سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد

…………………………

نوٹ: حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی تاریخ وفات

(حصہ پنجم۔آخری)

خاکسارعرض کرتاہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے کشف الغطاء میں جولکھاہے جس کی طرف اشارہ کیاگیاہے وہاں اپنے والدماجدکی تاریخ وفات کاذکرنہیں فرمایااورنہ ہی تاریخ وفات کے ضمن میں وہ خط درج کیاگیاہے۔ وہاں دراصل یہ بیان کیاجارہاہے کہ ہماراخاندان حکومت وقت کی اطاعت اور وفاداری بجالانے والاخاندان ہے اور اس کی خدمات حکومت کوبھی مسلّم ہیں۔ جس کاثبوت خوشنودی کی وہ چٹھیاں یاسندات ہیں جووقتافوقتاً حکومتی افسران کی طرف سے خاندان کے بزرگان کولکھی جاتی رہی تھیں۔ اس ضمن میں سررابرٹ ایجرٹن کاایک خط بھی درج ہے۔ کشف الغطاء، روحانی خزائن جلد14صفحہ 184-185 پریہ خط موجودہے۔ جس کامکمل متن یہ ہے:

“Translation of Sir Robert Egerton

Financial Commr‘s:

Murasala dated. 29 June 1876

My dear friend Ghulam Qadir,

I have perused your letter of the 2nd instant & deeply regret the death of your father Mirza Ghulam Murtaza who was a great well wisher and faithful chief of Govt.

In consideration of your family services. I will esteem you with the same respect as that bestowed on your loyal father. I will keep in mind the restoration and welfare of your family when a favorable opportunity occurs.

نقل مراسلہ: فنانشل کمشنر پنجاب

مشفق مہربان دوستان مرزا غلام قادر رئیس قادیان حفظہ آپ کا خط 2 ماہ حال کالکھا ہوا ملاحظہ حضور اینجانب میں گذرا۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا۔ مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریزی کا اچھا خیر خواہ اور وفاداررئیس تھا۔ ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح عزت کریں گے جس طرح تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی۔ ہم کو کسی اچھے موقعہ کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابجائی کا خیال رہے گا۔ المرقوم 29؍جون 1876ء

الراقم سررابرٹ ایجرٹن صاحب بہادر فنانشل کمشنر پنجاب ‘‘

یہ وہ خط ہے غالباً جس پربنیادبناتے ہوئے ایک سرکاری ریکارڈ کے طور پر سمجھاجاتاہے کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کی وفات 1876ء میں ہوئی ہوگی۔

اس خط کے مندرجات پرغورکیاجائے تو ایک بات توواضح ہے کہ اس خط میں براہ راست حضرت مرزاصاحب کی تاریخ وفات کاذکرنہیں ہے۔ بلکہ ان کی وفات پراظہارتعزیت ہے۔ اگرخط میں لکھی جانے والی تاریخ درست ہے تو 29؍جون 1876ء کویہ تعزیت سرکارکی طرف سے کی جارہی ہے۔ اسی خط کاتنقیدی جائزہ لیاجائے تو یہ سوالات پیداہوسکتے ہیں کہ

الف: صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب کی طرف سے جوخط لکھاگیاہے وہ کوئی 2؍جون کاخط تھا جس کایہ جواب ہے۔ اوراسی مہینے کی 2تاریخ، گویا2؍جون 76ء کوخط لکھاگیا۔ اب کیلنڈردیکھاجائے تو 2؍جون 1876ء کوجمعہ کادن تھا۔ جبکہ حضرت مرزاصاحب کی وفات بروزہفتہ بعدازغروب آفتاب ہوئی تھی۔ توایک بہت بڑاسوال یہ ہے کہ وفات سے ایک یادودن پہلے ہی مرزاغلام قادرصاحب اپنے والدکی وفات کاخط کیسے لکھ سکتے تھے۔

ب: کیایہ ممکن ہے کہ حکومت کی طرف سے چنددنوں یعنی بیس پچیس دنوں کے اندراندر تعزیت کاخط بھی موصول ہوجائے۔ کیونکہ حضرت مرزاصاحب بہرحال کوئی بہت بڑے سرکاری عہدے پرتوفائزنہ تھے۔

ج: اس کالازمی نتیجہ ہے کہ خط کی عبارت جوکہ خط کاعکس نہیں ہے بلکہ متن کوکاتب نے دوبارہ لکھا ہےاور کاتب کی طرف سے سن لکھنے میں غلطی کا امکان بعید از قیاس نہیں۔

د: کچھ قرائن جواوپربیان ہوچکے ہیں ان کی روشنی میں یہ ثابت ہورہاہے کہ ان کی وفات 1874ء یا 1872ء میں ہوئی تھی۔ خاکسار کی تحقیق کے مطابق 1872ء زیادہ قرین قیاس ہےاوروفات کی تاریخ یکم جون تھی اورہفتہ کادن تھا۔ سواس کے مطابق 2؍جون کوخط لکھاجانا عین قرین قیاس ہوسکتاہے۔ سو ممکن ہے کہ مرزاغلام قادرصاحب نے خط 2؍جون کوہی لکھاہوگا البتہ سن لکھنے میں کاتب سے غلطی ہوئی ہوگی۔ نہیں تو یہ امکان ہوسکتاہے کہ کسی موقع پرفنانشنل کمشنرپنجاب نے بعد میں تحریری طور پرتعزیتی چٹھی لکھی ہوگی۔ جو1876ء کاسن تھا۔ وگرنہ زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ چٹھی جون 1872ء کی مرقومہ ہوگی۔

بہرحال خاکسار کی تحقیق کے مطابق حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کی تاریخ وفات کی بنا 1876ء قراردینا واحد رابرٹ ایجرٹن کی چٹھی ہی ہے۔ اس کے علاوہ اورکوئی متعارف شائع شدہ دستاویزنہیں ہے۔ جواس سن کے لیے بنیادبنائی گئی ہو۔

ایک دوسراحل طلب سوال ایک روایت ہے جوسیرت المہدی میں موجودہے۔ جواصل میں اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی انگوٹھی کے نگینہ کے متعلق ہے۔ چونکہ خاکسار اس نگینہ پرایک تحقیق پیش کررہاہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ اس روایت کوبھی سامنے رکھاجائے جوایک شبہ پیداکرسکتی ہے۔ اورانشاء اللہ اس روایت کے بعد اس کاتجزیہ بھی پیش کیاجائے گا۔

یہ روایت سیرت المہدی میں ہے حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی جھنگلاں نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا حضرت صاحب نے فرمایاکہ چلو ذرا سیر کر آئیں۔ چنانچہ حضرت صاحب بڑے بازار میں سے ہوتے ہوئے اس طرف تشریف لے گئے جہاں اب ہائی سکول ہے۔ جب سیر کرتے کرتے واپس شہر کو آئے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے یُنْجِیْکَ مِنَ الْغَمِّ وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا اور آپ نے فرمایا کہ ہمیں خدا کے فضل سے غم تو کوئی نہیں ہے شائد آئندہ کوئی غم پیش آئے۔ جب مکان پر آئے تو ایک شخص امرتسر سے یہ خبر لایا کہ آپ کا وہ نگینہ جو اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ لکھنے کے واسطے حکیم محمد شریف صاحب کے پاس امرتسر بھیجا ہوا تھا وہ گم ہو گیا ہے اور نیز ایک ورق براہین احمدیہ کا لایا جو بہت خراب تھا اور پڑھا نہیں جاتا تھا۔ یہ معلوم کر کے آپ کو بہت تشویش ہوئی اور فرمایا کہ حکیم محمد شریف ہمارا دوست ہے اور اس کو دل کی بیماری ہے نگینہ گم ہو جانے سے اسے بہت تشویش ہوئی ہوگی اور اندیشہ ہے کہ اس کی بیماری زیادہ نہ ہو جاوے اور کتاب کے ورق کے متعلق فرمایا کہ بہت ردی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب بالکل خراب چھپتی ہے۔ اس طرح لوگ اسے نہیں پڑھیں گے اور ہمارے پاس پیسے بھی نہیں ہیں کہ دوبارہ اچھی کر کے چھپوائیں۔ المختصر حضرت صاحب اسی وقت بٹالہ کی طرف پا پیادہ روانہ ہو گئے اور میں اور دو اور آدمی جو اس وقت موجود تھے ساتھ ہو لئے۔ جب ہم دیوانی وال کے تکیہ پر پہنچے تو حضورؑ نے فرمایا کہ نماز پڑھ لیں اور حضور نے خاکسار کو فرمایا کہ رحیم بخش تُو نماز پڑھا۔ چنانچہ میں نے ظہر اورعصر کی نماز جمع کرائی جس کے بعد ہمارے ساتھی تو علیحدہ ہو گئے اور حضرت صاحب اور یہ خاکسار بٹالہ سے گاڑی میں سوار ہو کر امرتسر پہنچے۔ جب حکیم صاحب کے مکان پر پہنچے تو حکیم صاحب نے بہت خوش ہو کر کہا کہ یہ آپ کا نگینہ گم ہو گیا تھا مگر ابھی مل گیا ہے اور جب مطبع میں جاکر کتاب دیکھی تو وہ اچھی چھپ رہی تھی جس پر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو پہلے سے بشارت دے دی تھی کہ ہم تجھے غم سے نجات دیں گے سو وہ یہی غم تھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا رحیم بخش چلو رام باغ کی سیر کر آئیں۔ شہر سے باہر سیر کرتے کرتے خاکسار نے عرض کیا مرزا جی جو ولی ہوتے ہیں کیا وہ بھی باغوں کی سیر کیا کرتے ہیں؟ وہ تو عبادت الٰہی میں رات دن گذارتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ باغ کی سیر منع نہیں ہے پھر ایک قصہ سنایا کہ ایک بزرگ تھے وہ عمر بھر عبادت الٰہی کرتے رہے اور جب آخر عمر کو پہنچے تو خیال آیا کہ اپنے پیچھے کچھ نیکی چھوڑ جائیں چنانچہ ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا مگر کتاب لکھنے بیٹھے تو چونکہ دنیا کا کچھ بھی دیکھا ہو ا نہیں تھا کوئی مثال نہیں دے سکتے تھے کہ کس طرح نیکی اور بدی پر جزا سزا کا ہوناوغیرہ سمجھائیں آخر ان کو دنیا میں پھر کر دنیا کو دیکھنا پڑا اور پھر انہوں نے میلے وغیرہ بھی دیکھے۔ پھر آپ نے مجھ سے مسکراتے ہوئے فرمایا رحیم بخش ! ہم نے بھی براہین میں گلاب کے پھول کی مثال دی ہوئی ہے۔ (یہ روایت بیان کرنے کے بعد حضرت قمرالانبیاء صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ فرماتے ہیں )خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ واقعہ 1882ء یا1883ء یا 1884ء کا معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ براہین کی طبع کا یہی زمانہ ہے لیکن یہ بات حیرت میں ڈالتی ہے کہ اس روایت میں اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والے نگینہ کی تیاری کا زمانہ بھی یہی بتا یا گیا ہے۔ حالانکہ حضرت صاحب کی تحریرات سے ایسا معلوم ہوتا ہے ( گو اس معاملہ میں صراحت نہیں ہے ) کہ جب ہمارے دادا صاحب کی وفات ہوئی اور اس سے قبل حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا تو اسی زمانہ میں حضرت صاحب نے یہ انگوٹھی تیار کروالی تھی۔ سو یا تو اس روایت میں جو نگینہ کی تیاری کا ذکر ہے یہ کوئی دوسرا واقعہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ نگینہ دو دفعہ تیار کرایا گیا ہے اور یا اس کی پہلی تیاری ہی بعد میں براہین احمدیہ کے زمانہ میں ہوئی ہے یعنی الہام 1876ء میں ہوا ہے۔ جبکہ داداصاحب کی وفات ہوئی اور انگوٹھی چند سال بعد میں تیار کرا ئی گئی ہے۔ اور اس روایت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی موٴخر ا لذکر صورت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ وَاللّٰہ اَعْلَمُ۔ ‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 453)

حضرت مولوی رحیم بخش صاحب کی اس روایت سے قاری کاذہن فوری طورپر ایک دفعہ ادھرچلاجاتاہے کہ وہ انگوٹھی جس پر اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ لکھاگیا تھاوہ جیسے اس زمانے میں بنوائی گئی کہ جب براہین احمدیہ کی طباعت ہورہی تھی یعنی 1880ء سے لے کر1884ء تک کے کسی عرصے میں۔لیکن خاکسارکی رائے میں یہ خیال ایک بعیدازقیاس خیال ہے ۔

حضرت مولوی رحیم بخش صاحب ؓنے جس الہام کاذکراس روایت میں کیاہے وہ الہام تذکرہ یاحضرت اقدسؑ کی تحریرات میں دیکھیں تو ایک الہام براہین احمدیہ حصہ چہارم میں موجودہے۔ چنانچہ حضورؑ بیان فرماتے ہیں :’’ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ یکدفعہ بعض امور میں تین طرح کا غم پیش آگیا تھا جس کے تدارک کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ اور بجز حرج و نقصان اٹھانے کے اور کوئی سبیل نمودار نہ تھی اسی روز شام کے قریب یہ عاجز اپنے معمول کے مطابق جنگل میں سیر کو گیا اور اس وقت ہمراہ ایک آریہ ملا وامل نامی تھا جب واپس آیا تو گاؤں کے دروازہ کے نزدیک یہ الہام ہوا نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ۔ پھر دوبارہ الہام ہوا نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ اَلَمْ تَعْلَمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ یعنی ہم تجھے اس غم سے نجات دیں گے ضرور نجات دیں گے کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ چنانچہ اُسی قدم پر جہاں الہام ہوا تھا۔ اُس آریہ کو اس الہام سے اطلاع دی گئی تھی اور پھر خدا نے وہ تینوں طور کا غم دور کردیا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔‘‘(براہینِ احمدیہ،روحانی خزائن جلد1صفحہ 659تا660،حاشیہ درحاشیہ نمبر4)

حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ کی روایت میں جوالہام ہے وہ تذکرہ کے موجودہ ایڈیشن چہارم کے صفحہ 645-646پردرج کردیاگیاہے۔

بظاہر براہین احمدیہ میں موجودالہام اور سیرت المہدی میں مذکور یہ دونوں ایک ہی واقعہ کی طرف اشارہ بھی ہوسکتاہے۔اورممکن ہے کہ براہین احمدیہ میں اسی واقعہ کوقدرے اختصارکے ساتھ بیان کیاگیاہواورحضرت مولوی صاحب ؓنے اس کی تفصیلات سمیت واقعہ کوبیان کردیاہو۔لیکن الہام کے الفاظ میں فرق ،سیرکے وقت کافرق اور افراد کی موجودگی وغیرہ ایسے امورہیں کہ یہ دونوں واقعات الگ الگ ہی سمجھنے پڑیں گے۔

البتہ اس روایت کی رُوسے یہ مانناپڑے گا کہ اس روایت میں جس نگینہ کے بنوانے کاذکرہے وہ 1883ء کے لگ بھگ کا ہے۔گویاالہام اگر1876ء میں ہواتو اس کے سات یاآٹھ سال کے بعد اور اگریہ الہام 1872ء میں ہواتو اس کے 13برس کے بعد انگشتری میں کھدوایاگیا۔

جبکہ اس الہام اورالہام کونگینہ میں کھدوانے کے متعلق حضرت اقدسؑ کی تحریرات کے اقتباسات درج کیے جاچکے ہیں۔جن کی روشنی میں ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ الہام کے کچھ دنوں بعد،کچھ ہفتوں بعد یا زیادہ سے زیادہ مہینہ دومہینہ کے بعد وہ نگینہ تیارکروالیاگیاتھا۔لیکن ان اقتباسات کی یہ توجیہہ ممکن نہیں کہ کئی سالوں کے بعد وہ نگینہ تیارکیاگیاہواوراس نگینہ کوحضورؑ یہ کہہ کرپیش فرمارہے ہوں کہ انہیں دنوں میں وہ نگینہ تیارکروایاگیایاتیس سال سے زائد یاچھتیس سال سے وہ انگوٹھی موجودہے۔

سوحضرت اقدس علیہ السلام کی ان مذکورہ بالاتحریرات کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ یاتواس روایت میں راوی کوسہوہواہے اوروہ دوواقعات کوملاجلارہے ہیں یایہ امکان ہے کہ ایک اورنگینہ 1884ء کے قریب زمانے میں بھی تیارکروایاگیاہو۔

علاوہ ازیں ایک تیسراامکان بھی موجودہے اوروہ یہ کہ اسی نگینہ کوجوکہ دراصل الہام ہونے کے کچھ ہی دیربعد تیارہوچکاتھااس کومرمت کی غرض سے یا دوبارہ لکھائی کی غرض سے بھیجاگیاہو۔اوراس کی تائیداسی روایت میں موجودیہ فقرہ کرتاہے۔جہاں یہ لکھاہواہے کہ : آپ کا وہ نگینہ جو اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ لکھنے کے واسطے حکیم محمد شریف صاحب کے پاس امرتسر بھیجا ہوا تھا وہ گم ہو گیا ہےگویاجونگینہ گم ہواہے وہ حضرت صاحبؑ نے ہی حکیم صاحب کے پاس امرتسربھیجاتھا۔وگرنہ پہلی بار جب نگینہ تیارکروایاگیاہے تو اس وقت کوئی نگینہ نہیں بھیجاگیاتھا بلکہ اس وقت توپانچ روپے بھیجے گئے تھے کہ اس کانگینہ وغیرہ بنوادیاجاوے۔اور حضرت مولوی رحیم بخش صاحب ؓکی اس روایت سے یہ قیاس کیاجاسکتاہے کہ اب اسی نگینہ کو کسی مرمت وغیرہ کے لیے بھیجاگیاتھا۔اوریوں اس روایت میں کوئی تضادیااختلاف نہیں رہتا۔واللّٰہُ اَعْلَمُ بِالْصَّوَابِ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button