متفرق مضامین

حضرت اسماعیل علیہ السلام اور مکہ (قسط دوم۔آخری)

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

خواب کے عین مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی میں آپؑ نے حضرت اسماعیلؑ جو کہ اس وقت ابھی شیر خوار بچے ہی تھے کو والدہ سمیت مکہ چھوڑا

’’موریاہ‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ قدیم یہودی ربیوں نے مختلف خیالات پیش کیے ہیں۔ یہ کہ وہ جگہ جہاں سے ہدایات دی گئیں، یا جہاں سے نور نکلا، یا جہاں سے خدا نے فیصلہ کیا یا حملہ کیا۔ یا وہ جگہ جو خدا دکھائے گا، یا دنیا پر حکمرانی کی جگہ، یا وہ جگہ جہاں مُر جلایا جائے۔ (بریشیت رباح، باب ۵۵) اس سے ظاہر ہے کہ قربانی کی جگہ اور اس کا نام اور اس کی وجہ تسمیہ یہود کے علماء کو معلوم نہ تھی اس لیے مختلف اندازے لگائے گئے۔

جدید مسلمان علماء میں سے علامہ فراہی نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ بائبل میں مذکور ارض موریاہ سے مراد ’’مروہ‘‘ ہے۔ (فراہی، الرأی الصحیح فی من ھو الذبیح، صفحہ ۵۶) حج کے دوران صفا اور اسی مروہ کے درمیان سعی کی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ نکتہ بھی پیش کیا ہے کہ آنحضورؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ مروہ بھی منحر (قربانی کی جگہ) ہے، اور مکہ کی وادیاں اور اس کی گلیاں بھی۔ پھر ایک دفعہ منیٰ کے متعلق بھی فرمایا کہ یہ منحر ہے۔ لیکن جہاں مروہ کا ذکر ہے وہاں المنحرفرمایا ہے الکی تخصیص کے ساتھ۔ جبکہ منیٰ کے متعلق صرف منحر۔ اس سے وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اصل اور حقیقی منحر، جہاں حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا واقعہ پیش آیا وہ مروہ ہی ہے۔(فراہی، الرأی الصحیح فی من ھو الذبیح، صفحہ ۶۱)

البتہ جبل موریاہ (הַר הַמּוֹרִיָּה) بائبل میں ایک جگہ استعمال ہوا ہے (۲ تواریخ باب ۳ آیت ۱) جو کہ یروشلم کا وہ پہاڑ ہے جس پر ہیکل سلیمانی تعمیر کی گئی تھی۔ لیکن یہ جبل موریاہ بیٹے کی قربانی والی جگہ یقیناً نہیں ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اول تو اس پہاڑ کے متعلق ذکر کیا گیا ہے کہ اس پر حضرت داؤدؑ پر خدا ظاہر ہوا تھا۔ اگر یہ حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے کی قربانی کی جگہ ہوتی تو اس عظیم واقعہ کی مناسبت سے اس پہاڑ کو حضرت ابراہیمؑ سے منسوب کرنا چاہیے تھا نہ کہ حضرت داؤدؑ سے۔ دوسرے بائبل میں ہیکل سلیمانی والے پہاڑ کو ’’صحیون‘‘ کہا گیا ہے۔ بہرحال اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ قربانی والی ارض موریاہ نامعلوم ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’لکھا ہے ’’ وہاں ابراہام نے قربان گاہ بنائی۔ اور اُس پر لکڑیاں چنیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اُسے قربان گاہ پر لکڑیوں کے اوپر رکھا اور ابراہام نے ہاتھ بڑھا کر چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے۔تب خداوند کے فرشتے نے اُسے آسمان سے پکارا کہ اے ابراہام۔اے ابراہام ! اُس نے کہا میں حاضر ہوں۔پھر اُس نے کہا کہ تُو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اس سے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا کہ تُو خدا سے ڈرتا ہے۔اس لئے کہ تُونے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔اور ابراہام نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے۔تب ابراہام نے جاکر اُس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختی قربانی کے طور پر چڑھا یا۔‘‘ ( پیدائش باب ۲۲ آیت ۹ تا ۱۳) اب اگر اسی طرح واقعہ ہوا ہو کہ خداتعالیٰ نے پہلے الہاماً حضرت ابراہیم ؑ کو یہ کہا ہو کہ جاؤ اور اپنے بیٹے کو چھُری سے قربان کر دو۔اور پھر جب وہ قربان کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں روک دیا تو پہلا حکم بالکل بے فائدہ قرار پایا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اس طرح قربان کریں۔تو انہیں قربان کرنے کا حکم کیوں دیا گیا اور کیوں بعد میں اُن سے صرف مینڈھے کی قربانی کو قبول کر لیا گیا۔پس بائیبل جو کچھ بتاتی ہے وہ عقلی طور پر ایک قابلِ اعتراض صورت ہے جس میں خدا تعالیٰ کے ایک حکم کو بے کار قرار دینا پڑتا ہے۔لیکن قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے یہ رؤیا دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں جس کی تعمیل میں انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک وادی غیر ذی زرع میں جا کر چھوڑ دیا اور اس طرح عملی رنگ میں اپنے ہاتھوں انہیں ذبح کر دیا۔گویا بائیبل حضرت ابراہیم ؑکے واقعہ میں انسانی قربانی کو بطور اصل پیش کرتی ہے اور جانور کی قربانی کو اس کا قائم مقام قرار دیتی ہے۔لیکن اسلام صرف جانور کی قربانی کو ہی اصل قربانی قرار دیتا ہے اور بتا تا ہے کہ ہر مذہب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جانوروں کی قربانی ہی اصل قربانی مقر ر کی گئی تھی۔انسانی قربانی کا جو اُن میں رواج پیدا ہوا وہ منشاء الٰہی کے خلاف اور مذہب کے بگاڑ کا نتیجہ تھا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانی قربانی کا رواج منشاء الٰہی کے خلاف تھا تو پھر حضرت ابراہیم ؑ کو رؤیا میں یہ کیوں دکھا یا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ رؤیا دراصل اپنے اندر تعبیری رنگ رکھتی تھی جسے بعد میں رُونما ہونے والے واقعات نے ظاہر کر دیا۔اور وہ تعبیر یہ تھی کہ ایک دن حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے اسمٰعیل ؑکو خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک ایسی جگہ اور ایسے حالات میں چھوڑ کر آئیں گے کہ جہاں ظاہری حالا ت کے مطابق اُن کی موت یقینی ہو گی لیکن اللہ تعالیٰ اُن کی اس قربانی کو قبول فرما کر اُن کی زندگی کے سامان پیدا کر دےگا اور اُن کے ذریعہ سے اس قدیم معبد کو جسے اللہ تعالیٰ دنیا کا آخری معبد بھی بنانا چاہتا تھا آباد کر ائے گا تاکہ جس طرح اللہ اوّل اور آخر ہے اسی طرح اس کا گھر یعنی مکہ مکرمہ بھی اوّل گھر اور آخر گھر بن جائے۔چنانچہ مسلمانوں میں عید الاضحی کی یاد گار کسی ایسے بکرے کی قربانی کے بدلے میں نہیں جو حضرت ابراہیم ؑنے ذبح کیا ہو بلکہ خود حضرت اسمٰعیل ؑ کی قربانی کی یاد گار میں ہے۔جو بیت اللہ کو آباد رکھنے کے لئے کی گئی۔اور اس میں کیا شبہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکا اپنے بیٹے کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آنا اپنے ہاتھوں قتل کرنے کے مترادف تھا۔بلکہ حقیقتاً اُس سے بھی زیادہ۔کیونکہ قتل کرنے سے ایک منٹ میں جان نکل جاتی ہے اور اس طرح اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو انہوں نے سسک سسک کر جان دینی تھی۔پس حضرت ابراہیم ؑکا یہ رؤیا انسانی قربانی کی ترویج کے لئے نہیں تھا بلکہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دُنیا کو یہ سبق دینا چاہتا تھا کہ اصل قربانی یہ ہے کہ انسان اس غرض سے تکلیف اُٹھائے کہ اس کا فائدہ دنیا کو پہنچے۔پس وہی قربانی اس کی نظر میں مقبول ہو سکتی ہے جو بنی نوع انسان کی زندگی کا موجب ہو۔‘‘ (تفسیر کبیرجلد ششم، صفحہ 50-51زیر آیت سورۃالحج :۳۷)

واقعات کی ترتیب کیا تھی؟

اگلا سوال یہ ہے کہ ماں بیٹے کو مکہ میں چھوڑنے کا واقعہ کب ہوا اور قربانی کا واقعہ کب؟ اس ضمن میں یاد رکھنا چاہیے کہ واقعات کی تشریح وہی قابل قبول ہو سکتی ہے جو تمام واقعات کو اپنے اندر سمو سکے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک دو واقعات پر ایک تشریح چسپاں کر دی جائے اور بقیہ پر دوسری۔ حقیقت تو ایک ہی ہوتی ہے۔ پس قرآن کریم میں اس ضمن میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں ان سب پر ایک ہی تشریح صادق آنی چاہیے۔

یہ واضح ہے کہ قربانی والے واقعہ کے وقت حضرت اسماعیلؑ عاقل بالغ تھے ورنہ ایک چھوٹے بچے سے جسے قربانی اور زندگی و موت کی سمجھ ہی نہ ہو قربانی کے متعلق سوال کرنا بےمعنی بات ہے۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ سعی سے مراد قرآن کریم میں اول طور پر خدا تعالیٰ کی راہ میں سعی کرنا ہے وَمَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَہَا سَعۡیَہَا وَہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعۡیُہُمۡ مَّشۡکُوۡرًا۔ (بنی اسرائیل:۲۰) وَاَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔وَاَنَّ سَعۡیَہٗ سَوۡفَ یُرٰی۔ثُمَّ یُجۡزٰٮہُ الۡجَزَآءَ الۡاَوۡفٰی۔ (النجم:۴۰تا۴۲) مختلف مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ عمر ہے جب آپؑ حضرت ابراہیمؑ کے مذہبی امور میں ہاتھ بٹانے کے قابل ہو گئے تھے۔ (تفسیر بیضاوی، زیر آیت سورۃ الصٰفات:۱۰۳)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’جب وہ اس عمر کو پہنچ گئے تھے کہ جب وہ حضرت ابراہیمؑ پر خدا تعالیٰ کے نازل کردہ قانون یعنی شریعت کو سمجھ سکیں گویا جب وہ ذہنی بلوغت کی اس عمر کو پہنچ گئے کہ اپنے والد کی طرح ان تمام مقاصد یعنی شریعت کو حاصل کر سکیں تب حضرت ابراہیمؑ نے اپنی خواب ان کے سامنے بیان کی۔‘‘ (خطبات طاہر، خطبہ عید الاضحی فرمودہ۲۸؍ستمبر۱۹۸۳ء)اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ قرآن کریم کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کو ’’غلام حلیم‘‘ کی بشارت دی گئی تھی۔ چنانچہ حلمکی عمر تک پہنچنے، یعنی بالغ ہونے، سے پہلے ذبح کا واقعہ ہونا ناممکن ہے۔ (تفسیر روح البیان، زیر آیت سورۃ الصٰفات: ۱۰۳۔ الشوکانی، فتح القدیر، زیر آیت سورۃالصٰفات:۱۰۳) سعی کی عمر کو پہنچنے سے مراد مختلف لوگوں کے نزدیک سات سے تیرہ سال تک کی عمر ہے۔(تفسیر جلالین، زیر آیت سورۃ الصٰفات: ۱۰۳) بعض کے نزدیک اس سے مراد عقل کی سعی ہے یعنی جب کسی پر حجت قائم کی جا سکتی ہو۔(تفسیر قرطبی، زیر آیت سورۃالصٰفات:۱۰۳) بہرحال بلوغت کی عمر تھی خواہ تیرہ چودہ سال ہو ، خواہ اس سے کچھ کم یا زیادہ۔ اس وقت تک غالباً حضرت ہاجرہؓ وفات پا چکی تھیں ورنہ اس واقعہ کے متعلق ان کا بھی کوئی بیان ضرور ملتا۔

قرآن کریم میں ترتیب کے مطابق پہلے پیدائش، پھر بڑے ہونے، پھر قربانی کے واقعہ کا ذکر آیا ہے۔ نیز جب فرمایا گیا کہ ’’تُو خواب پورا کر چکا ہے‘‘ تو ظاہر ہے کہ خواب قربانی والے واقعہ سے پہلے پورا ہو چکا تھا۔ اگر خواب میں ذبح کرنے سے مراد مکہ میں چھوڑنا تھا تو ایسا قربانی سے پہلے ہو چکا تھا۔ چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قربانی کے واقعہ کے بعد کون سا فدیہ دیا گیا؟ اور فدیہ بھی عظیم! اسی لیے مفسرین اس بحث میں پڑے رہے ہیں کہ وہ جانور بہت بڑا تھا اور جنت سے آیا تھا وغیرہ گویا وہ اس جانور کی قربانی کو فدیہ عظیم خیال کرتے ہیں۔ (تفسیر جلالین، زیر آیت سورۃالصٰفات :۱۰۸) یہ نہایت غیر معقول خیال ہے! جس فدیہ کو اللہ تعالیٰ عظیم قرار دے رہا ہے اسے جانور سمجھ لینا بالکل بے محل بات ہے۔

درحقیقت مکہ میں چھوڑا جانا حضرت اسماعیلؑ کی قربانی نہیں تھی۔یہ حضرت ہاجرہؓ کی قربانی تھی۔ حضرت اسماعیلؑ اس وقت شیر خوار تھے ان کو قربانی کا شعور ہی نہیں تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے بے شک بیوی اور بیٹے کو وہاں چھوڑا، جو کہ ایک بڑی قربانی ہے، مگر آپؑ ان کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اصل قربانی تو ماں کی تھی جو ہر لمحہ اپنی آنکھوں کے سامنے بچے کو پیاس سے تڑپتا دیکھتی تھی اور خود بھی وطن سے دور ایک غیر ملک میں صحرا میں بے یار و مددگار اکیلی موت کے منہ میں جا رہی تھی۔ اور اس حالت میں بھی توکل ایسا کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی تو دوسرا لفظ نہیں بولا۔ اطمینان سے آکر بیٹھ گئیں کہ پھر کوئی مسئلہ نہیں، اِذًا لَا یُضَیِّعُنَا، خدا نے کہا ہے تو وہ یقیناً ہمیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا، تم بے شک چلے جاؤ! چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’ہاجرہ کو جو اُس وقت قربانی کرنی پڑی میں سمجھتا ہوں وہ ابراہیمؑ سے بعض لحاظ سے زیادہ تھی۔ کیونکہ حضرت ابراہیمؑ اِس بچے کی تکلیف نہ دیکھنے کے خیال سے وہاں سے چلے گئے۔ لیکن ہاجرہ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے اکلوتے بیٹے کو تڑپتے دیکھا اور پھر بھی خدا تعالیٰ کی مشیت پر صبر کیا اور ہاجرہ ہی کی دعا تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرشتہ بھیجا۔‘‘ (انوار العلوم جلد ۲۴، تقریر ۲۷ دسمبر ۱۹۵۳)

یہ تو ماں اور باپ کی قربانی کے نمونے تھے، محمد رسول اللہؐ کا جد امجد بننے کے لیے مگر حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا نمونہ دکھانا بھی ضروری تھا۔ اور یہ قربانی ایسی عمر میں ہونی تھی جس میں انسان ہر قسم کے دینی معاملات کو سمجھتا اور اپنی زندگی و موت کے متعلق مکمل آزادی سے فیصلہ کر سکتا ہے۔ ورنہ تو قربانی کے کوئی معنی ہی نہیں۔ پس حضرت اسماعیلؑ کی قربانی وہی تھی جب انہوں نے بلوغت کی عمر کو پہنچ کر افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ کہا اور اپنی گردن چھری کے نیچے رکھ دی۔ پس مکہ میں چھوڑا جانا نہیں بلکہ حضرت اسماعیلؑ کا قربانی پر تیار ہو جانا وہ عظیم بات تھی جس کے بعد ان کی جگہ عظیم فدیہ دیا گیا۔

یہ عظیم فدیہ اللہ کے گھر کو آباد رکھنے اور اس کی عبادت کو جاری رکھنے کے لیے دی جانے والی وہ قربانیاں تھیں جو اڑھائی ہزار تک حضرت اسماعیلؑ کی اولاد نے اکیلے اس بےآب و گیاہ صحرا میں دیں اور جن کا کمال آنحضورؐ اور صحابہؓ کی قربانیوں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ محمدؐ اور آپؐ کے صحابہ کی قربانیاں وہ عظیم فدیہ تھیں جن کی خاطر اسماعیلؑ کو ذبح ہونے سے بچایا گیا۔ اور ان قربانیوں کی عظمت کا اللہ تعالیٰ نے خود اعلان کیا۔ چنانچہ یہ نہیں فرمایا کہ ابراہیمؑ نے فدیہ دیا۔ بلکہ فرمایا ’’ہم‘‘ نے فدیہ دیا! یعنی اللہ نے ان آنے والی قربانیوں سے جو نمونے قائم فرمانے تھے اور جس مقصد کائنات کو آپؑ کی نسل سے پیدا کرنا تھا، اس کی خاطر اسماعیلؑ کو بچایا۔

حضرت اسماعیلؑ کی عمر کیا تھی؟

حضرت اسماعیلؑ کے مکہ میں چھوڑے جانے کی عمر کے متعلق تین مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ آپؑ اس وقت شیر خوار بچے تھے۔دوسرا یہ کہ آپؑ چار پانچ سال کے بچے تھے۔ تیسرا یہ کہ آپؑ سولہ سترہ سال کے نوجوان تھے۔ان تینوں خیالات کی بنیاد بعض تفسیری نکات پر ہے۔ اور تینوں کے متعلق کچھ مشکلات بھی ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے۔

درست خیال یہ ہے کہ مکہ چھوڑے جانے کے وقت حضرت اسماعیلؑ شیر خوار بچے تھے۔بخاری وغیرہ تمام اسلامی روایات میں یہی بیان کیا گیا ہے۔(بخاری، صحیح، کتاب احادیث الانبیاء، باب یزفون…) بائبل بھی اس سے متفق ہے۔ لیکن اس خیال پر ایک اعتراض پڑتا ہے جس کا علماء کوئی جواب نہیں دیتے۔ سارہ نے گھر سے نکالنے کا مطالبہ اس وقت کیا جب اسحاقؑ پیدا ہو چکے تھے۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ سارہ نے کہا تھا کہ اسے اور اس کی ماں کو گھر سے نکال دو یہ میرے بیٹے کے ساتھ وارث نہیں ہو گا۔(پیدائش باب ۱۶)اسلامی تفاسیر میں بھی بائبل کی تائید کی گئی ہے۔یہ بات عقلاً بھی قابل فہم ہے۔ کیونکہ جب تک اسحاقؑ پیدا نہیں ہوئے اس وقت تک سارہ کو یہ جرأت ہی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ حضرت ابراہیمؑ سے اپنے اکلوتے بیٹے اور اس کی ماں کو مرنے کے لیے صحرا میں چھوڑ آنے کا مطالبہ کرتی۔ اس وقت تک وہ صرف خود ہی حضرت ہاجرہؓ پر سختی کر سکتی تھی۔

مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی روایات کے مطابق دونوں بھائیوں کی پیدائش میں 13 سال کا فرق تھا۔ (تفسیر قرطبی، زیر آیت سورت ابراہیم:۴۰) اوربائبل کے مطابق 14سال کا۔ پس گھر سے جانے کے وقت اسماعیلؑ کم از کم 13، 14سال کے ہونے چاہئیں۔ لیکن اتنی عمر کا نوجوان اوّل تو پیاس سے اس طرح ایڑیاں نہیں رگڑتا جس طرح روایات میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر حضرت ابراہیمؑ جب ان کو مکہ میں چھوڑ کر واپس جانے لگے ہیں تو اس وقت کی تمام عرب روایات میں صرف حضرت ہاجرہؓ کا ذکر ہے کہ انہوں نے بار بار حضرت ابراہیمؑ سے پوچھا کہ آپؑ ہمیں کہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ لیکن اسماعیلؑ کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی باپ سے پوچھتے کہ انہیں صحرا میں اکیلے چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ اسی طرح ماں بیٹے کے درمیان بھی کوئی گفتگو ہوتی لیکن اس کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ چودہ تو کیا اگر اسماعیلؑ اس وقت پانچ سال کے تھے تو بھی ان کے ساتھ باپ یا ماں کا کوئی مکالمہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن تمام روایات اس سلسلے میں خاموش ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ آپؑ اس وقت شیر خوار تھے۔چنانچہ احادیث میں صاف ذکر ہے کہ مکہ چھوڑتے وقت حضرت ہاجرہ ؓحضرت اسماعیلؑ کو دودھ پلاتی تھیں۔(بخاری، بداء الخلق) تاریخی روایات میں بھی یہی ذکر ہے۔(تاریخ طبری، امر بناء البیت)

پس اسلامی روایات کے مطابق ، اور اس کی تائید بائبل بھی کرتی ہے ، حضرت اسماعیلؑ شیر خوار بچے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’حضرت ابراہیمؑ نے یہ رؤیا بہت پہلے دیکھا تھا اور پھر حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو جو اس وقت بچے بھی نہیں تھے بلکہ شیر خوار تھے، کعبہ کے پاس لا کر آباد کر دینا ایک طرح سے رؤیا کو پورا کرنے کی کوشش تھی۔‘‘ (خطبات طاہر، خطبہ عید الاضحی فرمودہ۲۸؍ ستمبر ۱۹۸۲ء) اگر حضرت اسماعیلؑ شیر خوار بچے تھے تو مندرجہ بالا کے مطابق حضرت اسحاقؑ اس وقت تک پیدا نہیں ہوئے تھے تو پھر ہاجرہ ؓکو نکالنے والا واقعہ کیوں پیش آیا؟ اگر حضرت اسماعیلؑ کی عمر پانچ چھ سال مانی جائے تب بھی یہ سوال قائم رہے گا کیونکہ دونوں بھائیوں کی عمر میں فرق 14 سال کا ہے۔ اگر حضرت اسماعیلؑ کی عمر 14 سال مانی جائے تو ایک مسئلہ تو حل ہو جاتا ہے مگر جھاڑی کے نیچے لٹانا اور ایڑیاں رگڑنا وغیرہ سب امور ناقابل فہم ہو جاتے ہیں۔

حضرت اسحاقؑ کتنے چھوٹے تھے؟

حقیقت یہ ہے کہ حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ کی عمر میں 14 سال کا فرق ہونا بائبل کی ایک بے ثبوت بات ہے جس کا قرآن کریم اور قدیم عرب روایات میں کوئی ذکر نہیں۔ مزید یہ کہ اس بات کے غلط ہونے کا ثبوت خود بائبل میں بھی موجود ہے اور عرب روایات میں بھی! چنانچہ لکھا ہے کہ ابراہیمؑ نے پانی کی چھاگل اور بیٹا ہاجرہ کے کاندھے پر رکھے اور انہیں صحرا میں چھوڑ دیا۔(پیدائش ۲۱، آیت ۱۴)یہ بات ناممکن ہے کہ ماں 17سالہ جوان بیٹا اُٹھائے!چنانچہ یہودی مفسرین کو اس بات کی وضاحت دینے کی ضرورت پیش آئی۔ انہوں نے اس کی یہ عجیب وضاحت ڈھونڈی ہے کہ سارہ کی نظر لگنے سے اسماعیلؑ بیمار ہو گئے تھے اس لیے ان کو مجبوراً اٹھانا پڑا تھا۔(مدراش بریشیت رباح، باب ۵۳)لیکن یہ بات عقل کے پھر بھی خلاف ہے کہ ماں اتنے بڑے بیٹے کو اٹھائے خواہ وہ بیمار ہو کر کمزور اور پتلا ہو گیا ہو۔ دوسری طرف خود بائبل ہی اسلامی نکتہ نظر کی تائید کرتے ہوئے بیان کرتی ہے کہ ہاجرہ نے بچہ ایک جھاڑی کے نیچے لٹایا۔(پیدائش باب۲۱، آیت ۱۶) جوزیفس، جو کہ مشہور یہودی مصنف ہے اور آغازِ اسلام سے چھ سو سال پہلے ہو گزرا ہے ذکر کرتا ہے کہ اسماعیلؑ اس وقت تک چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوئے تھے۔(Josephus, Ant 12.3)اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ اس وقت چھوٹے دودھ پیتے بچے تھے نہ کہ 17سالہ نوجوان۔ چنانچہ مسیحی مفسرین نے بھی اس فرق کو تسلیم کیا ہے۔(Von Rad, Das erste Buch Mose, P 184) بائبل پیدائش باب 21 کی آیت 14، 15 اور 16 میں اسماعیلؑ کے متعلق لفظ יֶּ֖לֶד (یلد) استعمال کرتی ہے یعنی شیر خوار یا نومولود بچہ۔ جبکہ اس سے پہلے اور پیچھے استعمال شدہ لفظ נַּעַר֒ (نعر) ہے یعنی لڑکا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تبدیلی بعد میں کسی وقت کی گئی ہے تاکہ عمروں میں 14 سالہ فرق ظاہر کیا جا سکے۔

عقلاً بھی بائبل کا بیان غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہ بات قرین قیاس نہیں کہ اسماعیلؑ کی پیدائش سے پہلے تو اس قدر جھگڑا ہو کہ حضرت ہاجرہؓ گھر سے چلی جائیں اور الہام کی بنا پر ہی واپس آئیں اور اس کے بعد 17 سال سب اکٹھے رہیں اور پھر جبکہ اسماعیلؑ جوان ہو چکے ہوں بلکہ اس زمانے کے لحاظ سے غالباً شادی شدہ ہوں ، دوبارہ جھگڑا ایسی شدت پکڑ جائے کہ نوبت ماں بیٹے کو صحرا میں چھوڑنے کے مطالبے تک پہنچے۔علاوہ ازیں 17 سالہ نوجوان کو صحرا میں چھوڑ کر آنا کیا معنی رکھتا ہے؟ وہ تو آزاد اور اس قابل ہے کہ جہاں چاہے چلا جائے۔ پس سارہ یہ مطالبہ کر ہی نہیں سکتی تھی کہ 17 سالہ نوجوان کو ماں سمیت دور صحرا میں چھوڑا جائے۔

خلاصہ یہ کہ بائبل کا یہ کہنا کہ اسحاقؑ اسماعیلؑ سے 14 سال چھوٹے تھے درست نہیں۔ اس جگہ مزید تفصیل میں جائے بغیر یہ کہنا کافی ہو گا کہ تورات کا وہ حصہ جس میں دونوں بھائیوں کی عمر میں 14 سالہ فرق کا ذکر ہے Pکہلاتا ہے اور بہت بعد کے زمانے میں لکھا گیا ہے۔ جبکہ بائبل کا وہ حصہ جس میں ماں کو بیٹا دینے اور جھاڑی کے نیچے لِٹانے کا ذکر ہے وہ اس سے بہت زیادہ قدیم ہے۔

(Friedman, The Bible with Sources Revealed)

اور اس حصہ کی عرب روایات سے موافقت اور عقلی دلائل سے مطابقت اس کی درستگی ظاہر کر رہی ہے۔ چنانچہ ایک عرب روایت میں بالوضاحت بتایا گیا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ ہم عمر تھے۔(الثعلبی، قصص الانبیاء، صفحہ ۹۰) قرآن کریم میں ذکر ہے کہ جب حضرت اسماعیلؑ اور ان کی والدہ کو مکہ چھوڑا تو حضرت ابراہیمؑ نے دعا کی اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِِ (ابراہیم :۳۸) یعنی اے ہمارے ربّ! یقیناً میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو ایک بے آب وگیاہ وادی میں تیرے معزز گھر کے پاس آباد کر دیا ہے۔ اس جگہ بعض اسی لیے فرمایا گیا کیونکہ اس وقت حضرت اسحاقؑ بھی پیدا ہو چکے تھے جبکہ حضرت اسماعیلؑ ابھی شیر خوار تھے۔

درحقیقت سوکنوں میں جھگڑا اسماعیلؑ کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ سارہ کی سختیاں اتنی بڑھیں کہ ہاجرہ تنگ آ کر گھر سے چلی گئیں! اس وقت انہیں الہام ہوا کہ تو گھر واپس چلی جا۔تجھے ایک بیٹا دیا جائے گا جس کی اولاد کو بہت برکت ملے گی۔(پیدائش باب ۱۶) اللہ تعالیٰ کا آپ کو تسلی دینا ظاہر کرتا ہے کہ آپ مظلوم تھیں۔ چنانچہ آپ محض اللہ تعالیٰ کے حکم پر واپس گھر چلی گئیں۔جب حضرت ابراہیمؑ نے انہیں مکہ چھوڑا اور بتایا کہ اللہ کے حکم پر ایسا کیا ہے تو آپ سابقہ تجربہ پر مبنی مضبوط ایمان کی وجہ سے بالکل اطمینان سے بیٹھ گئیں اور فرمایا اذًا لَا یضیعنا یعنی پھر وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔جب پانی ختم ہو گیا تو آپ کی بے قراری کے وقت پانی کا چشمہ ظاہر کیا گیا اور دوسری مرتبہ آپ کو الہام ہوا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’حضرت ہاجرہ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کا مکالمہ ہوا۔ غرض حضرت ابراہیم ؑ…حضرت ہاجرہ اور اس کے بچے کو لے جا کر وہاں چھوڑ آئے جہاں اب مکہ آباد ہے۔چند دن کے بعد نہ دانہ رہا نہ پانی۔ حضرت اسماعیل ؑپیاس سے بےچین ہونے لگے ،تو اس وقت حضرت ہاجرہ نے نہ چاہا کہ اپنے بچے کی ایسی بے بسی کی موت اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اس لئے حضرت ہاجرہ چند مرتبہ اس پہاڑ پر ادھر ادھر دوڑیں کہ شاید کوئی قافلہ ہو۔ پہاڑ پر چڑھ کر گریہ و زاری کرنے لگیں…آپ کی گریہ و زاری پر فرشتے نے آواز دی ہاجرہ! ہاجرہ!!جب آپ نے ادھر ادھر دیکھا، تو کوئی شخص نظر نہ آیا۔ بچہ کے پاس جب آئیں تو دیکھا کہ اس کے پاس پانی کا چشمہ بہ رہا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد ۱صفحہ ۱۷۳)

پس بائبل کی اتنی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ اسحاقؑ کی پیدائش کے بعد یہ واقعہ ہوا۔ البتہ دونوں بھائیوں میں 14 سال کے فرق والی بائبل کی بات درست نہیں۔ جن مسلمان مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ یہ واقعہ اسحاقؑ کی پیدائش سے پہلے کا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ 14سال کا فرق پورا نہیں کر سکے اس لیے انہیں مجبوراً کہنا پڑا کہ اسحاقؑ اس وقت تک پیدا نہیں ہوئے تھے۔

حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ کی خوشخبریاں

حضرت ابراہیمؑ کے دو بیٹے تھے اور دونوں کے متعلق الگ الگ خوشخبریاں دی گئیں۔ پہلی خوشخبری حضرت اسماعیلؑ کے متعلق ہے جو کہ اس وقت دی گئی جب آپؑ اپنے وطن سے ہجرت کر رہے تھے۔ قرآن کریم فرماتا ہے وَقَالَ اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ۔رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ۔فَبَشَّرۡنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیۡمٍ ۔ (سورۃالصافات:۱۰۰تا۱۰۲) یعنی آپؑ نے اولاد کے لیے دعا کی تھی جس کے نتیجے میں آپؑ کو خوشخبری دی گئی۔اس وقت تک آپؑ کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے اولاد کی دعا مانگی۔ یہ پیشگوئی ’’غلام حلیم‘‘ کے متعلق ہے، یعنی بردبار بیٹے کے متعلق۔

اس کے مقابل پر دوسری خوشخبری اس وقت دی گئی جب قوم لوط کی طرف جاتے ہوئے لوگ راستے میں آپؑ کے ہاں ٹھہرے۔اس موقع پر آپؑ نے اولاد کے لیے دعا نہیں کی کیونکہ اولاد کے لیے دعا اور اس کے نتیجے میں بیٹے کی خوشخبری پہلے مل چکی تھی۔ بلکہ آپؑ کی دلجوئی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے خود آپؑ کو دوسرے بیٹے کی خوشخبری دی۔ قرآن کریم فرماتا ہے:اِذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ۔ فَرَاغَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ فَجَآءَ بِعِجۡلٍ سَمِیۡنٍ۔ فَقَرَّبَہٗۤ اِلَیۡہِمۡ قَالَ اَلَا تَاۡکُلُوۡنَ۔فَاَوۡجَسَ مِنۡہُمۡ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ ؕ وَبَشَّرُوۡہُ بِغُلٰمٍ عَلِیۡمٍ۔ (سورۃالذاریات:۲۶تا۲۹) اس جگہ جس ’’غلام علیم‘‘ یعنی علم رکھنے والے بیٹے کی خوشخبری دی گئی تھی دوسری جگہ بالوضاحت اس کا نام بھی بتایا گیا ہے۔ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰی قَوۡمِ لُوۡطٍ۔وَامۡرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتۡ فَبَشَّرۡنٰہَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَمِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ یَعۡقُوۡبَ۔(سورۃھود:۷۱تا۷۲) یعنی اس موقع پر جبکہ مہمان آپؑ کے ہاں ٹھہرے تھے حضرت اسحاقؑ اور حضرت یعقوبؑ کی خوشخبری دی گئی تھی۔ پس یہ خوشخبریاں دو مختلف مواقع پر اور دو مختلف بیٹوں کے متعلق ہیں۔ ایک پیشگوئی حضرت اسماعیلؑ کے متعلق ہے جس میں حلیمبیٹے کا ذکر ہے۔ دوسری پیشگوئی اسحاقؑ کے متعلق ہے جس میں علیمبیٹے کا ذکر ہے۔

خلاصہ

اپنے آبائی وطن سے ہجرت کے بعد حضرت ابراہیمؑ کو ایک بیٹے کی خوشخبری دی گئی۔ اس بیٹے کی پیدائش سے پہلے ہی سوکنوں کے باہمی جھگڑے کے باعث حضرت ہاجرہ ؓگھر سے چلی گئی تھیں جس پر انہیں الہاماً تسلی دی گئی اور وہ واپس گھر آ گئیں۔ اس بیٹے یعنی حضرت اسماعیلؑ کے متعلق ہی حضرت ابراہیمؑ نے خواب دیکھا۔ خواب کے عین مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی میں آپؑ نے حضرت اسماعیلؑ جو کہ اس وقت ابھی شیر خوار بچے ہی تھے کو والدہ سمیت مکہ چھوڑا۔ وہ خواب ماں باپ کی اس غیر معمولی قربانی سے اسی وقت پورا ہو گیا۔ اسی وقت مکہ میں زم زم کی دریافت کا واقعہ پیش آیا۔ جب اسماعیلؑ بڑے ہو گئے تو اسی پرانے خواب کی بنا پر آپؑ نے ان کی ظاہری قربانی کا بھی ارادہ کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا۔ تُو خواب پورا کر چکا ہے!

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button