاحب کا بھی دیانت گروپ تھا۔ جسمانی لحاظ سے میں کمزور طلبہ میں شمار کیا جاتا تھا۔

1975ء میں مَیں بھی اس مقابلہ میں پہلی دفعہ شامل ہوا اور مقابلہ جیت گیا۔ اسی طرح سالانہ کھیلوں میں ایک تکیہ جنگ کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ ہر گروپ سے ایک کھلاڑی اپنے کندھوں پر ایک کھلاڑی کو اٹھاتا، اسی طرح دوسری ٹیم کی ٹیم ہوا کرتی۔ مکرم خوشی محمد صاحب مضبوط جسم کے مالک ہونے کی وجہ سے اپنے گروپ کے کھلاڑی کو کندھوں پر اٹھائے ہوتے۔ دونوں ٹیموں میں کندھے پر بیٹھنے والے کھلاڑی ایک دوسرے پر حملہ کرتے۔ بڑی مزاحیہ کھیل تھی۔ ہم بڑے شوق سے دیکھا کرتے۔ دل میں خیال آتا کہ کیا میں بھی یہ کھیل کھیل سکتا ہوں۔ کیا معلوم تھا کہ چند سال بعد مکرم خوشی محمد صاحب کے کندھوں پر بیٹھ کر میچ کھیلا کروں گا ۔ یہ میلہ میں نے ثانیہ اور ثالثہ میں لُوٹا جبکہ مکرم خوشی محمد صاحب اس وقت رابعہ اور خامسہ میں تھے۔

جامعہ فیلو ہونے کی وجہ سے اس زمانےمیں مکرم خوشی محمد صاحب سے واقفیت ہوئی ۔ یہ واقفیت آہستہ آہستہ دوستی اور بعد ازاں بھائی چارہ کی شکل اختیار کرتی گئی۔ 1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک تحریک چلی جو مئی سے شروع ہوئی اور اسمبلی کے فیصلہ کے بعد اکتوبر 1974ء تک زوروں پر رہی۔ اس سال جامعہ کے طلبہ ڈیوٹیوں میں مصروف رہے۔ جون 1974ء میں سالانہ امتحان ملتوی کر دیے گئے۔ ان حالات میں مکرم خوشی محمد صاحب رات کو ڈیوٹیاں چیک کیا کرتے اور سارے ربوہ کی پوسٹس کا معائنہ کرتے۔

ان ایام میں سائیکل ایک نعمت ہوا کرتی تھی جو صرف چند طلبہ کے پاس ہوتی تھی۔ مجھے والد صاحب نے 1971ء میں برطانیہ کی بنی RUDGE  سائیکل خرید کر دی تھی۔ یہ مضبوط سائیکل تھی جس نے جامعہ کے زمانے میں سب طلبہ کی بہت خدمت کی۔ ہردل عزیز سائیکل تھی جو میری نہیں بلکہ ’’ہماری ‘‘ تھی۔ جو چاہے لے جائے۔ مکرم خوشی محمد صاحب اکثر لے جاتے کیونکہ ان کے عزیز و اقارب ربوہ میں دور دراز محلہ جات میں تھے۔ سائیکل پر چڑھتے اور کہتے ’’ تم دو منٹ ٹھہرو میں پانچ منٹ میں آ یا‘‘۔ مکرم خوشی محمد صاحب نے بھی ایک سائیکل خرید لی۔ گزارہ موافق تھی۔ مرورِ زمانہ اور حادثاتی طور پر ان کے ٹائر بہت جلد خراب ہو جاتے تھے یہ معمہ ہی رہا۔

پکنک کو مواقع ہوں، جلسہ، اجتماع، مجلس مشاورت، گھوڑ دوڑ یا کبڈی ٹورنامنٹ کے مواقع۔ دوست احباب اکھٹے ہوتے، کئی پروگرام ترتیب دیے جاتے۔ مکرم خوشی محمد صاحب شامل ہوتے ۔آپ کااشتیاق قابلِ دید ہوتا۔ یارانِ جان و دل کی مجلس ہو اور مجلس میں ان کی پنجابی نظم نہ ہو یہ ناممکن تھا۔ دوسرے لفظوں میں ان کے بغیر مجلس نہ جمتی۔ یہ مجالس زندگی بھر قائم رہیں۔ سیرالیون ہو یا لندن اور جرمنی۔ ہر مجلس ان سے جمتی اور پر وقار اور ذوقی لطائف سے مجلس پر حاوی رہتے۔انہوں نے ایک نظم گھانا میں اپنے سیرالیون میں واقعات پر مبنی پیارے آقا  حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی میں سنائی۔ اس کی حلاوت آج بھی کانوں میں محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک نظم جو انہوں نے خاکسار کی رہائی کے بعد سنائی پیش ہے جس سے آپ کی محبت، خلوص اور وفا کی جھلک سب محظوظ کرتے ہیں۔

خاکسار کی جیل سے رہائی کے چند دن بعد مکرم و محترم خوشی محمد صاحب شاکر نے اپنے جذبات بیان کرتے ہوئے ایک مجلس میں اپنی نظم پیش کرتے ہوئے بیان کیا:

سجن آئے صدقے جاواں خوشیاں نال

میں سینے لاواں جیلے پا کے سمجھیا زیرو

تینوں رب بنایا ہیرو رب دا شکر بجا میں لاواں

سجن آئے صدقے جاواں

خوشیاں نال میں سینے لاواں

صدمے دکھ تے سہ لے سارے

نہ تسیں ڈولے نہ تسیں ہارے

آقا دیاں سن نال دعاواں

سجن آئے صدقے جاواں

خوشیاں نال میں سینے لاواں

سر تے ساڈے جھک نہیں سکدے

ایناں کولوں اسیں مک نہیں سکدے

جِنیاں مرضی دَین سزاواں

سجن آئے صدقے جاواں

خوشیاں نال میں سینے لاواں

مظلوم کدے نہیں مردے ویکھے

ظالم کدی نہیں بچدے ویکھے

رب وَلوں جدوں آؤن سزاواں

سجن آئے صدقے جاواں

خوشیاں نال میں سینے لاواں

شکور بھائی اسیر وی سارے

لگدے نے سانوں بڑے پیارے

اوناں دیاں ویندے پئے آں راہواں

سجن آئے صدقے جاواں

خوشیاں نال میں سینے لاواں

آؤ شاکر گل مکائیے

رات دے مل کے تیر چلائیے

چھِیتی ہون قبول دعاواں

سجن آئے صدقے جاواں

خوشیاں نال میں سینے لاواں

ہوسٹل میں گھر والے سردیوں کی سوغات بنا کر بھجواتے جو سردیوں میں طاقت کا موجب ہوتے اور سردی سے بچاؤ کا بھی۔ گُڑ،شکر اور میوہ جات جہاں مکرم خوشی محمد صاحب کے کمرہ کی زینت بنتے وہاں ہماری شکم پروری کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا۔ ان تمام میں ہمارا حصہ نصف سے زائد ہوتا۔ مکرم خوشی محمد صاحب اور ان کے ساتھی گڑ کے چاول یا سویّاں بناتے۔ کُل زر ہمارا ہوتا جبکہ محنت کرنے والے اور ان کے گروپ کے ہتھے صرف ’’بقیہ جات‘‘۔

جلسہ سالانہ کے موقع پر گھر سے جو سوغات ہفتہ بھر کے لیے موصول ہوتی اس کا بھی اکثر حصہ یاروں کی نظر ہو جاتا بعض اوقات اس میں ان کا حصہ عشرِ عشیر ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے کمال حوصلہ دیا تھا ۔اس کو بھی مہمان نوازی شمار کرتے۔ ناصر ہوسٹل میں ان کا کمرہ مہمانوں کی خدمت کے لیے وقف رہتا۔

آپ خوشاب میں متعین تھے۔ وہاں سے تھل شروع ہوتا ہے۔ آپ نے سخت گرمی میں طوفانی دورے کیے۔ سخت گرمی اور شدّت کی پیاس کے باوجود میل ہا میل پیدل چلے۔ ایک لمبا عرصہ بیمار بھی رہے، تپ دق کا حملہ ہوا۔ لمبے علاج اور حضورِانور کی دعاؤں کی نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے صحت سے نوازا۔ فیصل آباد، سیالکوٹ، پیرمحل اور کئی اضلاع میں تعینات رہے۔ جہاں بھی گئے اس جماعت کے ممبر بن کر رہے۔ کھلاڑی تھے، جہاں بھی رہے وہاں کے خدام میں کھیلوں کا شوق پیدا کیا۔ پیرمحل کے علاقےمیں مقامی دیہات میں بطورریفری بلوائے جاتے۔ علاقے کے لوگ وقار کی نظر سے دیکھتے اور عزت کرتے۔ جو فیصلہ کرتے کیا مجال کہ کوئی اعتراض بھی کرے۔ غیر احمدی کھلاڑیوں میں بھی بے حد مقبول تھے۔

پیر محل میں قیام کے دوران ایک مقدمہ کے نتیجے میں جیل چلے گئے۔ یہ مقدمہ 31؍ جولائی 1986ء کو درج ہوا۔ چند ہفتے جیل میں رہے۔ دس پندرہ احمدی جیل میں تھے۔ اگست 1986ء میں عید سے ایک دن قبل سب کی ضمانت ہوئی ۔ اس وقت وہاں ایک احمدی سیشن جج تعنیات تھے۔ بڑے قابل اور انصاف میں مقبول ترین۔ عدلیہ میں ان کے انصاف کی مثال دی جاتی تھی۔ وکلاء بڑا احترام کرتے۔ ملنسار اور ہمدرد تھے۔ ان کی کاوش سے رہائی ملی۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے۔ آمین۔ انتظامیہ نے ان کو اس پہرہ میں رکھا جس میں چودھری محمد الیاس جٹ صاحب تھے۔ ان کو علم ہوا کہ یہ سارے احمدی ہیں تو انہوں نے خاص خیال رکھا۔ ان کی مہمان نوازی بھی کرتے۔ مکرم خوشی محمد صاحب کو بڑے ادب کے الفاظ سے یاد کیا کرتے اور عزت سے پیش آتے۔ اللہ ان کو جزا دے ۔آپ کے خلاف ایک لمبے مقدمے کی کارروائی چلی ۔ گرمی سردی میں کئی سال تک عدالتوں کے چکر لگے۔ 1987ء تا 1991ء گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں تقرری کے دوران 5 سال مقدمے کی پیروی کے لیے پیر محل جاتے رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپریل 1991ء میں آپ بری ہوئے۔

پیر محل میں چودھری غلام رسول صاحب (مرحوم ) قریبی گاؤں چک نمبر 342 گ ب کے رہائشی تھے۔ یہ ایک مضبوط احمدی تھے جو اپنے اصولوں کے سخت پابند تھے۔ کیا مجال کہ کوئی شخص جماعت کے خلاف بات بھی کر سکے۔ خوشی صاحب اور غلام رسول صاحب کے بیٹے مکرم غلام مصطفیٰ محسن صاحب یہ دونوں ہم خیال تھے بلکہ ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے۔ مکرم غلام مصطفیٰ محسن صاحب ایک پُر جوش داعی الی اللہ تھے۔ کلمہ کیس میں اسیر بھی رہے۔ کمال کی جوڑی تھی۔ مکرم غلام مصطفےٰ محسن صاحب 10؍ جنوری 2002ء کو معاندین احمدیت کے ہاتھوں پیرمحل میں شہید کر دیے گئے تھے۔ ان کے اکلوتے بیٹے طارق احمد محسن صاحب مربی سلسلہ ہیں اور آجکل جامعہ احمدیہ کینیڈا میں بطور استاد فقہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

آپ سیالکوٹ میں بھی تعینات رہے۔ اللہ کے فضل سے وہاں بھی اپنے حلقہ کی جماعتوں کی تربیت کی۔ اپنی تقرری کے بعد 1986ء تک ان کی فیملی ساتھ تھی۔ بعد ازاں یہ اپنے سنٹرمیں رہتے جبکہ بچوں کو تعلیم کی خاطر ربوہ میں رکھا۔

مکرم خوشی محمد صاحب 1977ء تا 1979ء چک 152 ضلع سرگودہا، 1980ء تک خوشاب، 1981ء ساہیوال ضلع سرگودہا، 1982 ءتا 1984ء بہلول پور، 1987ء تک پیرمحل، 1988ء میں تلونڈی موسیٰ خاں، 1990ء تک بھڈال اور 1991ء میں چونڈہ میں تعینات رہے اور اسی سال سیرالیون بطور مبلغ تقرری ہو گئی۔

1991ء میں ان کی تقرری سیرالیون میں ہوئی۔ روٹی فنک میں سکول میں تعنیات تھے۔ وہاں ایک وسیع مسجد بھی تعمیر کرائی۔ مکینی، بونکو بانا، فری ٹاؤن، گلوسٹر، روکوپور کئی جماعتوں میں رہے، فری ٹاؤن کی کروبے کی جماعتیں آپ کی پسندیدہ جماعتیں تھیں۔ خاکسار 1994ء میں جلسہ سالانہ سیرالیون میں شمولیت کے لیے گیا تو مکرم خوشی محمد صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ وہی بشاشت، وہی معصومیت اور سادگی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ تھی۔ وہاں بھی وہی مہمان نوازی اور وہی طور طریق۔ 1997ء کی خانہ جنگی اور رخصت گزارنے کے بعد 1998ء کے آخر میں ایک بار پھر نئے جذبہ کے ساتھ سیرالیون پہنچے۔ سینئر ہونے کی وجہ سے ان کی تقرری اہم مقام مائل91 ہوئی جو فری ٹاؤن سے 91 میل دور ہے اور اسی فاصلہ کی وجہ سے اس کا نام بھی یہی ہے۔ ان ایام میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔ وہاں سے واپس آتے ہوئے ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آ گیا۔ زخمی حالت میں فری ٹاؤن پہنچے۔ مکرم ڈاکٹر محمد احمد اشرف صاحب نے ان کا اپریشن کیا اور ٹانکے لگائے۔ کئی گھنٹےصرف ہوئے۔ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ان کا مددگار تھا۔ بڑا گہرا زخم تھا۔ اللہ نے فضل فرمایااورآپ ٹھیک ہو گئے۔ اس وقت شیشے کا ایک ٹکڑا جسم کے اندر رہ گیا۔ چند سال قبل سالہا سال بعد ان کو لالیاں میں ایک جماعتی میٹنگ کے دوران تکلیف ہوئی اور اسی زخم سے خون بہہ نکلا۔ فضل عمر ہسپتال پہنچے، علاج کرایا وہاں اندازاً 15 سال قبل اپریشن میں رہ جانے والا شیشہ نکالا گیا۔ سیرا لیون میں اس مرتبہ آپ کا عرصہ قیام 1998ء تا 2001ء رہا۔ پھر حالات سخت خراب ہو گئے۔ تقریباً 6 ماہ کناکری میں رہے۔ پھر ایک سال فری ٹاؤن آ گئے۔ بعد ازاں پھر کناکری چلے گئے۔

2001ء میں انگلستان میں جلسہ سالانہ نہ ہو سکا۔ ہم دونوں رخصت پر جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئے۔ چند ایام جرمنی میں میرے بھائی مکرم ارشاد احمد صاحب کے گھر قیام کیا۔ مکرم خوشی محمد صاحب ساری ساری رات انٹرنیٹ پر مخالفین کے سوالوں کے جواب دیتے۔ آپ انتھک تبلیغ کرتے۔ رخصت کے بعد جون 2002ء میں مع فیملی سیرالیون آئے۔ ایک سال روکو پور اور گلوسٹر میں رہنے کے بعد لنگے میں رہے۔ یہاں ہائی سکول تھا۔ ملک کا ائر پورٹ بھی یہاں ہی ہے۔ بچے یہیں پڑھے۔ مسجد بھی تعمیر کرائی۔ البتہ بجلی نہ تھا، یہی بڑا المیہ تھا۔

سیرالیون میں قیام کے دوران وہاں صرف چند فیملیاں تھیں۔ لنگے سے گھر کا سودا سلف خریدنے، کسی کے بیمار ہو جانے پر، کسی جماعتی یا ذاتی کام کے لیے انہیں فری ٹاؤن آنا ہوتا تھا جس کے لیے فیری کراس کرنا ہوتی تھی۔ فیری سے نکلتے ہی میری رہائش تھی۔ عرصہ تین سال تک ہم ایک ہی فیملی تھے۔ ان کی اہلیہ بڑی نیک اور فرشتہ سیرت خاتون ہیں۔ میرے بچوں سے بہت پیار تھا۔ چند دن ناغہ ہو جاتا تو میرے بچے ان سے پوچھتے کہ میں نے آنٹی یا انکل کو ناراض تو نہیں کر دیا۔ میرے بچے بھی وہاں پہنچ جاتے آنٹی اور انکل کے ذریعہ اپنی فرمائش پوری کراتے۔

1991ء تا 2007ء سیرالیون میں(سوائے چند ماہ جب خانہ جنگی کی وجہ سے مجبوراً ملک چھوڑنا پڑا) متعدد مقامات پر تعینات رہے۔ آپ نےحوصلہ اور صبر سے کام لیا۔ وہاں افریقی بھائیوں سے محبت کا سلوک رکھا۔ وہاں کی جماعتیں ان کو یاد کرتیں ہیں۔ بلا کے مہمان نواز تھے۔ بشاشت کے ساتھ ہر ایک سے پیش آتے۔ ہمیشہ چہرہ پر مسکراہٹ رہتی۔

2007ء میں رخصت پر آئے۔ بعد ازاں پاکستان میں ہی تعینات رہے۔ مربی ضلع چنیوٹ بھی رہے۔ 2007ءسے 2022ء تک ایک سال امورِعامہ میں کام کیا باقی عرصہ نظارت اصلاح و ارشاد مقامی میں ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھےکہ 8 ؍فروری 2022ءکو مختصر بیماری کے بعد اللہ کے حضور حاضر ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

میرا پچھلی 5 دہائیوں سے مکرم خوشی محمد صاحب سے برادرانہ تعلق رہا ہے۔ آپ مجھ سے تین سال سینئر تھے۔ کمال کے مخلص انسان تھے۔ اپنی طالب علمی کے زمانے میں ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ تعلق بنانے اور نبھانے میں ان کا کمال تھا۔ پاکستان میں جن جماعتوں میں رہے تمام احباب جماعت سے وفات تک تعلق قائم رکھا۔ جماعتی قوانین اور ہدایات کی پابندی کرتے اور کرواتے۔ خلافت سے انتہائی محبت کرنے والے انسان تھے۔ کامیاب داعی الی اللہ اور خادم سلسلہ تھے۔ زمانہ طالب علمی سے ہی تہجد گزار اور دعا گو انسان تھے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کو ان گنت خوبیوں سے نوازا تھا۔ وفا کرنے والے ہمدرد انسان تھے۔ ایک شفیق دوست اور بھائی تھے۔ غریب پرور انسان تھے۔ غرباء کی دل کھول کر مدد کرتے۔ یاروں کے یار تھے ۔ مجالس کے روح وروواں ہوتے۔ جس مجلس میں ہوتےاس میں ذوقی لطائف اور جگ بیتی واقعات سے خوب لطف اندوزہوتے۔ اعلیٰ مزاح آپ کی طبیعت کا حصہ تھا۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے جب چھٹے بیٹے سے نوازا جس پر مبارک باد دی گئی تو جس انداز سے انہوں نے بیٹے کی مبارک باد وصول کی تحریر اس کی لطافت اور اس میں موجود مزاح کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ان کے مزاح اور واقعات پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کو 6 بیٹوں سے نوازا ہے مکرم محمد افضل کینیڈا، محمد غالب، طاہر محمود،جاوید احمد برطانیہ، طارق اسلام جرمنی اور ناصر اسلام مربی سلسلہ ہیں۔ آپ کے درجن بھر پوتے پوتیوں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اپنی اولاد کی بھی تربیت کما حقہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو خلافت کا اطاعت گزار اور مطیع بنائے اور ان کی اولاد ان کی نیکیوں کو جا ری رکھنے والے ہوں۔ آمین

اے جانے والے! تجھ پر لاکھوں سلام۔ اللہ تجھے اپنے قرب سے نوازے۔ مغفرت کا سلوک کرے۔ اعلیٰ علیین میں رکھے۔ اللہ نے ان پر ان گنت فضل فرمائے تھے۔ ہزاروں سوگواران تیرے مرقد پر پہنچے۔ تیری مغفرت کی دعا کی دعاؤں سے الوداع کہا۔ منوں مٹی تلے آرام فرما ہے، رب سوہنے دے حوالے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button