متفرق مضامین

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں برکاتِ خلافت (قسط اوّل)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا جب تک خلافت نہ ہو۔ ہمیشہ اسلام نے خلفاء کے ذریعہ ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا

نبی کا کام تخم ریزی ہوتا ہے اورجب وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے مطابق یہ کام کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے اپنے پاس بلالیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ جماعت مومنین میںاپنے ہاتھ سے خلافت کا نظام جاری فرماتاہے۔ گویا نبوت وخلافت لازم وملزوم ہیںجبکہ خلافت نبوت کی ظل کامل ہوتی ہے۔جس کے ذریعہ آفتابِ نبوت کا پورا پورا عکس اس ماہتابِ خلافت میں نظر آتاہے۔ نظام خلافت کے ذریعہ جماعتِ مومنین کے خوف کو امن میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ دین کو ترقی ، استحکام اور تمکنت عطا ہوتی ہے۔ برکات خلافت درحقیقت برکاتِ نبوت کا تسلسل ہوتا ہے۔ جماعت مومنین ، خلافت کے انعام اور اُس کی برکات کی اُس وقت تک اہل رہتی ہے جب تک اُس کا ایمان حقیقی ایمان ہواور وہ صالح اعمال بجالارہی ہو۔ خلافت کے ذریعہ جو فیوض وبرکات خلافت پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہیں اُن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورت نور کی آیت استخلاف میں خوب کھول کر بیان فرمادیا ہے۔ اس آیت کریمہ کی رُو سے عطا ہونے والی تائیدات اور برکات خداوندی کا کچھ ذکر درج ذیل ہے۔

وعدہ ٔالٰہی اور اُس کا ظہور

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّھُمۡ فِی الۡاَرۡضِ (النور:56)

کہ حقیقی ایمان رکھنے والوں اور صالح اعمال بجالانے والوں سے وہ خلافت کا وعدہ کرتا ہے۔ وعدۂ خلافت کا یہ فعل اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ لہٰذا اس وعدے کے ایفاکی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ یہ ایک اصولی امرہے کہ جو وعدہ کرتا ہے اُس کا ایفا بھی اُسی کے ذمہ ہوتا ہے۔ انسان ضعیف البنیان اگر کوئی وعدہ کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ اُس کا ایفا بھی کرسکے۔ کیونکہ اُس کے اندر ہزار ہا ایسی کمزوریاں ہیں جن کے ہوتے ہوئے وہ اپنے کیے گئے ہر وعدے کو پورا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا۔مثلاً موت فوت کا لازمہ جو یقینی طور پر ہر انسان کے شامل حال ہے وہی اُس کے کیے ہوئے وعدے کی وفا میں روک بن سکتا ہے۔ لیکن ہمارا خالق ومالک حیّ وقیوّم ہے اُس کی تمام قوتیں، طاقتیں اور ارادے لازوال ہیں۔اُس کی شان عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیۡرہے۔ وہ اپنے ہر عزم اور ارادے کو جب چاہے پورا کرنے کی دائمی قدرت رکھتا ہے۔اور اُس کی اسی قدرت نمائی سے اُس کے خدائی اور اُس کے وجود کا ثبوت ملتاہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہیں کے ہاتھ سے کردیتا ہے لیکن پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں اُن کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتاہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کرچکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔ ‘‘(رسالہ الوصیت ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 304)

قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت

اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ مَیں ضرور

ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

انعام خلافت عطا کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے لَیَسۡتَخۡلِفَنَّھُمۡ کے جو الفاظ رکھے ہیں اُن میں بھی اُس نے اپنی کامل قدرت اور اپنے کامل اختیار واقتدار کا پورے زور اور قوت سے اظہار واعلان فرمایا ہے۔ اور حقیقی ایمان کے حامل مومنوں کو یقین کامل دلایا ہے کہ اگر وہ ایمان کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے صالح اعمال بجالائیں گے تو میں ضرور بالضرور اُن میں خلافت قائم کردوں گا۔ عین اُسی طرح جس طرح انبیاءِ سابقین کے زمانوں میں اورپھر سیدالمرسلین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے مبارک دَور کےبعد اُس نے یہ وعدہ ٔ خلافت راشدہ پورا کرکے دکھایا۔دَور آخرین میں مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ایک بار پھر اُس جلیل وقدیر نے اپنی قدرت کا یہ جلوہ پوری شان سے دکھایا۔پس اس نعمت عظمیٰ کے عطا ہونے پر جہاں خدا تعالیٰ کا بے حدشکر ادا کرنا چاہیے،وہیں اس انعام کے فیوض وبرکات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ خود بھی اطاعت کے اعلیٰ نمونے قائم کیے جائیںنیز اپنے گھروالوں اور اپنے زیر اثر افراد کو بھی خلافت کی اہمیت وبرکات سے آگاہ کرتے رہیں تاکہ یہ فیض ہماری نسلوں پر محیط ہوجائے۔ اس ضمن میںنبی کریمﷺ کا درج ذیل ارشاد بہت توجہ اور عمل کے لائق ہے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں:

فَعَلَیۡکُمۡ بِسُنَّتِیۡ وَسُنَّۃِ الۡخُلَفَآءِالرَّاشِدِیۡنَ الۡمَھۡدِیّینَ تَمَسَّکُوۡا بِھَا وَعَضُّوا عَلَیۡھَا بِالنَّوَاجِذِ۔

(سنن ابی داؤد،کتاب السنۃ،باب فِی لُزُوم السُّنّۃِ)یعنی تم پر فرض ہے کہ میری سنت اور خلفا ئے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔ پوری طرح اس کی اتباع کرو اور پختہ طور پر اس پر قائم ہوجاؤ۔

پس خلافت کا وجود سراسر برکت کا موجب ہوتا ہے۔ خلافت کے ساتھ وابستہ برکات سے پوری طرح فیضیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ہر معاملے میں خلافت کی اطاعت کی جائے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر خلافت سے وابستہ کرلیا جائے تاکہ تمام برکات سے متمتع ہوا جاسکے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:’’خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے …سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔ ‘‘(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 353)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اس ارشاد سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خلافت محض ایک انتظامی عہدہ نہیں۔ بلکہ ایک روحانی منصب اور مقام ہے۔ جس پر فائز شخصیت نبی اور رسول کی کامل متبع اور جانشین ہوتی ہے۔وہ نبی کے کمالات،انوار اور فیوض وبرکات کی وارث ہوتی ہے۔ ایسا وجود فنا فی اللہ اور فنا فی الرّسولؐ ہوتا ہے۔ وہ قال اللہ اور قال الرسولؐ پر من وعن عمل کرتا ہے۔ اطاعت باری تعالیٰ اور اطاعت رسولؐ میں مومنین کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ رکھتا ہے۔ اُس کے دل میں غیرت توحید اس قدر راسخ ہوتی ہے کہ وہ غیراللہ سے نہ مرعوب ہوتا ہے اور نہ کسی بڑی سے بڑی طاقت کے سامنے اُس کا سر خم ہوتا ہے۔ اعلائے کلمہ ٔحق کی خاطر وہ اپنی تمام خواہشات اور مرضیات کو قربان کردیتاہے۔جب دنیا کے تاجور اور تاجدار اُسے راہِ حق سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ حق کا پہاڑ بن کر اُن کے سامنے ڈٹ جاتا ہے اور اُس کے پائے ثبات میں ایک ذرّہ بھر لغزش نہیں آتی۔وہ ایسا پاک دل، پاک باز اور صدق وصفا کا پیکر ہوتا ہے کہ اُسے دیکھ کر لوگ اپنی گناہ آلود زندگی سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ خدائی تائید اور نصرت ہر قدم پر اُس کے شامل حال ہوتی ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نےایسے صادقوں کا ساتھ دینے اور اُن کا دست و بازو بننے کی تلقین فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوۡا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ۔ (التوبۃ:119)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہوجائو۔

جیساکہ نبی اپنی قوت قدسیہ ، اخلاقی اقدار کے اعلیٰ نمونہ،اپنی دعائوں اور اپنی تبلیغ کے ذریعہ لوگوںکو خدائے واحد کی طرف بلاتا اوراپنے متبعین کی تربیت اس رنگ میں کرتا ہے کہ جس سے وہ خدا رسیدہ وجود بن جائیں۔اسی طرح خلیفۂ وقت بھی اپنے متبعین اور اپنی بیعت کرنے والوں میں تمام اخلاقی اور روحانی اوصاف پیداکرتا ہے۔ اُن میں عبادات کی حقیقی روح پھونکتا ہے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی و غمگساری کا جوہر اُن میں پیداکرتا ہے۔ نبی کی قائم کردہ جماعت ایک طرف خدا اور رسول کی سچی اطاعت کرنے والی ہوتی ہے اور دوسری طرف وہ شمع خلافت کے پروانے بن کر خلافت کے پورے نظام میں شامل ہوتے اور خلیفہ ٔوقت کی جاری کردہ تحریکات پردیوانہ وار عمل کرتے ہوئے شب وروز محنت وجانفشانی سے کام لیتے ہیں۔ خلیفہ ٔوقت کو اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ مومنوں کے دل اس کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ مومنوں کو خلیفۂ وقت میں نبی کا عکس نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ اس کے ادنیٰ اشارہ پر تن من دھن قربان کرنے کے لیے ہردم تیار رہتے ہیں۔ پس ہماری تمام کامیابیوں ،کامرانیوں اور دینی ودنیوی ترقیات کا راز خلیفۂ وقت کے ساتھ غیر مشروط تعلق میں پنہاں ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا پیارا خدا ہم سے راضی ہواور اُس کے پیار کی پیار بھری نگاہیں ہمارے اوپر پڑیں تو اس کے لیے خلیفۂ وقت سے اپنا تعلق مضبوط کرنا ہوگا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا جب تک خلافت نہ ہو۔ ہمیشہ اسلام نے خلفاء کے ذریعہ ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا۔‘‘(درس القرآن فرمودہ یکم مارچ 1921صفحہ 72مطبوعہ نومبر 1921ء)

زندہ قوموں میں کچھ ایسی علامتیں پائی جاتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے اندر زندگی کی روح موجود ہے۔پس جس قوم کے اندر ترقی کرنے کا جذبہ اور اُمنگ موجود ہو،جس قوم کے اندر اپنی اصلاح اور جماعتی ترقی کا عزم پایا جاتا ہو، جس قوم کے اندر اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے کا احساس جاگزیں ہو،جس قوم کے اندر جماعتی نظام کو مضبوط کرنے کے جذبے جوان ہوں اور سب سے بڑھ کر جو قوم ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو تو ان علامتوں کو دیکھتے ہوئے سمجھا جاسکتا ہے کہ اس قوم کے اندر قومی زندگی کو برقرار رکھنے کی علامتیں موجود ہیں اور وہ دنیا میں ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر دنیا کے پردے پر نظر دوڑائی جائے تو جماعت احمدیہ ہی وہ واحد جماعت ہے جو ان تمام علامتوں کے ساتھ ساتھ خلافت کی برکت سے موتیوں کی ایک خوبصورت لڑی میں پروئی ہوئی ہے۔ اتحاد اور اجتماعیت کی برکت سے وہ دنیا میں خدمت دین اور خدمت انسانیت کے ایسے عظیم الشان کام کررہی ہے جن سے بڑی بڑی حکومتیں اور ادارے محروم ہیں۔

قرآن کریم نے ایمان لانے والوں کو اسی اتحاد اور یکجہتی کی طرف بلایا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:

وَتَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰی(المائدۃ:3)

اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خلافت کی اسی برکت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’دیکھو !ہم ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کررہے ہیں مگر تم نے کبھی غور کیا کہ یہ تبلیغ کس طرح ہو رہی ہے ؟ یہ تبلیغ محض خلافت کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ ایک مرکز ہے جس کے ماتحت وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں اسلام کا درد ہے اکٹھے ہوگئے ہیں اور اجتماعی طور پر اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ وہ بظاہر چند افراد نظر آتے ہیں مگر ان میں ایسی قوت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ بڑے بڑے اہم کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ جس طرح آسمان سے پانی قطروں کی صورت میں گرتا ہے پھر وہی قطرے دھاریں بن جاتی ہیں اور وہی دھاریں ایک بہنے والے دریاکی شکل اختیار کرلیتی ہیں اِسی طرح ہمیں زیادہ سے زیادہ قوت اور شوکت حاصل ہوتی چلی جاتی ہے …اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خلافت کی نعمت عطا کی ہے …اس خلافت نے تھوڑے سے احمدیوں کو بھی جمع کرکے انہیں ایسی طاقت بخش دی ہے جو منفردانہ طور پر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍مارچ 1951ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 32صفحہ 23تا24)

پس خلافت کی برکت سے احباب جماعت روحانی اخوت ومحبت کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔خلیفہ ٔوقت اپنی دعائوں ، قوّتِ قدسیہ اور شفقت ومحبت سے اُن کے دلوں کو ایک دوسرے کی محبت سے لبریز کردیتا ہے۔اُس کا وجود جماعتِ مومنین کی آرزوئوں ، تمنائوں اور امیدوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ وہ ایک خاندان کی طرح ،ایک برادری بن کر نئی زندگی گزارنے والے ہوتے ہیں۔ خلافت کی برکت اور اُس کی دعائوں کے طفیل وہ ایک دوسرے کے ہمدرد ، خیر خواہ، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے والے اور ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرنے والے ہوتے ہیں۔ اُن کے دل ایک ساتھ دھڑکتے اور ان کی نبضیں ایک ساتھ چلتی ہیں۔جس کی مثال عام دنیوی تعلّقات اور رشتوں میں نہیں ملتی۔ خلافت کا وجود اُن کی امیدوں کا مرکزو محور ہوتا ہے۔ جس کے ہر پیغام اور حکم کو بجالانا وہ اپنی سعادتِ دارین سمجھتے ہیں۔ گویا وہ اُس کے غلام بے دام بن جاتے ہیں اور اُس کے ایک ادنیٰ اشارے پر ہروقت تن من دھن قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ خلیفۂ وقت کی تربیت کے نتیجے میں اُن کی ایسی کایا پلٹ جاتی ہے کہ وہ ’’جان و مال و آبرو حاضر ہیں تیری راہ میں‘‘کے نعرۂ مستانہ کی حقیقی تصویر بن جاتے ہیں۔ہماراتجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ انفرادی طور پر بھی جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام یعنی خلافت سے پورے طور پر استفادہ کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں صالحین کے گروہ میں شامل کرکے انہیں روحانی طور پر بلند کردیااور ان کی اولاد میں بھی اس فیض اور مقبول خدمت دین کے انعام کو منتقل کردیا۔تاریخ احمدیت ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔پس جو انسان خلافت حقہ کے ساتھ پختہ تعلق قائم کرتا ہے۔ایسا انسان ملائکہ سے فیض پاتاہے اور انوارِ الہٰیہ کا مہبط بنا دیا جاتا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ملائکہ سے فیوض حاصل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء سے مخلصانہ تعلق قائم رکھا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے چنانچہ …طالوت کے انتخاب میں خدائی ہاتھ کا ثبوت یہی پیش کیا گیا ہے کہ تمہیں خداتعالیٰ کی طرف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نزول ہو گا۔اور خدا تعالیٰ کے ملائکہ اُن دلوں کو اُٹھائے ہوئے ہوں گے۔گویا طالوت کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے نتیجہ میں تم میں ایک تغیر عظیم واقع ہوجائے گا۔تمہاری ہمتیں بلند ہو جائیں گی۔تمہارے ایمان اور یقین میں اضافہ ہو جائے گا۔ملائکہ تمہاری تائید میں کھڑے ہوجائیں گے اور تمہارے دلوں میں استقامت اور قربانی کی روح پھونکتے رہیں گے۔پس سچے خلفاء سے تعلق رکھنا ملائکہ سے تعلق پیدا کر دیتا اور انسان کو انوارِالٰہیہ کا مہبط بنا دیتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ561)

اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو خلافت سے محروم سیاسی و مذہبی جماعتیں اتفاق واتحاد کی دولت سے یکسر محروم اور باہم دست وگریباں ہیںجبکہ اُن کی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔یہی وجہ ہے کہ شدید مخالفین احمدیت بھی اپنی مجالس میں اس بات کابرملا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ سب خلافت کی برکتیں ہیں جس نے جماعت احمدیہ کو ایک ہاتھ پر متحد کررکھا ہے اور وہ ساری دنیا میں اسلام کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔

چنانچہ ایک مرتبہ احراری لیڈر مولوی ظفر علی خاں نے مسجد خیرالدین امرتسر میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’ مرزا محمود کی مخالفت تمہارے فرشتے بھی نہیں کرسکتے۔ مرزا محمود کے ساتھ ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے ایک اشارہ پر اس کے پاؤں میں نچھاور کرنے کو تیار ہے۔ تمہارے پاس کیا ہے گالیاں اور بدزبانی۔ تف ہے تمہاری غداری پر۔ مرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں۔ مختلف علوم کے ماہر ہیں۔ دنیا کے ہر ایک ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے۔‘‘(ایک خطرناک سازش ، صفحہ 195مصنفہ مظہر علی اظہر جنرل سیکرٹری احرار اسلام )

قاہرہ کے شدید مخالف احمدیت اخبار ’’الفتح ‘‘کو بھی لکھنا پڑا کہ’’میں نے بغور دیکھا تو قادیانیوں کی تحریک حیرت انگیز پائی۔ انہوں نے بذریعہ تحریر و تقریر مختلف زبانوں میں اپنی آواز بلند کی ہے۔ اور مشرق و مغرب کی مختلف ممالک و اقوام میں بصرف زر کثیر اپنے دعویٰ کو تقویت پہنچائی ہے۔ ان لوگوں نے اپنی انجمنیں منظم کرکے زبردست حملہ کیا ہے اور ایشیا و یورپ، امریکہ اور افریقہ میں ان کے ایسے تبلیغی مراکز قائم ہو گئے ہیں جو علم و عمل کے لحاظ سے تو عیسائیوں کی انجمنوں کے برابر ہیں لیکن تاثیرات و کامیابی میں عیسائی پادریوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں۔ قادیانی لوگ بہت بڑھ چڑھ کر کامیاب ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس اسلام کی صداقتیں اور پُرحکمت باتیں ہیں۔ جو شخص بھی ان کے حیرت زدہ کارناموں کو دیکھے گا وہ حیران و ششدر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کس طرح اس چھوٹی سی جماعت نے اتنا بڑا جہاد کیا ہے جسے کروڑوں مسلمان نہیں کرسکے۔ صرف وہی ہیں جو اس راہ میں اپنے اموال اور جانیں خرچ کر رہے ہیں۔ اگر دوسرے مدعیان اصلاح اس جہاد کے لئے بلائیں یہاں تک کہ ان کی آوازیں بیٹھ جائیں اور لکھتے لکھتے ان کے قلم شکستہ ہو جائیں تب بھی عالم اسلام میں ان کا دسواں حصہ بھی اکٹھا نہ کرسکیں گے۔ جتنا یہ تھوڑی سی جماعت مال و افراد کے لحاظ سے خرچ کررہی ہے۔‘‘(الفتح 2؍جمادی الثانی 1351ھ)

پس خلافت کی برکات سے پوری طرح متمتع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو پوری طرح خلافت سے وابستہ کرلیا جائے اور زندگی کا ہر معاملہ خلیفہ ٔوقت کے مشورہ سےطے کیا جائے۔ خلیفہ ٔوقت سے دلی وابستگی کے سلسلے میںہمیں آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے :

فَاِنْ رَأَیْتَ یَوْمَئِذً خَلِیْفَۃَ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ فَالْزِمْہُ وَاِنْ نُھِکَ جِسْمُکَ وَاَخْذِ مَالُکَ۔

(مسند احمد بن حنبل حدیث 22333)اگر تم دیکھ لو کہ اللہ کا خلیفہ زمین میں موجود ہے تو اس سے وابستہ ہوجاؤ۔ اگرچہ تمہارا بدن تار تار کردیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے۔

پس واضح ہوا کہ درحقیقت خلافت ہی وہ انمول ہستی ہے جس کے ساتھ وابستگی سے انسان کا دین اور دنیا سنور سکتی ہے۔ اس لیے اس انعا م کے عطا ہونے پر جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہے وہیں ہر حال میں خلافت کے ساتھ چمٹے رہناہی ہماری روحانی زندگی اور ہماری جماعتی بقا کی ضمانت ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نظام خلافت سے وابستگی کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’جس کو خدا اپنی مرضی بتاتا ہے ، جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے ، جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنادیا ہے اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کرکے تم کام کرسکتے ہو۔ اس سے جتنا زیادہ تعلق رکھو گے اُسی قدر تمہارے کاموں میں برکت پیداہوگی اور اُس سے جس قدر دُور رہو گے، اُسی قدر تمہارے کاموں میں بے برکتی پیدا ہوگی۔ جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کرسکتی جو درخت سے جد ا ہو۔ اِسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو، وہ اتنا بھی کام نہیں کرسکے گا جتنا بکری کا بکروٹہ کرسکتا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر 1946ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 27صفحہ 575)

حقیقی ایمان اور صالح اعمال کی شرط

اللہ تعالیٰ نے خلافت کا انعام عطا کرنے کے اورالٰہی وعدہ کے ایفا کے لیے دو شرائط رکھی ہیں۔ پہلی یہ کہ اُس جماعت کا ایمان جس سے وعدہ کیا جارہا ہے، خدا کی نظر میں حقیقی ایمان ہواور پھر اُس کے اعمال بھی اللہ تعالیٰ کی نظر میں صالح اعمال کا درجہ رکھتے ہوں۔جیساکہ فرمایا:

وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوۡاالصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّھُمۡ فِی الۡاَرۡضِ۔(النور:56)

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا۔

پس رسول کریم ﷺ تک یہی ہوتا آیا ہے کہ ان جملہ انبیاء علیہم السلام کے ماننے والے جب تک حقیقی ایمان کی دولت سے مالامال رہے اور اُن کے اعمال جب تک بارگاہِ الٰہی میں مقبول رہے وہ خلافت کے انعام کے مستحق قرار پاتے رہے اور جب یہ دونوں چیزیں نہ رہیں وہ نعمت خلافت سے محروم کردیے جاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا ظہور آج پھراللہ اور رسول ﷺ کے وعدوں کے مطابق مسیح موعود کے بعد خلافت احمدیہ کے قیام کے ذریعے ہوا ہے۔ایک سو سال سے زائد عرصے سے جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کا قائم رہنا اُ س کی اس فعلی شہادت کا ثبوت ہے کہ جماعت احمدیہ کا ایمان خدا کی نظر میں حقیقی ایمان ہے اور من حیث الجماعت اُس کے اعمال بھی خدا کی نظر میں مقبول ہیں۔ اس کے برعکس خلافت سے محروم مسلمان اس انعام سے محرومی کے سبب حسرت ویاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔رسالہ جدو جہد لاہور اپنی ایک اشاعت میں لکھتا ہے:’’سب سے بڑا ظلم جو مسلمانوں نے اپنی خود غرضی سے کیا وہ یہ تھا کہ خلافت علیٰ منہاج نبوت کا سلسلہ ختم کرکے دم لیا اور امت مسلمانوں کو بھیڑ وں کے ریوڑ کی طرح جنگل میں ہانک دیا کہ جائو چرو، چُگو صرف اپنا پیٹ پالو۔ صرف خلافت ہی ایک ایسا منصب تھا جو مسلمانوں کو منتشر ہونے کی بجائے ایک مرکز پر جمع رکھتا اور ایک نصب العین مقرر کرکے ان کی تنظیمی قوت کو محفوظ رکھتا۔‘‘(جدو جہد لاہور دسمبر 1960ء بحوالہ ماہنامہ مشکوٰ ۃ قادیان نومبر 2003ء صفحہ 25)

تمکنت دین

خلافت کی ایک بہت بڑی برکت تمکنت دین ہے۔نبی کی وفا ت کے بعد دشمن یہ خیال کرتے ہیں کہ اب یہ جماعت ختم ہوجائے گی۔ایسے وقت میں خدا تعالیٰ خلافت حقّہ کی برکت سے دین کو مضبوطی اور استحکام عطا فرماتا ہے اور وہ کام جن کی ابتدا نبی کے زمانہ میں ہوتی ہے۔ خلفاء کے زمانہ میں پایۂ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ

وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمۡ دِیۡنَھُمُ الَّذِیۡ ارۡتَضٰی لَھُمۡ (النور:56)

اور اُن کے لئے اُن کے دین کو ، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ، ضرور تمکنت عطا کرے گا۔

سیدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دُنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے۔اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے مگر خداکسی خلیفہ کے ذریعہ اُس کو مٹا تا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سرِ نو اُس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح و استحکام ہوتا ہے۔‘‘(الحکم 14؍اپریل 1908ء صفحہ 2کالم 2)

تاریخ اسلام گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں خلافت راشدہ قائم رہی ،دین اسلام نے ہر جہت سے شانداراوربےمثال ترقی کی۔رسول کریم ﷺکے خداکی رحمتوں ، برکتوں اور سعادتوں سے معمور اور خدا تعالیٰ کے ہر قسم کے فضلوں اور نعمتوں سے بھرپور دَور کے بعد خلافت راشدہ قائم ہوئی۔ اگرچہ اس کا عرصہ تیس سال کے مختصر ترین ماہ وسال پر مشتمل ہے۔ مگر اس مبارک دَور میں اسلام اور مسلمانوں کو جو حیرت انگیز اور عظیم الشان کامیابیاں اور فتوحات حاصل ہوئیں انہیں دیکھ کر بڑی بڑی طاقتور اور مضبوط سلطنتوں کے محلات پر لرزہ طاری ہوگیا اور دشمن حیرت وحسرت سے ان کامیابیوں کو دیکھنے لگا۔دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف یہ کہ اندرونی انتشار اور افتراق کے فتنے اپنی موت آپ مرگئے بلکہ اسلام کی سطوت وشوکت کے پرچم چاروں طرف دور دراز علاقوں اور ملکوں پر لہرانے لگے۔ تیس سال کے اندر اندر مشرق میں چین اور افغانستان، مغرب میں شمالی افریقہ ،طرابلس ،شمال میں قزوین اور جنوب میں حبشہ تک اسلامی سلطنت قائم ہوگئی۔ آج بھی انصاف پسند مؤرخ ماضی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے تو وہ حیرت واستعجاب کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے کہ اس تیزی وسرعت سے صحرائے عرب کے بادیہ نشین، اقوام عالم پر کیسے چھاگئے۔چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرانس کے ایک مؤرخ کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ لکھتا ہے کہ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی ایک بات عجیب تھی۔ لوگ کہتے ہیں وہ جھوٹاتھا مگرمیں کہتا ہوںکہ وہ کیسے جھوٹا ہوسکتا ہے۔ اس کو جھوٹا نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ اس کو غلطی لگی تھی۔وہ لکھتا ہے کہ مَیں اس نظارہ کو دل میں لا کر حیران ہوجاتا ہوں کہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک چھوٹی سی مسجد میں جس پر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی تھی جو بارش کے وقت ٹپکنے لگ جاتی تھی اور نمازیوں کو کیچڑ میں نماز ادا کرنی پڑتی تھی اس میں بیٹھ کر کچھ لوگ جن کو تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا بھی میسر نہیںتھا یہ باتیں کرتے تھے کہ ہم دنیا پر غالب آجاویںگے اور جو دین ہم پھیلانا چاہتے ہیں اس کو پھیلادیںگے اورپھر باوجود اس بے بضاعتی کے وہ اپنی بات کو پورا کرکے دکھا دیتے ہیں۔ یہ ایک معمولی بات نہیں بلکہ غیر معمولی بات ہے۔ اس بات کو سوچنا چاہئے۔‘‘(قیام توحید کے لئے غیرت ، انوارالعلوم جلد 5صفحہ 23تا24)

حق یہ ہے کہ یہ خلافت راشدہ ہی کی تاثیرات اور فیوض وبرکات کا کرشمہ تھا جو دنیا نے دیکھا۔ اور آج جب ہم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے بعد قائم ہونے والی خلافت راشدہ کی ایک صدی پر محیط عدیم المثال کامیابیوںاور کامرانیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو قلوب ربّ کریم کی حمدوثنا سے لبریز ہوجاتے ہیں اور گردنیں خدا تعالیٰ کی تائیدات اور فضلوں کے نظاروں کے سامنے خم ہو جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے خبر پاکر جو پیشگوئیاں فرمائی تھیں وہ اس ایک صدی میں اس تیزی اور اس شان سے پوری ہوئیں کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئی۔ آپؑ نے خدا سے خبر پاکر فرمایا تھا کہ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ ‘‘(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 519)

پھر فرمایا کہ مجھے خدا نے خبر دی ہے کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا۔‘‘

پھر آپ نے خدا سے خبر پاکر یہ اطلاع دی کہ خدا مجھے ایک ایسا فرزند موعود ، مصلح موعود (محمود) عطا کرے گا جس کے ذریعہ ’’دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔‘‘

پھر یہ خدائی خبر سنائی کہ وہ پسرموعود’’زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔‘‘(اشتہار20؍فروری 1886ء۔آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ 647)

یہ سب باتیں جو بظاہر خواب وخیال سمجھی جاتی تھیں اور دشمن ان باتوں کو دیوانے کی بڑ قرار دیتا تھا۔ مگر چونکہ یہ زندہ اور قادرو توانا خدا کا کلام اور الہام تھا جو پوراہوکر رہا اور خلافتِ احمدیہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔شجر خلافت کو جڑوں سے اکھیڑنے کے ارادے سے آنے والے بے شمار طوفان خلافت کے حصار سے جس زور سے ٹکراتے رہے اُسی زور سے پاش پاش ہوتے رہے۔ خلافت کا نظام اور اُس کا کام ہر آنے والے دن میں پھولتا اور پھلتا چلا گیا۔سرزمین ہند کی گمنام بستی قادیان میں خلافت کا جو پودا لگا تھا وہ ایک شجر سایہ دار بنتا گیا۔ اُس کی شاخیں ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی بر اعظم ایشیا تک محیط ہوگئیں۔براعظم ایشیا سے آگے یہ شاخیں یورپ ، افریقہ ، امریکہ ، روس ، چین ، جاپان ، آسڑیلیا الغرض دنیا کے ہر بر اعظم اور دنیا کے تمام کناروں تک پھیل گئیں۔ اور خلافت کا یہ آسمانی شجر خوش رنگ پھولوں سے مہکنے لگا۔اِسے کثرت سے شیریں پھل لگنے لگے اور اس پر ایسی بہارو رونق آئی کہ دنیا کی بے شمار اقوام اس کے ٹھنڈے سائے تلے آرام کرنے لگیں۔

آج ہمارے محبوب امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جس طرف بھی نگاہ اُٹھاتے ہیں خدا کی رحمتیں آپ کی پیشوائی اور استقبال کے لیے آتی ہیں۔ آپ جس ملک اور سرزمین کا دورہ فرماتے ہیں اُس ملک کے عمائدین اور سربراہ آپ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔آپ کو سربراہان مملکت کا سا پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ بڑی بڑی حکومتوں کے ایوانوں میں آپ کے استقبال ہوتے ہیں اور جب بڑے بڑے ممالک میں جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسے منعقد ہوتے ہیں تو ان حکومتوں کے سربر آوردہ افراد ، ممبران پارلیمنٹ اور سربراہان حکومت کے خصوصی نمائندگان اُن جلسوں میں حاضر ہوتے اور خلافت اور خلافت کا تاج اپنے سرپر سجانے والی اس جماعت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور اسے اپنے ملکوں اور سرزمینوں کے لیے باعث رحمت قرار دیتے ہیں۔ بے شمار مبلغ ،ہزاروں مساجد ،ان گنت مراکز،لاکھوں کتب ، مضبوط پریس، سکولوں اور ہسپتالوں کا ایک جال دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے جس کو مزید غیر معمولی وسعت دینے والا مسلم ٹیلیویژن احمدیہ چوبیس گھنٹے اسلام احمدیت کے نام اور پیغام کو دنیا میں پھیلا رہا ہے۔اور محض خدا تعالیٰ کے فضل ، نصرت اور تائید سے لاکھوں نہیں ،کروڑوں سعید روحیں مسیح موعودؑ کے مقدس دامن سے وابستہ ہوچکی ہیں۔

بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں

لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں

قرون اولیٰ کے مسلمان خلافت جیسی نعمت عظمیٰ سے محروم ہوکررفتہ رفتہ قعرِ مذلت میں ایسے گرے کہ دوبارہ اٹھنے کی طاقت باقی نہ رہی۔ آج بھی برکات خلافت سے محروم امت مسلمہ جس کرب اور اذیت میں مبتلا ہے اس کی ہلکی سی جھلک ذیل میں دیے گئے بیانات سے بخوبی لگائی جاسکتی ہے۔ اخبار جنگ میں ایک کالم نگار لکھتا ہے:’’دنیا کا ہر پانچواں انسان مسلمان ہے لیکن اس کے برعکس سیاسی ومذہبی سطح پر کوئی اتفاق واتحاد نہیں اور مسلمان ملکوںکی حیثیت ایک منتشر اور باہم دست وگریباں گروہ کی سی ہے۔ ایک متحدہ اور متفقہ امت مسلمہ کا کوئی وجود نہیں جس کا ایک مرکز ہو اور جس کے مقاصد میں یکسانیت ہو۔‘‘(اخبار جنگ جنوری 1992ء بحوالہ مشکوٰۃ قادیان مئی 2010ء صفحہ 20)

ماہنامہ جدوجہد لاہور لکھتا ہے:’’مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک تیس ممالک کا ایک عظیم اسلامی بلاک صرف اتحاد اتفاق کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے مغربی اقوام سے پٹ رہا ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر اس دشمن اسلام اقوام متحدہ کو چھوڑ کر خلافت اسلامیہ کا احیاء کریں۔ ایک فعال قوت کی حیثیت سے زندہ رہنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘(ماہنامہ جدوجہد لاہور اگست1974ء)

فروری 1974ء میں مسلم سربراہان کی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس تاریخی موقع پر مولانا عبدالماجد دریا آبادی ایڈیٹر صدق جدید نے ’’خلافت کے بغیر اندھیرا‘‘کا عنوان دے کر ایک نہایت اہم مضمون لکھا۔وہ لکھتے ہیں:’’اتنے تفرق و تشتت کے باوجود کبھی کسی کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ عراق کا منہ کدھر اور شام کا رخ کس طرف ہے؟ مصر کدھر اور حجاز اور یمن کی منزل کونسی ہے اور لیبیا کی کونسی؟ ایک خلافت اسلامیہ آج ہوتی تو اتنی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں آج مملکت اسلامیہ کیوں تقسیم در تقسیم ہوتی؟ ایک اسرائیل کے مقابل پر سب کی الگ الگ فوجیں کیوں لانا پڑتیں۔ ترک اور دوسرے فرمانروا آج تک تنسیخ خلافت کی سزا بھگت رہے ہیں اور خلافت کو چھوڑ کر قومیتوں کا جو افسوںشیطان نے کان میں پھونک دیا وہ دماغوں سے نہیں نکالتے۔‘‘(روزنامہ صدق جدید، لکھنؤ۔ یکم مارچ 1974ء)

جناب ذوالفقار علی شاہ صاحب صفوی بریلوی اپنی کتاب ’’چراغ رہنمائے جہاں ‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ صحیح خلیفہ کی پہچان کیا ہے ؟ یہ کہ جو شخص تمام دنیا سے علوم ظاہر ی اور علم باطن اور تمام علوم سے باخبر ہوگا اور تمام دنیا کے عقلمندوں سے زیادہ عقلمند ہوگا اور اللہ کی قوت اس کے ساتھ ہوگی۔ یہ مختصر پہچان صحیح خلیفہ کی عرض کی گئی ہے اب ہدایت یا تو خلیفہ وقت سے یا جو کوئی اہل اللہ خلیفہ وقت سے کامیاب ہوچکا ہو اس سے ہوگی۔پس اس سے بھی ہدایت ہوسکتی ہے مگر یہ ولی اللہ بھی اطاعت کرے گا خلیفہ وقت اور ولی اللہ کی اطاعت جو کوئی بندۂ خدا کرے گا تو حقیقت میں اس کی اطاعت نہیں ہے بلکہ سلسلہ بسلسلہ حضرت رسول اللہﷺ کی اطاعت ہے اس لئے اللہ پاک نے اپنے کلام میں پانچویں پارہ سورۃ النساء کے آٹھویں رکوع میں ارشاد فرمایا اَطیعو اللّٰہَ و اطیعوا لرّسول واولی الامر منکم یعنی اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اطاعت کرو صاحب امر کی یعنی خلیفہ کی جو تم سے یعنی تم میں سے ہو۔ تو حقیقت میں خلیفہ کی جو اطاعت ہے وہ خلیفہ کی نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت ہے اور خلیفہ کے ہاتھ پر جو بیعت کی جاتی ہے وہ خلیفہ کا ہاتھ نہیں بلکہ اللہ کا ہاتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں چھبیسویں پارہ سورۃ الفتح کے پہلے رکوع میں ارشاد فرماتا ہے کہ

’’یَدُاللّٰہ ِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ

یعنی اللہ کا ہاتھ اوپر ہاتھ ان کے‘‘(چراغ رہنمائے جہاں ،صفحہ 5بار دوئم مطبع احتشامیہ پریس مرادآباد 1930ء بحوالہ ماہنامہ مشکوٰۃ قادیان مئی 2001ء صفحہ 11)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button