متفرق مضامین

احمدیت کی ترویج میں اُردو زبان کی اہمیت و افادیت

(محمود احمد ناصر۔ جرمنی)

آج تک خدا تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے وہ اپنی قوم سے اسی زبان میں مخاطب ہوتے رہے جو وہاں بولی جاتی تھی

قوموں کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ان کے مزاج میں سب سے زیادہ حسّاس عنصر ان کے معاشروں میں بولی جانے والی زبان ہے۔ ہر معاشرے کی اپنی زبان ہوتی ہے جو اس کو پہچان دیتی اور اس کی ترجمانی کر تی ہے۔ ہر زبان میں ایک طرح کی چاشنی اور حلاوت پائی جاتی ہے، جس کی کیفیت کو اس زبان کے بولنے والے ہی پوری طرح محسوس کرسکتے ہیں۔ ہم زبان ہونا لوگوں کے مابین انس و یگانگت کا ذریعہ بنتا ہے۔

کہتے ہیں کہ سماجی تعلقات اور معاشرتی روابط زبان کے ذریعے سے ہی مضبوط ہوتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی ثقافت کے پھیلاؤ میں بھی زبان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ثقافت کی ترویج و اشاعت، جن میں عقائد و نظریات اور تہذیب و تمدن کا عکس گہرا ہو، اس میں زبان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہر ملک اور معاشرے کی ثقافت اور اس کی زبان لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔

آج تک خدا تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے وہ اپنی قوم سے اسی زبان میں مخاطب ہوتے رہے جو وہاں بولی جاتی تھی تاکہ وہ اس مرسل من اللہ کے پیغام کو آسانی سے سمجھ سکیں۔ اس کی شہادت ہمیں قرآن کریم سے ملتی ہے: وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّابِلِسَانِ قَوْمِہٖ (ابراھیم: 5)اور ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان دےکر بھیجا۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جب وہ کوئی پیغمبر بھیجتا ہے تو اس کو اس کی قوم کی اعلیٰ ترین زبان کا معجزہ بھی عطا فرماتا ہے اور زبان کا اعجازی نشان عطا فرمانے کا ایک مقصد ہوتا ہے جو معمولی زبان سے حاصل نہیں ہو سکتا اور وہ مقصد یہ ہے کہ تا وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو خوب کھول کر اور واضح کرکے لوگوں کے سامنے بیان کر دے۔ یہ آیت اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ جب نبی کی بعثت ہوتی ہے تو اس وقت اس قوم کی زبان اپنا اصلاحی سفر طے کرتے ہوئے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہوتی ہے جہاں اس میں بیان(یعنی خوب کھول کر بیان) ہو سکے۔

ہمارے پیارے نبیﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عرب میں مبعوث فرمایا۔ اور آپؐ عربی بولتے تھے۔ جو کہ اُمُّ الْاَلْسِنَۃ (یعنی تمام زبانوں کی ماں ) ہے کیونکہ تمام زبانیں اسی سے بنی ہیں، اسی طرح آپؐ پر قرآن کریم بھی عربی زبا ن میں ہی نازل کیا گیا تا کہ اس میں موجود احکامات نَہِی عَنِ الْمُنْکَر اور اَمْر بِالْمَعْرُوفْ عرب قوم پراپنی تمام تر حکمتوں کے ساتھ واضح ہوسکیں۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے الٰہی نشانات کے ساتھ مہدی آخرالزمان کومبعوث کیا تو اس وقت برصغیر، جو متحد تھا اور اس میں اردو بکثرت بولی جاتی تھی، جو آج بھی ہماری قومی زبان کہلاتی ہے۔ لہٰذا یہی مسیح موعود علیہ السلام کی زبان قرار پائی۔ ایک احمدی ہونے کے ناطے اردو ہماری بھی زبان ہے۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اسے باقاعدہ قواعد و ضوابط کے تحت بولنے والے ہوں تا کہ اس کاحقیقی معنوں میں حق ادا ہو۔

سیرت النبیﷺ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے دوسری اقوام کی زبانیں سیکھنے کی کوشش کرنا سنت کے درجے میں ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے علم کے حصول کی بہت تاکید کی ہے۔ آپؐ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو سریانی زبان میں مہارت حاصل کرنے کا حکم دیا۔ زید بن ثابتؓ کا بیان ہے کہ میں نے اللہ کے رسولؐ کے حکم کے مطابق سریانی زبان میں یہودیوں سے خط و خطابت کرنا سیکھا۔ آپؐ نے کسی خدشے کے پیش نظر ارشاد فرمایاکہ بخدا یہودیوں کے سلسلے میں، مَیں مطمئن نہیں ہوں کہ وہ میرے خط کی صحیح املا کریں گے۔

اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ اگر کسی زبان کا ہمیں علم نہ ہو تو وہ ہمارے الفاظ اور ہمارے بیانات کو توڑ مروڑ کر اور دوسرے معنی پہنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ جس قوم سے ہمارا واسطہ ہے اس کی زبان، محاورے وغیرہ کو ہم سمجھتے ہوں گے تو کسی بھی قسم کی غلط فہمی کا خطر ہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ پورا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے سریانی زبان میں مہارت حاصل کرلی۔ پھر یہودیوں کی طرف آپؐ کی جانب سے خط لکھا کر تا اور ان کی طرف سے آئے ہوئے خطوط کا آپؐ کی جانب سے جواب دیا کرتا۔ (بخاری)

ہندوستان کی سرزمین کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور اس کی تمام عالم میں اشاعت وغلبے کے لیے حضرت مسیح موعود وامام مہدی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، آپؑ کی زبان اردو تھی۔ اس طرح عربی کے بعد اردو زبان آپؑ کی جماعت کی مذہبی زبان بن گئی۔

اب ہم اگر احمدیت کے نقطۂ نظر سے جائزہ لیں تو حدیث، تفسیر، فقہ، اور ان کے اُصولوں، تصوف و سلوک، اسلام کے مختلف گوشوں اور شعبوں، سیرت نبوی صلی اللہ علیه وسلم، تاریخ اسلام، دین اسلام کی مختلف تشریحات و تعبیرات وغیرہ پر ہر جہت سے لکھوکھہا صفحات میں پھیلا ہوا نہایت وقیع سرمایہ بڑے پائے کے اصحابِ علم و فن کی تصنیفات کی شکل میں موجود ہے۔ یعنی ایک احمدی ہونے کی حیثیت اردو گھرانے میں پیدا ہونا خداوند قدوس کا عظیم احسان اور بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ اتنی گراں قدر مختلف الجہات سرمایوں کی حامل زبان کو مادری زبان بنادیا!

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد الٰہی وعدوں کے مطابق خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام عمل میں آیا، جس نے جماعت کے ننھے پودے کی نگہداشت اور آبیاری کی، جس کا تخم خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بویا تھا، سو آج یہ تناور درخت بن چکا ہے جس کی شاخیں دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہیں۔ اور اللہ کے فضل سے جماعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی آپ کے غلاموں کے ذریعے تمام دنیا میں پھیل چکی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی تائید وتجدید، آنحضرتﷺ کی صداقت وعظمت اورقرآن کریم کی حقانیت کے اثبات میں پچاسی (85)کے قریب کتب تحریر فرمائیں، جن میں سے پینسٹھ(65) سے زائد کتب اردو زبان میں ہیں۔ اس کے علاوہ آپؑ کے ملفوظات، جو سب کے سب اردو ہی میں ہیں، دس جلدوں میں محفوظ ہیں۔ نیز اشتہارات کی تین جلدیں اور آپؑ کے مکتوبات کی سات جلدیں ہیں۔ یہ اردو زبان میں ایک ایسا دائمی سرمایہ ہے جو نسلاً بعد نسل ٍنہ صرف احمدیوں کے دلوں کو منور کر رہا ہے بلکہ تمام قوموں کے مردہ دلوں کو جِلابخش رہا ہے۔ آج آپؑ کی منظومات کو عرب وعجم اور کئی افریقی اور مغربی قوموں کے باشندے ترنم سے پڑھتے اور اس سے روحانی تسکین حاصل کرتے ہیں۔

آج کی تاریخ میں جماعت احمدیہ میں اردوزبان کوسب سے زیادہ عموم وقبول حاصل ہے، بلکہ اس نے اپنے اندر اسلامی ودینی علوم وفنون کا اتنا سرمایہ منتقل کرلیا ہے جو نہ صرف مسلمانوں کی عام ضروری دینی تعلیم کے لیے کافی ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کے وسیع تر مطالعہ کا شوق رکھنے والوں کی تشفی کے لیے بھی عقلی ونقلی دونوں اعتبار سے بہت کچھ ذخیرہ فراہم ہوگیا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’میں سمجھتا ہوں ایک اَور چیز بھی ہے جو ہمیں بھولنی نہیں چاہیے اور وہ یہ ہے کہ بیرون ممالک میں جو لوگ احمدی ہوں گے وہ اردو زبان بھی سیکھیں گے۔ اس لیے اشاعت احمدیت سے اردو زبان کو بھی بہت زیادہ تقویت پہنچے گی۔ انڈونیشیا میں ہمارا مشن قائم ہے، وہاں جو لوگ احمدی ہوئے ان میں سے بعض نے اردو زبان سیکھی اور پھر بعض نے اپنے بچوں کو قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی بھیجا۔ مشرقی افریقہ میں اردو جاننے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو احمدی ہیں۔ بعض لوگ ایسے تھے جو اردو زبان کے بہت ہی مخالف تھے۔ ایک دوست، ابوالہاشم صاحب تھے، انہیں احمدی ہونے سے قبل صرف احمدیت سے ہی نفرت نہیں تھی بلکہ وہ اردو زبان کو بھی سننا نہیں چاہتے تھے۔ وہ جب احمدی ہوئے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کے لیےبڑھاپے میں اردو زبان سیکھی اور پھر اپنے بچوں کو بھی سکھائی۔ اسی طرح عرب ممالک سے بھی بعض دوست آئے ہیں اور انہوں نے اردو زبان سیکھی۔ مسٹر بشیر احمد آرچرڈ انگلینڈ سے آئے اور انہوں نے اردو زبان سیکھی اور مسٹر کنزے جرمنی سے آئے ہیں، وہ بھی اردو سیکھیں گے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ احمدیت کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اردو زبان پھیلتی جائے گی۔ یہ لوگ جب واپس جائیں گے اور چونکہ ان میں دوسری زبان سیکھنے کا بہت شوق ہے اس لیے یہ اپنے دوسرے دوستوں کو بھی اردو سکھائیں گے اور یہ چیز اردو زبان کی ترقی کا موجب ہو گی۔ ‘‘

(انوار العلوم جلد 21 صفحہ70)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آیت وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’چونکہ اس زمانے کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عربی کے بعد اردو میں الہام زیادہ کثرت سے ہوا ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ زبان ہندوستان کی اردو ہوگی اور دوسری کوئی زبان اس کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکے گی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ 444)

آج دیکھا جائے تو اردو زبان صرف ہندوستان کی زبان نہیں رہی بلکہ خلافت کی برکت سے یورپ اور افریقہ میں بھی اردو بولنے والے موجود ہیں۔ انڈونیشیا، ملائیشیا اور عرب بھی اردو زبان سیکھ رہے ہیں تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کا کلام براہ راست پڑھ اور سمجھ سکیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے29؍جولائی1949ء کو کوئٹہ میں خدام الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہندوستان میں مختلف قوموں اور زبانوں کے اختلاط سے ایک زبان پیدا ہوئی جس کو اُردو کہتے ہیں۔ اس زبان کی طرف ہندوستان میں بہت کم توجہ رہ گئی ہے بلکہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس کو بالکل مٹا دیا جائے۔ پنجاب کا شہری طبقہ اس کا بہت شائق چلا آتا ہے اور اس میں علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری جیسے بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اردو زبان کی بہت خدمت کی ہے اور ان کی وجہ سے ہندوستان اور اس کے باہر اردو زبان بہت مقبول ہو گئی ہے۔ مگر پنجاب کے عوام اور غیرتعلیم یافتہ اشخاص ابھی اس سے بہت دور ہیں اور انہیں اس میں کلام کرنا دوبھر معلوم ہوتا ہے۔ اگر وہ اس میں بات کریں تو طریق گفتگو غیرزبان دانوں کا سا معلوم ہوتا ہے۔ یوں تو غیرمادر ی زبان میں گفتگو کرتے وقت ہمیشہ مشکلات پیش آتی ہیں اور لازمی طور پرلہجہ میں فرق معلوم ہوتا ہے، تاہم اگر آپس میں اردو زبان میں ہی گفتگو کی جائے تو اس میں مہارت حاصل کر لینا کوئی مشکل امر نہیں۔ …پس میں آپ کو ایک نصیحت تو یہ کروں گا کہ اردو کو نئی زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنا دو۔ آپ لوگوں کو چاہیے کہ ہمیشہ اس زبان میں ہی گفتگو کیا کریں۔ جب ہم اردو میں ہی گفتگو کریں گے تو لازمی بات ہے کہ بعض الفاظ کے متعلق ہمیں یہ پتہ نہیں لگے گا کہ ان کو اردو زبان میں کس طرح ادا کرتے ہیں۔ اس پر ہم دوسروں سے پوچھیں گے اور اس طرح ہمارے علم میں ترقی ہو گی۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن انسان کو بڑی عمر میں بھی ان کی سمجھ نہیں آتی، لیکن جب وہ ایک زبان میں گفتگو کرنا شروع کر دے تو ان پر عبور حاصل کر لیتا ہے۔ پس ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ پنجابی زبان چھوڑ دیں اور اُردو کو، جو اَب بےوطن ہو گئی ہے، اپنائیں۔ یہ بھی ایک بڑا مہاجر ہے۔ جس طرح مہاجروں کو زمینیں مل رہی ہیں، چاہیے کہ اسے بھی اپنے ملک میں جگہ دی جائے اور اسے اتنا رائج کر دیا جائے کہ آہستہ آہستہ یہ ہماری مادری زبان بن جائے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جن کے خیال میں پنجابی زبان کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ میرے نزدیک اردو زبان کو ہی ہمیں اپنی زبان بنا لینا چاہیےاور اسے رواج دینا چاہیے۔ ملک کے کناروں پر اور پہاڑوں پر کہیں کہیں پنجابی زبان باقی رہ جائے تو حرج نہیں۔ اگر کسی کو پنجابی زبان سننے اور بولنے کا شوق ہوگا تو وہاں جا کر سن لے گا یا بول لے گا۔ پس میری نصیحت تو یہ ہے کہ تم اردو کو اپناؤ اور اس کو اتنا رائج کرو کہ یہ تمہاری مادری زبان بن جائے اور تمہارا لہجہ اردو دانوں کا سا ہو جائے۔‘‘

(روزنامہ الفضل، 6؍دسمبر 1966ء۔ مشعل راہ جلد اول صفحہ 536تا538)

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’ہمارے ملک میں یہ سوال عام طور پر پایا جاتا ہےکہ آیا اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے یا انگریزی زبان کوبھی ذریعہ تعلیم بنایا جائے؟ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا تو پاکستان تمام ممالک سے کٹ جائے گا۔ ذریعہ تعلیم اسی زبان کو بنانا چاہیے جسے دوسرے لوگ بھی سیکھیں۔ احمدیت کی اشاعت سے یہ سوال بھی حل ہو جائے گا۔ احمدیت کی وجہ سے اردو زبان دوسرے ممالک میں پھیل رہی ہے اوران شاءاللہ ایک دن ایسا آئے گا جب پاکستان کا ہر آدمی یہ سمجھنے لگ جائے گا کہ ہمیں کسی فارن لینگوئج یا اردو زبان کے علاوہ کسی اور زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

(انوار العلوم جلد 21صفحہ70)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے تعلیم الاسلام کالج کے تحت منعقدہ ’’اردو کانفرنس‘‘ بتاریخ18؍اکتوبر1964ء بمقام ربوہ میں فرمایا: ’’اردو کے ساتھ جماعت احمدیہ کا ایک پائیدار اور روحانی رشتہ بھی ہے۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی اکثر تصانیف اردو ہی میں ہیں، اس لیے اردو زبان عربی کے بعد ہماری محبوب ترین زبان ہے۔ اسی لیے ساری دنیا میں جہاں جہاں احمدیہ مشن یا احمدی مسلمان موجود ہیں وہاں اردو سیکھی اور سکھائی جا رہی ہے۔ زبان اردو کی یہ وہ ٹھوس خدمت ہے جو جماعت احمدیہ دنیا کے گوشے گوشے میں کر رہی ہے۔ اردو ہماری مذہبی زبان ہے، یہ ہماری قومی زبان ہے، یہ ہماری آئندہ نسلوں کی زبان ہے۔ یہ وہ قیمتی متاع ہےجو ہمارے اسلاف سے ورثہ میں ملی ہے۔ اسے اس قابل بنائیے کہ ہماری آئندہ نسلیں اس ورثہ کو سرمایۂ افتخار تصور کریں اور اس پر بجا طور پر ناز کر سکیں۔‘‘

(ذکر اردو صفحہ ج)

1931ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مضمون بعنوان ’’اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں؟‘‘ تحریر فرمایا، جس میں آپؓ فرماتے ہیں: ’’اردو زبان کی بڑی دقتوں میں سے ایک یہ دقت ہے کہ اس کی لغت کتابی صورت میں پوری طرح مدون نہیں ہے۔ اور نہ اس کے قواعد پورے طور پر محصور ہیں اور نہ مختلف علمی مضامین کے ادا کرنے کے لیے اصطلاحیں مقرر ہیں …اردو کی ترقی کے لیے ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں کہ بجائے ایک محدود جماعت کی دلچسپی کا مرکز بننےکے جمہور کو اس سے دلچسپی پیدا ہو۔ خالص علمی رسائل صرف منتخب اشخاص کی توجہ منعطف کرا سکتے ہیں اور زبانیں چند آدمیوں سے نہیں بنتیں، خواہ وہ بہت اونچے پایہ کی کیوں نہ ہوں۔ قاعدہ یہ ہے کہ زبان عوام الناس بناتے ہیں اور اصطلاحیں علماء۔ اردو بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتی۔ پس اگر ہم اردو کی ترقی کے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہی ہے کہ ہمارے ادبی رسالوں میں اس کے علمی پہلوؤں پر بحثیں ہوں تاکہ صرف پیش آنے والی مشکلات کے علاج ہی کا سامان نہ ہو بلکہ عوام الناس بھی ان تحقیقات سے واقف ہوتے جائیں۔ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی اردو رسائل کامیابی سے چل رہے ہیں۔ اگر ان رسائل میں چند صفحات مستقل طور پر اس بات کے لیے وقف ہو جائیں کہ ان میں اردو زبان کی لغت یا قواعد یا اصطلاحوں وغیرہ پر بحثیں ہوا کریں گی تو یقیناً تھوڑے عرصہ میں وہ کام ہو سکتا ہے جو بڑی بڑی انجمنیں نہیں کر سکتیں۔ اور بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جو نئی نئی اختراعیں ہوں گی یا الفاظ کے استعمال یا قواعد زبان کے متعلق جو پہلو زیادہ وزنی معلوم ہوگا عام لوگ بھی اسی کو قبول کر لیں گے۔ کیونکہ دلچسپ اردو رسائل میں چھپنے کی وجہ سے وہ سب مضامین ان کی نظروں سے بھی گزر تے رہیں گے۔ ہاں یہ مدنظر رہے کہ مضمون ایسے رنگ میں ہو کہ سب لوگ اسے سمجھ سکیں …مَیں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ جو رسالہ اس تحریک پر عمل کرنا چاہے اس میں ایک ادبی کلب قائم کر دی جائے۔‘‘

اس کے بعد حضورؓ نے بتایا کہ کس طرح مستند ادیبوں اور علماء کو اس کلب کا ممبر بنایا جائے۔ پھر فرمایا: ’’تمام ممبروں سے امید کی جائے کہ جب کبھی کوئی سوال اردولغت کے متعلق، نحوی قواعد کے متعلق، بعض علمی خیالات کے ادا کرنے میں زبان کی دقتوں کے متعلق، محاورات کے متعلق، تذکیروتانیث اور جمع کے قواعد کے متعلق، بظاہر مترادف نظر آنے والے الفاظ کے متعلق، پرانی اصطلاحات کی تشریح یا نئی اصطلاحات کی ضرورت کے متعلق پیدا ہو تو بجائے خود حل کر کے خود ہی اس سے لطف حاصل کرنے کے وہ اس سوال کو رسالہ کے ادبی کلب کے حصہ میں شائع کرائیں۔ خواہ اپنا حل بھی ساتھ ہی لکھ دیں یا خالی سوال ہی لکھ دیں۔ ان سے یہ امید بھی کی جائے کہ جب کوئی ایسا سوال شائع ہو تو وہ اس کا جواب دینے کی کوشش کیا کریں۔ …کلب کا کام فیصلہ کرنا نہ ہو بلکہ صرف ہر پہلو کو روشنی میں لانا ہو۔ اسی طرح جدید اصطلاحات کی ضرورتوں کو کلب کے صفحات میں شائع کیا جائے۔ … میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ضرورت ہو تو میں اس بحث کو واضح کرنے کے لیے اور اس تحریک سے لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے بشرطِ فرصت اَور مضامین بھی لکھ سکتا ہوں۔ ‘‘

(رسالہ ادبی دنیا، مارچ 1931ء صفحہ186تا187)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے پرنسپل تھے۔ آپ نے کالج کے زیرِ انتظام18؍ اکتوبر 1964ء کو ’’کل پاکستان اردو کانفرنس‘‘ کا انعقاد فرمایا۔ جس میں ملک کے بعض نامور شعراء وادباء نے شرکت کی۔ اردو کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اردو کی ترویج وترقی کے مسائل پر تعمیری نقطۂ نظر سے سوچ بچار کرنا تھا۔ اس کانفرنس کے خطبۂ استقبالیہ میں آپؒ نے فرمایا: ’’اس کانفرنس کے مقاصد خالصۃً تعمیری اور مثبت ہیں۔ …اردو کو وہ ارفع مقام دیا جا سکتا ہے جو اس کا واجبی حق ہے۔ یہ ایک عظیم قومی حادثہ ہے کہ زبان کا مسئلہ، جو خالصۃً قومی اور علمی سطح پر حل کیا جانا چاہیے تھا، سیاسی نعرہ بازی اور مہمل جذبات کا شکار ہو کر رہ گیا اور سترہ سال کا طویل عرصہ بے کار مباحث اور مجرمانہ غفلت کے ہاتھوں ضائع ہوگیا۔ … اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سہل انگاری اور خوش فہمی کے گنبد سے نکل کر ہم حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں۔ ٹھنڈے دل سے اپنی مشکلات کا جائزہ لیں اور سنجیدگی سے اپنے تعلیمی، تدریسی، علمی، ادبی، لِسانی اور طباعتی مسائل کا حل تلاش کریں۔ زبان وبیان، تلخیص وترجمہ، رسم الخط اور اس قسم کے دیگر عقدوں کی گرہ کشائی کی کوشش کریں۔ ایسا لائحہ عمل بنائیں اور اس کی تشکیل ایسے خطوط پر کریں جس سے یہ گومگو کی کیفیت ختم ہو اور اس ذہنی دھند سے نجات ملے جو قومی افق پر عرصہ سے چھائی ہوئی ہے‘‘۔

(ذکرِ اردو، صفحہ ب، ج)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 28؍ مارچ 1971ء کو مجلس مشاورت کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے تراجم کے بارے میں فرمایا: ’’ضروری ہے کہ ہم ہر انسان تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام پہنچا دیں۔ یہ صحیح ہے کہ ترجمہ بہرحال ترجمہ ہے۔ اصل سے تو وہ کسی طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا، لیکن ان کو جب ترجمہ پڑھ کر اس بیان کا چسکا پڑ جائے گا، جس کا کہ وہ ترجمہ ہے، تو پھر کہیں گے کہ ہمیں اردو سکھاؤ تاکہ ہم اصل کو بھی پڑھیں۔ …ایک دفعہ ہمارے کالج میں اردو کانفرنس ہوئی تھی۔ اس موقع پر میں نے ان کو کہا تھا کہ جماعت احمدیہ کا زبانِ اردو پر یہ احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کتب پڑھنے کی خاطر ساری دنیا کی قوموں میں اردو پڑھنے کا شوق پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی ایک حصہ میں تو اب ہے اور کچھ کو بعد میں احمدیت کی وجہ سے شوق ہو جائے گا۔‘‘

(تحریک جدید ایک الٰہی تحریک جلد چہارم صفحہ796)

خلفائے سلسلہ احمدیہ ہمیں بار بار اردو زبان سیکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں تاکہ افراد جماعت اور آئندہ نسلیں ان روحانی خزائن سے اپنے آپ کو مالا مال کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں، جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اور آج اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے وہ خزائن ہمارے لیے کھول دیے ہیں، لیکن ان خزانوں سے اپنی جھولیاں بھرنے کے لیے ہمیں اردو زبان سیکھنی ہو گی کیونکہ یہ ان خزائن کی کلید ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’آپ اردو کی طرف توجہ کریں۔ الہامات کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثر تحریرات اردو ہی میں ہیں۔ جب تک آپ اردو نہیں سیکھیں گے آپ حضرت مسیح موعودؑ کی پُرمعارف کتب میں بیان فرمودہ نکاتِ روحانیت سے صحیح معنوں میں آشنا نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ترجمہ میں وہ خوبصورتی اور لطف ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا جو حضور کی اپنی تحریرات کو پڑھنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جولائی 1993ء بمقام اوسلو ناروے)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 1989ءمیں فرماتے ہیں: ’’بچپن ہی سے عربی زبان کے لیے بنیاد قائم کرنی چاہیے اور جہاں ذرائع میسر ہوں اس کی بول چال کی تربیت بھی دینی چاہیے۔ …عربی کے بعد اردو بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ آنحضرتﷺ کی کامل غلامی میں اس زمانے کا جو امام بنایا گیا ہے اس کا اکثر لڑیچر اردو میں ہے۔ احمدیہ لٹریچر چونکہ خالصتاً قرآن اور حدیث کی تفسیر میں ہے اس لیے عرب پڑھنے والے بھی جب آپ کے عربی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ قرآن اور حدیث پر ایک ایسی گہری معرفت اس انسان کو حاصل ہے کہ جو اِن لوگوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتی تھی جو مادری لحاظ سے عربی زبان سیکھنے اور بولنے والے ہیں۔ …پس عربی کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اردو لٹریچر کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اور بچوں کو اتنے معیار کی اردو سکھانی ضروری ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اردو لٹریچر سے براہ راست فائدہ اٹھا سکیں۔ جہاں تک دنیا کی دیگر زبانوں کا تعلق ہے، خدا تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے اکثر اہم ممالک میں ایسی احمدی نسلیں تیار ہو رہی ہیں جو مقامی زبان نہایت شستگی کے ساتھ اہل زبان کی طرح بولتی ہیں۔ …لیکن افسوس یہ ہے کہ ان کا اردو کا معیار ویسا نہیں رہا… پس آئندہ اپنی واقفین نسلوں کو کم از کم تین زبانوں کا ماہر بنانا ہوگا۔ عربی، اردو اور مقامی زبان۔‘‘

(مشعل راہ جلد سوم، صفحہ 422تا423)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’واقفین نو کو جامعہ میں پڑھنے کے لئے تیار بھی کریں۔ … جو جامعہ میں نہیں آ رہے، وہ بھی زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کریں … تین زبانیں اُن کو آنی چاہئیں۔ ایک تو اُن کی اپنی زبان ہو، دوسرے اردو ہو، تیسرے عربی ہو۔ عربی تو سیکھنی ہی ہے، قرآنِ کریم کی تفسیروں اور بہت سارے میسر لٹریچر کو سمجھنے کے لئے۔ اور پھر قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے جب تک عربی نہ آتی ہو صحیح ترجمہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اور اردو پڑھنا سیکھنا اس لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے ہی اس وقت دین کا صحیح فہم حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آپ کی تفسیریں، آپ کی کتب، آپ کی تحریرات ہی ایک سرمایہ ہیں اور ایک خزانہ ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتی ہیں، جو صحیح اسلامی تعلیم دنیا کو بتا سکتی ہیں، جو حقیقی قرآنِ کریم کی تفسیر دنیا کو بتا سکتی ہیں۔

پس اردو زبان سیکھےبغیر بھی صحیح طرح زبانوں میں مہارت حاصل نہیں ہو سکتی۔ … ہمیں زیادہ سے زیادہ زبانوں کے ماہرین چاہئیں۔ اس طرف واقفینِ نَو کو بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر جامعہ کے طلباء کے علاوہ کوئی کسی زبان میں مہارت حاصل کرتا ہے تو اُسے جیسا کہ مَیں نے کہا، عربی اور اردو سیکھنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ اس کے بغیر وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا جس کے لئےزبان کی طرف توجہ ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍جنوری 2013ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍فروری 2013ءصفحہ 8)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں: ’’اردو پڑھنا سیکھنا اس لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب سے ہی اس وقت دین کا صحیح فہم حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آپ کی تفسیریں، آپ کی کتب، آپ کی تحریرات ہی ایک سرمایہ ہیں اور ایک خزانہ ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتی ہیں، جو صحیح اسلامی تعلیم دنیا کو بتا سکتی ہیں، جو حقیقی قرآنِ کریم کی تفسیر دنیا کو بتا سکتی ہیں۔ …

لڑکیاں جو واقفاتِ نَو ہیں، جو پاکستانی اور یجن (origin) کی ہیں، پاکستان سے آئی ہوئی ہیں، جن کو اردو بولنی آتی ہے، وہ اردو پڑھنی بھی سیکھیں۔ اور جو یہاں باہر کے ملکوں میں رہ رہی ہیں وہ مقامی زبان بھی سیکھیں۔ جہاں انگلش ہے، جرمن ہے یا ایسے علاقوں میں ہیں جہاں انگلش سرکاری زبان ہے اور مقامی لوکل زبانیں اَور ہیں وہ بھی سیکھیں، عربی سیکھیں، پھر اپنے آپ کو تراجم کے لئے پیش کریں۔ مَیں نے دیکھا ہے عورتوں میں، لڑکیوں میں زبانوں کا ملکہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے آپ کو پیش کر سکتی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍جنوری 2013ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍فروری 2013ءصفحہ 8)

پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’وہ واقفین نو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جن کا زبانیں سیکھنے کی طرف رجحان بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں۔ وہ انگریزی، عربی، اردو اور ملکی زبان جو سیکھ رہی ہیں جب سیکھیں تو اس میں اتنا عبور حاصل کر لیں، (میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے) کہ جماعت کی کتب اور لٹریچر وغیرہ کا ترجمہ کرنے کے قابل ہو سکیں تبھی ہم ہر جگہ نفوذ کر سکتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍جون 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍جولائی 2004ءصفحہ8)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اگر قرآن کو سمجھنا ہے یا احادیث کو سمجھنا ہے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ یہ تو بڑی نعمت ہے ان لوگوں کے لیے جن کو اردو پڑھنی آتی ہے کہ تمام کتابیں اردو میں ہیں، اکثریت اردو میں ہیں، چند ایک عربی میں بھی ہیں۔ پھر جو پڑھے لکھے نہیں ان کے لیےمساجد میں درسوں کا انتظام موجود ہے ان میں بیٹھنا چاہیے اور درس سننا چاہیے۔ پھر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اور اسی طرح اُردو دان طبقہ جو ہے، ملک جو ہیں، وہاں سے اردو کے پروگرام بن کے آنے چاہئیں۔ جس میں زیادہ سے زیادہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس کلام کے معرفت کے نکات دنیا کو نظر آئیں اور ہمار ی بھی اور دوسروں کی بھی ہدایت کا موجب بنیں۔‘‘

(مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم)

اسی طرح پیارے حضور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے گذشتہ دورۂ امریکہ میں 29؍ اکتوبر 2018ء کومبلغین سلسلہ کے ساتھ ملاقات میں فرمایا: ’’الفضل کا مطالعہ کیا کریں۔ … الفضل پڑھنے سے آپ کی اردو بہتر ہوگی۔‘‘

(الفضل انٹر نیشنل 8؍فروری 2019ء صفحہ15)

اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو اس کی ہمت و استعداد سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا، جتنا بھی اس کے دائرۂ اختیار میں ہو اس پر عمل کرنے سے پہلو تہی نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ کی طرف سے قوت گویائی جیسی عظیم نعمت عطا ہی اس لیے ہوئی ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہے اپنا ما فی الضمیر بیان کر سکے۔ ہمارے دین نے انسان کی زندگی کے دو ہی مقصد بیان فرمائے ہیں، یا تو وہ طالب علم ہو، ہمیشہ وہ رشد و ہدایت کا طلب گار رہے یا وہ عالم ہو مگر علم کی طلب اس حال میں بھی جاری رہے۔

احمدی ہونے کے ناطے ہمیں عربی اور اردو سے بھی واقفیت ہونی چاہیے تاکہ ہم قرآن کریم، احادیث اور روحا نی خزائن کو سمجھ کر اُن پر عمل کر سکیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ یہی چیزیں ہماری دنیا اور آخرت کو سنوا ر سکتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زبان سے محبت عطا فرمائے تا کہ ہم ان تحریرات پر عمل کرنے والے بنیں، جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہمارے لیے قرآن اور حدیث کی روشنی میں رقم فرمائی ہیں۔ آمین

تصویر:

https://thewire.in/culture/why-the-perso-arabic-script-remains-crucial-for-urdu

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button