خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍فروری 2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ

٭… فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابو بکرؓ کا کردار

٭…غزوہ تبوک کے موقعے پر حضرت ابو بکرؓ نے اپنا کُل مال جس کی مالیت چار ہزار درہم تھی آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا

٭… حضرت ابو بکرؓ کو آنحضرت ﷺ نےنَو ہجری میں حج کے موقعے پر امیر الحج مقرر فرمایا۔آپؓ تین سَو صحابہ کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے

محترمہ امۃ اللطیف خورشید صاحبہ اہلیہ شیخ خورشید احمد صاحب مرحوم اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ربوہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍فروری 2022ء بمطابق 11؍تبلیغ 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 11؍فروری2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

تاریخ میں فتح مکّہ کے حوالےسے حضرت ابوبکرؓ کی ایک خواب کا ذکر ملتا ہے کہ مسلمان مکّےکےقریب ہوگئے اور ایک کتیا بھونکتے ہوئے آئی اور قریب پہنچتے ہی پشت کےبل لیٹ گئی اور اس سے دودھ بہنے لگا۔رسول اللہﷺنےاس خواب کی تعبیر یہ فرمائی کہ اُن کا شر دُور ہوگیا اور نفع قریب ہوگیا۔

فتح مکہّ سےپیشتر جب ابوسفیان مرالظہران مقام پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا توآپؐ نے حضرت عباسؓ یا حضرت ابوبکرؓ کے مشورے سے ابوسفیان کو رات روک لیا تاکہ وہ مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ سکے۔ ابوسفیان کے سامنے رسول خداﷺ کا سبزپوش دستہ نمودار ہوا جس میں مہاجرین و انصارپرچم تھامے شامل تھے، ایک ہزار انصار لوہے کی زرہوں میں ملبوس تھے۔ رسول اللہﷺ نے اپنا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہؓ کو عطا فرمایا تھا اور وہ لشکر کے آگے آگے تھے، حضرت سعد بن عبادہؓ ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اسےللکارا۔ ابوسفیان نے حضرت عباسؓ سےکہا کہ آج میری حفاظت کا ذمہ دار کون ہے؟ اسی وقت رسول خداﷺ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت اسید بن حضیر ؓکے درمیان اپنی اونٹنی قصواء پر نمودار ہوئے۔ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان سے کہا کہ یہ رسول اللہﷺہیں۔

جب آپؐ مکّے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ عورتیں گھوڑوں کے مونہوں پر دوپٹے مارمار کر انہیں پیچھے ہٹارہی تھیں۔ حضورﷺ نے یہ منظر دیکھا تو حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ حسان بن ثابت نے کیا کہا ہے۔ جس پر حضرت ابوبکرؓ نے حسان بن ثابت کے وہ اشعار پڑھے جن میں رعب دار لشکر کے کداء کے راستےداخل ہونے کےبیان میں اسی قسم کی منظر کشی ہے۔ آپؐ نے فرمایا پھر وہیں سے داخل ہو جہاں سے حسان بن ثابت نے کہا ہے۔ کداء عرفات کا ہی دوسرا نام ہے۔

فتح مکہ کے موقعے پرآپؐ نے امن کا اعلان فرمایاتو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ ابوسفیان شرف کو پسند کرتا ہے چنانچہ حضورﷺنے فرمایا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے گا وہ امن میں رہے گا۔ جب حضورﷺ کےحکم سے ہُبل بت کو گرایا گیا تو زبیربن عوامؓ نے ابوسفیان کو یاد دلایا کہ احد کے دن تم نے اسی بت کے متعلق بہت غرور سےاعلان کیا تھا کہ اس نے تم پر انعام کیا ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ اب ان باتوں کو جانے دو۔ مَیں جان گیا ہوں کہ اگر محمدﷺ کےخداکے علاوہ بھی کوئی خدا ہوتا تو جو آج ہوا وہ نہ ہوتا۔

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ فتح مکّہ کے دن رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے اور حضرت ابوبکرؓ تلوار سونتے حفاظت کےلیے آپؐ کے سرہانے کھڑے تھے۔

غزوہ حنین جسےغزوہ ہوازن یا غزوہ اوطاس بھی کہتے ہیں آٹھ ہجری میں فتح مکّہ کے بعد ہوا۔ حنین مکّہ اور طائف کے درمیان مکّے سے تیس مِیل کے فاصلے پر ایک گھاٹی ہے۔فتح مکّہ کی اطلاع ملنے پر مالک بن عوف نصری کی تحریک پر قبائلِ عرب کا ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے تیار ہوا۔ حضورﷺ بارہ ہزار کےلشکر کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلے اور علیٰ الصبح حنین جا پہنچے۔ مشرکین کا لشکر وہاں پہلے سے گھاٹیوں میں چھپا بیٹھاتھا۔ انہوں نے مسلمانوں پر اچانک اتنی شدت کا حملہ کیا کہ مسلمان سنبھل نہ پائے اور بکھر گئے۔ روایات میں مذکور ہے کہ آپؐ کے پاس محض گنتی کے چند صحابہ رہ گئے تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ (جنگِ حنین میں) ایک وقت ایسا آیا کہ رسول کریمﷺ کے گرد صرف بارہ صحابی رہ گئے ۔ حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر آپؐ کی سواری کی لگام پکڑی اور عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! یہ آگے بڑھنے کا وقت نہیں۔ مگر آپؐ نے بڑے جوش سے فرمایا میری سواری کی باگ چھوڑ دو اور پھر ایڑھ لگاتے ہوئے آگے بڑھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ مَیں موعود نبی ہوں جس کی حفاظت کا دائمی وعدہ ہے۔ مَیں جھوٹا نہیں ہوں۔ اس لیے تم تین ہزار تیر انداز ہو یا تیس ہزار مجھے پرواہ نہیں۔

رسول اللہﷺ کے ارشاد پر حضرت عباسؓ نے مسلمانوں کو یہ صدا لگائی کہ اے سورہ بقرہ کے صحابیو! اے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کرنے والو!خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ نَو مسلموں کی بزدلی کی وجہ سے ہماری سواریاں بھی دوڑ پڑی تھیں لیکن جیسے ہی یہ آواز میرے کانوں میں آئی مجھے یوں لگا کہ مَیں زندہ نہیں مردہ ہوں اور اسرافیل کا صُور فضا میں گونج رہا ہے۔ مَیں نے اپنی سواری کو موڑنا چاہا مگر وہ بدکا ہوا تھا۔ مَیں نے اورمیرے کئی ساتھیوں نے اونٹوں سے چھلانگیں لگادیں۔ کئی نے تو اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں اور رسول اللہﷺ کی طرف دوڑنا شروع کردیا۔

غزوہ طائف شوال آٹھ ہجری میں پیش آیا۔ آپؐ نےاہلِ طائف کا محاصرہ کیا۔ مختلف روایات کے مطابق اس محاصرےکی طوالت دس راتوں سے چالیس راتوں تک بیان کی جاتی ہے۔ اس موقعے پرآپؐ نے ایک خواب دیکھی اور حضرت ابوبکرؓ نے اس کی وہی تعبیر بیان کی جو رسول اللہﷺ کا بھی خیال تھا۔

غزوہ تبوک رجب نَو ہجری میں ہوا۔ اس غزوے کے موقعے پر حضرت ابوبکرؓ نے اپنا کُل مال جس کی مالیت چار ہزار درہم تھی آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے دریافت فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ گھر والوں کےلیے اللہ اور اس کا رسول چھوڑآیا ہوں۔ زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت عمرؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مَیں اپنا نصف مال لایا اور سوچا کہ اگر کبھی مَیں ابوبکر پر سبقت لے جا سکا تو وہ آج کا دن ہوگا۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ اپنا تمام مال لیے حاضر ہوئے تو مَیں نے کہا کہ اللہ کی قسم! مَیں ابوبکر سے کسی چیزمیں کبھی بھی سبقت نہیں لےجاسکتا۔

حضرت مسیح موعودؑ اس واقعے کا ذکر کرکے بیعت کرنے والوں کے متعلق فرماتے ہیں ایک وہ ہیں جو بیعت تو کر جاتے ہیں اور اقرار بھی کر جاتے ہیں کہ ہم دنیا پر دین کو مقدّم کریں گےمگر مدد اور امداد کے موقعے پر اپنی جیبوں کو دبا کر پکڑے رکھتے ہیں۔ بھلا ایسی محبت دنیا سے کوئی دینی مقصد پاسکتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ تبوک میں ایک رات مَیں نے رسول اللہﷺ ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ آپ تینوں حضرت عبداللہ ذوالبجادین ؓکو قبر میں دفن کر رہے تھے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے تمنّا کی کہ کاش یہ قبر والا مَیں ہوتا۔

حضوراکرمﷺ نے نَو ہجری میں تبوک سے واپسی پرحج کےلیے روانگی کا ارادہ کیا۔لیکن جب آپؐ کو بتایا گیا کہ حج کے موقعے پر مشرکین شرکیہ الفاظ ادا کرتے اور ننگے ہوکر طواف کرتے ہیں تو آپؐ نے اس سال حج کا ارادہ ترک کردیا اور حضرت ابوبکرؓ کو امیرالحج مقرر فرمایا۔حضرت ابوبکرؓ تین سَو صحابہ کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہوئے۔ حضورﷺ نے قربانی کے بیس جانور روانہ فرمائے۔ حضرت ابوبکرؓ کی روانگی کے بعد آپؐ پر سورہ توبہ نازل ہوئی۔ آپؐ نے حضرت علیؓ کو بلوایا اور انہیں فرمایا کہ سورہ توبہ کے آغاز میں جو بیان ہوا ہے اسے لے جاؤ اور قربانی کے دن جب منیٰ میں لوگ جمع ہوں تو اس میں اعلان کردو کہ جنت میں کوئی کافر داخل نہیں ہوگا۔ اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج کی اجازت نہ ہوگی، نہ ہی کسی کو ننگے بدن بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہوگی۔ جس کسی کے ساتھ آنحضرتﷺ نے کوئی معاہدہ کیا ہے اس کی مدّت پوری کی جائے گی۔

جب حضرت ابوبکرؓ سے حضرت علیؓ ملے تو حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کہ آپ کو امیر مقرر کیا گیا ہے یا آپ میرے ماتحت ہوں گے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ یہ حضرت ابوبکرؓ کی عاجزی کی انتہا ہے۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ مَیں آپؓ کے ماتحت ہوں گا۔

ایک روایت کے مطابق حضرت ابوبکرؓ نے عرفہ کے مقام پر لوگوں سے خطاب کیا اور پھر حضرت علیؓ سےفرمایا کہ رسول اللہﷺ کا پیغام پہنچاؤ۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے سورہ برأت (سورہ توبہ) کی چالیس آیات سنائیں۔

حضرت ابوبکرؓ کاذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے محترمہ امة اللطیف خورشید صاحبہ اہلیہ شیخ خورشید احمد صاحب مرحوم اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ربوہ کاذکرِ خیر فرمایا اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان کیا۔

مرحومہ گذشتہ دنوں پچانوے سال کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔ آپ کو خدا نے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا ۔ عبدالباسط شاہد صاحب مربی سلسلہ کی بہن تھیں۔ ان کے پوتے وقاص احمد خورشید امریکہ میں مربی سلسلہ ہیں۔ ایک بہن امة الباری ناصر صاحبہ ہیں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ یہ اچھا علمی خاندان ہے۔

تالیف و تصنیف سے لے کر انتظامی امور تک آپ کی خدمات کا سلسلہ ستّر برس سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ مرحومہ بہت ملنسار، مہمان نواز، عبادت گزار ، دعاگو، علمی مزاج کی حامل اور خلافت کی سچی وفادارخاتون تھیں۔

مرحومہ کی پوتی نے لکھا کہ آپ نے ہمیں ایمان اور مغربی معاشرے کو ہم آہنگ اور متوازن کرنا سکھایا۔ حضورِانور نے فرمایا کہ ماؤں اور بزرگوں کا یہ کام ہے کہ نئی نسل کو سنبھالنے ،تربیت کرنے اور دین سکھانے کی کوشش کریں ۔

حضورِانور نے مرحومہ کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button