متفرق مضامین

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں برکاتِ خلافت (قسط دوم۔ آخری)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

’’کشتیٔ احمدیت کا کپتان، اس مقدس کشتی کو پر خطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے سلامتی کے ساتھ اسے ساحل پر پہنچادے گا۔ یہ میرا ایمان ہے اور میں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں‘‘

خوف کے بعد امن کا قیام

اللہ تعالیٰ نے نعمت خلافت کے قیام اور اُس کے ذریعہ دین حق کی تمکنت اور استحکام کے بعد ایک اور وعدۂ الٰہی کا ذکر فرمایا کہ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا(النور: 56)یعنی اللہ تعالیٰ خلافت کے ذریعہ مومنوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے ہر خوف کو امن سے بدل دے گا۔ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے بعد قائم ہونے والی خلافت کے ذریعہ بھی یہ وعدۂ خدا وندی بڑی شان سے پورا ہوا۔ حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے دَور خلافت کے آغاز میں اسلام کو جن خطرناک فتنوں اور اندرونی وبیرونی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا، اللہ تعالیٰ نے خلافت کی برکت سے ایک ایک کرکے ان تمام فتنوں اور سازشوں کا قلع قمع فرمادیا۔ اور جماعت مومنین پر مسلط کیے جانے والے خوف کے حالات کو امن میں بدل کر ان کے دلوں میں سکینت اتاردی۔ الحمد للہ علیٰ ذٰلک

اللہ تعالیٰ اپنے تائید یافتہ خلیفہ کے ذریعہ ہر قسم کے خوف کو دور کرکے جماعت مومنین کو امن کے حصار میں لے لیتا ہے اور اُن کا قافلہ اپنے قافلہ سالار خلیفہ وقت کی قیادت میں شاہراہ ترقی پر تیز قدموں کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہوجاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کرلیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہوجائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑجاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں۔ تب خداتعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خداتعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایااور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا۔ یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے۔ ‘‘(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 304تا305)

موجودہ دَور میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ اور اُس کے محبوب رسولﷺ کے وعدوں کے مطابق قائم ہونے والی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے مبارک دَور میں بھی خوف کے بعد امن کے قیام کے بےشمار نظارے ہمیں نظر آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اب تک کے پانچوں خلفائے عظام کے ادوار پر ایک اجمالی نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ حقیقت روز روشن کی طرح نظر آتی ہے کہ ہر دَورخلافت میں تمکنت دین متین کا زبردست سامان ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے پہلے خلیفہ حضرت حافظ مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت کے دوران اندرونی فتنوں میں شدت پیدا ہوگئی۔ اکابرین جماعت میں سے بعض نے اندر ہی اندر ریشہ دوانیاں شروع کردیں اور نظام خلافت کو کمزور کرنے اور جماعت کی بنیادوں کو ہلا دینے والی سازشیں شروع کردیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے غیر معمولی عزم وحوصلہ اور توکل علی اللہ کی بدولت ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان لوگوں کی کوئی پیش نہ جانے دی۔ آپ کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ آپ نے خلافت کی عظمت اور تمکنت کو قائم فرمایا اور خلافت احمدیہ کو استحکام بخشا۔ خوف کے بادل چھٹ گئے اور جماعت ایک نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ دین حق کی سربلندی اور اشاعت میں مصروف عمل ہوگئی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز ہی میں خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے براہ راست منصب خلافت پر حملہ کردیا اور یہ نیا خطرناک شعشہ چھوڑ دیا کہ حضرت مسیح موعودؑ جانشین خلافت نہیں بلکہ انجمن ہے۔ حالانکہ چھ سال تک خود یہ لوگ چاروناچار حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی بیعت خلافت میں شامل رہے۔ مگر اب یکایک انہوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ خلافت کی ضرورت نہیں انجمن ہی کافی ہے۔ اس نئے فتنے کا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے کمال جرأت اور غیر معمولی عزم وہمت سے مقابلہ کیا۔ اور خدا تعالیٰ کی تائید سے خلافت کو استحکام بخشا اور جماعتی ترقی کے لیے بےشمار منصوبوں کا ایک سلسلہ جاری فرمادیا۔ آپؓ نے اپنی خلافت کے آغاز میں ہی ایک پمفلٹ شائع فرمایا جس کا عنوان تھا۔ ’’ کون ہے جو خدا کے کاموں کو روک سکے ‘‘۔ اس کے بعد آپ کے دَور میں انگریز حکومت خصوصاً پنجاب کے انگریز گورنر اور مجلس احرار نے باہمی ملی بھگت سے جماعت کے خلاف سازشوں کا جال بنا اور مسلسل خلیفۃ المسیح کو پریشان کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے شروع کردیے۔ حضورؓ کی زبان بندی اور خطبات پر پابندی بھی لگائی گئی۔ اسی طرح احرار نے قادیان میں اپنے بہت بڑے جلسے کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی اشتہاروں اور اخباروں میں اشتعال انگیز بیان بازی شروع کردی۔ یہاں تک کہا گیا کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور نعوذباللہ حضرت مسیح موعودؑ کی نعش کی بے حرمتی کریں گے۔ انگریز گورنر، احرار کی پشت پر تھا اور یہ بڑا ہی نازک وقت تھا اس کی نزاکت کا اندازہ حضرت مصلح موعودؓ کے درج ذیل ارشادات سے بخوبی ہوتا ہے۔ حضورؓ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍اکتوبر 1934ء میں فرماتے ہیں: ’’پس جیسا کہ حکومت پنجاب کے بعض افراد نے سلسلہ کی ہتک کی ہے، احرار کا بھی چیلنج موجودہے اور آپ لوگوں کاکام ہے کہ ہتک کا بھی ازالہ کریں اور چیلنج کا بھی جواب دیں اور ان دونوں باتوں کے لئے جو بھی قربانیاں کرنی پڑیں، کریں۔ ‘‘(خطبات محمود جلد 15صفحہ 287)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ 2؍نومبر 1934ء میں پنجاب کی انگریز حکومت کی چیرہ دستیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ کو آخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ اُس کی غلطی تھی اور ہم حق پر تھے باوجودیکہ ہم نہ تشدد کریں گے اور نہ سول نافرمانی، باوجودیکہ ہم گورنمنٹ کے قانون کا احترام کریں گے، باوجود اس کے کہ ہم اُن تمام ذمہ داریوں کو ادا کریں گے جو احمدیت نے ہم پر عائد کی ہیں اور باوجود اس کے کہ ہم ان تمام فرائض کو پورا کریں گے جو خدا اور اُس کے رسولؐ نے ہمارے لئے مقرر کئے۔ پھر بھی ہماری سکیم کامیاب ہوکر رہے گی۔ کشتیٔ احمدیت کا کپتان، اس مقدس کشتی کو پر خطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے سلامتی کے ساتھ اسے ساحل پر پہنچادے گا۔ یہ میرا ایمان ہے اور میں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں۔ ‘‘(الفضل 11؍نومبر 1934ء۔ بحوالہ تحریک جد ید ایک الٰہی تحریک جلد اوّل )

حضورؓ کے اس بیان اور اعلان کے عین مطابق وعدہ الٰہی وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًاپورا ہوا، اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا وقت آن پہنچا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی زبردست قوت کا ہاتھ دکھاتے ہوئے انگریز واحرار کی سازش کو ناکام ونامراد بنادیا۔ اور اپنے خلیفۂ برحق اور اُس کی جماعت کی حفاظت کے غیر معمولی سامان کردیے اور اسی خطرناک طوفان مخالفت کی کوکھ سے تحریک جدید جیسی الٰہی تحریک کا وہ پودا لگایا جس کی شاخیں آج روئے زمین میں پھیل گئی ہیں۔ اور جس کی بدولت تبلیغ واشاعت اسلام کا ایک عالمگیر اور مستحکم نظام قائم ہوچکا ہے۔ ان خطرناک اور جماعت کے لیے انتہائی پریشان کن حالات میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک نظم کے ذریعہ بھی اپنے ناقابل تسخیر عزم اور توکل علی اللہ کا اظہار کرتے ہوئے مخالفین احمدیت، خصوصاً احرار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

پڑھ چکے احرار اپنی کتاب زندگی

ہوگیا پھٹ کر ہوا اُن کا حباب زندگی

لوٹنے نکلے تھے جو امن و سکونِ بیکساں

خود انہی کے لٹ گئے حسن و شباب زندگی

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے 52سالہ دَور خلافت کا دوسرا بڑا فتنہ 1952ء تا 1954ء کے فسادات پنجاب تھے۔ جن میں جماعت احمدیہ کے متعدد افراد کو شہید کرنے کے علاوہ وسیع پیمانے پر احباب جماعت کے اموال واملاک کو جلایا اور لوٹا گیا۔ کاروبار تباہ کیے گئے اور پورے صوبہ میں افراد جماعت کا سوشل بائیکاٹ کیاگیا۔ اس خوفناک تحریک کی پشت پناہی حکومت پنجاب کررہی تھی۔ تمام بڑے بڑے اخبارات میں جماعت کے خلاف مسلسل اشتعال انگیزی کی جارہی تھی اور جماعت کے افراد کو واجب القتل قرار دیا جارہاتھا۔ شورش کرنے والوں میں سے ہر کسی کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا کہ ہم احمدیت کو مٹاکر دم لیں گے۔ ان پر آشوب حالات میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر جماعت کو تسلی دی کہ خدا تعالیٰ کی انگلی اشارے کررہی ہے کہ وہ میری مدد کے لیے دوڑا چلا آرہا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یکایک حالات تبدیل کردیے لاہور سمیت بعض مقامات پر جزوی مارشل لاء لگاکر مرکزی حکومت نے شورش پسندوں کا قلع قمع کردیا۔ اور یہ بہت بڑا خوف بھی محض خدا کے فضل اور خلافت کی برکت سے امن میں تبدیل ہوگیا۔

پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور خلافت میں ایک بہت بڑی سازش تیار کی گئی۔ ربوہ ریلوے اسٹیشن کے معمولی نوعیت کے واقعہ کو اخبارات میں اشتعال انگیزی کے ذریعہ ہوا دے کر بےشمار احمدیوں کو شہیدکیا گیا۔ اُن کی املاک، کاروباری مراکز اور جائیدادوں کو وسیع پیمانے پر نذر آتش کیا گیا اور لوٹ مار کا بازار بھی گرم کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس انتہائی پر آشوب دَور میں بھی جماعت کو سہارا دیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی دعائوں اور پرحکمت تدابیر کے نتیجے میں جماعت کی کشتی تباہی وبربادی سے محفوظ ومامون ہوکر ساحل کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اُس وقت کے حکمران ذوالفقار علی بھٹو، جسے علماء نے یہ تک کہا تھا کہ اگر آپ 90سالہ قادیانی مسئلہ حل کردیں تو ہم اپنی داڑھیوں سے آپ کے بوٹ پالش کریں گے۔ خدا کی تقدیر نے انہی علماء اور اُن کے سیاسی حلیفوں کے ذریعہ سربراہ حکومت ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹادیا اور بالآخر ایک بظاہر کمزور کیس میں ان کو تختہ ٔدار پر لٹکادیا گیا۔

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دَور خلافت میں 1984ء میں فوجی حکمران اور ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق ایک آمر مطلق فوجی حکمران اور نام نہاد صدر پاکستان نے ایک رسوائے زمانہ آرڈیننس نافذ کرکے جماعت احمدیہ پر اپنے آپ کو مسلمان کہنے یا اپنے تئیں مسلمان ظاہر کرنے، اذان دینے، کلمہ طیبہ پڑھنے اور مسجد کو مسجد کہنے وغیرہ قسم کی جابرانہ اور ظالمانہ قدغنیں لگادیں۔ پھر ایک لفٹ آپریٹر اسلم قریشی کے اغوا کا ڈرامہ رچاکر حضورؒ کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی گئی۔ اس ناپاک اور انتہائی بھیانک سازش کا اصل مقصد خلیفۂ وقت پر ہاتھ ڈالنا اور جماعت احمدیہ کو خلافت سے محروم کردینا تھا۔ چنانچہ اس خوفناک سازش کو بھانپتے ہوئے خلافت احمدیہ کو محفوظ رکھنے کی خاطر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدو نصرت سے کامیاب بنایا اور آپ نے اس کامیاب ہجرت کے بعد لندن میں قیام فرمایا۔ اور پھر اپنے اکیس سالہ دَور خلافت میں زبردست اور انقلاب آفرین تحریکات کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی عمارت کو دنیا بھر میں مضبوط ومستحکم بنیادوں پر استوار کردیا۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 2003ء میں منصب خلافت پر فائز ہوئے۔ خدا کے فضل سے حضور انور کے دَورخلافت میں جماعت بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتی چلی آرہی ہے۔ دنیا بھر میں منعقد ہونے والے جماعت احمدیہ کے جلسہ ہائے سالانہ میں متعلقہ ممالک کی سربرآوردہ سیاسی شخصیات بھی بڑی تعداد میں شامل ہوکر جماعت احمدیہ کی پُر امن تبلیغی کوششوں اور کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دَورخلافت میں متعدد نئے ممالک میں احمدیت کا پودا لگا اور دنیا بھر میں لاکھوں سعید روحیں اسلام احمدیت میں داخل ہوئی ہیں۔

اس دَور میں پاکستان سمیت بہت سے ملکوں میں جماعت کو شدید مشکلات سے گزرنا پڑا اور خصوصاً پاکستا ن میںمعصوم احمدیوں کو پابند سلاسل کیا گیا، اُن پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے اور درجنوں احمدیوں کو Target Killingکا نشانہ بناکر تہ تیغ بے دریغ کیاگیا۔

28؍مئی 2010ء کو لاہور کی دو احمدیہ مساجدمیں ظلم وبربریت کی ایک بہت بڑی داستان رقم کی گئی۔ دہشت گرد حملہ آوروں نے اسلام کے نام پر 86نہتے احمدی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنی سفاکانہ ذہنیت اور اسلام دشمنی کا ثبوت دیا۔ مگران سب ظلموں کے باوجود جماعت اپنے محبوب امام کی قیادت میں دنیا بھر میں ترقی پر ترقی کرتی چلی جارہی ہے۔ اور یہ جوروستم اور مظالم جماعت کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکے اور جماعت ہر خوف و خطر سے آزاد ہوکر خلافت کے مقدس دامن سے وابستہ ہوکر شب وروز شاہراہ غلبۂ حق پر آگے ہی آگے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جس کو خدا خلیفہ بناتا ہے کوئی نہیں جو اس کے کاموں میں روک ڈال سکے۔ اس کو ایک قوت اور اقبال دیا جاتا ہے اور ایک غلبہ اور کامیابی اس کی فطرت میں رکھ دی جاتی ہے۔ ‘‘(الفضل قادیان، 25؍مارچ 1941ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جب بھی قومی طورپر اسلامی خلافت کےلئے کوئی خوف پیدا ہوگا اور لوگوں کے دلوں میں نور ِایمان باقی ہوگا اللہ تعالیٰ اس خوف کے بعد ضرور ایسے سامان پیدا کردے گاکہ جن سے مسلمانوں کا خوف امن سے بدل جائے گا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 377)

تصویر کا دوسرا رُخ دیکھنے کے لیے جناب فضل محمد یوسف زئی استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی تحریر کا ایک اقتباس درج کیا جارہا ہے: ’’مسلمان ترس رہے ہیں کہ کاش ہماری ایک خلافت ہوتی، ہمارا ایک خلیفہ ہوتا، کاش ہماری ایک بادشاہت ہوتی، کاش ہمارا ایک بادشاہ ہوتا جس کی بات پوری دنیا کے مسلمانوں کی بات ہوتی جس میں وزن ہوتا جس میں عظمت ہوتی جس میں شجاعت ہوتی جس کی وجہ سے اقوام متحدہ میں ان کی حیثیت ہوتی عالمی برادری میں ان کی قیمت ہوتی ویٹوپاور میں ان کا مقام ہوتا سلامتی کونسل میں اس کا نام ہوتا۔‘‘ (ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک۔ مارچ 2000ء صفحہ58)

توحید کا قیام

آیت استخلاف میں خلافت کی ایک برکت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَایُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ قرآن کریم سے بھی یہ ثابت ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین و مامورین و خلفاء کی بعثت اور ظہور کا اصل مقصد توحید کا قیام ہوتاہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: یٰـقَوۡمِ اعۡبُدُوۡااللّٰہَ مَالَکُمۡ مِنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ۔ (الاعراف: 60)اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَایُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا کی مختصر تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پھر فرماتا ہے یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَایُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا کہ وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے گویا وہ خالص موحد اور شرک کے شدید ترین دشمن ہوں گے۔ مگر دنیا کے بادشاہ تو شرک بھی کرلیتے ہیں حتٰی کہ رسول کریمﷺ فرماتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کبھی کفر بواح بھی صادر ہوجائے۔ پس وہ اس آیت کے مصداق کس طرح ہوسکتے ہیں۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 374)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نظام خلافت اور توحید کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ ایک دھوکا ہے کہ سلسلہ خلافت سے شرک پھیلتا ہے اور گدیوں کے قائم ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ آج سے تیرہ سو سال پہلے خدا تعالیٰ نے خود اس خیال کو ردّ فرمادیا ہے کیونکہ خلفاء کی نسبت فرماتا ہے یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا (النور: 56) خلفاء میری ہی عبادت کیا کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں قرار دیں گے۔ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ ایک زمانہ میں خلافت پر یہ اعتراض کیا جائے گاکہ اس سے شرک کا اندیشہ ہے اور غیر مامور کی اطاعت جائز نہیں پس خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں ہی اس کا جواب دے دیا کہ خلافت شرک پھیلانے والی نہیں بلکہ اسے مٹانے والی ہوگی اور خلیفہ مشرک نہیں بلکہ موحّد ہوں گے ورنہ آیت استخلاف میں شرک کے ذکر کا اورکوئی موقعہ نہ تھا۔ ‘‘(کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے، انوارالعلوم جلد 2صفحہ 13تا14)

اخبار تنظیم اہلحدیث کے مدیر نہایت حسرت سے لکھتے ہیں کہ’’اگر زندگی کے ان آخری لمحات میں ایک دفعہ بھی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظارہ نصیب ہوگیا تو ہوسکتا ہے کہ ملت اسلامیہ کی بگڑی سنور جائے اور روٹھا ہوا خدا پھر سے مان جائے اور بھنور میں گھری ہوئی ملت اسلامیہ کی یہ ناؤ شاید کسی طرح اس کے نرغے سے نکل کر ساحل عافیت سے ہمکنار ہوجائے ورنہ قیامت میں خدا ہم سے پوچھے گا کہ دنیا میں تم نے ہر ایک اقتدار کے لئے زمین ہموار کی۔ کیا اسلام کے غلبہ اور قرآن کریم کے اقتدار کے لئے بھی کچھ کیا؟‘‘ (ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور12ستمبر1969ء)

ناشکری نہ کرو

خلافت کا انعام ان لوگوں کے لیے مقدر ہے جو اس نعمت کی قدر کرتے ہیں اور اس کی بقا کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کرتے رہتے ہیں کیونکہ آیت استخلاف کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ نافرمانوں سے اس نعمت کا وعدہ نہیں کیا گیا۔ پس خلافت کے نظام سے دائمی طور پر فیضیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کے ہمیشہ جاری رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور کثرت سے دعائیں کی جائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہماری نسلوں پر محیط ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ (النور: 56)اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدرتِ ثانیہ کے نزول کے لیے دعاؤں کی جو شرط لگائی ہے وہ کسی ایک زمانہ کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس ارشاد کا یہ مطلب تھا کہ میرے زمانہ میں تم یہ دعا کرتے رہو کہ تمہیں پہلی خلافت نصیب ہو۔ اور پہلی خلافت کے زمانہ میں اس دعا کا یہ مطلب تھا کہ الٰہی اس کے بعد ہمیں وہ دوسری خلافت ملے اور دوسری خلافت میں اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں تیسری خلافت ملے اور تیسری خلافت میں اس دعا کے یہ معنی ہیں کہ تمہیں چوتھی خلافت ملے۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری شامت اعمال سے اس نعمت کا دروازہ تم پر بند ہوجائے۔ پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مشغول رہو اور اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جب تک تم میں خلافت رہے گی دنیا کی کوئی قوم تم پر غالب نہیں آسکے گی اور ہر میدان میں تم مظفرومنصور ہوگے کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے جو اس نے ان الفاظ میں کیا کہ وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّھُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اور اس بات کو بھی یاد رکھو کہ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ خدا تمہارے ساتھ ہو اور ابدالآباد تک تم اس کی برگزیدہ جماعت رہو۔ ‘‘(خلافت راشدہ، انوارالعلوم جلد 15صفحہ 152تا153)

اقامتِ صلوٰۃ

آیت استخلاف کے بعد اگلی ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کو نماز قائم کرنے اور ادائیگی زکوٰۃ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے رسول کی اطاعت کا حکم دیاہے۔ خلافت کے قیام کے بعد نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ رسول کی اطاعت کا ذکر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اس کا تعلق خلافت سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔(النور: 57)اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اقامتِ صلوٰۃ بھی اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صلوٰۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں خطبہ پڑھا جاتا ہے اور قومی ضرورتوں کو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اب اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو قومی ضروریات کا پتہ کس طرح لگ سکتا ہے۔ مثلاًپاکستان کی جماعتوں کو کیا علم ہو سکتا ہے کہ چین او رجاپان اور دیگر ممالک میں اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں کیا ہو رہا ہے اور اسلام اُن سے کن قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اگر ایک مرکز ہوگا اورایک خلیفہ ہو گا جو تمام مسلمانوں کے نزدیک واجب الاطاعت ہو گا تو اُسے تمام اکناف عالم سے رپورٹیں پہنچتی رہیں گی کہ یہاں یہ ہو رہا ہے اور وہاں وہ ہو رہا ہے اس طرح وہ لوگوں کو بتا سکے گا کہ آج فلاں قسم کی قربانیوں کی ضروت ہے اور آج فلاں قسم کی خدمات کے لئے آپ کو پیش کرنے کی حاجت ہے … غرض جمعہ جو نماز کا بہترین حصّہ ہے اسی صورت میں احسن طریق پر ادا ہوسکتاہے جب مسلمانوں میں خلافت کا نظام موجود ہو۔ چنانچہ دیکھ لو ہمارے اندر چونکہ ایک نظام ہے اس لئے میرے خطبات ہمیشہ اہم وقتی ضروریات کے متعلق ہوتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ کئی غیر احمدی بھی ان سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتے …اسی طرح اطاعتِ رسول بھی جس کا اس آیت میں ذکر ہے خلیفہ کے بغیر نہیں ہوسکتی کیونکہ رسول کی اطاعت کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ سب کو وحدت کے ایک رشتہ میں پرو دیا جائے۔ یُوں تو صحابہؓ بھی نمازیں پڑھتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی نمازیں پڑھتے ہیں۔ صحابہؓ بھی حج کرتے تھے اور آج کل کے مسلمان بھی حج کرتے ہیں پھر صحابہؓ اور آج کل کے مسلمانوں میں فرق کیا ہے؟ یہی ہے کہ صحابہؓ میں ایک نظام کا تابع ہونے کی وجہ سے اطاعت کی روح حدِ کمال کو پہنچی ہوئی تھی چنانچہ رسول کریمﷺ جب بھی کوئی حکم دیتے صحابہؓ اُسی وقت اُس پر عمل کرنے کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ لیکن یہ اطاعت کی رُوح آج کل کے مسلمانوں میں نہیں۔ مسلمان نمازیں بھی پڑھیں گے۔ روزے بھی رکھیں گے حج بھی کریں گے مگر ان کے اندر اطاعت کا مادہ نہیں ہوگا کیونکہ اطاعت کا مادہ نظام کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔ پس جب بھی خلافت ہوگی اطاعتِ رسول بھی ہوگی۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ368تا369)

کالم نویس شاہد بدر فلاحی رقم طراز ہیں کہ’’ خلافت ناگزیر ہے خلافت کے بغیر نہ تو دین غالب آسکتا ہے نہ عدل و انصاف کا قیام عمل میں آسکتا ہے نہ مشرکانہ نظام کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ نہ نماز کا مکمل قیام ہوسکتا ہے۔ نہ زکوٰۃ کا پورا انتظام نافذ ہوسکتا ہے۔ نہ نیکی فروغ پاسکتی ہے نہ برائی ختم ہوسکتی ہے۔ نہ جمعہ وعیدین کا انتظام ہوسکتا ہے۔ نہ اللہ کے رسول کی پوری اطاعت ہوسکتی ہے۔ نہ مسلمانوں کی حالت درست ہوسکتی ہے۔ خلافت کی بغیر زندگی گزارنا جاہلیت ہے۔ بلکہ جینا درست نہیں۔ خلافت کے بغیر اسلام اپاہج لُولا اور لنگڑا ہے۔ ‘‘(ہفت روزہ نئی دنیا دہلی 11؍مارچ 1992ء)

پس جماعتی اور قومی ترقی، وحدت ویکجہتی اور باہمی الفت ومحبت میں مضمر ہے۔ اگر تمام افراد جماعت اطاعت امام اور اطاعت نظام کی سلک اور لڑی میں موتیوں کی طرح پروئے رہیں اور باہمی ہمدردی اور باہمی احترام کی دولت سے مالا مال رہیں تو جماعتی ترقی اور خوشحالی کی رفتار کو پر لگ جاتے ہیں۔ اتحادو اتفاق کی روح ہی ہے جو ہر معاشرے کی جان اور کسی جماعت کی اصل پہچان ہوتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور روحانی اخوت کی دل وجان سے قدر کرتے ہوئے اس پر اللہ تعالیٰ کا عملی شکر بجالانا چاہیے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ’’جب تم ایک ہاتھ پر جمع ہو اور تمہارا ایک امیر ہو اور پھر کوئی شخص تمہاری وحدت کو توڑنا چاہے تاکہ تمہاری جماعت میں تفریق پیدا کرے تو اس سے قطع تعلق کرلو اور اس کی بات نہ مانو۔ ‘‘(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب حکم من فرق، حدیث 3443)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ وحدت ِقومی اور یکجہتی کے اسی اہم نکتہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پس تم خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہوگا لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو گے تو پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کرسکے گی اور تمہارے مقابلہ میں بالکل ناکام ونامراد رہے گی جیسا کہ مشہور ہے اسفند یار ایسا تھا کہ اس پر تیر اثر نہ کرتا تھا۔ تمہارے لیے ایسی حالت خلافت کی وجہ سے پیدا ہوسکتی ہے۔ جب تم اس کو پکڑے رکھو گے تو کبھی دنیا کی مخالفت تم پر اثر نہ کرسکے گی۔ بیشک افراد مریں گے، مشکلات آئیں گی، تکالیف پہنچیں گی مگر جماعت کبھی تباہ نہ ہوگی بلکہ دن بہ دن بڑھے گی اور اس وقت تم میں سے کسی کا دشمنوں کے ہاتھوں مرنا ایسا ہوگا جیسا کہ مشہور ہے کہ اگر ایک دیو کٹتا ہے تو ہزاروں پیدا ہوجاتے ہیں۔ تم میں سے اگر ایک مارا جائے گا تو اس کی بجائے ہزاروں اس کے خون کے قطروں سے پیدا ہوجائیں گے۔ ‘‘(حقائق القرآن مجموعۃ القرآن۔ سورۃ النور زیر آیت استخلاف صفحہ 73)

ذیل میں ایک بیان درج ہےجس میں خلافت احمدیہ کی برکات کو واضح طور پر تسلیم کیاگیا ہے اور اُس کی قوت اور تاثیرات کا برملا اقرار واعلان کیا گیا ہے۔

مولانا عبدالرحیم اشرف مدیر المنبر لائلپور(فیصل آباد) اپنے اخبار میں لکھتے ہیں: ’’ ہمارے واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی۔ مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیا اُن میں سے اکثر تقویٰ، تعلق باللہ، دیانت، خلوص، علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے۔ سید نذیر حسین صاحب، مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر کے بارہ میں ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثرو رسوخ بھی اتنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں۔ جو ان کے ہم پایہ ہوں …ہم اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھے۔ تقسیم ملک کے بعد اس گروہ نے نہ صرف پائوں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں اُن کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں … اور دوسری جانب 1953ء کے عظیم ترین ہنگاموں کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا 1956-1957ء کا بجٹ پچیس لاکھ کا ہو۔ ‘‘(اخبار المنبر 23؍فروری 1956ء صفحہ 10)

اسی طرح وہ علماء اور عوام کی غفلت پر انہیں یو ں مخاطب کرتے ہیں کہ ’’تبلیغ واشاعت اسلام سے آپ کی بے اعتنائی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ آج بلادِ مغرب ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں تبلیغ کے میدا ن پر احمدی حضرات قابض ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے علاوہ ان کے مبلغین اُن علاقوں اور اُن جزیروں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کررہے ہیں جن کا نام بھی ہمارے عربی مدارس کے اکثر طلباء نے نہیں سنا ہوگا۔ مثلاً فجی، ماریشس، ٹرینیڈاڈ، سیرالیون، نائیجیریا وغیرہ۔ ‘‘( المنبر 16؍اپریل 1971ء صفحہ 5بحوالہ ماہنامہ الفرقان ربوہ نومبر1971ء )

پس خلافت سے محرومی کا شکار بھی اس آس میں ہیں کہ اے کاش اُن میں بھی نظام خلافت قائم ہو تاکہ وہ بھی ترقیات کا منہ دیکھیں اور اس قہر ومذلت کی زندگی سے نکل کر دین ودنیا میں سرخروئی حاصل کریں لیکن انہیں کون سمجھائے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کے سر پر یہ تاج سجانا تھا وہ تو سجا چکا لیکن تم اندھیرے میں چمگادڑ کی طرح پھڑ پھڑا رہے ہو اور نور کی روشنیوں سے کوسوں دور ہو۔

انہیں کون باور کرائے کہ خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ ہی صداقت کی وہ ارفع چٹان ہے جس سے قرآنی علوم کے چشمے جاری ہورہے ہیں۔ جو زندگی اور نجات کا چشمہ ہے اور مردہ روحوں کے لیے آب حیات ہے۔ جو اس شیریں چشمے سے پئے گا وہی ابدی زندگی سے ہمکنار ہوگا اور جو اس سے دوررہے گا وہ ناکامی، نامرادی اور حسرت کی آگ میں جلتا رہے گا۔ امیرالمومنین سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک پیغام میں افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے۔ اس لئے اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں۔ پوری طرح اس سے وابستہ ہوجائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے۔ ایسے بن جائیں کہ خلیفۂ وقت کی رضا آپ کی رضا ہوجائے۔ خلیفۂ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم اور خلیفۂ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمح نظر ہوجائے۔ ‘‘(ماہنامہ خالد ربوہ سیدنا طاہر نمبر مارچ، اپریل 2004ء)

پس خداتعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر عظیم فضل واحسان ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جماعت میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا جو بابرکت نظام شروع ہوا۔ وہ ایک صدی گزرنے کے بعدبھی قائم ودائم ہے۔ اوراس ایک صدی کے دوران مخالفت کے بے شمار طوفانوں اور لرزہ براندام کر دینے والی ان گنت سازشوں کے باوجود سُرعت سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آج آفتاب عالمتاب بن کر ساری دنیا کو منور کررہا ہے۔ شمع خلافت کے کروڑوں پروانے اپنے امام کی اطاعت میں شب وروز دامے درمے، قدمے سخنے خدمت دین بجالارہے ہیں۔ دنیا کے 200 سے زائدممالک میں ایم ٹی اے کے مختلف چینلز کے ذریعہ حضرت خلیفۃ المسیح کی آواز جو درحقیقت خدائے ذوالجلال کی توحید، محمد مصطفیٰ نبیوں کے سردارﷺ کی عظمت وشوکت اور دین اسلام اور قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے والی آواز ہے۔ ایک سیکنڈ کے وقفے کے بغیر پوری دنیا میں گونج رہی ہے۔ مخلصین جماعت اپنی تمام طاقتوں، وسائل، اپنی بےمثال قربانیوں اور اخلاص ووفا کی انمول مطاع، اپنے امام ہمام کے حضور پیش کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ یہ فرزندان احمدیت اپنے امام کے ادنیٰ اشارے پر اٹھتے اور بیٹھتے ہیں۔ اور اُس کے اشارہ ٔ ابرو پر سب کچھ اُس کے حضور قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت بےقرار رہتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button