الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

اظہارِ حقیقت

ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ فروری 2012ء میں مشہور شیعہ ادیب مکرم سید ابوظفرنازش رضوی صاحب کا ایک مضمون کسی پرانی اشاعت سے منقول ہے جس میں قادیان کے چند اسفار اور حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ مختلف مقامات پر ہونے والی ملاقاتوں کی دلچسپ روداد بیان کی گئی ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ سے میری پہلی ملاقات دسمبر 1939ء میں ہوئی جہاں مَیں چند ہفتے مقیم رہا۔اس دوران تین بار آپ سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا اور ہر بار مَیں آپ کی مقناطیسی کشش سے نہایت متأثر ہوا۔

پشتوں سے شیعہ ہوتے ہوئے بظاہر میرا قادیان جانا اور مہینہ بھر وہاں قیام کرنا ایک عجیب سی بات تھی مگر حالات ایسے ہوئے کہ اس کے بغیر چارہ نہ رہا۔ مَیں دہلی میں مقیم تھا اور میری چند نظمیں اخبارات میں شائع ہوئی جن سے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کا پہلو نکلتا تھا۔ اس پر حکومت کی طرف سے میرے خلاف خفیہ تفتیش ہونے لگی اور مقدمات مرتب ہونے لگے۔ اسی اثناء میں میرے ایک نہایت معزز غیرمسلم دوست کو ایسے ہی الزامات کے تحت گرفتار کرلیا گیا تب میرے چند بااثر سنّی اور شیعہ دوست اکٹھے ہوکر میرے بچاؤ کی تدابیر سوچنے لگے۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ اعلیٰ سرکاری افسران سے مل کر میرا معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کریں گے لیکن مجھے فوراً دہلی سے کسی ایسے مقام پر چلے جانا چاہیے جہاں کسی قسم کی چالاکی، شرارت اور جاسوسی کا امکان نہ ہو۔اس سلسلے میں اُن کی نظر قادیان پر پڑی اور مَیں کسی دوسرے دوست یا عزیز کو بتائے بغیر قادیان پہنچ گیا اور وہاں یہ ظاہر کیا کہ مَیں وہاں کی عظیم الشان لائبریری سے علمی استفادہ کرنے کی غرض سے آیا ہوں۔ چونکہ اس مقصد کے لیے اکثر اعلیٰ علمی ذوق رکھنے والے افراد وہاں آیا کرتے تھے اس لیے میری بات پر یقین کرلیا گیا۔

میرا قیام مہمان خانے میں ہوا۔ امام جماعت احمدیہ کے پرائیویٹ سیکرٹری جناب چودھری بشیر احمد خان (بی اے، ایل ایل بی) تھے جو نہ صرف میرے شناسا تھے بلکہ میرے استاد بھی رہ چکے تھے۔ مَیں اُن سے ملا تو بےحد خوش ہوئے اور میری خواہش پر انہوں نے حضرت صاحب سے میری ملاقات کا فوراً انتظام کردیا۔ اس پر مَیں دارالخلافت پہنچا۔ چند سیڑھیاں طَے کرکے اندر پہنچا تو حضرت صاحب گاؤتکیے سے ٹیک لگائے قالین سے مفروش کمرے میں تشریف فرما تھے۔ مَیں رسم سلام ادا کرکے جب مصافحہ کرچکا تو مختصر سے وقفے کے بعد آپ نے فرمایا: ’’قادیان دارالامان ہے، یہاں آپ کو سوفیصد امن اور سکون میسر رہے گا‘‘۔اس فقرے پر مجھے بہت تعجب ہوا۔ آپ کا میرے حالات سے قطعاً ناواقف ہوتے ہوئے مجھے خاص طور ’امن‘ کا یقین دلانا بڑی ہی استعجاب انگیز بات تھی۔

قادیان کے جلسے تک میرا معاملہ سلجھ چکا تھا مگر مَیں مزید چند روز قادیان میں قیام پذیر رہا۔ اس موقع پر میرے چند احمدی دوست بھی قادیان پہنچ گئے تو باقی دنوں کے لیے میری رہائش کا انتظام محترم چودھری سرمحمدظفراللہ خان صاحب کے دولت کدہ پر ہوگیا جہاں مَیں نے عقیدت اور خلوص کا بے نظیر نظارہ دیکھا۔ ان دنوں حضرت صاحب بےحد مصروف تھے پھر بھی میری ضروریات کے متعلق دریافت فرماتے رہتے۔

1940ء میں مجھے ایک خفیہ سیاسی مشن پر قادیان جانا پڑا۔ اس زمانے میں ہندو اپنی سنگھنی شرارتوں کا ایک خاص منصوبہ بنارہے تھے۔ اس موقع پر امام صاحب جامعہ مسجد دہلی اور سیّدی خواجہ حسن نظامی اور دیگر چوٹی کے مسلم اکابر نے مجھے نمائندہ بناکر بھیجا کہ حضرت صاحب سے اس باب میں تفصیلی بات چیت کروں اور اسلام کے خلاف اس فتنے کے تدارک کے لیے ہدایت حاصل کروں۔ اس مشن کے خفیہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان اکابر جہاں یہ سمجھتے تھے کہ ہندوؤں کے اس ناپاک منصوبے کا مؤثر جواب مسلمانوں کی طرف سے صرف حضرت مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ ہی دے سکتے ہیں وہاں وہ عام مسلمانوں پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کہ وہ حضرت صاحب کو اپنا رہبر تسلیم کرتے ہیں۔

مَیں قادیان میں تین دن مقیم رہا اور حضرت صاحب سے کئی تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں دو باتیں مجھ پر واضح ہوگئیں۔ ایک یہ کہ حضرت صاحب کو اسلام اور حضور سرورکائنات علیہ السلام سے جو عشق ہے اس کی مثال اِس دَور میں ملنا محال ہے۔ دوسرے یہ کہ تحفّظِ اسلام کے لیے جو اہم نکات حضرت صاحب کو سوجھتے ہیں وہ کسی دیگر مسلم لیڈر کے ذہن سے مخفی رہتے ہیں۔ میرا یہ مشن بہت کامیاب رہا اور مَیںنے دہلی جاکر جو رپورٹ پیش کی اس سے مسلم زعماء کے حوصلے بلند سے بلندتر ہوگئے۔

حضرت صاحب سے میری ایک ملاقات شملہ میں ہوئی جس کے دوران مَیں نے اپنی ذاتی حیثیت سے یہ تجویز پیش کی کہ کوئی ایسا فارمولا تلاش کرلیا جائے جس سے شیعہ اور احمدی فرقوں کے درمیان اشتراکِ عمل کی کوئی راہ پیدا ہوجائے۔ پھر رفتہ رفتہ اسلام کے دوسرے چھوٹے فرقوں کو شامل کرلیا جائے یہاں تک کہ اختلافِ عقائد کے باوجود تمام مسلم فرقوں میں تعمیری کاموں کے لیے اتحاد و اتفاق پیدا ہوجائے۔ میرے نزدیک اس کے دو فائدے تھے ایک یہ کہ مسلمانان بحیثیت مجموعی دشمنِ اسلام کا مؤثر مقابلہ کرسکیں اور دوسرے مختلف فرقے خدا اور رسولؐ کے نام پر جو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں وہ بند ہوجائے۔ حضرت صاحب نے اصولی طور پر میری یہ تجویز بہت پسند فرمائی لیکن اُن دنوں مصروفیت کی وجہ سے مجھے قادیان آنے کی دعوت دی تاکہ اطمینان سے اس تجویز کے تمام پہلوؤں پر غوروخوض کیا جاسکے۔ مَیں نے یہ دعوت قبول کرلی مگر میری مصروفیتوں نے بعد میں مجھے قادیان جانے کی اجازت نہ دی۔

پاکستان بننے کے بعد مولانا عبدالرحیم درد صاحب کی دعوت پر مَیں ربوہ کے ایک جلسہ سالانہ میں شریک ہوا۔ حضرت صاحب سے ایک مختصر ملاقات بھی اس موقع پر ہوئی مگر کوئی خاص گفتگو نہ ہوسکی۔

فروری 1955ء میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے ارشاد پر پروفیسر نصیر احمد خان صاحب ربوہ سے لاہور تشریف لائے اور مولانا عبدالمجید سالک مرحوم، چودھری عبدالرشید تبسم ایم اے اور مجھے موٹرکار میں ربوہ لے گئے کہ وہاں کالج میں ایک انعامی مقابلہ تقاریر اور مشاعرے کا انعقاد تھا۔ مقابلہ تقریر میں ہم تینوں نے جج کے فرائض انجام دیے اور پھر رات کو مولانا عبدالمجید سالک مرحوم کی زیرصدارت مشاعرہ ہوا۔

دوسرے دن حضرت صاحب نے بعد دوپہر ہم تینوں کو چائے پر یاد فرمایا۔ مَیں حضرت صاحب سے گزشتہ ملاقاتوں میں اُن کی بےمثال سیاسی بصیرت اور اسلام سے متعلق انتہائی غیرت کا تہِ دل سے قائل ہوچکا تھا لیکن اس چائےپر اُن کی زندگی کا ایک اَور گوشہ میرے سامنے آیا جس کا تعلق لطافتِ طبع اور ذوقِ ادب سے تھا۔ ہم چاروں کمرے میں موجود تھے۔ مجھے اس بات سے سخت حیرت ہوئی کہ حضرت صاحب کا ادبی ذوق نہایت منجھا ہوا اور انتہائی دقیقہ رس ہے۔ ادب کی نازک لطافتوں پر حضرت صاحب کو صرف عبور ہی حاصل نہیں بلکہ ان کی طبیعت کا حصہ ہیں۔ کسی نظام کا سربراہ یا کسی قوم کا پیشوا ہونا جُدا بات ہے اور انتہائی لطیف ادبی ذوق کا حامل ہونا قطعی طور پر دوسری چیز ہے۔ پھر آپ کا اپنا کلام بھی بہت ہی بلند پایہ ہے۔

حضرت صاحب کی خواہش پر پہلے سالک صاحب نے تعمیل حکم کے طور پر دو غزلیںپیش کیں۔ پھر مجھے ارشاد ہوا اور مَیں نے بھی دو غزلیں پیش کیں۔ہم دونوں کے کلام پر حضرت صاحب نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور بعدہٗ تبسم صاحب کی باری آئی۔ اُن کی پہلی غزل کا مصرعہ اولیٰ سماعت فرماتے ہی حضرت صاحب نے پہلو بدلا اور بالخصوص توجہ مبذول فرمائی۔ غزل کا مطلع یہ تھا ؎

اُسے کام کیا ہے سلوک سے کہ جو فیض یابِ شہود ہے

جو نگاہ جلوہ شناس ہو تو نفس دلیلِ صعود ہے

پھر ہم نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ وہ بھی اپنے کلام سے ہمیں مستفیض فرمائیں۔ اس پر حضور نے فرمایا: ’’آپ حضرات شاعری کی نیّت سے شعر کہتے ہیں اس لیے آپ شاعر ہیں۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ تبلیغ کی خاطر ہوتا ہے، ہم اُسے شاعری نہیں سمجھتے۔‘‘

سالکؔ صاحب یہاں بھی مزاح سے نہ چُوکے، فوراً بول اُٹھے: مَیں اور نازش غیراحمدی ہیں، آپ ہمیں تبلیغ فرمائیں۔

اس پر حضرت صاحب مسکرائے اور ازراہِ کرم اپنے چند بلیغ اشعار فرمادیے جنہیں سن کر ہم سب بہت لُطف اندوز ہوئے۔ میری درخواست پر حضرت صاحب نے اپنی چھوٹی تقطیع کی ایک کتاب ’’کلام محمود‘‘ اپنے دستخط ثبت فرماکر مجھے مرحمت فرمائی جو اَب تک میرے پاس محفوظ ہے۔

حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنہ سے میری آخری ملاقات 1960ء میں ہوئی۔ اُس وقت محترم حکیم یوسف حسن صاحب ایڈیٹر ’’نیرنگ خیال‘‘ بھی میرے ہمراہ تھے۔ ہم محض حضرت صاحب سے ملاقات کرنے ربوہ گئے تھے۔ ربوہ میں داخل ہوتے ہی ہم نے حضرت صاحب کے سیکرٹری کو ٹیلیفون پر اپنی آمد کی اطلاع دی تو چند ہی منٹ میں شیخ روشن دین تنویر صاحب ایڈیٹر ’’الفضل‘‘ ہمارے پاس پہنچ گئے۔ شیخ صاحب انتہائی مخلص آدمی ہیں۔ معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کی طبیعت ناساز ہے، آج ملاقات نہیں ہوسکے گی اور جمعے کے دن ویسے ہی ملاقاتیں بند ہیں۔ ہم نے سیکرٹری صاحب سے عرض کیا کہ ہماری آمد کی اطلاع بہرحال حضرت صاحب تک پہنچادیں۔ انہوں نے ایسا کرنے کا وعدہ کرلیا۔ ہم نماز عصر سے فارغ ہوئے تو سیکرٹری صاحب نے آکر بتایا کہ جمعے کی صبح ہمیں حضرت صاحب نے چائے پر یاد فرمایا ہے۔ چنانچہ اگلی صبح آٹھ بجے ہم حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچادیے گئے۔ اُس وقت حضرت صاحب علیل الطبع اور بہت کمزور تھے۔ آپ ایک بےبستر کی چارپائی پر استراحت فرمارہے تھے۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے تو آپ نے اُٹھنے کی کوشش کی۔ مَیں نے عرض کیا کہ آپ یہ تکلیف نہ فرمائیں۔ اس پر آپ لیٹے رہے۔ ہم قریب ہی ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔ مزاج پُرسی کے بعد آپ نے حکیم یوسف حسن صاحب سے فرمایا: آپ کا رسالہ مدّت سے ہمارے مطالعہ میں ہے۔ آپ اسے زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے بڑے عزم و استقلال سے کام لے رہے ہیں جو قابلِ تعریف ہے۔

حکیم صاحب کے شکریہ ادا کرنے پر حضور نے حکیم صاحب سے فرمایا: آپ نے ایک دفعہ قادیان آکر ہماری بچی کا علاج کیا تھا۔ اُس وقت بڑے بڑے ڈاکٹر اور حکیم مرض کی تشخیص نہیں کرسکے تھے۔ ہم نے آپ کو لاہور سے بلوایا تو آپ کے علاج سے بچی تندرست ہوگئی۔ یہ سب خداوندتعالیٰ کا فضل تھا۔

اب یہ اتنے لمبے عرصے کا واقعہ تھا کہ اسے خود حکیم یوسف حسن صاحب بھی بھول چکے تھے۔ حضرت صاحب کے ارشاد پر حکیم صاحب نے حافظے پر زور دیا تو انہیں یہ واقعہ بمشکل یاد آیا۔ حکیم صاحب اور مَیں حضرت صاحب کی غیرمعمولی قوّتِ حافظہ پر سخت حیران ہوئے بالخصوص اس لیے کہ اب حضرت بیمار بھی تھے۔

پھر حضرت صاحب میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور حکیم صاحب سے فرمایا: نازش صاحب احمدی شیعہ ہیں۔ یہ ہمارے پرانے مخلص دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنا قلم ہمیشہ ہمارے حق میں استعمال کیا ہے اس لیے کہ ہمارے مخالف ہم سے مخالفت محض برائے مخالفت کرتے رہے ہیں اور ہم ہمیشہ حق پر ہوتے رہے ہیں۔ نازش صاحب نے حق کی حمایت میں کوتاہی نہیں کی۔

حضرت صاحب اب مجھ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: آپ کے کتنے بچے ہیں؟ وہ کیا کیا کرتے ہیں؟ اگر وہ زیرتعلیم ہیں تو ان سب کو آپ ربوہ بھیج دیں۔ ہمارے یہاں ان کی تعلیم، رہائش اور خوراک کا سب انتظام ہوجائے گا۔ وہ شیعہ رہتے ہوئے یہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں گے۔

مَیں حضور کی اس انتہائی مخلصانہ پیشکش سے بےحد متاثر ہوا اور بصمیم قلب شکریہ بجالایا۔

افسوس کہ وہ وجود جو انسانیت کے لیے سراپا احسان و مروّت تھا آج اس دنیا میں نہیں۔ وہ عظیم الشان سپر آج پیوند زمین ہے جس نے مخالفینِ اسلام کی ہر تلوار کا وار اپنے سینے پر برداشت کیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ اسلام کو گزند پہنچے۔

حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کی وفات سے جماعت احمدیہ یقیناً بہت غمگین ہے کیونکہ اس کا وہ امام اور سربراہ رخصت ہوگیا جس نے اس جماعت کو بنیان مرصوص بنادیا لیکن اس جماعت سے باہر بھی ہزاروں ایسے افراد موجود ہیں جو اختلافِ عقائد کے باوجود آپ کی وفات کو دنیائے اسلام کا ایک عظیم سانحہ سمجھ کر بےاختیار اشکبار ہیں۔ آپ نے دنیا کے بےشمار ممالک میں چار سو کے قریب مساجد تعمیر کرائیں، اسلام کی تبلیغ کے لیے تقریباً یکصد مشن قائم کیے جو عیسائیت کی بڑھتی ہوئی رَو کے سامنے ایک آہنی دیوار بن گئے۔

مختصر یہ کہ حضرت صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک سانس اپنے مولیٰ کی رضا اور اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ خدا ان سے راضی ہوا اور وہ خدا سے راضی ہوئے۔ اگر مَیں ایک شیعہ ہوتے ہوئے انہیں رضی اللہ عنہ لکھتا ہوں تو یہ ایک حقیقت کا اظہار ہے، محض اخلاقی رسم نہیں۔

………٭………٭………٭………

حضرت مصلح موعودؓ کی یادیں

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 17؍فروری 2014ءمیں مکرم منور احمد خالد صاحب اپنی یادداشتوں کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ میرے والد حضرت چودھری غلام صاحبؓ بیسویں صدی کے آغاز میں اپنے تینوں چھوٹے بھائیوں اور اپنے والد صاحب کے ہمراہ سندھ آگئے تاکہ سندھ کی آبادکاری کے لیے انگریزوں کی نئی سکیم سے فائدہ اٹھاسکیں۔ آپؓ نے بعدازاں سندھ کی پہلی باقاعدہ جماعت کوٹ احمدیاں آباد کی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے جب 1934ء میں اپنے خاندان اور تحریک جدید کے لیے زمینیں خرید فرمائیں تو ان کی آبادکاری میں میرے والد کو بھی خدمت کا موقع ملا۔ جو احمدی اس سکیم سے استفادہ کرنا چاہتے اُنہیں مرکز کی طرف سے کوٹ احمدیاں جانے کی ہدایت ملتی اور ہمارے ہاں اُن کی مہمان نوازی اور راہنمائی کی جاتی۔ حضورؓ کی سندھ میں تشریف آوری کے وقت بھی ہمیں خدمت کی خاص سعادت ملتی۔

میری پیدائش 1936ء کی ہے اور اسی سال حضرت مصلح موعودؓ پہلی بار سندھ تشریف لائے تو آپؓ کے ہمراہ حضرت امّاں جانؓ اور حضرت اُمّ طاہرؓ بھی تھیں۔ میری دو بڑی بہنوں نے حضورؓ اور خاندان اقدس کی خدمت کی توفیق پائی اور اس طرح بی بی جمیل کے ساتھ ان کی دوستی بھی ہوگئی۔ بچپن میں مجھے بھی اندرونِ خانہ جانے کی اجازت ہوتی اور تبرک سے خوب حصہ ملتا۔ یہ روایت پھر حضورؓ کے تمام دوروں میں جاری رہی۔ جب حضورؓ کا دورہ اختتام کو پہنچتا تو کوٹ احمدیاں اطلاع بھجوادی جاتی کہ آکر بچیوں کو لے جائیں۔ ایک بار یہ اطلاع نہ بھجوائی جاسکی تو حضورؓ نے پسند نہ فرمایا کہ بچیاں کسی اَور کے ساتھ بھجوائی جائیں اور یہ پیغام آیا کہ ہم بشیرآباد جارہے ہیں، بچیوں کو وہاں آکر لے جائیں۔

پاکستان بننے کے بعد پہلے میرے بڑے بھائی کو اور 1950ء میں مجھے بھی تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں داخل کروادیا گیا۔ ہم کبھی پیدل اور کبھی سائیکل یا بس پر ربوہ جاکر حضورؓ کے درس سنتے اور جمعہ کی نماز بھی ادا کرتے۔ حضرت مسیح موعودؑ سلطان القلم تھے تو آپؑ کے مثیل سلطان البیان تھے۔

پھر ہمارا سکول ربوہ منتقل ہوگیا۔ 1953ء کے فسادات میں قصر خلافت کے اندرونی دروازے پر پہرہ دینے کی سعادت ملتی رہی۔ ہمارے ایک ساتھی کی والدہ بطور خادمہ قصرخلافت میں کام کرتی تھیں۔ ہر صبح ہمارا ساتھی اپنی والدہ کے ذریعے بطور تبرک وہ مکھن کا پیڑہ منگواتا جس میں سے حضورؓ نے کچھ لیا ہوتا۔جب حضورؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو یہ عاجز بھی مسجد میں موجود تھا۔ پھر حضورؓ کا دردناک پیغام جماعت کے نام آیا تو نیندیں حرام ہوگئی تھیں اور شفایابی کے لیے دعاؤں میں چیخیں نکل نکل جایا کرتیں۔

ربوہ میں ایک دفعہ مجھے سخت بخار ہوگیا کہ تھرمامیٹر کی حد پار کرنے لگا۔ ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ نے گھبراکر حضرت سیّد محموداللہ شاہ صاحبؓ (ہیڈماسٹر) کو اطلاع کی۔ انہوں نے حضورؓ کی خدمت میں دعا کے لیے عرض کیا تو حضورؓ نے پوچھا کہ لڑکا کہاں کا ہے؟ بتایا گیا سندھ کا ہے۔ حضورؓ نے فرمایا: مَیں دعا کروں گا اور لڑکا سندھ کا ہے تو فکر نہ کریں وہاں ملیریا بعض اوقات اتنا تیز ہوجایا کرتا ہے۔ چنانچہ حضورؓ کی دعا میرے لیے معجزہ بن گئی۔ ساری عمر سندھ کے مچھروں میں گزاری۔ آج اس دعا کو ساٹھ سال سے زیادہ ہورہے ہیں لیکن مجھے اس کے بعد کبھی ملیریا نہیں ہوا۔

حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کی اطلاع کوٹ احمدیاں میں ملی تو بظاہر ناممکن تھا کہ حضورؓ کے چہرے کے دیدار کے لیے ربوہ پہنچ پاتا۔ حیدرآباد پہنچا تو چناب ایکسپریس نکل گئی تھی اور لاہور جانے والی خیبرمیل تیار تھی چنانچہ اس پر سوار ہوگیا۔ کئی اَور احمدی بھی اس میں سوار تھے۔ مَیں نے سوچا کہ لاہور جاکر ربوہ جاؤں گا تو بہت وقت لگ جائے گا لیکن اگر کسی طرح یہ ٹرین چیچہ وطنی میں رُک جائے تو وہاں سے بس کے ذریعے ربوہ جلدی پہنچا جاسکتا ہے۔ چنانچہ مَیں نے شدّت سے دعا شروع کردی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا اور ٹرین چیچہ وطنی کے سٹیشن سے آگے نکل کر سگنل کے پاس عین اُس جگہ ایک منٹ کے لیے اچانک رُک گئی جہاں سے سڑک سیدھی فیصل آباد کو جاتی ہے۔ مَیں چھلانگ لگاکر نیچے اُتر آیا اور اپنے ساتھیوں کو بھی مشورہ دیا کہ یہاں اُترجائیں لیکن انہیں فیصلہ کرنے میں ذرا دیر ہوئی اور ٹرین چل دی۔ مجھے فورًا ہی وہاں سے بس مل گئی اور مَیں اپنے ساتھیوں سے پانچ گھنٹے پہلے ربوہ پہنچ گیا۔ حضورؓ کے چہرۂ مبارک کا دیدار کیا، خلافتِ ثالثہ کی بیعت بھی کی اور نماز جنازہ میں شرکت بھی نصیب ہوگئی۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی وفات کے وقت خاکسار کوٹ احمدیاں میں موجود تھا۔ قائدعلاقہ اور دیگر عہدیدار بھی ایک پروگرام کے سلسلے میں وہاں آئے ہوئے تھے۔ ہمیں جب حضورؒ کی وفات کی اطلاع ملی تو ربوہ جانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اُس وقت میرے پاس ایک پرانی جیپ ہوا کرتی تھی۔ ہم نے اُسی میں ربوہ کا سفر شروع کردیا۔ جب ہم میرپورخاص پہنچے تو ایک غیرازجماعت وکیل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہیں اپنے سفر کا پروگرام بتایا تو انہوں نے کہا کہ اس جیپ میں اتنی دُور کیسے پہنچوگے۔ یہ جیپ میرے پاس یہیں چھوڑ جاؤ اور میری کار لے جاؤ۔ چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا اور پھر سولہ گھنٹے مسلسل اُن کی کار میں سفر کرتے ہوئے ربوہ پہنچے۔ چہرۂ مبارک کا دیدار کیا، خلافت رابعہ کی پہلی بیعت میں اور پھر نماز جنازہ میں شامل ہوئے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی جب وفات ہوئی تو مَیں دعوت الی اللہ کی غرض سے ہنگری میں مقیم تھا۔ مَیں نے اپنے بیٹے کو جرمنی میں اطلاع دی کہ مَیں ٹرین پر فلاں وقت کوبلنز کے سٹیشن پر پہنچ رہا ہوں۔ لندن جانے کے لیے وہ خود بھی تیار رہے اور گاڑی بھی تیاررکھے تاکہ وقت ضائع کیے بغیر ہم لندن روانہ ہوسکیں۔ چنانچہ ہنگری سے بارہ گھنٹے کا سفر کرکے مَیں پہلے جرمنی اور پھر چھ گھنٹے کا مزید سفر کرکے لندن پہنچا۔ الحمدللہ خلافتِ خامسہ کی پہلے ہی دن بیعت نصیب ہوئی اور حضوررحمہ اللہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی توفیق بھی ملی۔ کئی بار خیال آتا ہے کہ دراصل یہ اُسی دعا کی قبولیت کا تسلسل ہے جس نے حضرت مصلح موعودؓ کے چہرے کے دیدار اور جنازے میں شرکت کے لیے ٹرین کو چیچہ وطنی میں روک دیا تھا۔

………٭………٭………٭………

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے مثالی محبت

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 17؍فروری 2014ء میں مکرم محمود احمد انیس صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ چند ایسے واقعات پیش کیے ہیں جن سے آپؓ کی حضرت مسیح موعودؑ سے غیرمعمولی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

٭…حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ کئی دفعہ اس واقعہ کو یاد کرکے مَیں ہنسا بھی ہوں اور بسااوقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آگئے ہیں مگر مَیں اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتا ہوں کہ گرمیوں کی ایک رات ہم صحن میں سو رہے تھے کہ آسمان پر بادل گرجنے لگے تو تمام لوگ کمروں میں چلے گئے۔ اسی دوران اس زوردار کڑک کے ساتھ قادیان کے قریب ہی کہیں بجلی گری کہ ہر ایک نے یہی سمجھا کہ یہ بجلی شاید ان کے گھر میں ہی گری ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ جب اندر کی طرف جانے لگے تو مَیں نے اپنے دونوں ہاتھ آپؑ کے سر پر رکھ دیے تاکہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے، آپؑ پر نہ گرے۔ بعد میں جب میرے ہوش ٹھکانے آئے تو مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی بھی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا ۔

٭… حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ جب فوت ہوئے تو بعض پیشگوئیاں ابھی پوری نہیں ہوئی تھیں۔ ایک دو آدمیوں کے منہ سے مَیں نے یہ فقرہ سنا کہ اب کیا ہوگا، عبدالحکیم کی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے، محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے، وغیرہ۔ یہ باتیں سن کر جو پہلا کام مَیں نے کیا وہ یہ تھا کہ مَیں خاموشی سے حضرت مسیح موعودؑ کی لاش مبارک کے پاس گیا اور اس کے سرہانے کی طرف کھڑا ہوا اور خداتعالیٰ سے مخاطب ہوکر کہا کہ اے خدا! مَیں تیرے مسیح کے سرہانے کھڑے ہوکر تیرے حضور یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی پِھر گئی تو مَیں اُس سلسلے کی اشاعت کے لیے کھڑا رہوں گا جس کو تُو نے حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے قائم کیا ہے۔ اُس وقت میری عمر انیس سال تھی۔

حضرت مصلح موعودؓ کا ایک شعر ہے ؎

ساری دنیا چھوڑ دے پر مَیں نہ چھوڑوں گا تجھے

درد کہتا ہے کہ مَیں تیرے وفاداروں میں ہوں

٭… حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کو بچپن میں حضرت مسیح موعودؑنے ہدایت فرمائی تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے پینے کی چیز نہ لینا۔ آپؓ تین سال میرے پاس پڑھنے کے لیے تشریف لاتے رہے۔ جب کبھی آپؓ کو پیاس لگتی تو اُٹھ کر اپنے گھر تشریف لے جاتے اور پانی پی کر پھر واپس تشریف لاتے۔ خواہ کیسا ہی مصفّا پانی کیسے ہی صاف ستھرے برتن میں آپؓ کی خدمت میں پیش کیا جاتا آپؓ اُسے نہ پیتے۔

٭…حضرت مصلح موعودؓ کو اگر بچپن میں کسی نے حضرت مسیح موعودؑ کے ادب کی کوئی بات سکھائی تو آپؓ نے نہ صرف خوش دلی کے ساتھ اسے قبول فرمایا بلکہ ایسی نصیحت کرنے والے کے ہمیشہ شکرگزار رہے۔چنانچہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک دوست کا احسان اپنی ساری زندگی میں نہیں بھول سکتا اور مَیں جب کبھی اس دوست کی اولاد پر کوئی مشکل پڑی دیکھتا ہوں تو میرے دل میں ٹیس اُٹھتی ہے اور اُن کی بہبود کے لیے دعائیں کیا کرتا ہوں۔ 1903ء کی بات ہے جب حضرت مسیح موعودؑ کرم دین والے مقدمے کی پیروی کے لیے گورداسپور میں مقیم تھے۔ یوپی کے رہنے والے رسالدار میجر محمد ایوب حضورؑ سے ملنے وہاں آئے۔ دلّی کے رواج کے مطابق بچے باپ کو’’تم‘‘کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اس لیے گھر میں سن سن کر میری عادت بھی ’’تم‘‘ کہنے کی ہوگئی تھی۔ یوں تو مَیں حتی الوسع حضرت مسیح موعودؑ کو مخاطب کرنے سے کتراتا تھا لیکن اگر ضرورت پڑ جاتی اور مجبوراً مخاطب کرنا پڑتا تو ’’تم‘‘کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ ایسا ہی اُس دوست کی موجودگی میں ہوا۔ یہ لفظ سُن کر انہوں نے مجھے بازو سے پکڑا اور مجلس سے ایک طرف لے گئے اور کہا کہ میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے لیکن یہ ادب ہی چاہتا ہے کہ آپ کو آپ کی غلطی سے آگاہ کروں۔ اور وہ یہ کہ آپ حضرت مسیح موعودؑ کو ’’آپ‘‘کہہ کر مخاطب کیا کریں ورنہ آپ نے پھر ’’تم‘‘ کا لفظ بولا تو جان لے لوں گا۔

مجھے’’تم‘‘اور’’آپ‘‘میں کوئی فرق محسوس نہ ہوتا تھا بلکہ مَیں’’تم‘‘کا لفظ زیادہ پسند کرتا تھا اور’’آپ‘‘کا لفظ بولتے ہوئے مجھے بوجہ عادت نہ ہونے کے شرم سے پسینہ آجاتا تھا۔ مگر اُس دوست کے سمجھانے کے بعد مَیں ’’آپ‘‘ کا لفظ استعمال کرنے لگا اور اُن کی اس نصیحت کا اثر اب تک میرے دل میں موجود ہے۔

٭… آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کے تبرکات سے بھی خاص محبت تھی اور ان کی اہمیت کا احساس تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کے لیے کوئی شخص ایک خوبصورت جبّہ لایا جو حضورؑ سے مَیں نے لے لیا۔ ایک دن ضحی کے وقت یا اشراق کے وقت مَیں نے وضو کیا اور وہ جبّہ اس لیے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ہے اور متبرک ہے۔ یہ پہلا احساس میرے دل میں خداتعالیٰ کے فرستادہ کے مقدّس ہونے کا تھا، پہن لیا۔ تب مَیں نے اس کوٹھڑی کا جس میں مَیں رہتا تھا دروازہ بند کرلیا اور ایک کپڑا بچھاکر نماز پڑھنی شروع کی اور مَیں اس میں خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا۔

٭… حضرت مصلح موعودؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کی حرم حضرت امّاں جانؓ سے بھی بہت محبت تھی اور ادب سے پیش آتے اور آپؓ کی عزت و تکریم کا بہت خیال رکھتے۔ سفروں میں اکثر اپنے ساتھ رکھتے۔ اپنے ساتھ موٹر میں بٹھاتے۔ کہیں باہر سے آنا ہوتا تو سب سے پہلے حضرت امّاں جانؓ سے ملتے اور تحفہ پیش کرتے۔ محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت امّاں جان کی وفات ہوئی تو حضورؓ کی خواہش تھی کہ اُنہیں حضرت مسیح موعودؑ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ مَیں اُن دنوں لاہور میں متعین تھا۔ حضورؓ کا ارشاد موصول ہوا کہ اس سلسلے میں انڈین ہائی کمشنر سے رابطہ کیا جائے۔ میری درخواست پر انڈین ہائی کمشنر نے دہلی سے رابطہ کیا اور پھر مجھے بتایا کہ ہندوستان کی گورنمنٹ نے خاص کیس کے طور پر اس کی اجازت دے دی ہے لیکن یہ شرط لگائی کہ اس غرض کے لیے بیس سے زائد عزیزوں کو ویزے نہیں دیے جاسکتے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ پیشکش اس وجہ سے مسترد کردی کہ حضرت امّاں جانؓ کی حیثیت کے پیش نظر کم از کم دس ہزار احمدی میّت کے ساتھ جانے ضروری ہیں۔

٭… حضرت مصلح موعودؓ کو قادیان سے بھی بہت پیار تھا۔ چنانچہ سفر یورپ کے دوران جب جہاز عدن کے قریب پہنچا تو آپؓ نے آدھی رات کے وقت اپنے قلم مبارک سے جماعت کے نام ایک مفصّل خط تحریر فرمایا جس میں یہ بھی تحریر فرمایا: ’’… مجھے چھوڑ دو کہ مَیں خیالات و افکار کے پر لگاکر کاغذ کی ناؤ پر سوار ہوکر اس مقدّس سرزمین میں پہنچوں جس سے میرا جسم بنا ہے اور جس میں میرا ہادی اور راہنما مدفون ہے اور جہاں میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی راحت، دوستوں کی جماعت رہتی ہے۔ …‘‘

اسی سفر کے دوران حضورؓ نے قادیان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ؎

یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب

پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے قادیاں

خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقامِ پاک کا

سوتے سوتے بھی یہ کہہ اُٹھتا ہوں ہائے قادیاں

٭… حضرت مسیح موعودؓ کے علم کلام سے حضرت مصلح موعودؓ کو ایسی محبت تھی کہ خود بھی حضورعلیہ السلام کی کتب کا مطالعہ فرماتے اور جماعت کو بھی اس کی برکات سے آگاہ فرماتے۔ چنانچہ فرمایا: ’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ … اور ان کے ذریعہ نئے نئے علوم کھلتے ہیں۔‘‘ (ملائکۃاللہ)

اگرچہ آپؓ کے متعلق خدائی وعدہ تھا کہ ’’وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ لیکن آپؓ اپنے تمام علوم کو حضورؑ کے علم کلام کے تابع رکھتے۔ آپؓ خود فرماتے ہیں کہ ایک درس القرآن کے موقع پر مَیں نے عرش کے متعلق ایک نوٹ دوستوں کو لکھوایا جو اچھا خاصہ لمبا تھا۔ مگر جب مَیں وہ تمام نوٹ لکھواچکا تو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ یا حافظ روشن علی صاحب مرحومؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کا ایک حوالہ نکال کر پیش کیا اور کہا کہ آپ نے تو یوں لکھوایا تھا مگر حضرت مسیح موعودؑ نے یوں فرمایا ہے۔ مَیں نے اس حوالے کو دیکھ کر اُسی وقت دوستوں سے کہہ دیا کہ میرا لکھوایا ہوا نوٹ غلط ہے، اُسے کاٹ ڈالیں۔ اگر حضرت مسیح موعودؑ کے فرمان کے مقابلے میں ہم اپنی رائے پر اڑے رہیں تو اس طرح تو دین اور ایمان کا کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔

٭…حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد حضورؓ مزار مبارک پر دعا کے لیے جایا کرتے۔ اس سے عارضی جدائی بھی آپؓ پر کیسی گراں گزرتی، اس کا اندازہ اُس خط سے لگایا جاسکتا ہے جو آپؓ نے سفر یورپ کے دوران پورٹ سعید سے جماعت کے نام تحریر فرمایا۔ اس میں آپؓ نے یہ بھی فرمایا:

جس صبح روانہ ہونا تھا تو اس آخری خوشی کو پورا کرنے کے لیے چلا گیا جو اس سفر سے پہلے مَیں قادیان میں حاصل کرنا چاہتا تھا یعنی آقائی و سیّدی و راحتی و سروری و حبیبی و مرادی حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر دعا کرنے کے لیے۔ ایک بےبس عاشق اپنے محبوب کے مزار پر عقیدت کے دو پھول چڑھانے اور اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں دعا کرنے کے سوا اَور کیا کرسکتا ہے۔سو اس فرض کو ادا کرنے کے لیے مَیں وہاں گیا۔

مگر آہ! وہ زیارت میرے لیے کیسی افسردہ کُن تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مُردے اس مٹی کی قبر میں نہیں ہوتے بلکہ ایک اَور قبر میں رہتے ہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس مٹی کی قبر سے بھی اُن کو ایک تعلق ہوتا ہے اور پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انسانی دل اس قرب سے بھی جو اپنے پیارے کی قبر سے ہو ایک گہری لذّت محسوس کرتا ہے۔ پس یہ جدائی میرے لیے ایک تلخ پیالہ تھی اور ایسا تلخ کہ اس کی تلخی کو میرے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

میری زندگی کی بہت بڑی خواہشات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے عین قدموں کے نیچے میرا جسم دفن ہو تاکہ اس مبارک وجود کے قرب کی برکت سے میرا مولا مجھ پر بھی رحم فرمائے۔ اور ایک عقیدت کیش احمدی جو جذبۂ محبت سے لبریز دل کو لے کر اس مزار پر حاضر ہو، میری قبر بھی اُس کو زبان حال سے یہ کہے کہ ؎

اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی

اور وہ کلمۂ خیر میرے حق میں بھی کہہ دے جس سے میرے ربّ کا فضل جوش میں آکر میری کوتاہیوں پر سے چشم پوشی کرے اور مجھے بھی اپنے دامنِ رحمت میں چھپالے۔

٭…حضرت مصلح موعودؓ اپنے زمانۂ خلافت میں حاصل ہونے والی سلسلہ احمدیہ کی غیرمعمولی ترقیات کا ذکر کرنے کے بعد سورۃالقدر کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں کہ بےشک ہمیں کامیابیاں زیادہ حاصل ہورہی ہیں لیکن اس کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ یہ زمانہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے سے بہتر ہے۔ آپؑ کے زمانے کو یاد کرکے دل تڑپ اٹھتا ہے اور یہ ساری کامیابیاں بالکل حقیر لگتی ہیں۔اُس رات میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ آہ مسیح موعود کا وقت! اُس وقت تھوڑے تھے مگر امن تھا۔بےشک آج دنیوی لحاظ سے جو رتبہ ہم کو حاصل ہے وہ حضرت مسیح موعودؑ کو حاصل نہیں تھا۔ جتنے لوگ ہماری باتیں ماننے والے موجود ہیں اتنے لوگ باتیں ماننے والے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں موجود نہیں تھے۔ جتنا خزانہ ہمارے ہاتھ میں ہے اتنا خزانہ حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ اب بعض دفعہ خداتعالیٰ ایک ایک دن میں پچیس پچیس تیس تیس ہزار روپیہ چندے کا بھجوادیتا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں اتنا چندہ سارے سال میں بھی جمع نہیں ہوتا تھا مگر اس تمام ترقی کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ یہ زمانہ اُس زمانہ سے بہتر ہے۔ آج وہ بات کہاں نصیب ہوسکتی ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں قربانی کرنے والوں کو نصیب ہوئی۔

٭…حضرت مصلح موعودؓ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے صحابہ سے کتنی محبت تھی اور اُن کے جذبات کا کتنا احترام فرماتے تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے کیا جاسکتا ہے کہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ اگست 1917ء کے آخر میں حضرت مصلح موعودؓ شملہ تشریف لے گئے تو خاکسار بھی راجپورہ سے انبالہ تک ہم سفر رہا۔ کالکا ریلوے سٹیشن پر حضورؓ نے مجھے فرمایا کہ سنا ہے پٹیالہ بہت خوبصورت شہر ہے، کیوں نہ ہم چوبیس گھنٹے کا Break Journey کرکے شہر دیکھ آئیں۔ مَیں نے بصد شوق عرض کیا کہ بہت مبارک بات ہے۔ حضورؓ نے کچھ سوچ کر فرمایا کہ اگر ہم اس وقت پٹیالہ ہو آئے جبکہ میاں عبداللہ صاحب سنوری موجود نہیں ہیں تو اُن کو بہت صدمہ پہنچے گا کیونکہ جب حضرت مسیح موعودؑ پٹیالہ گئے تھے تو میاں عبداللہ صاحب بھی ساتھ تھے بلکہ وہ اپنے مکان واقعہ سنور میں بھی حضرت صاحب کو لے گئے تھے۔ انشاءاللہ واپسی پر سہی۔

٭… حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خاطر عفوودرگزر کا یہ واقعہ بھی حضرت مصلح موعودؓ کی حضورعلیہ السلام سے غیرمعمولی محبت کا عکاس ہے کہ 1932ء میں جب مکرم خواجہ کمال الدین صاحب کی وفات ہوئی تو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا: ’’اگرچہ خواجہ صاحب نے میری بہت مخالفتیںکیں لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے وقت خدمات بھی کی ہیں اس وجہ سے اُن کی موت کی خبر سنتے ہی مَیں نے کہہ دیا کہ انہوں نے میری جتنی مخالفت کی وہ مَیں نے سب معاف کی۔خداتعالیٰ بھی ان کومعاف کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن بندوں کو خداتعالیٰ کھینچ کر اپنے مامورین کے پاس لاتا ہے اُن میں ہوسکتا ہے کہ غلطیاں بھی ہوں لیکن خوبیاں بھی ہوتی ہیں ۔ہمیں ان خوبیوں کی قدر کرنی چاہیے۔ مَیں سمجھتا ہوں خلافت کا انکار بڑی خطا ہے، خداتعالیٰ نے اسے بڑاگناہ قرار دیا ہے مگر ہمارا جہاں تک تعلق ہے ہمیں معاف کرنا چاہیے۔ خداتعالیٰ کے نزدیک اگر ایسے شخص کی نیکیاں بڑھی ہوئی ہوں گی تو وہ اس سے بہتر سلوک کرے گا۔‘‘

(الفضل ربوہ 14؍فروری2003ء)

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button