سیرت خلفائے کراممتفرق مضامین

پیشگوئی مصلح موعود…حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی روشنی میں

(طلحہ علی۔ مربی سلسلہ فلپائن)

ان تحریرات سے جہاں پیشگوئی مصلح موعودؓ کی اہمیت اور حضرت مصلح موعودؓ کے اعلیٰ اور ارفع مقام کا پتہ چلتا ہے وہیں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ؓہی ہیں

کسی بھی پیشگوئی، الہام یا وحی کو سب سے بہتر وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس پر وہ کلام نازل ہوا ہو، اور اس ضمن میں کسی بھی پیشگوئی کی وہی تفسیر اور معنی زیادہ وقعت رکھیں گے جو صاحب الہام نے خود کیے ہوں۔ اس امر کے پیش نظر حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی بعض تحریرات دربارہ پیشگوئی مصلح موعود پیش خدمت ہیں۔

پیشگوئی کی اہمیت

حضرت اقدس مسیح موعودؑ پیشگوئی مصلح موعود کی نسبت اشتہار واجب الاظہار ، 22؍مارچ،1886ء میں تحریر فرماتے ہیں: ’’آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤوف و رحیم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے۔ اور درحقیقت یہ نشاں ایک مُردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اولیٰ و اکمل و افضل و اتم ّہے کیونکہ مُردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جنابِ الٰہی میں دعا کر کے ایک روح واپس منگوایا جاوے…مگر اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانہٖ و ببرکتِ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ سو اگرچہ بظاہر یہ نشان احیاءِ موتیٰ کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہتر ہے۔مُردہ کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے۔ مگر ان روحوں اور اس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے۔ جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں وہ آنحضرت ﷺ کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟‘‘

(اشتہار واجب الاظہار 22؍مارچ 1886ء مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ114تا115مطبوعہ لندن)

اس کے بعد8؍اپریل1886ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے ایک اور اشتہار شائع فرمایا جس میں آپؑ نے اس اعتراض کا جواب بھی دیا کہ 9سال کی میعاد میں بیٹا پیدا ہونا کوئی خارق عادت امر نہیں۔اس کے جواب میں آپؑ نے فرمایا: ’’صریح دلی انصاف ہر یک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسے اعلیٰ درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اخص آدمی کے تولد پر مشتمل ہے، انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے اور دعا کی قبولیت ہو کر ایسی خبر کا ملنا بے شک یہ بڑا بھاری آسمانی نشان ہے نہ یہ کہ صرف پیشگوئی ہے۔‘‘

(اشتہار صداقت آثار، مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 117)

اسی طرح مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں اپنے بعض خطوط میں اپنے اس اندیشہ کا اظہار کیا کہ پسر موعود کے بارے میں پیشگوئی کوئی خارق عادت امر نہیں اور آپ اس پیشگوئی کی تشہیر نہ کیجیے کیونکہ اس سےآپ کی اور مسلمانوں کی ہتک اور استہزا ہو گا۔ حضور ؑنے ان خطوط کے جواب میں جو امور بیان کیے ان سے پیشگوئی کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ حضور ؑتحریر فرماتے ہیں:’’مجھ کو منجانب اللہ اس بارے میں اعلان و اشاعت کا حکم ہے اور جیسا کہ میرے آقا محسن نے مجھے ارشاد فرمایا ہے میں وہی کام کرنے کےلئے مجبور ہوں۔ مجھے اس سے کچھ کام نہیں کہ دنیوی مصلحت کا کیا تقاضا ہے اور نہ مجھے دنیا کی عزت و ذلت سے کچھ سروکار ہے اور نہ اس کی کچھ پروا اور نہ اس کا کچھ اندیشہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جن باتوں کے شائع کرنے کے لئے میں مامور ہوں ہر چند یہ بد ظنی سے بھرا ہوا زمانہ ان کو کیسی ہی تحقیر کی نگاہ سے دیکھے لیکن آنے والا زمانہ اس سے بہت سا فائدہ اٹھائے گا۔‘‘

(مکتوبات احمد، جلد اول صفحہ 305)

پھر ایک اور خط کے جواب میں کہ اگر سراج منیر میں ایسی ہی پیشگوئیاں ہیں تو ان سے اسلام کو نقصان اور مسلمانوں کی ہتک ہوگی ، فرمایا: ’’بیشک سراج منیر میں اسی طرح کی پیشگوئیاں ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر یہی پیشگوئی ہے۔‘‘

(مکتوبات احمد ، جلد اول صفحہ 308)

حضرت مصلح موعودؓ کا بلند مقام و مرتبہ

بطور مثیل ابن مریم

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے خدائی فرمودات کی روشنی میں پسر موعود کو مثیل ابن مریم قرار دیا۔ فرمایا: ’’اگر ظاہر پر ہی ان بعض مختلف حدیثوں کو جو ہنوز ہماری حالتِ موجودہ سے مطابقت نہیں رکھتیں محمول کیا جائے تب بھی کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ان پیشگوئیوں کو اس عاجز کے ایک ایسے کامل متبع کے ذریعہ سے کسی زمانہ میں پورا کر دیوے جو منجانب اللہ مثیلِ مسیح کا مرتبہ رکھتا ہو۔…اُس مسیح کو بھی یاد رکھو جو اس عاجز کی ذریت میں سے ہے جس کا نام ابن مریم بھی رکھا گیا ہے کیونکہ اس عاجز کو براہین میں مریم کے نام سے بھی پکارا ہے۔‘‘

(ازالۂ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 316تا318)

پھر اسی کتاب میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ’’خدائےتعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذریّت سے ایک شخص پیدا ہو گاجس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی ۔ وہ آسمان سے اترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کر دے گا وہ اسیروں کو رَستگاری بخشے گا اور ان کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دے گا۔ فرزند دلبند گرامی و ارجمند مظہر الحق و العلاء کانّ اللّٰہ نزل من السماء ‘‘

(ازالۂ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 180)

مصلح موعود بطور مثیل مسیح موعودؑ

پسرموعود کو خدا تعالیٰ نے حسن و احسان میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا نظیر قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے بعض اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ تیری برکات کا دوبارہ نور ظاہر کرنے کے لئے تجھ سے ہی اور تیری ہی نسل میں سے ایک شخص کھڑا کیا جائے گا جس میں روح القدس کی برکات پھونکوں گا۔ وہ پاک باطن اور خدا سے نہایت پاک تعلق رکھنے والا ہو گا اور مظہر الحق و العلا ہو گا گویا خدا آسمان سے نازل ہوا‘‘

(تحفۂ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 181تا182)

پھر حضرت مسیح موعود ؑ اپنی ایک نظم میں تحریر فرماتے ہیں:

بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا

جو ہوگا ایک دن محبوب میرا

کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا

دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا

بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی

فسبحان الّذی اخزی الاعادی

مندرجہ بالا اشعار میں مصرع ، ’’دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا‘‘ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مصلح موعودکا زمانہ گویا مسیح موعودؑ ہی کا زمانہ ہے اور مصلح موعودؑ کے ذریعہ دنیا ایک دفعہ دوبارہ مسیح موعودؑ کے زمانے کو دیکھے گی۔

ان اشعار میں ایک اور امر بھی غور طلب ہے۔ بعض اوقات یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ ہی 20؍فروری1886ء کی پیشگوئی کے مصداق اور پسر موعود تھے تو پھر ان کی پیدائش کے بعد بھی پسر موعود سے متعلق الہامات کیوں ہوتے رہے؟ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اعتراض کو ایک نئے اور اچھوتے اعتراض کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر یہ کوئی نیا اعتراض نہیں بلکہ پیغامیوں کی طرف سےاس قسم کے اعتراض حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی ہی میں پیش کیے گئے اور اس کا جواب بھی جماعت کی طرف سے دیا گیا۔ اس اعتراض کے تفصیلی جواب کا یہاں موقع نہیں مگر مندرجہ بالا اشعار کی نسبت سے ایک نکتہ یہاں درج ہے۔ پہلے شعر میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا

جو ہوگا ایک دن محبوب میرا

یہاں پر غور طلب امر یہ ہے کہ پہلے مصرع میں حضور ؑ نے ’’بیٹا ہے تیرا‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہاں ایک خاص بیٹے کی بات ہو رہی ہے جو پسر موعود ہے ورنہ تو حضورؑ کی تمام اولاد ہی الٰہی بشارات کے تحت پیدا ہوئی تھی۔ اور فرمایا کہ وہ بیٹا پیدا ہو چکا ہے۔ بیٹا ’’ہے‘‘ تیرا۔ جو ہو گا ایک دن محبوب میرا۔ یعنی ایک دن آئے گا کہ وہ تمام پیشگوئیاں جو پسر موعود کے متعلق تھیں وہ پوری ہوں گی۔ در اصل ، حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش کے بعد الہامات کی وجہ بھی یہی تھی کہ پیشگوئی صرف بیٹے کی پیدائش کے بار ے میں نہ تھی بلکہ ایک خاص متصف بالصفات بیٹے کے بارے میں تھیں۔ اور ان صفات کا ظہور اپنے اپنے وقت پر ہونا مقدر تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے پیدائش کے بعد بھی بار بار حضرت مسیح موعود ؑکو بذریعہ الہام تسلی دی کہ وہ بیٹا جو پیدا ہو چکا ہے ضرور ان صفات کا حامل ہو گا جن کا وعدہ کیا گیا ہے۔

مصلح موعودؓ بطور خلیفۃ المسیح الموعود

حضرت مسیح موعودؑ نے خدائی وعدوں کے مطابق متعدد تحریرات میں اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ مصلح موعود حضورؑ کا جانشین اور خلیفہ ہو گا۔ حضرت مسیح موعود ؑتریاق القلوب میں فرماتے ہیں: ’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمود۔ تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا ۔جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر 1888ء ہے۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 214)

یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ علم الرؤیا کی رو سے مسجد سے جماعت مراد ہو تی ہے۔ اور مسجد پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کا نام لکھا دیکھنا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آپ جماعت کے امام ہوں گے۔

حضرت مسیح موعودؑ اس بارے میں سبز اشتہار میں فرماتے ہیں: ’’دوسرا طریق انزالِ رحمت کا ارسالِ مرسلین و نبیّین و ائمہ و اولیاء و خلفاء ہے۔ تا ان کی اقتداء و ہدایت سے لوگ راہِ راست پر آجائیں اور ان کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا کر نجات پا جائیںسو خداتعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آجائیں ۔ پس اوّل اس نے قسمِ اوّل کے انزالِ رحمت کے لئے بشیر کو بھیجا تا بشّر الصابرین کا سامان مومنوں کے لئے طیار کر کے اپنی بشیریت کا مفہوم پورا کرے سو وہ ہزاروں مومنوں کے لئے جو اس کی موت کے غم میں محض للہ شریک ہوئے بطور فرط کے ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کا شفیع ٹھہر گیا اور اندر ہی اندر بہت سی برکتیں ان کو پہنچا گیا .…دوسری قسم رحمت کی جو ابھی ہم نے بیان کی ہے اس کی تکمیل کے لئے خدا تعالیٰ دوسرا بشیر بھیجے گا جیسا کہ بشیر اوّل کی موت سے پہلے 10؍ جولائی 1888ء کے اشتہار میں اس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا۔ یخلق اللّٰہ ما یشاء۔‘‘

(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد2صفحہ 462تا463)

مندرجہ بالا اقتباس میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے پسرموعود کو خدا تعالیٰ کی دوسری رحمت کا ظہور قرار دیا ہے یعنی کہ ارسالِ مرسلین و نبیّین و ائمہ و اولیاء و خلفاء ۔ حضرت مسیح موعودؑ اس ضمن میں رسالہ الوصیت میں جہاں جماعت میں خلافت کے نظام اور قدرت ثانیہ کی خوشخبری دی ہے وہیں انتہائی صریح الفاظ میں فرماتے ہیں: ’’خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریّت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی کو قبول کریںگے ۔ سو ان دنوں کے منتظر رہو اور تمہیں یاد رہے کہ ہر ایک کی شناخت اس کے وقت میں ہوتی ہے اور قبل از وقت ممکن ہے کہ وہ معمولی انسان دکھائی دے یا بعض دھوکا دینے والے خیالات کی وجہ سے قابل اعتراض ٹھہرے جیسا کہ قبل از وقت ایک کامل انسان بننے والا بھی پیٹ میں صرف ایک نطفہ یا علقہ ہوتا ہے۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 306حاشیہ)

یہی وجہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے متعدد جگہ پر اپنی خلافت کا موعود خلافت کے الفاظ میں ذکر فرمایا ہے یعنی یہ کہ نہ صرف آپ کی خلافت قدرت ثانیہ کی عمومی پیشگوئی کے تحت تھی بلکہ آپ کی خلافت کے بارے میں حضرت مسیح موعود ؑ کی خصوصی پیشگوئیاں اور وعدے بھی ہیں۔

اس ضمن میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓکی ایک روایت خاص اہمیت کی حامل ہے۔ آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب انجمن کا قیام ہو رہا تھا ، ان دنوں انجمن کے ممبران کے انتخاب یا قوانین کے بارے میں کوئی میٹنگ ہو رہی تھی اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ بار بار اندر آکر حضرت مسیح موعود ؑ کو اطلاع دیتے اور ہدایات لیتے۔ اس دوران حضور ؑ، حضرت اماں جانؓ والے دالان میں ٹہل رہے تھے۔ آخری بار جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ بات بتا کر واپس گئے تو حضور سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو گئے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان کرتی ہیں کہ وہ بھی پیچھے چلتے چلتے حضور ؑکے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور ممکن ہے کہ حضور ؑنے قدموں کی چاپ پہچان لی ہو۔ حضور ؑنے وہیں کھڑے کھڑے پیچھے دیکھے بغیر بظاہر حضرت اماں جان ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’کبھی تو ہمارا دل چاہتا ہے کہ محمود کی خلافت کی بابت ان لوگوں کو بتا دیں پھر میں سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اپنے وقت میں خود ہی ظاہر ہو جائےگا۔‘‘

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓحلفًا بیان کرتی ہیں کہ یہ واقعہ بعینٖہ ایسے ہی وقوع ہوا اور ایک ایک لفظ ایسے ہی ارشاد فرمایا تھا۔

(تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 60)

پسر موعود کی تعیین کے بارے میں بعض اشارے

حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی بہت سی تحریرات سے پتہ لگتا ہے کہ آپ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ کو پسر موعود سمجھتے تھے اور آپ نے اپنی تحریرات میں اس بارے میں بعض اشارے بھی فرمائے۔ اس سے پہلے کہ ہم ان تحریرا ت کو پیش کریں ایک امر کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔

بشیر ثانی، محمود، اور مصلح موعود پسر موعود ہی کے نام ہیں

حضرت مسیح موعود ؑکو پسر موعود کی پیش خبری 20؍ فروی 1886ء میں ملی۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ اس پیشگوئی سے متعلق ضروری امور وقتاًفوقتاًآپؑ پر کھولتا رہا، اور آپ نے ان امور کو خدائی علم پا کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ بشیر اوّل کی وفات کے بعد لوگوں کی طرف سے اس پیشگوئی کے بارے میں بہت سے اعتراضات کیے گئے جس کے جواب میں آپؑ نے وہ ’’حقانی تحریر برواقعہ وفاتِ بشیر‘‘ تحریر فرمایا جو عرف عام میں ’’سبز اشتہار‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ اس اشتہار میں آپؑ نے تفصیل کےساتھ پسر موعود کی پیشگوئی پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے دوسرے الہامی ناموں مثلاً فضل عمر اور مصلح موعود کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ بعض منکرین کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ بشیر ثانی (یعنی پسر موعود) اور مصلح موعود دو علیحدہ افراد ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی مصلح موعود کے بارے میں بیان فر مودہ تعیین کو سمجھنے کے لیے اس اعتراض کا جواب بہت ضروری ہے۔ ذیل میں حضرت مسیح موعود ؑکے بعض اقتباسات سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ بشیر ثانی، مصلح موعود، اور محمود ایک ہی فرد کے نام ہیں اور یہی فرد 20؍فروری کی پیشگوئی کا پسر موعود ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑایک جگہ فرماتے ہیں: ’’مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے اور ضرور تھا کہ اس کا آنا معرض التوا میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے پیدا ہو کر پھر واپس اٹھایا جاتاکیونکہ یہ سب امور حکمتِ الٰہیہ نے اس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے۔ اور بشیر اوّل جو فوت ہو گیا ہے بشیر ثانی (یا مصلح موعود ۔ ناقل) کے لئے بطور ارہاص تھا اس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا۔‘‘

(سبز اشتہار،روحانی خزائن جلد دوم صفحہ 467 حاشیہ)

پہلے جملہ میں حضور ؑنے انتہائی صراحت کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ یہ مختلف نام ایک ہی فرد سے متعلق ہیں۔ آخری جملہ میں فرمایا کہ بشیر اوّل اور بشیر ثانی کا ذکر ایک ہی پیشگوئی میں ہے اور متعصب سے متعصب دشمن بھی اس امر کا اقراری ہے کہ یہاں 20؍فروری کی پیشگوئی میںپسر موعود ہی کا ذکر ہے۔ پھر اسی اشتہار کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:’’الہام نے پیش از وقوع دو لڑکوں کا پیدا ہونا ظاہر کیا۔ اور بیان کیا۔کہ بعض لڑکے کم عمری میں فوت بھی ہوںگے۔ دیکھو اشتہار 20؍ فروری 1886ء و اشتہار 10؍جولائی 1888ء ۔ سو مطابق پہلی پیشگوئی کے ایک لڑکا پیدا ہو گیا۔ اور فوت بھی ہو گیا۔اور دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا ۔ کہ دوسرا بشیر دیا جائےگا۔ جس کا دوسرا نام محمود ہے۔‘‘

(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد دوم صفحہ 453 حاشیہ)

یہاں بھی آپؑ نے انتہائی صراحت سے بیان فرمایا ہے کہ 20؍فروری کی پیشگوئی کا پسر موعود اور بشیر ثانی اور محمود ایک ہی ہیں۔ اسی طرح اسی مضمون میں اس سے پہلے دو قسم کی رحمتوں کے نزول والی عبارت میں بھی حضور ؑنے انتہائی قطعی الفاظ میں یہ بات بیان کی ہے کہ محمود، بشیر ثانی اور پسر موعود ایک ہی ہیں۔ پھر اسی کتاب کے صفحہ 463کے حاشیہ میں آپ فرماتے ہیں: ’’اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ 20؍ فروری 1886ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے پہلے بشیر کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو روحانی طور پر نزولِ رحمت کا موجب ہوا اور اس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیر کی نسبت ہے۔‘‘

ان اقتباسات سے نہ صرف قطعی طور پر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بشیر ثانی، مصلح موعود، فضل عمر، محمود اور پسر موعود ایک ہی فرد کے مختلف نام ہیں بلکہ مزید بر آں ان اقتباسات سے اس اعتراض کا بھی جواب مل جاتا ہے کہ بشیر اول کو پسر موعود متصور کرنا حضور ؑکا ذاتی اجتہاد تھا اور درحقیقت پسر موعود نے بعد کے زمانہ میں ظاہر ہونا تھا کیونکہ مندرجہ بالا عبارت میں حضورؑ نے انتہائی قطعی الفاظ میں فرمایا ہے کہ ، ’’خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا …‘‘ پس یہاں اجتہادی غلطی کا کوئی گمان نہیں ۔

پسر موعود کی تعیین کے متعلق بعض ارشادات

اس وضاحت کے بعد اب ہم اس امر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ کیا حضرت مسیح موعود ؑ نے کبھی اپنے کسی بیٹے کو پسر موعود قرار دیا یا نہیں۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپؑ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ کو خدائی اشاروں کے موافق پسر موعود سمجھتے تھے۔ یہاں یہ امر بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓکی پیدائش کے وقت بھی حضور ؑنے اس احتمال کا اظہار کیا تھا کہ ممکن ہے یہی بیٹا پسر موعود ہو اور اسی بنا پر آپ کا نام بھی بشیر اور محمود رکھا گیا۔ مگر ساتھ ہی وہاں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ابھی خدا تعالیٰ نے یہ معاملہ نہیں کھولا کہ یہی بیٹا پسر موعود ہے یا وہ 9 سالہ میعاد میں کسی اور وقت پیدا ہو گا۔ مگر بعد ازاں حضور ؑکے بعض اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کو ہی پسر موعود سمجھتے تھے۔ آپؑ اپنی کتاب سراج منیر میں تحریر فرماتے ہیں: ’’پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہو گا اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا۔ اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوںمیں تقسیم ہوئے تھے چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے۔‘‘ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد12صفحہ36)

یہاں آپ نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کو سبز اشتہار کی پیشگوئی کا مصداق قرا ردیا ہے اور جیسا کہ اوپر ثابت کیا گیا ہے کہ سبز اشتہار کا محمود اور 20؍فروری کی پیشگوئی کا پسر موعود ایک ہی فرد ہیں۔ مزید بر آں سراج منیر وہ کتاب ہے جو آپؑ 20؍فروری کی پیشگوئی کے معًا بعد تحریر فرمانا چاہتے تھے ، اور جس کی طرف مولوی محمد حسین بٹالوی کے مذکورہ بالا خطوط میں بھی اشارہ ملتا ہے، مگر آپ نے اس کتاب کی اشاعت کو اس وقت تک ملتوی کر دیا تھا جب تک کہ پسر موعود کا تعین نہیں ہو جاتا۔

پھر مندرجہ بالا اقتباس میں آپؑ نے پیشگوئی کی میعاد کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ سبز اشتہار والی پیشگوئی اَور ہے اور 20؍فروری والی اَور، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سبز اشتہار کی پیشگوئی کے ساتھ تو کوئی میعاد مقرر نہیں۔ ہاں البتہ 20؍فروری کی پیشگوئی کے ساتھ 9 سال کی میعاد مقرر تھی۔ پس حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓکو یہاں 20؍فروری والی پیشگوئی کا پسر موعود ہی قرار دیا جا رہا ہے ۔

پھر حضرت مسیح موعود ؑ ضمیمہ انجام آتھم میں تحریر فرماتے ہیں:’’محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی مع محمود کے نام کے موجود ہے‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 299)

اسی طرح تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 219 میں تحریر فرمایا: ’’محمود جومیرا بڑا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی 1888ء میں اور نیز اشتہار یکم دسمبر 1888ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا پیشگوئی کی گئی اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا اور یہ اشتہار محمود کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لاکھوں انسانوں میں شائع کیا گیا۔ چنانچہ اب تک ہمارے مخالفوں کے گھروں میں صدہا یہ سبز رنگ اشتہار پڑے ہوئے ہوں گے۔ اور ایسا ہی دہم جولائی 1888ء کے اشتہار بھی ہر ایک کے گھر میں موجود ہوں گے۔ پھر جب کہ اِس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی اور مسلمانوں اور عیسائیوں ا ور ہندوؤں میں سے کوئی بھی فرقہ باقی نہ رہا جو اس سے بے خبر ہو۔ تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے 12؍جنوری 1889ء کو مطابق 9؍ جمادی الاوّل 1306ھ میں بروز شنبہ محمود پیدا ہوا۔ اور اس کے پیدا ہونے کی مَیں نے اس اشتہار میں خبر دی ہے جس کے عنوان پر تکمیل تبلیغ موٹی قلم سے لکھا ہوا ہے جس میں بیعت کی دس شرائط مندرج ہیں۔ اور اس کے صفحہ 4 میں یہ الہام پسر موعود کی نسبت ہے

اے فخرِ رُسل قُربِ تُو معلومم شد

دیر آمدۂ زراہ دُور آمدۂ‘‘

پھر آپؑ حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں: ’’جب میرا پہلا لڑکا فوت ہو گیا تو نادان مولویوں اور ان کے دوستوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں نے اس کے مرنے پر بہت خوشی ظاہر کی اور بار بار ان کو کہا گیا کہ 20؍فروری 1886ء میں یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ بعض لڑکے فوت بھی ہوں گے۔ پس ضرور تھا کہ کوئی لڑکا خوردسالی میں فوت ہو جاتا تب بھی وہ لوگ اعتراض سے بعض نہ آئے تب خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے لڑکے کی مجھے بشارت دی ۔ چنانچہ میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اس دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے۔ دوسرا بشیر دیا جائےگا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگرچہ اب تک جو یکم ستمبر 1888ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا۔ زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔ یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی جس کے مطابق جنوری 1889ء میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہے اور سترھویں سال میں ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ 373)

مندرجہ بالا تمام اقتباسات میں یہ آخری اقتباس سب سے زیادہ واضح ہے۔ پہلے اقتباسات میں تو حضور ؑنے اس احتمال کا اظہار فرمایا ہے مگر اس آخری اقتباس میں حضور ؑنے انتہائی صراحت کے ساتھ 20؍فروری کی پیشگوئی کا ذکر فرما کر، پھر بشیر اول کی وفات کے بعد میعاد کے اندر (یعنی 9سال کے عرصہ میں) پسر موعود یعنی بشیر ثانی کی پیدائش کا ذکر فرمایا ہے۔ اور پھر فرمایا ، ’’اس کے مطابق‘‘ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب پیدا ہوئے۔

ایک او ر لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ ان تمام اقتباسات میں حضور ؑنے تعیین کے علاوہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کی اس وقت کی عمر کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس میں غالباًاس طرف اشارہ ہے کہ بعض بچوں کے خورد سالی میں فوت ہونے کے بعد پسر موعود نے لمبی عمر پانے والا ہونا تھا۔

ان تحریرات سے جہاں پیشگوئی مصلح موعودؓ کی اہمیت اور حضرت مصلح موعودؓ کے اعلیٰ اور ارفع مقام کا پتہ چلتا ہے وہیں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ؓہی ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button