متفرق مضامین

حضرت اسماعیل علیہ السلام اور مکہ (قسط اوّل)

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت بھی حضرت اسماعیلؑ کے حق میں ہے۔ ذبیح بیٹے کے متعلق یہ وعدہ تھا کہ اس کی اولاد لاتعداد ہو گی

[نوٹ: سیرت النبیؐ کے اس سلسلےکی گذشتہ اقساط کے لیے الفضل انٹرنیشنل کے درج ذیل شمارےملاحظہ ہوں:8،11،15؍اکتوبر2019ء،13؍اگست2019ء،19و23؍ جون2020ء،7و10؍جولائی2020ء]

پس منظر

قرآن کریم کے مطابق مکہ کی آبادی کا آغاز کعبہ کی تعمیرِنو کے ساتھ ہوا جو کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے مل کر کی۔ گو کعبہ پہلے سے موجود تھا مگر اس وقت تک متروک ہو کر منہدم ہو چکا تھا اور مکہ بالکل غیر آباد تھا۔ مسلمانوں میں عیدالاضحی کی مناسبت سے حضرت ابراہیمؑ کی اپنے بیٹے کو ایک خواب کی بنا پر قربان کرنے کی کوشش کا واقعہ بھی معروف ہے۔ مکہ کے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ تعلق کے ضمن میں مفسرین کے ہاں مختلف امور زیر بحث ہیں۔ ان میں سے کچھ کا ذکر اس مضمون میں کیا گیا ہے۔

٭…وہ بیٹا جس کی قربانی دی گئی تھی کون تھا، اسماعیلؑ یا اسحاقؑ؟ دونوں خیالات کے حق میں کیا دلائل ہیں؟ یاد رہے قریباً ایک ہزار سال تک مسلمان مفسرین کی اکثریت کا خیال تھا کہ ذبیح حضرت اسحاقؑ ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کریم، بائبل، اہل کتاب کی روایات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

٭…واقعات کی ترتیب کیا ہے؟ پہلے مکہ آباد کرنے کا واقعہ ہوا یا پہلے بیٹے کی قربانی کا؟

٭…مکہ میں حضرت ہاجرہ و حضرت اسماعیلؑ کو چھوڑتے وقت حضرت اسماعیلؑ کی عمر کیا تھی؟ آپؑ شیرخوار تھے، پانچ۔ چھ سال کے تھے یا سترہ سال کے نوجوان؟

ذبیح کون ہے؟

قرآن کریم میں بیٹے کی قربانی کا واقعہ یوں مذکور ہے:

وَقَالَ اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ۔رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔فَبَشَّرۡنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیۡمٍ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰیؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ۔ فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَتَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ۔وَنَادَیۡنٰہُ اَنۡ یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ۔ قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡبَلٰٓـؤُا الۡمُبِیۡنُ۔ وَفَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ۔وَتَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ۔ سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ۔ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔وَبَشَّرۡنٰہُ بِاِسۡحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔ وَبٰرَکۡنَا عَلَیۡہِ وَعَلٰۤی اِسۡحٰقَ ؕ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِہِمَا مُحۡسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ مُبِیۡنٌ۔ (سورۃالصافات: ۱۰۰تا۱۱۴)

اور اس نے کہا میں یقیناً اپنے ربّ کی طرف جانے والا ہوں وہ ضرور میری راہنمائی کرے گا۔ اے میرے ربّ! مجھے صالحین میں سے (وارث) عطا کر۔ پس ہم نے اسے ایک بُردبار لڑکے کی بشارت دی۔ پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمرکو پہنچا اس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! یقیناً میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس غور کر تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ! وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتاہے۔ یقیناً اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تُو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔ پس جب وہ دونوں رضامند ہوگئے اور اس نے اُسے پیشانی کے بَل لٹا دیا۔ تب ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراہیم! یقیناً تُو اپنی رؤیا پوری کر چکا ہے۔ یقیناً اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک بہت کھلی کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک ذبحِ عظیم کے بدلے اُسے بچا لیا۔ اور ہم نے بعد میں آنے والوں میں اس کا ذکرِخیر باقی رکھا۔ ابراہیم پر سلام ہو۔ اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ اور ہم نے اسے اسحاق کی بطور نبی خوشخبری دی جو صالحین میں سے تھا۔ اور اُس پر اور اسحاق پر ہم نے برکت بھیجی اور ان دونوں کی ذریت میں احسان کرنے والے بھی تھے اور اپنے نفس کے حق میں کھلم کھلا ظلم کرنے والے بھی تھے۔

چونکہ ان آیات میں اس بیٹے کا نام مذکور نہیں جس کی قربانی دی گئی تھی اس لیے یہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ کس بیٹے کا ذکر ہے؟ بعض مفسرین کے نزدیک قربانی والا بیٹا جسے ذبیح اللہ بھی کہا جاتا ہے حضرت اسحاقؑ اور بعض کے نزدیک حضرت اسماعیلؑ تھے۔ ایک لمبا عرصہ تک مفسرین کی اکثریت کا خیال حضرت اسحاقؑ کے حق میں تھا۔ چنانچہ پانچویں صدی کے نصف میں امام واحدی (متوفی ۴۶۸ ہجری) لکھتے ہیں کہ ان کے وقت میں مفسرین کی اکثریت کے خیال میں ذبیح اسحاقؑ تھے(واحدی، بسیط، الصٰفات: ۱۰۳۔ واختلفوا في الذبيح من هو من ابني إبراهيم. فالأكثرون على أنه إسحاق)۔ یہ صورت حال ساتویں صدی کے آخر تک قائم تھی چنانچہ علامہ قرطبی (متوفی ۶۷۱ ہجری ) بیان کرتے ہیں کہ ان کے وقت میں بھی اکثریت کا یہی خیال تھا۔ (قرطبی، تفسیر، الصافات: ۱۰۳۔ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي الْمَأْمُورِ بِذَبْحِهِ. فَقَالَ أَكْثَرُهُمُ: الذَّبِيحُ إِسْحَاقُ)

حضرت اسحاقؑ کے ذبیح ہونے کا خیال اس قدر پھیلنے کی وجہ کیا تھی؟ ایک وجہ تو یہ تھی کہ شروع سے ہی بعض اہم علماء نے اہل کتاب کی روایات کے زیر اثر حضرت اسحاقؑ کو ذبیح سمجھ لیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ عربوں نے غیر عرب مسلمانوں پر اپنی برتری جتانی شروع کر دی تھی اور ایسی جعلی احادیث و روایات گھڑ لی تھیں جن میں عربوں کی دیگر اقوام پر فضیلت بیان کی گئی تھی۔ اس کے رد عمل میں فارسی النسل مسلمانوں نے عربوں پر اپنی فضیلت بیان کرنے کی تحریک شروع کی جو کہ شعوبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس جوابی مہم کا ایک حصہ حضرت اسحاقؑ کو ذبیح اللہ بیان کرنا بھی تھا تاکہ ان کی حضرت اسماعیلؑ پر فضیلت ثابت کی جا سکے۔

کیا ذبیح حضرت اسحاقؑ تھے؟

حضرت اسحاقؑ کے ذبیح اللہ ہونے کے خیال کی بنیاد کیا ہے؟ اس سلسلے میں چند اہم نکات یوں ہیں:

1۔ ذبیح بیٹے کے متعلق بشارت دی گئی تھی۔ اور قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ کے صرف ایک بیٹے کی نام کے ساتھ بشارت کا ذکر آیا ہے۔ (قرطبی، زیر آیت سورۃالصٰفات ۱۰۳)جبکہ حضرت اسماعیلؑ کی بشارت کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔

2۔ حضرت اسماعیلؑ کا حضرت اسحاقؑ سے بڑا ہونا ثابت نہیں۔ (قرطبی، زیر آیت سورۃالصٰفات: ۱۰۳)یعنی بڑے بیٹے اسحاقؑ تھے اور وہی ذبیح ہیں۔

3۔ سورۃ الصٰفات کی مندرجہ بالا آیات میں قربانی والے واقعہ کے بعد فرمایا ہے

وَ بَشَّرۡنٰہُ بِاِسۡحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔ وَ بٰرَکۡنَا عَلَیۡہِ وَ عَلٰۤی اِسۡحٰقَ۔

اس میں صرف اسحاقؑ کا ذکر ہے۔ (قرطبی، زیر آیت سورۃالصٰفات: ۱۰۳)اگر اسماعیلؑ ذبیح ہوتے تو ان کے متعلق برکت کا ذکر ہونا چاہیے تھا نہ کہ اسحاقؑ کا۔ یا کم از کم دونوں بھائیوں کا ذکر ہوتا۔ چونکہ اسماعیلؑ کا ذکر ہی نہیں اس لیے ذبح کا قصہ ان کے متعلق نہیں۔

4۔ اسی آیت میں

وَ بَشَّرۡنٰہُ بِاِسۡحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ

میں نبوت کی بشارت واقعہ ذبح کے بعد دی گئی ہے۔ یہ انعام اسحاقؑ کی اس قربانی پر آمادگی کا نتیجہ ہے۔ (سیوطی، الدر المنثور، زیر آیت سورۃالصٰفات: ۱۰۳)

5۔ حضرت ابراہیمؑ فلسطین میں رہتے تھے اور وہاں اسحاقؑ ہی تھے۔ اسماعیلؑ تو مکہ میں تھے۔

6۔ بہت سے قدیم علماء نے اس خیال کا اظہار کیا۔ مختلف روایات کے مطابق سات اہم صحابہ جن میں حضرت عباسؓ اور ان کے بیٹے ابن عباسؓ، ابن مسعودؓ، جابرؓ، ابن عمرؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓ کا نام لیا جاتا ہے، کا یہی خیال تھا(قرطبی، زیر آیت سورۃالصٰفات: ۱۰۳) اسی طرح بہت سے مشہور تابعین مثلاً علقمہ، شعبی، مجاہد، سعید بن جبیر، کعب الاحبار، قتادہ، مسروق، عکرمہ، زہری، سدی، مالک بن انس وغیرہ بھی۔ (قرطبی، زیر آیت سورۃالصٰفات: ۱۰۳)

یاد رکھنا چاہیے کہ اوّل تو علماء کے متعلق ہر طرح کے اقوال منسوب ہو جاتے ہیں۔ انہی علماء میں سے اکثر مثلاً ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، شعبی، مجاہد کے متعلق دوسرا خیال بھی بیان کیا گیا ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیلؑ تھے۔ (ابن کثیر، زیر آیت سورۃالصٰفات: ۱۰۳۔ قرطبی، سورۃ الصٰفات: ۱۰۳)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو ان علماء کا خیال بدلتا رہا ہے یا پھر یہ خیالات غلط طور پر ان سے منسوب کیے گئے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ فیصلہ کن امر یہ نہیں ہے کہ کتنے لوگ یا کس سطح کے لوگ ایک بات بیان کر رہے ہیں بلکہ فیصلہ کن امر یہ ہے کہ ان کی بات کی بنیاد اور دلیل کیا ہے؟ افسوس کہ بالعموم علماء کو اس اصول پر عمل کی جرأت نہیں ہوتی۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ مثلاً حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر جانے کا خیال بالکل خلاف قرآن و خلاف عقل ہے، مگر ۱۴۰۰ سال ہونے کو آئے ہیں اکثرمسلمان علماء اسی طلسم سے باہر نہیں نکل سکے کہ فلاں فلاں عالم نے ایسا لکھا ہے۔

امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جتنے بھی علماء نے اسحاقؑ کو ذبیح بتایا ہے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ محض اہل کتاب سے سن کر وہی قصہ دہراتے گئے ہیں۔ ان کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ کعب حضرت عمرؓ کو اہل کتاب کی کتب میں سے قصص سنایا کرتے تھے اور لوگوں نے ان سے سن کر آگے اسلامی تعلیم کے طور پر بیان کر دیے۔ (ابن کثیر، تفسیر، زیر آیت سورۃالصٰفات: ۱۰۳)یہ بات کافی حد تک معقول اور درست معلوم ہوتی ہے۔ گو یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ سننے والوں نے خود غور کیوں نہیں کیا اور محض سنی سنائی بات کو دہراتے کیوں رہے؟ اس کی وجہ وہی ہے کہ اکثر علماء دلیل کی بجائے نام سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

حضرت اسماعیلؑ ہی ذبیح ہیں

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کم و بیش ایک ہزار سال تک یہی صورت حال قائم رہی اور اکثر علماء حضرت اسحاقؑ ہی کو ذبیح قرار دیتے رہے۔ بالآخر امام رازی اور ابن کثیر کے مدلل موقف کے بعد یہ صورت حال تبدیل ہوئی اور اب مسلمانوں میں کم و بیش متفقہ بات یہ ہے کہ ذبیح اللہ دراصل حضرت اسماعیل تھے۔ ہمارے نزدیک بھی یہی بات درست ہے اور اس پر قرآن کریم، بائبل، عرب روایات اور عقلی دلائل موجود ہیں۔

1۔ سورۃ الصٰفات کی مذکورہ بالا آیات میں ترتیب یوں ہے کہ پہلے حضرت ابراہیمؑ نے ہجرت کی پھر آپؑ کو ایک بیٹے کی بشارت دی گئی اور پھر قربانی والا واقعہ ہوا۔ اس کے بعد قرآن کریم فرماتا ہے کہ اسحاقؑ کی بشارت دی گئی۔ اس ترتیب سے ظاہر ہے کہ جو بیٹا کنعان سے ہجرت کے بعد پہلے پیدا ہوا وہی ذبیح اللہ ہے۔ دوسری طرف یہود، مسیحی اور مسلمان تمام اس بات پر متفق ہیں کہ بڑے بیٹے اسماعیلؑ تھے۔

اگر ذبیح اسحاقؑ ہیں تو ان کی پیدائش کی بشارت کا ذکر قربانی کا واقعہ بیان کرنے کے بعد کیوں کیا گیا ہے؟ اس طرح تو پہلے ان کی بشارت ہونی چاہیے تھی اور پھر قربانی کا واقعہ۔ اگر پہلے خوشخبری کو اسحاقؑ کے متعلق سمجھا جائے تو پہلے ان کی خوشخبری، پھر ذبح کا واقعہ اور اس کے بعد دوبارہ ان کی خوشخبری کا ذکر کرنے کا کیا مقصد ہے؟ یہ اتنی واضح بات ہے کہ غیر مسلم مستشرقین نے بھی نوٹ کی ہے اور کہا ہے کہ قرآنی الفاظ کی ترتیب سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اسماعیلؑ ہی بطور ذبیح مراد ہیں۔ (Nagel, Muhammad, P 22)

اس جگہ سورت مریم کی آیت ۵۰ یعنی

فَلَمَّا اعۡتَزَلَہُمۡ وَ مَا یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۙ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ

کا ذکر بے محل ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ کی ہجرت کے بعد حضرت اسحاقؑ کی خوشخبری کا ذکر ہے۔ اس لیے کہ واقعات بیان کرتے ہوئے ہر مرتبہ تمام تفصیلات بیان نہیں کی جاتیں۔ سورت الصٰفات میں ہجرت اور دونوں بیٹوں کا ذکر ہے اور ان کی پیدائش کی ترتیب واضح کر دی گئی ہے۔ جبکہ سورت مریم میں ہجرت اور صرف ایک بیٹے یعنی اسحاقؑ کا ذکر ہے۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دوسرا بیٹا تھا ہی نہیں۔ سورت الصٰفات میں مکمل تصویر دکھا دی گئی ہے جبکہ باقی جگہوں پر حسب مضمون اس کا صرف کچھ حصہ بیان ہوا ہے۔

2۔ قرآن کریم کے مطابق اسحاقؑ کے متعلق پیدائش سے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ آگے ان کا بھی ایک بیٹا ہو گا۔

فَبَشَّرۡنٰہَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَ مِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ یَعۡقُوۡبَ۔ (ھود: ۷۲)

اس پیشگوئی کی موجودگی میں حضرت ابراھیمؑ کو یہ خیال آ ہی نہیں سکتا تھا کہ خواب میں اسحاقؑ کی قربانی مانگی جا رہی ہے۔ کیونکہ اگر حضرت اسحاقؑ کو بچپن میں ہی قربان کر دیا جاتا تو آگے ان کا بیٹا کیسے ہوتا؟ (ابن کثیر، زیر آیت سورۃالصٰفات: ۱۰۳ )اللہ تعالیٰ کے احکامات میں تضاد کس طرح ممکن ہے؟ پس خواب کے نتیجے میں آپؑ کا خیال صرف اسماعیلؑ ہی کی طرف جا سکتا تھا جن کی اولاد کی کوئی خوشخبری اس وقت تک حضرت ابراھیمؑ کو نہیں دی گئی تھی۔ البتہ بائبل کے مطابق حضرت ہاجرہ کو یہ خوشخبری دے دی گئی تھی۔

یہ جواب کہ حضرت اسحاقؑ کے ہاں قربانی کے واقعہ سے پہلے یعقوبؑ پیدا ہو چکے تھے(الطبری، تاریخ، ذکر امر بناء البیت)کافی نہیں۔ کیونکہ مندرجہ بالا آیات میں اسحاقؑ کے نبی ہونے کی پیشگوئی بھی ہے

وَ بَشَّرۡنٰہُ بِاِسۡحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ(الشوکانی، فتح القدیر، زیر آیت الصٰفات: ۱۰۳)

اگر اسحاقؑ کی شادی ہو کر یعقوبؑ پیدا ہو بھی چکے ہوں، جس کا کوئی ثبوت نہیں، تب بھی اسحاقؑ اس وقت تک نبوت پر تو فائز نہ ہوئے تھے۔

3۔ اسحاقؑ کے بعد چونکہ یعقوبؑ کی بشارت موجود تھی اس لیے یعقوبؑ کی پیدائش سے پہلے تو اسحاقؑ کی قربانی کا واقعہ ہو نہیں سکتا۔ دوسری طرف بڑی عمر میں بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ قربانی کا واقعہ اس وقت ہوا جب کہ بیٹا ابھی بھاگنے دوڑنے اور باپ کا ہاتھ بٹانے کی عمر کو پہنچا ہی تھا: بَلَغَ۔ اور اس عمر میں قربانی سے پہلے اسحاقؑ کی شادی اور یعقوبؑ کی پیدائش کا کوئی اشارہ قرآن کریم یا بائبل میں نہیں پایا جاتا۔

4۔ اس قربانی کی یاد مکہ اور عربوں سے وابستہ ہے نہ کہ فلسطین اور یہود سے! اگر واقعہ حضرت اسحاقؑ کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو فلسطین میں اور یہود میں، جو کہ حضرت اسحاقؑ کی اولاد ہیں، اس کی کوئی یادگار ہونی چاہیے تھی۔ مگر قربانی دینے کی سنت اہل مکہ میں جاری رہی جو کہ حضرت اسماعیلؑ کی اولاد تھے اور اس واقعہ کی یاد میں قربانی کرتے تھے۔ یہودیت میں قربانیوں کا جو طریق کسی وقت قائم تھا اس کا تعلق گناہوں سے نجات سے ہے نہ کہ حضرت ابراہیمؑ سے۔ اسی لیے یروشلم کے ہیکل کی تباہی کے بعد وہ سلسلہ بند ہو گیا اور دو ہزار سال سے اب تک بند ہے۔ ظاہر ہے کہ یادگار حقیقی ذبیح کے ساتھ ہی وابستہ ہونی تھی اور قریباً چار ہزار سال سے آج تک وابستہ ہے۔ یہ حضرت اسماعیلؑ کے ذبیح اللہ ہونے پر عملی شہادت ہے اور اتنی مضبوط کہ جب ایک عالم سے پوچھا گیا تو انہوں نے بڑی سختی سے سائل کو جواب دیا کہ تمہاری عقل کہاں ہے؟ دیکھتے نہیں کہ قربانی مکہ میں کی جاتی ہے۔ (تفسیر قرطبی، زیر آیت سورۃالصٰفات ۱۰۳)مجبوراً یہ خیال گھڑا گیا کہ ذبیح تو حضرت اسحاقؑ ہی ہیں لیکن قربانی کے لیے ان کو فلسطین سے مکہ لایا گیا تھا ! (قرطبی، تفسیر زیر آیت سورۃ الصٰفات: ۱۰۳)یہ بالکل ہی بے بنیاد بات ہے۔

5۔ حضرت اسماعیلؑ کی قرآن کریم میں دو صفات بطور خاص بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو صبر:

وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِدۡرِیۡسَ وَ ذَاالۡکِفۡلِ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیۡنَ۔ (انبیاء: ۸۶)

اور دوسرا وعدہ پورا کرنا :

اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الۡوَعۡدِ (مریم: ۵۵)

ان صفات کا قربانی سے تعلق ہے کیونکہ آپؑ نے قربانی کے موقع پر بھی صبر ہی کا وعدہ کیا

سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ

اور یہ وعدہ آخر تک سچا بھی کر دکھایا۔ اس میں حضرت اسماعیلؑ کے ذبیح اللہ ہونے کی طرف صاف اشارہ پایا جاتا ہے۔ جبکہ اسحاقؑ کے متعلق کوئی ایسا ذکر نہیں ملتا جس سے قربانی کی طرف اشارہ ہو۔ ان کو غلام علیم کہا گیا ہے۔ (الحجر: ۵۴، الذاریات: ۲۹)لیکن علم کا قربانی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔

6۔ سورت الصٰافات میں جس بیٹے کی خوشخبری اور پھر قربانی کا ذکر کیا گیا ہے وہ دعا کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ ’’اسماعیل‘‘نام سے ہی ظاہر ہے کہ کون تھا کیونکہ ’’سمع‘‘کا مطلب ہے اس نے سنا۔ آپؑ کا یہ نام اس لیے رکھا گیا تھا کہ دعا سنی گئی تھی۔ اس بات سے بائبل بھی متفق ہے۔ (پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۱)اس کے مقابل پر حضرت اسحاقؑ کے لیے کوئی دعا نہیں کی گئی تھی۔ بلکہ بائبل کے مطابق جب حضرت اسحاقؑ کی خوشخبری دی گئی تو حضرت ابراہیمؑ نے عرض کیا کہ اسماعیلؑ جیتا رہے تو یہی کافی ہے۔ (پیدائش باب ۱۷، آیت ۱۸)یعنی حضرت ابراہیمؑ کو دوسرے بیٹے کی کوئی خواہش نہیں تھی نہ ہی اس کے لیے دعا کی تھی۔

7۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت بھی حضرت اسماعیلؑ کے حق میں ہے۔ ذبیح بیٹے کے متعلق یہ وعدہ تھا کہ اس کی اولاد لاتعداد ہو گی۔ بائبل میں لکھا ہے: ’’کیوں کہ تم نے اپنے اکلوتے بیٹے کو مجھ سے نہیں رو کا۔ میں یقینی طور پر تجھے بر کت دوں گا۔ تیری نسل کے سلسلے کو بھی بڑھاؤں گا۔ تیری قوم اور نسل آسمان میں تاروں کی طرح اور سمندر کے ساحل پر ریت کے ذرّوں کی طرح لا تعداد ہو گی۔‘‘(پیدائش باب ۲۲، آیت ۱۶ تا ۱۷)یہی وعدہ بائبل میں صاف طور پر اسماعیلؑ کی پیدائش پر حضرت ہاجرؓہ کو دیا گیا تھا: ’’خداوند کے فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا: میں تیری نسل کے سلسلہ کو بہت بڑھاؤں گا۔ وہ اتنی ہو گی کہ گِنی نہیں جائے گی۔‘‘(پیدائش باب ۱۶، آیت ۹)اگر جسمانی اولاد کو دیکھا جائے تب بھی اور اگر روحانی اولاد کو دیکھا جائے تب بھی حضرت اسحاقؑ کی طرف منسوب ہونے والی اولاد ناقابل ذکر 15 ملین ہے جبکہ اسماعیلؑ کی اولاد مسلمانوں کی صورت میں قریباً 2 ارب ہو چکی ہے۔ چنانچہ لا تعداد اور ریت کے ذروں کی طرح ہونے کا وعدہ بنو اسماعیلؑ کے حق میں پورا ہوا۔

8۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ اس سارے قصے کا مقصد کیا تھا؟ اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل بلا حکمت نہیں ہوتا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو پہلے بیٹا ذبح کرنے کا خواب دکھایا اور پھر آخری وقت میں اس سے روک بھی دیا تو اس سے حاصل کیا ہوا؟ کیا صرف یہ دکھانا مقصود تھا کہ باپ بیٹا فرماںبردار ہیں؟ اگر یہی مقصد تھا تو پھر فدیہ کیسا؟ اور اگر فدیہ تھا بھی تو وہ ’’ عظیم‘‘ کیسے ہو گیا؟ اس اہم سوال کا کوئی جواب مفسرین نے نہیں دیا۔

علماء کو بھی یہ بات کھٹکتی رہی کہ جب خواب پورا نہیں ہوا تو پھر یہ کیوں کہا گیا ہے کہ ’’خواب سچا ہو چکا‘‘۔ اس کا ایک حل یہ نکالا گیا ہے کہ ابراہیمؑ کو خواب میں سرے سے ذبح کرنا دکھایا ہی نہیں گیا تھا! بلکہ خواب صرف چھری گردن پر رکھنے تک دکھایا گیا تھا۔ یہ بات مفسرین کو کیسے معلوم ہوئی؟ اس طرح کہ یہی مسئلہ یہودی مفسرین کو بھی در پیش تھا۔ انہوں نے بھی اس کی ہمارے مفسرین جیسی تاویلات کی ہیں اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم قربان گاہ تک لے جانے کا دیا تھا ذبح کرنے کا نہیں۔ (بریشیت رباح، باب ۵۶)

دوسرا حل یہ نکالا گیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے کو واقعی ذبح کرنے کی کوشش تو کی لیکن اس کی گردن پر پیتل کا ایک حلقہ آ گیا جس کی وجہ سے ذبح نہ ہو سکا۔ یا یہ کہ جتنا حصہ گردن کا کٹتا تھا ساتھ ہی معجزانہ طور پر واپس جڑ جاتا تھا اس لیے ذبح بھی کر دیا اور لڑکا فوت بھی نہیں ہوا !(قرطبی، زیر آیت سورۃ الصٰفات: ۱۰۳)ایسی خلاف عقل باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ مفسرین کے پاس حقیقی جواب نہیں تھا اس لیے غالباً کمزور روایات پر انحصار کر لیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک حل یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ یہ حکم عمل سے پہلے ہی منسوخ ہو گیا تھا! (الشوکانی، فتح القدیر، زیر آیت سورۃالصٰفات: ۱۰۳)

امام رازیؒ نے ان تاویلات کو غلط قرار دیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح انہوں نے کسی روایت سے مرعوب ہونے کی بجائے عقل سلیم پر دلائل کو پرکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر واقعی قربانی دے دی تھی تو پھر فدیہ کی کیا ضرورت تھی؟ فدیہ دینے سے ظاہر ہے کہ بات پوری نہیں کی گئی تبھی فدیہ دیا گیا اور یہ جو کہا گیا کہ تُو رؤیا پوری کر چکا اس سے ظاہر ہے کہ جو بھی حکم تھا وہ واجب العمل تھا۔ (الرازی، مفاتح الغیب، زیر آیت سورۃالصٰفات: ۱۰۳) یعنی منسوخ نہ ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ رؤیا پوری ہونے سے مراد یہ ہے کہ رؤیا کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ امام رازیؒ کی یہ دلیل مضبوط ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے دوسری جگہ فرمایا ہے وَ مَاصَلَبُوْہُ حالانکہ مسیحؑ کو صلیب پر تو چڑھایا گیا تھا۔ اس جگہ بھی یہی مراد ہے کہ صلیب پر چڑھانے کا مقصد پورا نہیں ہوا۔ تاہم نیچے مزید بحث سے ظاہر ہو گا کہ بیٹے کی قربانی کے متعلق اس تاویل کی بھی ضرورت نہیں۔

اگلا مسئلہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خواب میں ذبح کرنے کا حکم دیا تھا تو اس کو پورا کرنا ابراہیمؑ پر فرض تھا پھر آپؑ نے بیٹے سے پوچھا کیوں؟ اگر بیٹا قربانی دینے سے انکار کر دیتا تو کیا ابراہیمؑ باز آ جاتے اور اللہ کا حکم پورا نہ کرتے؟ اس سوال پر مفسرین نے کہا ہے کہ یہ پوچھنا واقعی پوچھنا نہیں تھا بلکہ آپؑ صرف بیٹے کی اطاعت کا درجہ دیکھ رہے تھے۔ (قرطبی، زیر آیت سورۃ الصٰفات: ۱۰۳)یعنی مفسرین کے مطابق پہلے اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کی اطاعت دیکھنے کے لیے ایک حکم دیا جس پر عمل وہ نہیں چاہتا تھا اور آگے آپؑ نے اسماعیلؑ کی اطاعت دیکھنے کے لیے ایک حکم دیا اور جواب پر عمل کا ارادہ نہیں تھا۔ یہ سب مشکلات مفسرین کو اس لیے پیش آئی ہیں کہ انہوں نے اس قصہ کا صحیح مقصد نہیں پہچانا۔

حقیقت یہ ہے کہ بلا شبہ اس خواب کا ایک مقصد تھا۔ یعنی اس بیٹے سے ایک عظیم قربانی لی جانی تھی۔ اور یہ قربانی بالاتفاق صرف حضرت اسماعیلؑ نے دی، حضرت اسحاقؑ نے نہیں۔ یعنی مکہ کی غیر آباد اور ناقابل سکونت وادی میں رہنے کی قربانی۔ اس کی تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ حضرت ابراہیمؑ کی پہلی بیوی، یعنی سارہ، نے دوسری بیوی، یعنی ہاجرہ، کے متعلق مطالبہ کیا کہ اس کو اپنے بیٹے اسماعیلؑ سمیت گھر سے نکال دیا جائے۔ اور نکالا بھی اتنا دور جائے کہ واپسی کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہے اور جگہ بھی ایسی ہو کہ وہاں دانہ پانی تک نہ ہو۔ اُس کا مقصد یہ تھا کہ ماں بیٹا کہیں صحرا میں مر کھپ جائیں۔ مگر خدا تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’سوکن نے کہا کہ اس کو ایسی جگہ چھوڑ و جہاں نہ دانہ ہو نہ پانی۔ اس کی غرض یہی تھی کہ وہ اس طرح سے ہلاک ہو کر نیست و نابود ہو جائے گی اور حضرت ابراہیمؑ کا ایسا منشاء نہ تھا مگر خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو کہا کہ اچھا جس طرح یہ کہتی ہے اسی طرح کیا جاوے اور سارہ کی بات کو مان لے۔ اصل میں بات یہ تھی کہ خدا تعالیٰ کا منشاء قدرت نمائی کا تھا۔ توریت میں یہ قصّہ مفصّل لکھا ہے۔ بچہ جب بوجہ شدت پیاس رونے لگا توبی بی ہاجرہؓ پہاڑ کی طرف پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھبراہٹ سے دوڑتی بھاگتی پھرتی رہی مگر جب دیکھا کہ اب یہ مَرتا ہے تو بچّے کو ایک جگہ ڈال کر پہاڑ کی چوٹی پر دُعا کرنے لگ گئی کیونکہ اس کی موت کو دیکھ نہ سکتی تھی۔ اسی اثناء میں غیب سے آواز آئی کہ ہاجرہ! ہاجرہ! لڑکے کی خبر لے وہ جیتا ہے۔ آ کر دیکھا تو لڑکا جیتا تھا اور پانی کا چشمہ جاری تھا۔‘‘(ملفوظات جلد ۵، صفحہ ۴۹۹)

یہ عجیب سنت اللہ ہے، اور اس کی بے شمار مثالیں ہیں، کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے معمول کے اعمال کرنے کی چھوٹدے دیتا ہے لیکن ان کے نتائج اپنے پیاروں کے حق میں نکالتا ہے۔ شاید اس لیے کہ اسی سے اس کی کامل قدرت اور خدائی کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کو کنویں میں پھینکتے ہوئے خیال کیا گیا تھا کہ اب یہ قصہ تمام ہوا۔ منصوبے کے مطابق باپ کی نظروں سے اسے گم کر دیا ہے۔ پھر غلط الزام لگ کر سزا ہوئی اور جیل میں پھینکا گیا۔ مگر نتیجہ؟ وہی زندانی تخت پر بٹھایا گیا اور آخر کو اسی کے سامنے سجدہ ٔ اطاعت کرنا پڑا۔ ہمارے سرکار، شہنشاہِ دو عالمؐ، کو پتھر مار کر طائف سے لہولہان کر کے نکال دیا۔ پھر مکہ سے بے سر و سامان کر کے نکال دیا۔ حالت یہ کہ کپڑوں میں پیوند، جوتی میں ٹانکے، کئی کئی دن چولہا جلانے کو گھر میں سامان نہیں۔ بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے۔ نہ باپ نہ بھائی نہ کوئی بیٹا۔ مگر نتیجہ؟ اسی یتیم و اُمی و بے کس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ اس جگہ بھی جیسے سارہ نے کہا ویسا ہی ہونے دیا گیا حالانکہ بات سراسر زیادتی کی تھی۔ جگہ دور دراز، صحرا، بے آب و گیاہ، ماں بیٹے کو بے یار و مدد گار چھوڑا گیا، نہ کوئی خدمت گار ساتھ نہ کوئی رشتہ دار۔ لیکن نتیجہ؟

تعبیر الرؤیا کے مطابق خواب میں ذبح کرنے کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ ذبح ہونے والے کو ذبح کرنے والے سے خیر پہنچے گی۔ اگر مذبوح قید ہے تو رہا ہو گا، اگر خوف میں ہے تو امن میں آ جائے گا، اگر غلام ہے تو آزادی ملے گی۔ یہ بھی لکھا ہے کہ ذبح کرنے والا مذبوح پر ظلم کرے گا۔ (ابن سیرین، تعبیر الرؤیاء، زیر لفظ ذبح)یہ آخری بات اللہ تعالیٰ کے نبی پر تو صادق نہیں آ سکتی البتہ اس طریق پر ضرور پوری ہوئی کہ بظاہر حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کو شدید خطرے کی حالت میں مکہ میں بےیار و مددگار چھوڑ دیا۔ اگر ایسا اللہ کے حکم پر نہ کیا ہوتا اور اگر اس میں ہاجرہ کی رضامندی شامل نہ ہوتی تو واقعی یہ بہت بڑا ظلم تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’حضرت ابراہیمؑ نے زمانہ کے رواج کے مطابق اس کی غلط تعبیر سمجھی۔‘‘( تفسیر کبیر، زیر آیت سورۃ ابراھیم: ۳۹)پھر فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضور گویا عرض کیا کہ ’’میری بیوی اِس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتی۔ وہ سمجھے گی کہ میں نے دوسری بیوی کی خاطر اِسے یہاں چھوڑا ہے۔ میرا بچہ بھی اِس بات کو نہیں سمجھ سکتا۔ وہ بڑا ہو کر کہے گا کہ باپ کیسا ظالم تھا وہ مجھے اور میری ماں کو یہاں چھوڑ گیا۔ اے میرے ربّ! میں اپنے دل کا درد کس کو بتاؤں سوائے تیری ذات کے جسے سب کچھ علم ہے۔ تجھے پتہ ہے کہ میرے دل میں کتنا دُکھ ہے، تجھ کو پتہ ہے کہ یہ ظاہری سنگدلی اور ظلم کا الزام مَیں نے محض تیرے حکم کو پورا کرنے کے لئے اپنے اوپر لیا ہے۔‘‘(انوار العلوم، جلد ۲۱، صفحہ ۱۲۹)پس مکہ میں چھوڑنے سے حضرت ابراہیمؑ کی خواب لفظ بلفظ پوری ہو چکی تھی۔ اسی لیے جب آپؑ نے خواب کو ظاہری طور پر پورا کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خواب تو پوری ہو چکی ہے۔

رہا یہ سوال کہ اگر خدا تعالیٰ کا حکم تھا توپھر آپؑ نے حضرت اسماعیلؑ سے کیوں پوچھا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ الٰہی مذاہب کی بنیاد قربانی دینے پر ہے نہ کہ دوسروں سے قربانی لینے پر۔ چنانچہ کسی شخص کی رضامندی کے بغیر اس کی کسی چیز، جان، مال، عزت، وقت کی قربانی نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے حضرت اسماعیلؑ کی قربانی دینے کا حضرت ابراہیمؑ کو کوئی حق نہیں تھا جب تک خود حضرت اسماعیلؑ اس پر راضی نہ ہوتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ابراہیمؑ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’انہیں اچھی طرح علم تھا کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی جان کی قربانی کی بجائے دوسروں کی قربانی کرتا پھرے۔‘‘ (خطبات طاہر، خطبہ عید الاضحی فرمودہ ۲۸؍ستمبر۱۹۸۳ء) چنانچہ وہ خواب جو اسماعیلؑ کی پیدائش پر دیکھا گیا تھا اور درحقیقت آپؑ کو مکہ چھوڑنے کے ذریعہ سے پورا ہو چکا تھا، اسے ظاہری طور پر پورا کرنے کے لیے آپؑ نے انتظار فرمایا یہاں تک کہ اسماعیلؑ بات کو سمجھنے اور فیصلہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ پھر ان سے رائے مانگی۔ کوئی زبردستی نہیں کی۔

اس جگہ یہ لطیفہ قابل ذکر ہے کہ یہی بات

سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ

حضرت موسیٰؑ نے بھی خضر کو کہی تھی سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ صَابِرًا (الکہف: ۷۰) لیکن موسیٰؑ صبر نہیں کر سکے جبکہ اسماعیلؑ نے کر کے دکھایا۔ موسیٰؑ غلام علیم کی اولاد میں سے تھے، روکنے کے باوجود سوال کرتے چلے گئے۔ جبکہ اسماعیلؑ غلام حلیم تھے۔

بائبل کی روایات کا تجزیہ

اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ قرآن کریم کے مطابق ذبیح حضرت اسماعیلؑ تھے۔ یہی بات عرب روایات سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ تاہم بائبل کے نزدیک ذبیح حضرت اسحاقؑ تھے۔ اسلامی نکتہ نظر کے متعلق متعدد دلائل اوپر گزر چکے ہیں یہاں صرف اہل کتاب کی روایات کے متعلق بعض امور پیش ہیں۔

1۔ بائبل میں بیان کیا گیا ہے کہ خدا نے اس سے کہا کہ تیرا بیٹا یعنی تیرا اکلوتا بیٹا اسحاق جسے تو پیار کر تا ہے موریاہ کے علاقے میں لے جا۔ میں تجھے جس پہاڑ پر جانے کی نشاندہی کروں گا وہاں جاکر اپنے بیٹے کو قربان کر دینا۔ (پیدائش باب ۲۲ آیت ۲)

’’اکلوتا‘‘بیٹا خود بائبل کے بیان کے مطابق تیرہ سال تک حضرت اسماعیلؑ تھے۔ اور جب حضرت اسحاقؑ پیدا ہوئے تو وہ اکلوتے نہ تھے کیونکہ اس وقت حضرت اسماعیلؑ موجود تھے۔ اس بارے میں یہود کا خیال ہے کہ اکلوتے بیٹے سے مراد حضرت اسحاقؑ تھے کیونکہ وہ بیوی میں سے تھے جبکہ حضرت اسماعیلؑ لونڈی کے بیٹے تھے اور وراثت میں شامل نہیں تھے۔ لیکن یہ بات دو طریق پر غلط ہے۔ ایک تو اس لیے کہ حضرت ہاجرہ لونڈی نہیں تھیں۔ ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں یہود آپ کو لونڈی محض سارہ سے کمتر دکھانے کے لیے کہتے ہیں۔ (الفضل انٹرنیشنل، ۸، ۱۱، ۱۵؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء)دوسرے لونڈی کے بچے بیوی کے بچوں کے برابر اور وراثت میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ چنانچہ یعقوبؑ کےبارہ بیٹوں میں سے چار لونڈیوں کی اولاد تھے۔ (پیدائش باب ۳۵، آیات ۲۲ تا ۲۷)لیکن ان کو باقی سب یہودی قبائل کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے اور وراثت میں ان کا بھی اسی طرح حصہ ہے جس طرح باقی سب کا۔

بائبل میں اس جگہ ’’اکلوتے‘‘ بیٹے کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد ’’اکیلا‘‘ نہیں بلکہ ’’محبوب‘‘ہے۔ چنانچہ بائبل کے قدیم یونانی ترجمہ سبعینیہ میں، جو کہ ۲۵۰ قبل مسیح کے زمانہ میں کیا گیا اس جگہ ’’محبوب‘‘ بیٹا ہی لکھا ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ ’’اکلوتا‘‘ سے حضرت اسماعیلؑ کے متعلق دلیل لانا الزامی جواب کے طور پر تو درست ہے مگر یہ حقیقی علمی دلیل نہیں ہے۔ قرآن کریم نے کہیں یہ ذکر نہیں کیا کہ ’’اکلوتے‘‘ بیٹے کے متعلق حکم دیا گیا تھا۔ اس لیے مسلمان علماء کا اس بات پر زور دینا بے جا ہے۔ اس کی بجائے علامہ فراہی کی یہ دلیل زیادہ مضبوط اور علمی ہے کہ پرانے ادیان میں پہلی آمد، پہلی فصل، پہلوٹھی اولاد کو خدا کے نام پر وقف کرنے کا رواج تھا اور یہ رواج بائبل نے بھی جاری رکھا ہے۔ (گنتی باب ۸آیت ۱۴ وغیرہ)پس حضرت اسماعیلؑ بطور پہلوٹھے بیٹے اللہ کے لیے نذر یا وقف کیے گئے تھے اور اسی لیے انہیں اللہ کے گھر یعنی کعبہ میں چھوڑ دیا گیا تھا اور انہیں حضرت ابراہیمؑ کی وراثت میں سے زمین وغیرہ نہیں ملی کیونکہ تورات کے مطابق کاہن، یعنی خدا کی عبادت کے لیے وقف شدہ کو وراثت نہیں ملتی تھی۔ (استثناء باب ۱۰ آیت ۹) اس کا کفیل وہ معبد ہوتا تھا جہاں اسے چھوڑا جاتا تھا۔ خدا کے نام پر دیے جانے والے صدقہ اور تحائف میں سے ایسے وقف شدہ لوگوں کو حصہ ملتا تھا۔ (فراہی، الرأی الصحیح فی من ھو الذبیح، صفحہ ۶۶۔ ۶۷وغیرہ)گو علامہ فراہی نے بعض قوانین کا ذکر تورات کے حوالے سے کیا ہے تاہم تورات میں بہت سے قوانین گذشتہ ادیان کے خیالات اور ان کی شریعت کے مطابق ہی ہیں۔ اسی طرح جس طرح قرآن کریم میں بہت سے قوانین تورات کے موافق ہیں۔ اسی طرح تورات میں ان قوانین کی وجہ فرعون کو دی جانے والی ایک سزا سے جوڑا گیا ہے، تاہم حضرت ابراہیمؑ کے زمانے سے پہلے بھی پہلوٹھی کی اولاد کا خاص مقام تھا۔

چنانچہ پہلوٹھے بیٹے کے وراثت میں زائد حصہ کا قانون عراق کی ایسین۔ لارسا (۲۰۰۰ ق۔ م تا ۱۸۰۰ ق۔ م ) سلطنت کی دستاویزات میں موجود ہے۔

(I. Mendelsohn, On the prefrential status of the eldest son)

قرین قیاس یہی ہے کہ اس فرق کا تعلق بڑے بیٹے کی مذہبی یا خاندانی حیثیت سے ہو گا۔ مذہبی طور پر یہ ثابت شدہ ہے کہ پہلوٹھی کی اولاد کو خاص حیثیت حاصل تھی۔ اسی لیے ان قدیم تہذیبوں میں اکثر جگہ کسی دیوتا کو کسی دوسرے دیوتا کا پہلوٹھی کا بیٹا یا پہلوٹھی کی بیٹی کہا گیا ہے۔ مثلاً اُر، جو کہ بائبل میں حضرت ابراہیمؑ کا علاقہ بتایا گیا ہے، میں قریباً ۲۰۰۰ق م کی ایک تختی پر نانا کو اینلیلکا پہلوٹھی کا بیٹا کہا گیا ہے۔ (TUAT, P319) اسی طرح لاگاش کی قریباً ۲۱۵۰ ق م کی ایک تختی کے مطابق وہاں کا بادشاہ بطور فخر نانچا کی پہلوٹھی کی بیٹی نینمارا کے لیے معبد تعمیر کرنے کا ذکر کرتا ہے۔ (TUAT P472) پس یہ واضح ہے کہ اس زمانے میں اور اس علاقے میں پہلوٹھی کی بیٹی یا بیٹے کا مقام دیگر سے بلند تھا۔ یہ بات کہ وقف شدہ بچے معبد کے ذمہ ہوتے تھے اور وہاں ان کی کفالت کی جاتی تھی، یہ طریق بھی یہود میں جاری رہا۔ قرآن کریم کے مطابق حضرت مریمؓ کو ان کی والدہ نے نذر /وقف کیا تھا۔ چنانچہ ان کی کفالت حضرت زکریاؑ نے کی۔ (آل عمران: ۳۶تا ۳۸)

پہلوٹھے بیٹے کے متعلق بظاہر متضاد امور نظر آتے ہیں۔ ایک طرف اس کی کوئی وراثت نہیں۔ دوسری طرف اس کا وراثت میں دوہرا حصہ ہے۔ بنیاد ایک ہی خیال معلوم ہوتی ہے۔ یعنی پہلوٹھے بیٹے کو خدا کے لیے نذر کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اس کے اخراجات کے لیے یا تو وراثت میں بالکل ہی کوئی حصہ نہیں تھا کیونکہ اس کے تمام اخراجات عبادت گاہ کے ذمہ تھے۔ یا پھر اس کا حصہ دو گنا تھا تاکہ وہ کوئی دنیاوی کام کیے بغیر اپنی وراثت پر گزارہ کر سکے۔

اس جگہ یہ ذکر ضروری ہے کہ محترمی میر عبد اللطیف صاحب کے نزدیک ’’موریاہ‘‘ سے اصل میں ’’منیٰ‘‘ مراد ہے۔ اس خیال کی بنیاد اس بات پر ہے کہ لفظ ’’منیٰ‘‘ سے مراد ہی موت اور قربانی ہے۔ چنانچہ لسان العرب کے مطابق مکہ میں موجود جگہ منیٰ کا نام اس بنا پر منیٰ ہے کہ وہاں قربانیاں کی جاتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: قال ابن شمیل سمی منی لان الکبش منی بہ، ای ذبح۔ یعنی ابن شمیل کے مطابق منیٰ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہاں بھیڑیں ذبح کی جاتی ہیں۔ (لسان العرب، زیر لفظ منیٰ)

بہرحال بائبل کی ارض موریاہ درحقیقت مروہ تھی یا منیٰ، اس سے قطع نظر یہ واضح ہے کہ فلسطین میں بہرحال ایسی کوئی جگہ نہیں۔

2۔ بائبل کے مطابق حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ گھر سے نکلنے کے بعد ’’بیر سبع‘‘ کے علاقے میں رہائش پذیر ہو گئے تھے۔ (پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۴)دوسری طرف بائبل بیان کرتی ہے کہ قربانی کے واقعہ کے بعد حضرت ابراھیمؑ ’’بیر سبع‘‘ رہائش پذیر ہو گئے۔ (پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۹)چنانچہ ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی کا واقعہ حضرت ہاجرہ کی رہائش گاہ کے پاس پیش آیا۔ یہ بھی محض الزامی جواب ہے کیونکہ قرآن کریم کے مطابق یہ جگہ مکہ تھی۔ تاہم بائبل کی حد تک یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ قربانی کی جگہ وہیں تھی جہاں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ مقیم تھے۔

3۔ بائبل تسلیم کرتی ہے کہ حضرت اسحاقؑ کی پیدائش کی خوشخبری کے ساتھ ہی ان کی نسل کی خوشخبری بھی دی گئی تھی۔ جبکہ حضرت اسماعیلؑ کی نسل کی خوشخبری ان کی پیدائش کے بہت بعد میں حضرت ابراہیمؑ کو دی گئی۔ (پیدائش باب ۱۷ آیات ۱۹۔ ۲۰)پیدائش سے پہلے صرف حضرت ہاجرہؓ کو ایسا بتایا گیا تھا۔ (پیدائش باب ۱۶ آیات ۹۔ ۱۲)یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ حضرت اسحاقؑ کی اولاد کی خوشخبری دے دوسری طرف ان کو ذبح کرنے کا حکم دے؟ یہ بات یہودی مفسرین کو بھی کھٹکتی رہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذبح کرنے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ اس جگہ ذومعنی لفظ استعمال ہوا تھا۔ (بریشیت رباح، باب ۵۶)

4۔ بائبل یہ ذکر کرتی ہے کہ جس جگہ قربانی دی گئی وہاں حضرت ابراہیمؑ نے ایک مذبح بنایا تھا۔ (پیدائش باب ۲۲آیت۹)مکہ میں ایک بیت اللہ موجود ہے اور مکہ میں جانوروں کو ذبح بھی کیا جاتا تھا اور اب تک ذبح کیا جاتا ہے۔ لیکن فلسطین میں حضرت ابراہیمؑ سے ہیکل سلیمانی کی تعمیر تک قریباً ایک ہزار سال تک کوئی مذبح موجود نہیں تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ ابراہیمؑ کا تعمیر کردہ مذبح بھی فلسطین میں نہیں تھا ورنہ اس کی کوئی نہ کوئی یادگار وہاں موجود رہتی۔

5۔ قدیم یہودی لٹریچر کی معروف ’’جوبلیوں کی کتاب‘‘ میں یہ ذکر ہے کہ بیٹے کی قربانی والی جگہ پر ایک کنواں بھی تھا۔ (جوبلیوں باب ۱۸)بائبل تسلیم کرتی ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کو صحرا میں چھوڑا تو وہاں بچے کے پیاس سے بے تاب ہو جانے پر حضرت ہاجرہ کو الہام ہوا اور ایک کنواں ظاہر ہوا۔ (پیداِش باب ۲۱آیت ۱۹)جبکہ حضرت اسحاقؑ کی مبینہ قربانی کے واقعہ میں بائبل اور دیگر یہودی روایات کسی کنویں کا ذکر نہیں کرتیں۔ پس ظاہر ہوتا ہے کہ بیٹے کی قربانی والی جگہ وہی ہے جہاں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کو آباد کیا گیا تھا۔

6۔ جس ارض موریاہ (אֶרֶץ הַמֹּרִיָּה) میں قربانی کرنے کا حکم بائبل میں مذکور ہے۔ (پیدائش باب ۲۲، آیت ۲) اس کا فلسطین میں کہیں وجود ہی نہیں۔ بائبل کے چوٹی کے مفسرین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس جگہ یہ لفظ بے جوڑ ہے اور غالباً بعد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ (Von Rad, Das erste Buch Mose, P 190)

شاید یہی وجہ ہے کہ عبرانی تورات کے مقابل پر قدیم یونانی تورات سبعینیہ میں اس جگہ ارض موریاہ کی بجائے ’’بلند جگہ‘‘لکھا گیا ہے۔ (Brayford, Genesis, P 330)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button