الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍جون 2013ء میں مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب کے قلم سے محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ محترم صاحبزادہ صاحب میرے افسر بھی تھے، دوست بھی تھے اور میرے مربی بھی تھے۔ اُن سے میرے تعلق کی ابتدا 1958ء میں ہوئی جب خاکسار جامعہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کرکے وکالت تبشیر میں حاضر ہوا۔ آپ اُن دنوں وکیل اعلیٰ اور وکیل التبشیر تھے۔ مَیں نے دفتر میں حاضری دی تو آپ نے کھڑے ہوکر استقبال کیا جس سے مَیں بےحد متأثر ہوا۔ آپ کی شخصیت مسحورکُن تھی، گوراچٹّا رنگ، لمبا قد، نہایت خوش لباس اور گفتگو میں شائستگی کی وجہ سے جو بھی آپ سے ملتا تھا آپ کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ مَیں نے دفتر تبشیر میں دو یا تین ماہ کام کیا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے میری تقرری بطور نائب امام مسجد فضل لندن فرمادی اور مَیں یکم جنوری 1959ء کو روانہ ہوکر 18؍فروری کو لندن پہنچ گیا۔ 1962ء میں مکرم میاں صاحب یورپ کے دورے پر تشریف لائے تو مجھے اپنا سیکرٹری مقرر کیا۔ آپ لندن کے علاوہ بریڈفورڈ اور گلاسگو بھی گئے۔ مَیں کار چلاتا تھا اور آپ ساتھ والی سیٹ پر تشریف فرما ہوتے۔ راستے میں زیادہ تر خاموشی سے تسبیح و تحمید اور دعائیں کرتے رہتے۔ اس دورے کے دوران آپ سات دیگر ممالک میں بھی گئے۔ مجھے جس بات نے بہت متأثر کیا وہ آپ کی پنجوقتہ نمازوں کی پابندی تھی۔ فرمایا کرتے تھے کہ بچپن سے حضرت مصلح موعودؓ نے ہماری تربیت ایسی کی ہے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے نماز قضا نہیں کرنی۔ حضورؓ اس بات کی خود نگرانی فرمایا کرتے تھے کہ بچے نماز باجماعت کے لیے پابندی سے جایا کریں اور اگر یہ معلوم ہوجاتا کہ کسی بچے نے جان بوجھ کر نماز باجماعت ادا نہیں کی تو ناراضگی کے علاوہ سزا بھی دیا کرتے تھے۔ بارہا ایسا ہوا کہ آپؓ کا کوئی فرزند عشاء کی نماز باجماعت پڑھے بغیر سو جاتا، آپؓ نماز پڑھاکر تشریف لاتے تو ایسے بچے کو جگاکر نماز ادا کرنے کے لیے مسجد بھیجا کرتے تھے۔

یورپ کے دورے کے پہلے مرحلے میں ہم لندن سے بذریعہ ٹرین پیرس پہنچے جہاں اُس وقت کوئی قابل ذکر احمدی نہیں تھا اس لیے ایک ہوٹل میں دو روز قیام کرکے بذریعہ ٹرین سپین روانہ ہوئے۔ دو دن کے سفر کے بعد میڈرڈ پہنچے تو سٹیشن پر محترم مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب دو تین احباب کے ہمراہ استقبال کے لیے موجود تھے۔ دو دن ہوٹل میں قیام کے بعد بذریعہ ٹیکسی غرناطہ، قرطبہ اور طلیطلہ کی سیاحت کی۔ اس سارے عرصے میں محترم میاں صاحب کی کیفیت بےحد جذباتی تھی اور بار بار اس خواہش کا اظہار کرتے کہ اللہ کرے ہسپانیہ میں بہت جلد احمدیت کے ذریعے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا دَور شروع ہو۔ آپ نے محترم مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب کو بہت سی ہدایات بھی دیں اور اشاعت اسلام کے لیے مزید فنڈز مہیا کرنے کا وعدہ کیا۔ محترم مولانا صاحب نے میڈرڈ کے نواحمدیوں کو ایک دن اپنے گھر پر مدعو کیا۔ ایک نومبائع نے سور فاتحہ نہایت دلگداز انداز میں خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی۔ سپین کے ایمان افروز دورے کے بعد ہم بذریعہ ہوائی جہاز ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈم پہنچے جہاں محترم حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ انچارج چند احمدی احباب کے ہمراہ استقبال کے لیے موجود تھے۔ تین چار ڈَچ احمدی بھی تھے۔ وہاں سے ہم ہیگ کے مشن ہاؤس پہنچے جہاں ہمارا قیام تھا۔ شام کو حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ بھی تشریف لے آئے۔ ہیگ میں اُن دنوں ڈَچ نواحمدیوں کی جماعت موجود تھی۔ محترم حافظ قدرت اللہ صاحب قرآن کریم بہت خوش الحانی سے پڑھتے تھے۔ 1946ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح لندن تشریف لائے اور جماعت کی کوششوں سے Eastron Hall میں ایک جلسہ منعقد ہوا تو قائداعظم کی تقریر سے قبل محترم حافظ صاحب کو تلاوت قرآن کریم کا شرف حاصل ہوا تھا۔

ہالینڈ میں دو روز قیام کے بعد ہم سوئٹزرلینڈ گئے جہاں ایئرپورٹ پر محترم شیخ ناصر احمد صاحب مبلغ انچارج موجود تھے۔ وہ اپنے ساتھ ایک سوئس احمدی کو بھی لائے ہوئے تھے۔ وہاں کا مشن ہاؤس اُن دنوں ایک چھوٹے سے گھر میں تھا جس کا ایک حصہ محترم شیخ صاحب کی رہائش گاہ تھی اور ایک کمرہ بطور مسجد استعمال ہوتا تھا۔ ہمارا قیام ایک قریبی چھوٹے سے ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ محترم میاں صاحب کو اُن دنوں کمر درد کی شدید تکلیف تھی اور آپ ہروقت کمر کے گرد ایک مضبوط بیلٹ باندھے رکھتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو ارشاد فرمایا تھا کہ زیورک میں قیام کے دوران کسی مشہور سرجن کو مل کر مکمل علاج کروائیں۔ چنانچہ سرجن کے مشورے سے آپ کچھ روز کے لیے ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ مَیں صبح و شام ڈاک لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ہدایات لیتا۔ ایک دن حاضر ہوا تو آپ بےحد خاموش تھے۔ مَیں نے وجہ دریافت کی تو جذباتی انداز میں فرمایا کہ قادیان کے زمانے کی بات ہے،گرمیوں کے دن تھے۔ خاندان کے اکثر افراد ڈلہوزی اور شملہ میں تھے۔ مَیں بھی ڈلہوزی میں تھا کہ اچانک میرے دل میں زبردست خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں قادیان جاکر حضرت امّاں جانؓ کو بھی ڈلہوزی لے آؤں۔ چنانچہ مَیں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؓ نے مجھے پیار کیا۔ مَیں نے عرض کیا: امّاں جان! جلد تیار ہوجائیں، مَیں آپ کو ڈلہوزی لے جارہا ہوں، قادیان کی گرمی ناقابل برداشت ہے۔ آپؓ نے فرمایا: بیٹا! مَیں اپنی خوشی سے قادیان میں مقیم ہوں۔ تمہارے ابّا نے بھی اصرار کیا تھا کہ اُن کے ساتھ ڈلہوزی چلی جاؤں لیکن مَیں نے انکار کردیا تھا۔ مَیں نے اصرار کیا تو بالآخر آپؓ مان گئیں۔ موٹر میں بیٹھ کر آپؓ نے فرمایا: مبارک! تمہاری کونسی ایسی خواہش ہے جو آج تک پوری نہیں ہوئی؟ مَیں نے عرض کیا: مجھے سیاحت کا بڑا شوق ہے لیکن بوجہ ایک واقف زندگی کے اپنی مرضی سے اس خواہش کو پورا نہیں کرسکتا۔ آپؓ نے فرمایا: مَیں دعا کروں گی کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اس خواہش کو پورا کرے۔

یہاں محترم میاں صاحب بےحد جذباتی ہوگئے اور فرمایا کہ آج جو مَیں یورپ کے دورے پر نکلا ہوں تو یہ حضرت امّاں جانؓ کی دعاؤں کی قبولیت کا زبردست نشان ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد ہم بذریعہ ٹرین جرمنی پہنچے۔ہمبرگ سٹیشن پر محترم چودھری عبداللطیف صاحب مبلغ انچارج نے احباب کے ہمراہ استقبال کیا۔ ہمارا قیام احمدیہ مسجد میں تھا۔ محترم میاں صاحب کی خواہش پر جرمن نَواحمدیوں کو مسجد میں مدعو کیا گیا تو ایک درجن سے زائد جرمن آئے۔ محترم میاں صاحب نے فرداً فرداً سب سے مصافحہ و معانقہ کیا اور مختصر خطاب میں تبلیغ کا کام وسیع کرنے اور دیہات کی طرف توجہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔

جرمنی میں چند دن قیام کے بعد ہم بذریعہ ٹرین کوپن ہیگن پہنچے جہاں سٹیشن پر مکرم کمال یوسف صاحب مبلغ سلسلہ نے چند ڈینش نَواحمدیوں کے ہمراہ استقبال کیا۔ پھر ایک ہال میں نَواحمدیوں کا اجتماع منعقد ہوا۔ ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ اس موقع پر محترم میاں صاحب نے ڈنمارک مشن کو جرمن مشن کی نگرانی سے آزاد کرکے محترم کمال یوسف صاحب کو مبلغ انچارج مقرر فرمایا۔ یہاں قیام کے دوران ہم ایک روز کے لیے مالمو (سویڈن)بھی گئے جہاں ایک لوکل مخلص احمدی فیملی رہتی تھی۔ پھر ہم واپس لندن روانہ ہوگئے اور اس طرح قریباً دو ماہ کا یہ طویل سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔

محترم میاں صاحب کو قبولیتِ دعا پر پختہ ایمان تھا اور بعض اوقات اپنی ایسی خوابوں کا بھی ذکر فرماتے جو بعد میں بڑی شان سے پوری ہوئیں۔ لندن میں خاکسار آپ کو مختلف احباب کے گھروں پر لے جاتا تھا۔ ایک روز مَیں نے عرض کیا کہ لندن میں پارکنگ کا بڑا مسئلہ ہے، ہم نے جہاں جانا ہوتا ہے وہاں اکثر پارکنگ کی جگہ تلاش کرنے میں بہت وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مَیں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل کو ہمارے لیے آسان کردے۔ اس کے بعد مَیں نے معجزانہ طور پر آپ کی قبولیتِ دعا کا نظارہ یوں دیکھا کہ ہم جہاں بھی پارک کرنا چاہتے تھے تو یا خالی جگہ مل جاتی تھی یا جونہی ہم وہاں پہنچتے تو کوئی نہ کوئی گاڑی نکل جاتی اور ہمارے لیے جگہ خالی کردیتی۔ چند دفعہ تو مَیں نے اسے اتفاق سمجھا لیکن جب کثرت سے یہ معجزہ رُونما ہونے لگا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ تو محترم میاں صاحب کی دعا کا اثر ہے۔

محترم میاں صاحب نہایت خوش خلق، مہمان نواز اور شفیق انسان تھے۔ اپنے ماتحتوں کے ساتھ آپ کا رویّہ مشفقانہ اور ہمدردانہ ہوتا تھا۔ وقت کی پابندی آپ کا خاص وصف تھا۔ خلیفہ وقت کے ہر ارشاد کی تعمیل بڑی مستعدی سے فرماتے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ یوں تو حضرت مصلح موعودؓ میرے شفیق ابّاجان ہیں لیکن مَیں نے آپؓ کی اس حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کبھی کوئی درخواست نہیں کی۔ میرے لیے آپؓ کا ہر دفتری اور ذاتی حکم، خلیفہ وقت کے حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔

………٭………٭………٭………

ایک احمدی کا مثالی کردار

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍جون 2013ء میں جناب فاروق انصاری صاحب کی تصنیف ’’یادِ ماضی‘‘ سے ایک اقتباس درج ہے۔ وہ رقمطراز ہیں کہ میرے کئی ایک احمدی دوست ہیں۔ اس مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو حکومت پاکستان نے قانوناً غیرمسلم قرار دیا ہے۔ یہ لوگ نماز سنّیوں کی طرح پڑھتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، حضرت محمدؐ کو نبی مانتے ہیں لیکن اس کے ساتھ مرزا غلام احمد کو بھی نبی مانتے ہیں اس لیے احمدی کہلاتے ہیں۔

سول ایوی ایشن ڈیپارٹمنٹ میں میرے ایک ساتھی علوی صاحب الیکٹرانک انجینئر تھے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے دو انجینئرز کو ٹریننگ کے لیے امریکہ بھیجا گیا جن میں سے ایک تو یہی احمدی تھے اور ایک دوسرے مسلمان۔ بارہ ممالک سے دو دو انجینئر آئے تھے جن میں چھ مسلم ممالک تھے۔ ٹریننگ کے اختتام پر ایک شام منائی گئی۔ عورتیں مرد سب ساحل سمندر پر گئے اور ساری رات وہاں گزاری۔ صرف علوی صاحب نہ گئے۔ دوسری صبح دوسرے پاکستانی واپس ہوٹل پہنچے تو علوی صاحب تلاوت کررہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ اُس نے علوی سے کہا: تم کیوں مسکرائے؟ علوی نے کہا: پہلے تم بتاؤ۔ اُس نے کہا کہ ہماری امریکہ میں یہ آخری رات تھی، شاید ہم پھر کبھی یہاں نہ آئیں۔ ایک پُرلطف موقع تم نے ہاتھ سے گنوادیا، تم بدقسمت ہو۔ اب تم بتاؤ کہ کیوں مسکرائے تھے؟علوی نے کہا: مَیں اس لیے مسکرایا کہ ایک مسلمان تو ساری رات شراب پیتا رہا اور غیرعورتوں کے ساتھ وقت گزارتا رہا اور ایک کافر ساری رات قرآن پڑھتا رہا۔ (صفحہ 209-208)

………٭………٭………٭……

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍جون 2013ء میں مکرم عبدالکریم قدسی صاحب کی ہجرت کے حوالے سے ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

سامان کو با دیدۂ تر باندھ رہے ہیں

بھیگے ہوئے رومال میں گھر باندھ رہے ہیں

خط، یادیں، تصاویر، کتابیں و بیاضیں

دل کھول کے سامانِ سفر باندھ رہے ہیں

آنسو میرے رخساروں کی سیڑھی سے اُتر کر

دامن میں دعاؤں کا اثر باندھ رہے ہیں

پرواز کے جذبے بھی کبھی قید ہوئے ہیں

صیاد صفت کیوں مرے پَر باندھ رہے ہیں

سُوکھا نہ ابھی پچھلی مسافت کا پسینہ

پھر اگلی مسافت کو کمر باندھ رہے ہیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button