اللہ تعا ليٰ کا عظيم الشان انعام:خلافت احمديہ

(مریم رحمٰن)

’’خلافت احمديہ اللہ تعا ليٰ کا عظيم اشان انعام ہےجس کے ساتھ بے شما ر بر کات وابستہ کي گئي ہيں۔ خلا فت کي ہي برکات سےآپ ايک ہاتھ پر متحد ہيں۔عا فيت کے حصار ميں ہيں اور خليفہ وقت کي دعاؤں اور رہنمائي سے آپ کا ہر قدم ترقي کي شاہراہوں پر گا مزن ہے۔ اللہ تعا ليٰ نے اس با بر کت نظام کو مومنين کے لئے تمکنتِ دين اور خوفوں سےامن کا ذريعہ بنا يا ہے۔ ان انعامات سے دائمي فيضياب ہونے کے لئے ضروري ہے کہ آپ کا خليفہ وقت سے اخلا ص و وفا کا مضبوط تعلق ہو۔ آپ اطا عت ميں تر قي کر يں اور خلافت کے استحکام کے لئے دعائيں کر تي رہيں۔‘‘

(پيغام سيّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز مجلس شوريٰ لجنہ اماءاللہ پاکستان2020ء)

الحمدللہ کہ سيّدنا حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي صداقت کا عظیم الشان نشان نظامِ خلافت ہمارے سروں پر دستِ مہربان کي صورت قائم ودائم ہے۔ يہ ايک لعل بے بہا اور قيمتي نعمت ہے۔ خلافت تزئينِ نبوت اور تمکين رسالت ہے۔يہ امن کي کشتي اور تسکين جان کا سامان ہے۔خلافت زندگي کي مشکل راہوں ميں مقدس سائبان ہے۔ خلافت وہ درخشندہ ستارہ ہے جس کي روشني سے دل منور ہوجاتے اور زند گياں سنور جاتي ہيں۔

نظامِ خلافت سے فيض پانے کي سب سے بڑي کنجي تقويٰ اور کامل اطاعت و فرمانبرداري ہے۔ماں باپ کي پُرتاثیردعائيں وہي بچہ ليتا اور پھرکامياب ہوتا ہے جو فرمانبردار ہو۔ اسي طرح طالب علمي کے دور ميں جو شاگرد استاد کا کہا مانتا ہے وہ فلاح پاجاتا ہے۔’’ خلافت کا انعام بھي وہي پاتا ہے جو خليفہ وقت کے ہر حکم پر خوشي اور بشاشت قلب اور فدائيت کے ساتھ اپنا سر خم کرتا ہے اور کامل فرمانبردار اور مطيع ہوکر اپني دين ودنيا سنوارتا ہے۔ ‘‘

اطاعت کا لفظ طوع سے نکلا ہے جس کے معني رضامندي مرضي اور خوشي کے ہيں يعني حقیقی اطاعت و فرمانبرداري دراصل وہي ہے جو مرضي، مسرت خوشي، بشاشت قلبي سے کي جائے۔ قرآن کريم ميں بار بار اللہ اور اس کےرسول کي اطاعت کا حکم ديا گيا ہے۔اطاعت رسول ميں اطاعت خلافت بھي شامل ہے۔

خدا کي پہلي قدرت نبوت کي صورت ميں اور دوسري قدرت خلافت کي صورت ميں ظاہر ہوتي ہے۔اگر ہم قرآنِ کريم کا مطالعہ کريں تو ہميں معلوم ہوگاکہ خدا نے حضرت آدمؑ کو زمين ميں اپنا خليفہ مقرر فرمايا اور فرشتوں کو حکم ديا کہ تم آدم کي اطاعت کرو۔پس جس نے اطاعت کي وہ فرشتوں کا مظہر بنا اور جس نے انکار کيا اور اَبٰي وَاسْتَکْبَرَ کا مصداق بنا وہ راندہ درگاہ ہوگيا۔پس خدا نے تو اپنے خليفہ کے آگے فرشتوں کي طرح سرِ خم تسليم کرنے کي تعليم دي ہے۔

اللہ تعاليٰ قرآنِ کريم ميں فرماتا ہے:اَطِيۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِيۡعُوا الرَّسُوۡلَ۔(النور:55)اللہ کي اطاعت کرو اور رسول کي اطاعت کرو۔

خليفہ نبي کا جانشين اور اس کا قائمقام ہوتا ہے۔گويا کہ جيسے رسول کي اطاعت فرض ہے ويسے ہي خليفہ کي اطاعت بھي ہر حال ميں فرض ہے۔

اطاعتِ خلافت کي فرضيت کے بارے ميں حضرت ابوہريرہ رضي اللہ عنہ نے نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم سے روايت کي ہے کہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ، وَمَنْ يَعْصِنِي فَقَدْ عَصَى اللّٰهَ، وَمَنْ يُطِعِ الْأَمِيْرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ يَعْصِ الْأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي۔(صحيح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِبَابُ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ، وَتَحْرِيمِهَا فِي الْمَعْصِيَةِحديث:4747)

جس نے ميري اطاعت کي اس نے اللہ کي اطاعت کي اور جس نے ميري نافرماني کي اس نے اللہ کي نافرماني کي اور جس نے امير کي اطاعت کي اس نے ميري اطاعت کي اور جس نے امير کي نافرماني کي اس نے ميري نافرماني کي۔

پھر ايک اور موقع پر حضرت عرباض بن ساريہ رضي اللہ عنہ روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللّٰهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ۔(جامع ترمذي أَبْوَابُ الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺبَاب مَا جَاءَ فِي الأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ حديث: 2676)

ميں تم لوگوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے،امير کي بات سننے اور اسے ماننے کي نصيحت کرتاہوں، اگرچہ تمہارا حاکم اور امير ايک حبشي غلام ہي کيوں نہ ہو،کيوں کہ تم ميں سے آئندہ جو زندہ رہے گا وہ (امت کے اندر) بہت سارے اختلافات ديکھے گا توتم (باقي رہنے والوں) کو ميري وصيت ہے کہ نئے نئے فتنوں اور نئي نئي بدعتوں ميں نہ پڑنا، کيونکہ يہ سب گمراہي ہيں۔ چنانچہ تم ميں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہيے کہ وہ ميري اور ميرے ہدايت يافتہ خلفائے راشدين کي سنت پر قائم اور جمارہے اور ميري اس نصيحت کو اپنے دانتوں کے ذريعے مضبوطي سے دبالے۔

اس زمانے ميں سب سے بڑھ کر جس وجود نے خدا اور خدا کے پيارے رسول حضرت محمدﷺ کي اطاعت کي وہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادياني مسيحِ موعودؑ کا وجود ہے۔آپؑ کو خداتعاليٰ نے اپنے فضل سے اس زمانے کي اصلاح کے ليے چنا اور آپؑ کے بعد خلافت کا عظيم الشان سلسلہ جاري فرمايا ہے۔

حضر ت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ’’اطاعت ايک ايسي چيز ہے کہ اگر سچے دل سے اختيار کي جائے تو دل ميں ايک نور اور روح ميں ايک لذت اور روشني آتي ہے۔مجاہدات کي اس قدر ضرورت نہيں ہے جس قدر اطاعت کي ضرورت ہے۔ مگر ہاں يہ شرط ہے کہ سچي اطاعت ہو اور يہي ايک مشکل امر ہے۔اطاعت ميں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دينا ضروري ہوتا ہے بدوں اس کے اطاعت ہو ہي نہيں سکتي اور ہوائے نفس ہي ايک ايسي چيز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب ميں بھي بت بن سکتي ہے۔کوئي قوم قوم نہيں کہلا سکتي اور ان ميں ملّت اور يگانگت کي روح نہيں پھونکي جاتي جب تک کہ وہ فرمانبرداري کے اصول کو اختيار نہ کريں۔…

اختلاف رائے کو چھوڑ ديں اور ايک کي اطاعت کريں جس کي اطاعت کا اللہ نے حکم ديا ہے۔پھر جس کام کو چاہتے ہيں وہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعاليٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس ميں يہي تو سرّ ہے۔اللہ تعاليٰ توحيد کو پسند فرماتا ہے اور يہ وحدت قائم نہيں کي جا سکتي جب تک اطاعت نہ کي جاوے۔‘‘

(تفسير حضرت مسيح موعودؑ جلد دوم صفحہ 246تا247تفسير سورت النساء آيت 59۔الحکم جلد 5 نمبر 5 مورخہ 10؍فروري 1901ء صفحہ 1 کالم 2-3)

ہمارے پيارے آقاسيّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز فرماتے ہيں:’’پس اگر آپ نے ترقي کرني ہے اور دنيا پر غالب آنا ہے تو ميري آپ کو يہي نصيحت ہے اور ميرا يہي پيغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہوجائيں اس حبل اللہ کو مظبوطي سے تھامے رکھيں۔ ہماري ساري ترقيات کا دارومدار خلافت سے وابستگي ميں ہي پنہاں ہے۔‘‘(الفضل انٹرنيشنل 23؍مئي 2003ء)

پس خدا تعاليٰ کا قرب پانے کا سب سے بڑا ذريعہ نماز ہے تو خلافت کي برکات حاصل کرنے کے ليے ضروري ہے کہ ہم پيارے آقاسيّدنا حضرت خليفة المسيح الخامس ايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز کے ہر حکم کي اطاعت کريں۔ آپ جان مانگيں تو جان وار ديں۔ آپ جو بھي حکم فر ما ئيں ہم اس کي مکمل تعميل کريں مال کا تقاضا ہو تو مال حاضر کرديں۔ کسي بھي قسم کي قرباني کا مطالبہ ہو تو وہ پيش کرديں سب سے اہم يہ کہ ہم باقاعدگي سے حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ کا خطبہ جمعہ Live سنيں۔ اس سے نہ صرف ہمارا خلافت سے تعلق مظبوط ہوگا بلکہ ہماري اور ہمارے بچوں کي تربيت کے سارے مسائل بھي حل ہوں گے۔

ہمارے پيارے امام ايّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز اطاعتِ خلافت کي تلقين کرتے ہوئے فرماتے ہيں:’’جو خليفہ ٔوقت آپ کے سامنے پيش کرتاہے، جو تربيتي امور آپ کے سامنے رکھے جاتے ہيں۔ ان سب کي اطاعت کرنا اور خليفۂ وقت کي ہر بات کو ماننا يہ اصل ميں اطاعت ہے اور يہ نہيں ہے کہ تحقيق کي جائے کہ اصل حکم کيا تھا؟ يا کيا نہيں تھا؟ اس کے پيچھے کيا روح تھي؟۔ جو سمجھ آيا اس کے مطابق فوري طور پر اطاعت کي جائے تبھي اس نيکي کا ثواب ملے گا۔ ہاں اگر کوئي کنفيوژن ہے تو بعد ميں اس کي وضاحت لي جاسکتي ہے۔ پس ہر احمدي کو کوشش کرني چاہئے کہ وہ اپنے اطاعت کے معيار ايسے بلند کرے اور اس تعليم پر چلنے کي پوري کوشش کرے جو حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام نے ہميں دي ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ9؍ جون 2006ء)

يہ ہم پر خدا تعاليٰ کا خاص فضل ہے کہ ہماري جماعت اطاعت فرمانبرداري، جذبہ و اخلاص اور وفا کي لڑيوں ميں پروئي ہوئي ہے۔ يہ احمدي ماں باپ ہي ہيں جو اپنے بچوں کو گٹھي ميں اطاعت خلافت کا درس ديتے ہيں۔

پس آج ہم سب اپنے اپنے جائزے ليں کہ کيا ہم خدا تعاليٰ کي رضا کي راہ پر چل رہيں ہيں؟ کيا ہم پيارے رسول حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کر رہے ہيں؟ کيا ہم قرآن مجيد کے نور سے اپني زندگياں روشن کر رہے ہيں؟ کيا ہم پنجگانہ نماز کا التزام کرتے ہيں؟ کيا ہم پيارے آقاسيّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خليفة المسيح الخامس ايَّدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزکے ہر حکم کي کماحقہ اطاعت کررہے ہيں؟ کيا ہم آپ کے ليے اور سلسلہ احمد يہ کي کاميا بي اور تر قي کے ليے روزانہ دعائيں کرتے ہيں؟کيا ہم صبح و شام درود شريف استغفار، ديگر دعائيں پڑھتے ہيں؟ کيا ہم اور ہمارے بچے باقاعدگي سےحضور انورايدہ اللہ تعاليٰ کا خطبہ جمعہ اور آپ کے ديگر پروگرامزسنتے ہيں؟ کيا ہم حضور انورايدہ اللہ تعاليٰ کي ہر تحريک پر خوش دلي سے بغير اعتراض کيے لبيک کہتے ہيں؟ کيا ہم ہميشہ سچا ئي سے کام ليتے ہيں؟ کيا ہم نرم اور پاک زبان کا استعمال کرتے ہيں؟ کيا ہم موبائل فون اور سوشل ميڈيا کا مناسب،مثبت اور محتاط سے استعمال کرتے ہيں؟ کيا ہم رشتہ طے کرتے ہوئے نيکي اور دين داري کو مقدم رکھتے ہيں؟ کيا ہم ہر رشتہ خوفِ خدا اور ايمان داري کےساتھ نبھاتے ہيں؟ کيا ہم شادي بياہ کے موقعوں پر بدرسوم، فضول خرچي و اسراف اور بے پردگي سے اجتناب کرتے ہيں؟ کيا ہم دوسروں کے حقوق کا خيال رکھ رہے ہيں؟ کيا ہماري ذات سے دوسرے سُکھ و آرام پا رہے ہيں؟

اگر ان سب باتوں کا جواب مثبت ہے تو ہم نہ صرف اپني بلکہ اپني نسلوں کي زندگياں بھي سنوار رہے ہيں۔ اگر ان کے جواب منفي ميں ہيں تو پھر ہمارے ليے لمحہ فکريہ ہے!کيونکہ کشتي نوح میںکہ جس کاناخداخلیفۂ وقت کی ذاتِ بابرکات ہےوہي لوگ سوار ہوکر فلاح پائيں گے جو تقويٰ اور اطاعت و فرمانبرداري سے کام لے کر اپني عملي اصلاح کريں گے اور اللہ تعاليٰ اور پيارے رسول حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کي رضا کي راہوں پر ہميشہ چليں گے۔

اللہ تعاليٰ ہميں اخلاص و وفا اور اعمال صالحہ ميں بڑھاتا چلا جائے۔ ہميں ہميشہ خلافت جيسي عظيم الشان نعمت سے باندھا رکھے۔ ہم ہميشہ اس کي قدر کرنے والےاور اس کي اطاعت کرنے والے اور اس کي برکات حاصل کرنے والے ہوں۔ آمين

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button