متفرق مضامین

خلافت احمدیہ کی آسمانی قیادت اور استحکام نظام جماعت

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

آپ نظام جماعت میں اصلاحی تبدیلیاں کرنے پر غور فرما رہے ہیں۔ لہٰذا چاہتے ہیں کہ انسانی جسم کے نظام کا مطالعہ کریں

اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے جماعت احمدیہ کو خلافت کی آسمانی قیادت کے تابع ایسا نظام عطا فرمایا جو نہایت مستحکم اور ہمہ گیر پہلو کا حامل ہے۔یہ نظام محلہ کی سطح سے لے کر شہری،ملکی اور بین الاقوامی سطح تک تمام شعبہ ہائے زندگی پر محیط ہے جس کی برکت سے دربار خلافت سے صادر کیے جانے والے ہر ارشاد اور حکم کی برق رفتاری کے ساتھ تعمیل کی جاتی ہے اور احمدی محبت اور الفت کی لڑی میں ایسے پروئے گئے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس امت واحدہ کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اس کی جیتی جاگتی تصویر بن چکی ہے۔

جیسا کہ حضورﷺ نے فرمایا’’مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّ۔(مسلم)باہمی مودت اور شفقت کے لحاظ سے مومنوں کی مثال ایک جسد کی مانند ہے کسی بھی عضو کو کوئی تکلیف لاحق ہو جائے تو سارا جسم بخار اور شب بیداری کے ذریعہ شریک ہو جاتا ہے۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے 210سے زائد ممالک میں بسنے والے احمدی اس نظام کی برکت سے ایسے متحد ہیں جیسے ایک فیملی کے افراد ایک ہی جگہ پر مل بیٹھے ہوں۔ الخلق عیال اللہ کا صحیح نظارہ یہاں نظر آتا ہے۔

قرآن کریم کی پیشگوئی ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ کے تحت حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام کو اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ قائم کرنے اور دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنےکے لیے اس قادیان کی مقدس بستی میں مبعوث فرمایا اور آپ کے ذریعہ اعلائے اسلام اور اشاعتِ نور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک عظیم الشان سلسلہ کی بنیاد رکھی گئی جو آج سلسلہ احمدیہ کے نام سے معروف و مشہور ہے۔ اس سلسلہ کے نظام کی بابت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو ہدایات جاری فرمائیں وہ بالخصوص حضور کی کتاب’’ الوصیت ‘‘ اور ’’فتح اسلام‘‘ میں درج ہیںاور ساتھ ہی حضور علیہ السلام نے یہ خوش خبری بھی دی کہ’’میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوںسو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھےگا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘

چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس زمانہ میں بطور حکم مبعوث فرمایا تھا اس لیے آپ کا وجود اس سلسلہ کی جان ہے اور ہر احمدی پر آپ کا حکم واجب التعمیل ہے اور آپ علیہ السلام نے اپنی وفات کے بعد نظامِ سلسلہ کو چلانے کے لیے نظام خلافت کے قیام کی پیشگوئی فرمائی اور اُسے قدرتِ ثانیہ قرار دیا۔

حضورؑ فرماتے ہیں:’’ میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے‘‘

چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جماعت احمدیہ میں خلافت علی منہاج النبوۃکا قیام عمل میں آیا۔ پس نظام سلسلہ کا مرکزی نقطہ خلافت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ عظیم نعمت ہمارے اندر تقریباًایک سو چودہ سال سے قائم ہے۔ خلافت کی اس آسمانی قیادت کے تابع درجہ بدرجہ وہ شعبے اور تنظیمیں قائم کی گئیں جن کی بنا،دراصل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے بیان فرمودہ پانچ بنیادی شاخوں پرہے۔ اسی بنیاد پر سیدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے طویل زمانہ خلافت میں درج ذیل نظاموں کا اجرا فرمایا: انتخاب خلافت کا نظام، شوریٰ کا نظام، وصیت کا نظام، قضاء کا نظام، انتظامی شعبے اور جماعتی نظام، ذیلی تنظیموں کا نظام، تحریک جدید کا نظام، وقفِ جدید کا نظام، جلسہ سالانہ کا نظام، و غیرہ۔

جب کوئی الٰہی سلسلہ دنیا میں قائم ہوتا ہے توجو لوگ ابتدا میں اس میں شامل ہوتے ہیں ان کے ایمان بڑے پختہ ہوتے ہیں وہ ابتلائوں اور آزمائشوں کی بھٹی میں سے گزر کر سونے کی طرح کندن ہو جاتے ہیں اور وہ اخلاص اور ایمان کے نہایت اعلیٰ مقام پر قائم ہوتے ہیں۔لیکن انبیاء کے وصال کے بعد جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے ایک تو الٰہی سلسلہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور کثرت سے لوگ اس میں شامل ہونے لگتے ہیں۔ دوسرے نسلی طور پر بھی جماعتوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور تعداد بڑھنے لگتی ہے۔ اس دوسرے دور میں شامل ہونے والے یا پیدا ہونے والے افراد کی تعلیم و تربیت کا معیار اس قدر بلند نہیں ہوتا جس قدر کہ دورِ اول کے افراد کا۔ کیونکہ، نہ تو انہیں السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن کی طرح شدائد و مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نہ ان کی طرح عقائد و مسائل کی چھان بین کا اِن کو موقع ملتا ہے۔یہ ایک قدرتی نقص ہے جس کا ازالہ صرف اس طریق پر ہو سکتا ہے کہ نئے شامل ہونے والوں کی منظم طور پر اور پوری توجہ اور محنت سے تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے۔ جس قدر اس کا انتظام اخلاص اور تندہی سے کیا جاتا ہے اُسی قدر جماعت میں مضبوطی اور استحکام پیدا ہوتا ہے۔

سیدنا حضرت مصلح الموعود رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے بڑا ہی ذہین و فہیم بنایا تھا اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا ہوا تھا۔ حضور اپنے خدا داد علم و فراست سے اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ الٰہی سلسلوں کے کام کس طرح مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں۔ نیکیوں کا تسلسل نسلاً بعد نسل ٍکیسے قائم رکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے ابتدائی دورِ خلافت میں ہی جماعت کو ہر پہلو سے منظم و مستحکم کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی اور قوموں کی ترقی اور تنزل کے اسباب پر آپ کی گہری نظر تھی اور آپ ایسے تمام ذرائع اختیار کرنا چاہتے تھے جو جماعت کے لیے رخنوں سے پاک اور ہمیشہ قائم رہنے والی سچی اور فعال زندگی کے ضامن ہو سکیں۔ نظام جماعت کی تشکیل کے سلسلہ میں آپ نے جو ذرائع اختیار کیے اور جو جو تدابیر سوچیں وہ نہایت اعلیٰ اور فطرت انسانی کے عین مطابق تھیں۔ آپ نے اپنے خداداد فہم و فراست سے جو نظام قائم فرمایا وہ آج نظام جماعت احمدیہ کی شکل میں مستحکم اور مضبوط نظام ہے جو دنیا کے سامنے ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس عظیم نظام کا مرکزی نقطہ تو خلافت ہے جو ایک دل کی طرح جماعت احمدیہ کے سینہ میں دھڑک رہا ہے اور جماعت احمدیہ کے نظام میں خلیفۃ المسیح کو وہی حیثیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں دل کو ہوتی ہے اور ایک دوسرے پہلو سے اس کی مثال دماغ کی سی ہے باقی تمام نظام سلسلہ ان ہی دو مرکزی قوتوں سے متحرک رہتا ہے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔

حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے اسی راہ نما اصول کی روشنی میں تمام نظام جماعت کی تشکیل فرمائی اور یہ سلسلہ ہمیشہ آپ کی راہ نمائی میں ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ آپ کا طریق یہ تھا کہ جب بھی ذہن میں کوئی انتظامی تدبیر آتی تو آپ اس کے مماثل پرنظر دوڑاتے اور دنیا میں رائج دیگر نظاموں کی خوبیوں اور خامیوں کا مطالعہ کرتے پھر جا کر کوئی ٹھوس قدم اُٹھاتے۔ اس سلسلہ میں آپ کے ذاتی معالج ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے۔ فرماتے ہیں:

’’ ایک مرتبہ حضور نے مجھے یاد فرمایا اور بتایا کہ آپ نظام جماعت میں اصلاحی تبدیلیاں کرنے پر غور فرما رہے ہیں۔ لہٰذا چاہتے ہیں کہ انسانی جسم کے نظام کا مطالعہ کریں کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو ایک کامل نظام کی شکل میں پیدا کیا ہے اور اس کے مطالعہ سے بہت سی مفید رہنمائی حاصل ہو سکے گی۔ ‘‘

چنانچہ آپ نے اناٹومی، فزیولوجی وغیرہ کی مختلف کتب حاصل کر کے ان کا مطالعہ فرمایا اور بہت سے مفید نتائج اخذ کیے۔ غالباً اسی تحقیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے ایک مرتبہ فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نظام جسم میں ہنگامی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بکثرت متبادل رستے تجویز کر رکھے ہیں۔ مثلاً اگر ایک شریان بند ہو جائے تو اس کی جگہ دوسری شریان نیا راستہ مہیا کر دیتی ہے۔ لہٰذا انسان کو کسی نظام کی تشکیل کے وقت اس راہنما اصول کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ اسی طرح آپ کی تقاریر میں بھی بکثرت ایسے حوالے ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے نظام سلسلہ کی تشکیل کے وقت نہ صرف تاریخ عالم کا گہرا مطالعہ فرمایا بلکہ دنیا میں رائج سیاسی نظاموں پر بھی نظر ڈالی۔

جیسا کہ خاکسار نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ نظام سلسلہ کا مرکزی نقطہ جس کے گرد تمام نظام گردش کر رہا ہے وہ نظام خلافت ہے۔ خلافت کے تابع جو نظام جماعت میں رائج ہے اس کے بارے میں اختصار کے ساتھ ذکر کرنا یہاںمقصود ہے۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے ساری دنیا کی احمدی جماعتوں کا ایک نظام اس رنگ میں قائم فرمایا کہ بڑی جماعتوں میں امراء کو مقرر فرمایا چھوٹی جماعتوں میں پریذیڈنٹ اور مختلف شعبے قائم فرمائے اور ہر شعبہ کے سیکرٹری مقرر فرمائے۔ اسی طرح ایک وسیع جال جماعتی نظام کا حضور نے قائم فرمایا اور تمام جماعتوں کو ایک مضبوط Network میں اس طرح پرو دیا کہ مرکز خلافت سے اٹھنے والی ہر آواز نہایت سرعت کے ساتھ تمام جماعتوں میں گونجنے لگتی ہے جس کے نتیجہ میں جماعت برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی شاہ راہ پرگا مزن ہونے لگی۔

حضوؓر فرماتے ہیں:’’ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا نظام ہے۔ اس لئے ایک جگہ سے جو آواز اٹھتی ہے وہی پشاور سے لے کر آسام تک اور منصوری سے لے کر راس کماری تک ہر جگہ سے بلند ہوتی ہے۔ اور سارے ملک میں شور بپا ہو جاتا ہے۔ ایسا نظام اگر انسان خود پیدا کرنے کی کوشش کریں توسینکڑوں سالوں میں بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مامور بھیج کرہم پر احسان کیا کہ ایسا زبردست نظام منٹوں میں پیدا کر دیا اور جو کام کروڑوں مسلمان سالہا سال میں نہیں کر سکتے تھے وہ خدا کے فضل سے ہم نے کئے ہیں۔‘‘ (الفضل 16؍ اکتوبر 1928ء)

اب میں جماعت میں قائم مختلف انجمنوں اور اداروں کا ذکر کرتا ہوں۔

صدر انجمن احمدیہ

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے الہام کی روشنی میں جس انجمن کی تشکیل فرمائی تھی اور اس کا نام حضور علیہ السلام نے ’’ مجلس کارپرداز مصالح قبرستان‘‘ رکھا تھا۔ بعدازاں بعض اصحاب کے مشورہ سے حضور نے انجمن احمدیہ کے نام سے ایک ادارہ کی منظوری دے دی اور حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کو اس کا صدر مقرر فرمایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جب خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو حضور نے جماعتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی توسیع فرمائی اور مختلف شعبہ جات قائم فرمائے۔

صدر انجمن دراصل نظام خلافت کا ایک اہم ترین جزو ہے جو خلیفہ وقت کے تابع دربار خلافت سے صادر ہونے والے احکامات وارشادات کی تعمیل کرتے ہوئے دنیا کی اصلاح اورتعلیم و تربیت کے لیے مؤثر قدم اٹھاتی ہے۔ یہ کام کئی شعبوں میں منقسم ہے۔ گویا صاف و شفاف نہروں کی طرح باغ احمد کی جنت کے گھنے سایہ تلے بہ رہی ہیں خلافت احمدیہ کی ہدایت اور نگرانی کے تحت شریعت ِ اسلامیہ کے روحانی پانی کو سمیٹے ہوئے تشنہ روحوں کی سیرابی میں ہمہ تن مصروف ہے۔

تحریک جدید انجمن احمدیہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید انجمن احمدیہ کے نام سے ایک عظیم الشان نظام جاری فرمایا۔ 1934ء میں قائم ہونے والی یہ تحریک آج ساری دنیا میں ہزاروں فدائیان اسلام کی قربانیاں لیے ہوئے جاری و ساری ہے۔ یہ عالمگیر آبی نظام، خلافتِ احمدیت کا ایک عظیم شاہکار ہے جو دنیا کے ہر ایک براعظم کو سیراب کرتا چلا جا رہا ہے اور اس کی شاخیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ تاریک براعظم افریقہ کے صحرائوں اور جنگلوں کو بھی سبزہ زاروں میں تبدیل کر رہا ہے اور آج اسی نظام کی برکت ہے کہ یورپ کی روحانی ویرانیوں میں اور افریقہ کے بیابانوں میں بھی اسلام کے شاداب پودے لہلہا رہے ہیں۔

اس عظیم الشان تحریک کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ یاد رکھو! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کی فتح کی بنیاد، احمدیت کے غلبہ کی بنیاد محمد رسول اللہ ﷺکے نام کو دوبارہ زندہ کرنے کی بنیاد روز ازل سے تحریک جدید کے ذریعہ قرار دی گئی ہے۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1938ء)

قضا اور نظارتوں کا نظام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں سلسلہ کے مالی امور کی نگرانی کے لیے ایک انجمن قائم فرمائی تھی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس انجمن کی افادیت کو بڑھانے کے لیے مختلف نظارتوں کو قائم فرمایا اور یہ ہدایت نامہ جاری فرمایا:

’’ تمام احباب جماعت کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ ضروریات سلسلہ کو پورا کرنے کے لئے قادیان اور بیرونی جماعت کے احباب سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے یہ انتظام کیا ہے کہ سلسلہ کے مختلف کاموں کو سر انجام دینے کے لئے چند افسران مقرر کئے جائیں۔ جن کا فرض ہو کہ وہ حسب موقعہ اپنے متعلقہ کاموں کو پورا کرتے رہیں اور جماعت کی تمام ضروریات کو پورا کرنے میںشاں رہیں۔ فی الحال میں نے اس غرض کے لئے ایک ناظر اعلیٰ، ایک ناظر تالیف واشاعت ایک ناظر تعلیم وتربیت ایک ناظر امور عامہ اور ایک ناظر بیت المال مقرر کیا ہے… ان کے علاوہ جماعت کی ضروریات افتا اور قضا کو مد نظر رکھ کر افتاء کے لئے مولوی سید سرور شاہ صاحب، مکرمی مولوی محمد اسماعیل صاحب اور مکرمی حافظ روشن علی صاحب اور قضاء کے لئے مکرم قاضی امیر حسین صاحب، مکرمی مولوی فضل الدین صاحب اور مکرمی میر محمد اسحاق صاحب کو مقرر کیا ہے۔ …میں اُمید کرتا ہوں کہ احباب ان لوگوں کے کام میں پوری اعانت کریں گے۔ اور سلسلہ کی کسی خدمت سے دریغ نہ کریں گے… سلسلہ کے استحکام کے لئے مجھے یقین ہے کہ سب احباب اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کریں گے اور ہر طرح ان کارکنوں کا ہاتھ بٹاکر ثواب کے مستحق ہوں گے اور ان کی تحریرات کو میری تحریرات سمجھیں گے۔ ‘‘(سوانح فضل عمرجلد2صفحہ 130-131)

محکمہ قضا کا قیام

اس محکمہ کا قیام حضرت مصلح الموعود رضی اللہ عنہ کا ایک ایسا عالمی نشان اور مدبرانہ کارنامہ ہے جس سے سلسلہ کا ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے اور بہت ساقیمتی وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔ عائلی مسائل اس محکمے کے ذریعہ حل کیے جاتے ہیں۔ حضور رضی اللہ عنہ کے اس شاندار کارنامہ کے دور رس اثرات مالی، اخلاقی، تمدنی اور معاشرتی لحاظ سے دکھائی دے رہے ہیں۔

قضا کے اس نظام کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کی جانب سے مسلمانوں سے یہ دریافت کیا گیا کہ وہ رواج چاہتے ہیں یا شریعت؟ علماء نے عام طور پر رواج کا مطالبہ کیا۔ مگر حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے احمدیوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ یہ لکھوائیں۔

’’ ہم احمدی ہیں اور شریعت کے تابع ہیں اور ہمارا عمل درآمد شریعت اسلام پر ہے۔ ‘‘ (الحکم خلافت جوبلی نمبر)

شوریٰ کانظام

اگرچہ مجلس شوریٰ کا نظام سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے ہی جماعت میں رائج تھا لیکن مشاورت کا سالانہ انعقاد کا سلسلہ جاری نہیں کیا گیا تھا۔ خلافت ثانیہ میں بھی ایسی مجالس حسب ضرورت بلائی جاتی تھیں۔ 1922ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ باقاعدہ سالانہ مشاورت کا نظام قائم فرمایا۔ مجلسِ مشاورت کے اس باقاعدہ نظام کے اجرا کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ مجلس شوریٰ کا جو نظام جماعت میں اس طریق پر رائج ہے جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں اور اس کا آغاز دراصل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1922ء میں کیا۔ 1922ء میںپہلی بار باقاعدہ ایک Institution کے طور پر مجلسِ شوریٰ وجود میں آئی اور بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ بحیثیت Institution اس کا وجود میں آنا انتہائی ضروری تھا کیونکہ مالی معاملات ایسی نوعیت اختیار کر رہے تھے کہ جس کے نتیجے میں محض اتفاقاً کبھی اس سے مشورہ کر لینا کافی نہیں تھا بلکہ ساری جماعت کو جو چندہ دہندہ ہے اس کو اعتماد میں لینا اور ان امور پر فیصلوں میں ان کےمشورہ طلب کرنا ضروری تھا اور یہی مجلسِ شوریٰ ہے جو اب برکت پاکر پھولتی پھلتی رہی اور اب خدا کے فضل سے بہت سے دنیا کے ممالک میں بعینہٖ اسی مجلس شوریٰ کے نمونے قائم ہوچکے ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ 31 مارچ 1995ء)

قارئین کرام !جماعتِ احمدیہ کی مجلس شوریٰ اپنے تنظیمی ڈھانچے اور طریق کار کے لحاظ سے دنیا کی دوسری مجالس سے مختلف ہے اور اس کی فضااور ماحول بھی دنیا دارانہ مجالس سے جدا گانہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قومیں ایک دن میں نہیں بنا کرتیں! بلکہ قومی تربیت سالہا سال کی مسلسل عرق ریزی اور بھر پور نگرانی کی محتاج ہوتی ہیں مجلس مشاورت کو موجودہ شکل میں قائم کرنے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محنت اور عرق ریزی سالہا سال کی تدبیر اور پر خلوص دعائوں کا بڑا دخل ہے۔ اس نظام کے گوشہ گوشہ پر جسے ہم آج دیکھ رہے ہیں حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے کردار اور شخصیت کی چھاپ ہے اور یہ پاکیزہ ماحول جو آج ہمیں نظر آرہا ہے، اس کا ہر منظر آپؓ کی یاددلوں میں تازہ کر دیتا ہے۔

وقفِ جدید

وقفِ جدید انجمن بھی باغِ احمد علیہ السلام کی سیرابی کا ایک نظام ہے۔حضرت المصلح الموعود ؓنے دیہاتی جماعتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے سن 1957ء میں یہ نظام جاری فرمایا اور نہایت مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر اِسے قائم فرمایا اور اس کی اہمیت کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی کہ

’’یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اِس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں، کپڑے بیچنے پڑیںمیں اِس فرض کو تب بھی پورا کروں گا … میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اُتارے گا۔‘‘( مجموعہ خطبات وقفِ جدید صفحہ 6)

الغرض یہ تحریک بھی سیدنا حضرت مصلح الموعود ؓ کے عظیم کارناموں میں شامل ہے۔ اِس کے ذریعہ بھی نظامِ جماعت کو غیر معمولی استحکام نصیب ہوا۔

نظام الوصیت

جیسا کہ احباب جانتے ہیں کہ نظام خلافت اور نظامِ وصیت کا باہم گہرا تعلق ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں قدرتِ ثانیہ کے ظہور کی خوش خبری سُنائی۔ اُس کے ساتھ ہی نظام وصیّت سے بھی متعارف کروایا۔ سیدنا حضرت المصلح الموعود ؓاپنے عہدِ خلافت میں، اپنے خطابات اور خطبات کے ذریعہ اِ س نظام کی اہمیت واضح فرماتے رہے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا:’’ وصیّت کا معاملہ نہایت اہمیت والامعاملہ ہے؛ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِسے ایسی خصوصیت بخشی ہے اور اللہ تعالیٰ کے خاص الہامات کے ماتحت اِسے قائم کیا ہے۔ کوئی مومن اِس کی اہمیت اور عظمت کا انکار نہیں کر سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قائم کردہ سارا نظام ہی آسمانی اور خُدائی ہے اور الہامی نظام ہے مگروصیّت کا نظام ایسا نظام ہے جسے خُدا تعالیٰ کے خاص الہام کے ماتحت قائم کیا گیا ہے۔ باقی امور ایسے ہیں جو عام الہام کے تحت قائم کئے گئے مگر وصیّت کا مسئلہ ایسا ہے جو خاص الہام کے ماتحت قائم کیا گیا تھا اور وصیّت کا مسئلہ دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا ایک عملی ثبوت ہے۔‘‘ (الفضل 5؍اکتوبر 1966ء)

پھر فرماتے ہیں:’’ وصیّت حاوی ہے اس تمام نظام پر جو اِسلام نے قائم کیا ہے… جب وصیّت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فردبشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دکھ اور تنگی کو دُنیا سے مٹا دیا جائےگا انشاء اللہ۔ یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی بے سامان پریشان نہ پھرے گا کیونکہ وصیّت بچوں کی ماں ہوگی، جوانوں کی باپ ہوگی، عورتوں کا سہاگ ہوگی اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کےذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا۔ نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب۔ نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دُنیا پر وسیع ہوگا۔‘‘

’’پس اے دوستو! دُنیا کا نیا نظام نہ مسٹر چرچل بنا سکتے ہیں نہ مسٹر روزویلٹ بنا سکتے ہیں۔ یہ اٹلانٹک چارٹر کے دعوے سب ڈھکوسلے ہیں اور اس میں کئی نقائص کئی عیوب اور کئی خامیاں ہیں۔ نئے نظام وہی لاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا مبعوث کئے جاتے ہیں جن کے دلوں میں نہ امیر کی دشمنی ہوتی ہے نہ غریب کی بےجامحبت ہوتی ہے، جو نہ مشرقی ہوتے ہیں نہ مغربی۔ وہ خدا تعالیٰ کے پیغامبر ہوتے ہیں اور وہی تعلیم پیش کرتے ہیں جو امن قائم کرنے کا حقیقی ذریعہ ہوتی ہے۔ پس آج وہی تعلیم امن قائم کرے گی جو حضرت مسیح موعوؑد کے ذریعہ آئی ہے اور جس کی بنیاد الوصیّت کے ذریعہ 1905ء میں رکھ دی گئی ہے۔ ‘‘(نظام نو صفحہ119-120)

ذیلی تنظیموں کا قیام

استحکام نظام کے سلسلے میں حضور ؓنے جو نہایت مؤثر اقدام فرمایا وہ یہ ہے کہ ذیلی تنظیموں کا قیام کرکے ہر فردِ جماعت کو عُمر کے لحاظ سے مختلف تنظیموں سے وابستہ کیا۔

سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ نے مسندِ خلافت پر متمکن ہوتے ہی اِس ضرورت کو محسوس کیا کہ جماعت کی ترقی کا انحصار عورتوں کی صحیح تعلیم و تربیت پر ہے۔ چنانچہ اِس اہم مقصد کی تکمیل کے لیے 25؍دسمبر1922ء میں حضور نے’’لجنہ اماء اللہ‘‘ کے نام سے عورتوں کی عالمگیر تنظیم کی بنیاد رکھی جو عورتوں کو نظامِ خلافت سے وابستہ کرنے، اِسلامی تعلیمی کو عورتوں میں رائج اور راسخ کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے اور اسلامی اقدار کے مطابق اچھی مائیں پیدا کرنے کے سلسلے میں عظیم قومی خدمت میں مصروف ہے۔

اِسی طرح نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اور انہیں نظامِ جماعت کا فعال حصّہ بنانے کے لیے حضورؓ نے 1938ء میں ایک تنظیم ’’ خدام الاحمدیہ ‘‘ قائم فرمائی۔ اِس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ

’’میری غرض اِس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اُسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اِسی طرح نسلاً بعد نسلٍ دِلوں میں دفن ہوتی چلی جائے۔ آج وہ ہمارے دِلوں میں دفن ہے۔ تو کل وہ ہماری اولاد کے دلوں میں دفن ہو۔ اور پرسوں اُن کی اولاد کے دِلوں میں یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے۔ ہمارے دِلوں کے ساتھ چمٹ جائے۔ اور ایسی صورت اختیار کرلے جو دُنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو۔ ‘‘ (الفضل 17؍فروری1939ء)

حضور رضی اللہ عنہ نے اِن مقاصد کے حصول کے لیے خدام الاحمدیہ کو مختلف شعبوں میں تقسیم فرمایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج یہ تنظیم ساری دُنیا میں جماعتی تعلیم و تربیت میں مؤثر کردار نبھارہی ہے اور قیامِ جماعت کے مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔

لجنہ اماء اللہ، خدام الاحمدیہ کی تنظیمیںقائم کرنے کے بعد حضور رضی اللہ عنہ نے اگست 1940ء میں ’’ انصار اللہ ‘‘ کی تنظیم قائم فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تنظیم بھی نہایت سرگرمی سے مصروفِ عمل ہے۔ حضور اِس سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ اِسی نظام کی دوکڑیاں ہیں اور اِن کو اِسی لئے قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ نِظام کو بیدار رکھنے کا باعث ہوں۔… اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کے قائمقام ہیںعوام کو بیدار کرتی رہیں۔ اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ، اور لجنہ اماء اللہ جو عوام کے قائمقام ہیں، نظام کو بیدار کرتے رہیں۔ تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کسی وقت جماعت کُلّی طور پر گِر جائے۔ اور اُس کا قدم ترقی کی طرف اُٹھنے سے رُک جائے…‘‘ (الفضل 17؍نومبر 1943ء)

مزید فرماتے ہیں کہ ’’میری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو مکمل کر دوں ۔ایک دیوار انصار اللہ ہیں دوسری دیوار خدام الاحمدیہ ہیں اور تیسری دیوار اطفال الاحمدیہ،ہیں۔اور چوتھی دیوار لجنات اماء اللہ ہیں۔ اگر یہ چارو ں دیواریں ایک دُوسری سے علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکے گی۔‘‘(الفضل30؍جولائی1945ء)

الغرض سیدنا حضرت المصلح الموعود ؓنے نہایت حسن و خوبی کے ساتھ خلافت کے تابع ان تمام نظاموں کو اس طرح مستحکم کیا کہ اس قدر تعددیت اور تنوع کے باوجود تمام تنظیمیں بلا روک ٹوک اپنے اپنے دائرہ میں مصروف عمل ہیں۔باہمی تصادم کا کوئی خطرہ نہیں۔ جملہ افراد جماعت کو نظام جماعت کے مرکز یعنی خلیفہ وقت کے ساتھ جو غیر منقطع رشتہ ہے وہ در اصل خلیفہ وقت کے اندر خدا تعالیٰ کی طرف سے ودیت کردہ قوت کشش اور احباب جماعت کے دلوں میں پائی جانے والی روح اطاعت ہے۔جب تک یہ دو طرفہ تعلق قائم رہے گا ہمارے نظام میں کوئی رخنہ نہیں ہوگا۔ان شاء اللہ

جماعت احمدیہ کے مستحکم نظام کے بارے میں ایک معاند کا تبصرہ سنیئے۔ الفضل ما شھدت بہ الاعداء فضلیت وہی ہے جس کی دشمن بھی گواہی دے۔ چنانچہ ایک متعصب جرید ہ پیسہ ا خبار کا اقتباس ہے۔

’’جماعت احمدیہ کی کامیابی اس کے اعمال کی صداقت کی وجہ سے ہے۔ جہاں تک ولولہ اور جوش اور ایثار اور فدائیت اور اطاعت و تنظیم کا تعلق ہے عیسائیوں کی جماعت، جماعت احمدیہ کے گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی اور جماعت کا نظام ایک مضبوط سے مضبوط گورنمنٹ کے نظام کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس کے ہر شعبہ میں اس قدر باقاعدگی اور ضابطہ داری اور اصول پرستی ہے جس قدر کہ منظم گورنمنٹ کے مختلف محکموںمیں ہوا کرتی ہے۔ لجنہ اماء اللہ کی کارگذاریاں جس قدر اخبارات میں چھپ رہی ہیں اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پر جوش ہوں گی اور احمدی عورتیں اس چمن کو ہمیشہ تازہ دم رکھیں گی۔ (پیسہ اخبار 11؍نومبر 1922ء)

جماعت کی ابتدائی حالت اور آہستہ آہستہ پیدا ہونے والی روحانی و جسمانی تبدیلی کی عظمت و شان بیان کرتے ہوئے حضورؓ فر ماتے ہیں:’’…جس طرح آج بینک آف انگلینڈ میں ذرا سی کمزوری پیدا ہونے سے حکومتیں بدل جاتی ہیں۔وزارتیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ایکسچینج میں تغیر ہوجاتاہے۔ ایک وقت آئے گا کہ اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ تغیرات ہوںگے۔ جب سلسلہ احمدیہ کے بیت المال میںکسی قسم کا تغیر رونماہوگا۔بینک آف انگلینڈ کا اثر توصرف ایک ملک پر ہے لیکن یہ دنیا کی ساری حکومتوں پر اثر انداز ہوگا۔ اور اس وقت یہاں کے کارکنوں کا دنیوی معیار بھی اس قدر بلند ہوگا۔ کہ حکومتوں کی وزارتوں کی ان کے سامنے کچھ حقیقت نہیں۔ یہ چیزیں ایک ایسے مستقبل کو پیش کر رہی ہیں جسے مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے احباب کی خدمات کی قیمت کا اندازہ کر نا چاہئے۔در اصل ان کی خدمات کی قیمت وہ چند روپے نہیں جو بطور مشاہرہ دیئے جاتے ہیں بلکہ جماعت کا آئندہ شاندار مستقبل ہے۔اور اس کا اندازہ خدا تعالیٰ ہی لگا سکتا ہے۔بندہ نہیں لگا سکتا۔ اور جب یہ وقت آیا اس وقت ان کی خدمات کا اندازہ ہو سکے گا۔ اور ان میں سے ہر ایک کام کرنے والا خواہ وہ چپراسی ہو یا ناظر! الا ما شاء اللہ اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر میں حصہ لے رہا ہے…‘‘ (الفضل 22؍مئی 1932ء)

الغرض نظام جماعت کے استحکام اور اس کی ترویج میں حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کا کردار ناقابل فراموش ہے۔

’’اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ

ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے‘‘

(آمین)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button