متفرق مضامین

سندھ کی احمدیہ اسٹیٹس (قسط چہارم)

(انیس رئیس۔ مبلغ انچارج جاپان)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی بصیرت افروز راہ نمائی اور حسنِ انتظام کا شاہکار منصوبہ

زمینوں کی نگرانی کا نظام۔ کارکنان کا اخلاص و وفا۔ مساجد، گیسٹ ہاؤسز، گودامو اور مکانات کی تعمیر

٭…جب جنگ عظیم دوم کے شعلے بھڑکنا شروع ہورہے تھے، آپؓ کی بصیرت افروز قیادت میں اشاعتِ اسلام کے قافلے دنیا کے طول و عرض میں پھیلنے لگے

٭…جب مخالفین احمدیت قادیان کا نام و نشان مٹانے کے اعلانات کر رہے تھے تو آپ قادیان سے بارہ سو کلومیٹرکی مسافت پرسندھ کے دور درا ز علاقہ تھرپارکر کی آبادکاری کا منصوبہ لیے میدان میں نکل کھڑے ہوئے

1930ء کا عشرہ دنیا میں عظیم انقلابات اور تغیرات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ انہیں دس سالوں میں جنگ عظیم دوم کے معرکہ کا آغاز ہواجو ایک عالمگیر کشت وخون کے بعدبالآخر جرمنی ا ورجاپان کی شکست پر منتج ہوا۔ یہی وہ دَور ہے جب نظامِ عالم کی نئی ترتیب نمودار ہوئی اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ کی تحریکوں نے اتنا زور پکڑاکہ اگلا عشرہ کئی اقوام کے لیے آزادی و رستگاری کی نوید لے کرا ٓیا۔ اسی دَور میں زراعت کا شعبہ بھی صنعتی انقلاب کے اثرات سے مستفیض ہوا اور مشینری کے روز افزوں استعمال سے کاشتکاری کے جدید اسلوب متعارف ہوئے جس کے نتیجے میں زرعی پیداوارمیں غیر معمولی اضافہ ہونے لگا۔

اس نہایت پرآشوب اور ہنگامہ خیز دَور میں جماعت احمدیہ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی سیادت وراہ نمائی میسر تھی۔ جنہوں نے بیک وقت اندرونی اور بیرونی طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جماعت کو ان مہیب خطرات سے محفوظ ومامون اور ترقی کی راہ پر گامزن رکھا۔ آپؓ ایک اولوالعزم راہ نما، قوت جاذبہ کے مالک اور خدا داد صلاحیتوں کے حامل ایسے باہمت امام و پیشوا تھے جن کے علم و معرفت، پُر جوش خطابات اور بلند فکر وخیال نے جماعت کو ایسی طاقت و قوت بخش دی کہ وہ آپ کی اطاعت و وفاداری میں قدم بقدم چلتے ہوئے ایک گونہ لذت و سکون محسوس کرنے لگی۔ آپؓ کا انداز تخاطب ایسا دلنشیں اور اثر انگیز تھا کہ جس نے خلافت کے متبعین میں ایک نئی روح اور جان پھونک دی۔ ایک موقع پرآپؓ نے فرمایا: ’’اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھردو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اٹھیں تاکہ تمہاری دردناک آوازیں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادت توحید کی وجہ سے خداتعالیٰ زمین پر آجائے اورپھر خداتعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہوجائے۔ اسی غرض کےلئے مَیں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کےلئے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتاہوں۔ سیدھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہوجاؤ۔ محمد رسول اللہﷺ کا تخت آج مسیحؑ نے چھینا ہوا ہے۔ تم نے مسیحؑ سے چھین کر پھر وہ تخت محمد رسول اللہﷺ کودینا ہے اور محمد رسول اللہﷺ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خداتعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہونی ہے۔ پس میری سنو اور میری بات کے پیچھے چلو کہ مَیں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے۔ میری آواز نہیں ہے، مَیں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں۔ تم میری مانو! خدا تمہارے ساتھ ہو، خدا تمہارے ساتھ ہو، خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ۔‘‘

(سیرروحانی صفحہ619تا620)

دنیا کے عظیم تغیرات اور انقلابات کے زمانے میں جب بڑی بڑی طاقتیں اور معیشتیں بحرانوں کی زد میں تھیں۔ جب ہندوستان میں مخالفین احمدیت بھی ہر طرف سے جماعت پر حملہ آور تھے، قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور جماعت کا نام و نشان مٹادینے کے بلند بانگ دعوے کر رہے تھے۔ آپؓ توکل علی اللہ سے لبریز اور یقین کامل کےساتھ اپنے متبعین کو یہ خوش خبری سنا رہےتھے کہ خدا کی روحانی بادشاہت کو دوبارہ زمین پر قائم کرنے کے لیے ہم نے آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔ آپؓ کی تحریک پر مخلصین نے نہایت والہانہ لبیک کہتے ہوئے اپنی زندگیاں اشاعتِ اسلام کے لیےپیش کرنا شروع کردیں اور عین اس وقت جب جنگ عظیم دوم کے شعلے بھڑکنا شروع ہورہے تھے، آپؓ کی بصیرت افروز قیادت میں اشاعتِ اسلام کے قافلے دنیا کے طول و عرض میں پھیلنے لگے۔ جب مخالفین احمدیت قادیان کا نام و نشان مٹانے کے اعلانات کر رہے تھے تو آپ قادیان سے بارہ سو کلومیٹرکی مسافت پرسندھ کے دور درا ز علاقہ تھرپارکر کی آبادکاری کا منصوبہ لیے میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ 1932ء میں شروع ہونے والے اس منصوبے پر ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ صحرائے تھر کے نواح میں میل ہا میل کا علاقہ احمدیہ اسٹیٹس میں تبدیل ہوگیا۔ بلکہ ایک زمانہ تھا جب ضلع تھرپار کر میں جھڈو سے پتھورو تک کی ریل احمدیوں کی زمینوں کو ملاتے ہوئے گزرتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق قیامِ پاکستان کے وقت سندھ میں احمدیہ اسٹیٹس کی اراضی کا کل رقبہ 2,000مربعے سے متجاوز تھا۔

اراضیات سندھ کا کل رقبہ اور اہم مراکز

ضلع حیدر آباد اور تھرپارکر کے علاقوں میں تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کی زمینوں کے علاوہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ذاتی زمین اور دیگر احمدی احباب کی زرعی اراضی کا رقبہ 35,34ہزار ایکڑ کے قریب تھا۔ تحریک جدید کی زمینوں کے مراکز محمد آباد اور بشیر آباد تھے۔ محمد آباد فارم کی زمین کا رقبہ 2224؍ایکڑاور بشیر آباد فارم 1714؍ ایکڑ پر مشتمل تھا۔ نورنگر فارم کی اراضی1861؍ ایکڑ، لطیف نگر2018؍ ایکڑ، کریم نگرفارم1788؍ ایکڑ پر مشتمل تھے۔

صدر انجمن احمدیہ کی زمینوں کا مرکز احمد آباد فارم اور حضورؓ کی ذاتی زمینوں کے مراکز ناصر آباد اور محمود آباد تھے۔ حضرت نواب محمد عبد اللہ خا ن صاحبؓ کی زمینوں کا مرکز نصرت آبادفار م اور حضرت چودھری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ کی زمینوں کا مرکز ظفر آباد فارم تھا۔ ان کے علاوہ درجنوں دیگر مقامات اورگوٹھیں بزرگان سلسلہ اور صحابہ کے نام سے موسوم تھیں۔

اس وسیع و عریض زرعی سلطنت کی دیکھ بھال کوئی آسان کام نہ تھا۔ لیکن حضرت مصلح موعودؓ کی راہ نمائی میں ایک نہایت فعال اور منظم ڈھانچہ ان منصوبوں کی نگرانی پر مامور تھا۔ مرکزی سطح پر وکالت زراعت کا قیام عمل میں آیا اور مقامی انجمنوں میں سیکرٹریان زراعت مقرر ہوئے۔

چار خلفاء کی راہ نمائی اور شفقتوں کی مورد سرزمین

اراضئ سندھ کی دیکھ بھال کے لیے ایک منظم اور مربوط نظام تشکیل دیا گیا۔ سر زمین سندھ کی خوش بختی ہے کہ اس نظام کی براہ راست دیکھ بھال نہایت برگزیدہ ہستیوں کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی براہِ راست نگرانی میں یہ نظام نہایت مستعد اور فعال ثابت ہوا۔ 1935ء سے 1959ء کے دوران آپؓ نے اس علاقے کے تقریباً بیس دورے فرمائے۔ آپؓ کے سندھ میں رونق افروز ہونے سے اسلام احمدیت کی اشاعت کے علاوہ، اس علاقے میں بسنے والے احمدی احباب آپؓ کی پاکیزہ صحبت اور نصائح سے مستفیض ہوتے۔ یہ سر زمین حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ کی صحبت سے بھی فیضیاب ہوئی اور حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد دو سال سے بھی کم عرصہ میں تین مرتبہ اس علاقےمیں رونق افروز ہوئے۔

صدر انجمن احمدیہ کی زمینوں اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اراضی کی نگرانی کی غرض سے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز 2003ء تک مسلسل یہاں تشریف لاتے رہے اور اس طرح یہ سرزمین بار بار خلفاء اور برگزیدہ ہستیوں کی میزبان بنتے ہوئے برکتیں اور فیض پاتی رہی۔

ایم این سنڈیکیٹ

چونکہ یہ زمینیں تحریک جدیداورصدر انجمن احمدیہ کے علاوہ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ذاتی ملکیت تھیں۔ اس لیے مجموعی نگرانی کی خاطرایم این سنڈیکیٹ کے نام سے ایک ادارہ عمومی دیکھ بھال پر مقرر کیا گیا۔ شیخ نور الحق صاحب اس کے ابتدائی انچارج تھے جو حضورؓ کی ہدایات کی روشنی میں خدمات انجام دیتے۔ سنڈیکیٹ کے نظم و نسق کے بارے میں صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ میں مذکور ہے کہ ’’ایک سال چھ ما ہ کی متواتر کوششوں سے اللہ نے اپنے فضل سے کامیابی عطا فرمائی اور سندھ میں حضور کی خواہش کے مطابق 5000ایکڑ زمین مل گئی، اس میں انجمن کا حصہ 2860 ایکڑ ہے۔ انتظامی لحاظ سے انجمن کا اس میں اسی قدر دخل ہے جس قدر کہ حصہ دار کا ہو سکتا ہے۔ مگر چونکہ انجمن کا حصہ سب حصہ داروں سے بڑا ہے اس لئے ناظر صاحب اعلیٰ اس کمیٹی مذکور یعنی سنڈیکیٹ کے ممبر ہیں۔ اس منصوبہ کے آغاز کے وقت اس سنڈیکیٹ نے ہی بہت سا پیسہ اور وقت صرف کرکے زمینوں کی تلاش کا کام مکمل کیا۔‘‘

( سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ 1934-1935ءصفحہ234)

ایجنٹ صاحبان، مینیجرز، اکاؤنٹنٹس اور، منشی حضرات کا تقرر

مرکزی سطح پر ایم این سنڈیکیٹ کے ذریعہ نگرانی کا نظام قائم کرنے کے بعد مقامی سطح پر زمینوں کی دیکھ بھال، عملے کی نگرانی اور پیداوار میں اضافے کے لیے ایک نہایت جامع نظام تشکیل دیا گیا۔ انچارج سنڈیکنٹ کے بعد اسٹیٹ ایجنٹ کا عہدہ مقرر کرکے انہیں یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ مرکز کی ہدایات اور پالیسی کے مقامی سطح پر نفاذ کے لیے کاوشیں کریں۔ مکرم سید عبد الرزاق شاہ صاحب، مکرم میاں عبد الرحیم احمد صاحب اور مکرم غلام احمد عطا صاحب اس ذمہ داری کو باحسن ادا کرتے رہے۔

اسی طرح تقریباً دو ہزار ایکڑ کے ایک یونٹ پر مینیجرز کا تقرر عمل میں آیا۔ متعلقہ مقام پر مینیجر کا دفتر، رہائش گاہ اور اجناس ذخیرہ کرنے کے لیے گودام تعمیر کیے گئے۔ دفتری عملے کے علاوہ پیداوار کی آمد اور خرچ کا حساب رکھنے کے لیے اکاؤنٹنٹ مقرر کیے گئے۔ ہر زرعی اراضی یا اسٹیٹ میں ایک منشی صاحب متعین کیے گئے۔ منشی حضرات سینکڑوں ایکڑ پر پھیلے ہوئے زرعی رقبہ پر پیدل چلتے ہوئے ہاریوں کی راہ نمائی کرتے اور مسائل کا جائزہ لیتے۔

محمد آباد اسٹیٹ میں نگرانی کا مرکزی نظام قائم تھا، جہاں دیگر علاقوں سے ہفتہ وار رپورٹس موصول ہوتیں، جنرل مینیجر یا ایجنٹ صاحب محمد آباد میں ہی فروکش ہوتے۔ یہاں آڈیٹر بھی مقرر ہوتے جو وقتاً فوقتاً حسابات کی پڑتال کا کام کرتے۔

مکرم چودھری منور خالد مرحوم نے اپنی تصنیف ’’گر تُو برا نہ مانے‘‘ میں احمدیہ اسٹیٹس میں خدمات بجا لانے والے اسٹاف کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ اس تفصیل کے مطابق درج ذیل حضرات کو بطور مینیجرز خدمت کی توفیق ملی۔

حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ، چودھری فضل الرحمٰن صاحب، چودھری صلاح الدین صاحب، محمد اسماعیل خالد صاحب، چودھری طالب علی صاحب، عبد الحق حقانی صاحب، چودھری حاکم علی صاحب، چودھری برکت علی صاحب، مرزا صالح علی صاحب، چودھری فضل احمد صاحب، چودھری غلام احمد صاحب، سعد اللہ خان صاحب، چودھری عزیز احمد باجوہ صاحب، چودھری شریف احمد کاہلوں صاحب، حفیظ احمد کاہلوں صاحب، محمد علی کانواں صاحب، محمد دین سراء صاحب، چودھری عنایت اللہ صاحب، عنایت اللہ پڈھیار صاحب، محمود احمد کاہلو ں صاحب، مشتاق احمد ہندل صاحب، محمد علی بھٹی صاحب، بشیر احمد گوندل صاحب، سیٹھی محمد علی صاحب، چودھری عبد القدوس صاحب، چودھری جاوید احمد بسمل صاحب اور چودھری منور احمد خالد صاحب

حضرت مصلح موعودؓ کی غیر معمولی توجہ، شبانہ روز دعاؤں اور نہایت جانفشانی سے محنت کرنے والے عملے کی بدولت یہ علاقہ پاکستان میں جدید کاشتکاری کا ایک بہترین نمونہ سمجھا جانے لگا۔

خدام کی حوصلہ افزائی

حضرت مصلح موعودؓ نےتھرپار کر کے لق و دق صحرا کو آباد کرنے کے لیے اور اس گلشن کی آبیاری کے لیے شبانہ روز دعائیں کرتے ہوئے کارکنان کی اس رنگ میں تربیت فرمائی کہ ایک نہایت کٹھن اور مشکل چیلنج نہایت آسان ہدف میں تبدیل ہوگیا۔ خدام اور کارکنان کی تربیت کے لیے حضورؓ نے جو مختلف انداز اختیار فرمائے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپؓ تقریباً ہر سال ان علاقوں میں رونق افروز ہوتے اور بنفس نفیس ہزاروں ایکڑ پر پھیلی ہوئی اراضی کا معائنہ فرماتے۔ ابتدا میں آپؓ گھوڑے پر سوار ہو کرفصلوں کا جائزہ لیتے، بسااوقات بیل گاڑی کا سفر اختیار فرمایا، بعد ازاں بذریعہ کار اور جیپ مختلف مقامات پر تشریف لے گئے۔ آپؓ فصلوں کے معائنہ کے ساتھ اچھی کارکردگی دکھانے والے خدام کو انعامات عطا فرماتے اور احباب کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کی دعوت قبول فرماتے اور ان کے درمیان رونق افروز ہوتے۔ ایک سفر کا احوال یوں مرقوم ہے: ’’آج صبح دس بجے حضور گھوڑے پر اسٹیٹ کی فصل دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے، راستہ میں حضور نےنورنگر، لطیف نگر، اسحٰق نگر اور روشن نگر کے حلقہ کی فصل کے علاوہ تجارتی فارم بھی ملاحظہ فرمائے اور حلقہ نور نگر کی فصل پر حضور نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور حلقہ کے منشی نور محمد صاحب واقف زندگی کو انعام عطافرمایا۔ نور نگر کے مزارعین کی درخواست پر حضور وہاں پر ٹھہرے۔ دو بجے دوپہر واپس تشریف لائے۔ عصر کے وقت حضور محمد آباد سے احمدآباد کار پر روانہ ہوئے اور متعلقہ کارکنوں کے ساتھ احمد آباد کی فصل ملاحظہ فرمائی۔ نماز مغر ب و عشاء کے بعد احباب سے مسجد میں گفتگو فرمائی۔‘‘

(روزنامہ الفضل 11؍مارچ 1948ء)

مساجد، گیسٹ ہاؤسز، گوداموں اور دیگر عمارتوں کی تعمیر

زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک مستحکم نظام کی تشکیل کے ساتھ ساتھ خوبصورت عمارتوں کی تعمیر ا س علاقے کی خوبصورتی میں نمایاں اضافہ کرتی۔ تقریباً ہر گوٹھ اور قصبے میں خوبصورت مساجد تعمیر کی گئیں۔ مساجد کے خوبصورت مینار، میناروں کے مابین جھومر کی مانند چھوٹے چھوٹے میناروں پر مشتمل ڈیزائن دیہات اور قصبات کی رونق کو دوبالا کرتے۔ زرعی اجناس کا ذخیرہ کرنے کے لیے تعمیر کیے گئے بڑے بڑے گودام، دفاتر، گیسٹ ہاؤس اور رہائشی مکانات نے جنگل میں منگل کا سماں پیدا کر رکھا تھا۔ سڑکیں گوکہ کچی ہوتیں مگر ان پر چھڑکاؤ کا انتظام زندگی کی رمق دمق کو ظاہر کررہا ہوتا۔ اسی طرح اسکولوں کی تعمیر کے علاوہ سندھ جننگ فیکٹری کنری اور ٹریکٹر ورکشاپ بھی ان تعمیراتی منصوبوں کا حصہ تھیں۔

اسٹیٹس کے بجٹس کی تیاری اور حضورؓ کی دلچسپی

تھرپارکر کے ویرانوں کو آباد کرنے اوراس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جہاں کارکنان کی انتھک محنت اور اخلاص و وفا کارفرما تھا وہیں حضرت مصلح موعودؓ کی شبانہ روز دعائیں، حسن تدبیر اور قائدانہ صلاحیتوں نے صحرائے تھر کو وہ رونق وعروج بخشا کہ سندھ کا یہ پسماندہ ترین علاقہ جدید کاشتکاری کے لیے پاکستان بھر میں ایک مثال بن گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے کام کی تقسیم کار کے لیے جو نظام وضع فرمایا اس کا ذکر کیا جاچکا ہے۔ پیداوارمیں اضافہ اور زرعی تحقیقاتی مراکز کے قیام کے علاوہ آپؓ نے جانچ پڑتال کا ایک جامع نظام وضع فرمایا۔ ہر اسٹیٹ یا زرعی رقبہ کا باقاعدہ بجٹ تیارکیا جاتا، آمدو اخراجات کے حساب کا حضورؓ خود معائنہ فرماتے۔ ضروری ہدایات ارشاد فرماتے۔ مائیکرو فنانس کی طرز پر مینیجر صاحبان کو یہ اختیار تھا کہ مزارعین یا ضرورت مندوں کو حسب سہولت قرض مہیا کرسکیں۔

حضورؓ ان حسابات کی پڑتال فرماتے ہوئے، بچت کے لحاظ سے آپس میں موازنہ بھی فرماتے اور جس گوٹھ کی پیداوار اچھی ہوتی اس پر اظہار خوشنودی فرماتے۔ قرض کی واپسی اور دیگر معاملات کا بھی جائزہ لیا جاتا۔ اور دوروں کے موقع پر مینیجر صاحبان کی میٹنگز منعقد ہوتیں۔ ان میٹنگز میں پیداوار میں اضافہ، آئندہ کے منصوبوں اور تعمیر و ترقی کے دیگر امور زیر غور آتے۔

تربیت کا ایک دلنشیں انداز

فصلوں کا معائنہ فرماتے وقت اور بجٹ کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے بھی کارکنان کی تربیت کا پہلو ہمیشہ حضورؓ کے پیش نظر رہتا۔ مورخہ یکم مارچ 1951ء کو ناصر آباد میں قیام کے دوران حضورؓ نے سال رواں کا آمد و خرچ اور آئندہ سال کا بجٹ ملاحظہ فرمایا۔ سپرٹنڈنٹ احمدیہ سنڈیکیٹ نے حضورؓ کی خدمت میں بجٹ پیش کیا اور غالبا ًپیداوار کی کمی کے بارے میں کوئی ایسا اظہار فرمایا کہ جس طرح خدا کی مرضی۔ اس پر حضورؓ نے انہیں مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ ’’کسی کام کے نہ ہونے یا اس کے خراب ہونے کی ذمہ داری خدا تعالیٰ پر نہیں ڈالنی چاہیے اور یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہی ایسی تھی، کیونکہ غلطی انسان کی اپنی ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی استعدادوں کو صحیح طور پر کام میں نہیں لاتا۔ اگر ہم اس کی عطا کردہ استعدادوں کو صحیح طور پر کام میں لائیں تو اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ہمارے کام میں خرابی پیدا کرے۔‘‘

(روزنامہ الفضل مورخہ 8؍مارچ 1951ء)

واقف زندگی عملہ اور پنجاب سے سندھ کی طرف ہجرت

خدمت بجالانے والے مخلصین کی اکثریت ایسےواقفینِ زندگی پر مشتمل تھی جو دنیوی تعلیم سے آراستہ ہونے کے بعد اپنے امام کی تحریک پر زندگیاں وقف کرکے اس علاقے میں آبسے۔ مخلصین کا یہ گروہ امامِ وقت کی محبت و اقتدامیں پنجاب اور ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے ہجرت کرکے سندھ میں فروکش ہونے لگا۔ احمدی احباب کی سندھ آمد محض دنیوی منفعت اور زرعی مقاصد کے لیے نہ تھی، بلکہ اپنے امام کی کشش اور اطاعت و وفا کا پاک جذبہ انہیں یہاں کھینچ لایا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی بار بار اس علاقے میں تشریف آوری اور مسلسل توجہ کی بدولت خدمت پر مامورعملے کی صلاحیتیں غیر معمولی طور پر چمک اٹھیں اور ان حضرات نے اس کام کو ایک مقدس مشن سمجھ کر ادا کیا۔

احمدیہ اسٹیٹس کے کارکنان کن اوصاف سے متصف تھے اور کیسے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کے حامل تھے اس کا اندازہ ان بزرگوں کی سیرت کے مطالعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تحریک پر تھرپار کرمیں خدمت بجالانے والے احباب کی نسلوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے آباء کے ذکر خیر کو زندہ رکھنے کی خاطر ان کے حالات زندگی جمع کریں، تایہ خوبیاں اور اوصاف نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتے چلے جائیں۔ اراضیات سندھ کی خرید کے بعد جن بزرگان نے اپنی دعاؤں، اخلاص و وفا اور انتھک محنت سے اس گلشن کو آباد رکھا، بطور نمونہ ان میں سے چند ایک کا ذکرِ خیر نہایت اختصار سے پیشِ خدمت ہے۔

حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ

حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ ریاست پٹیالہ کے قصبہ سنور میں 1882ء میں پیدا ہوئے۔ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوریؓ نے 1898ء میں بیعت کی۔ آپؓ کی تبلیغ سے آپ کی والدہ، دادا اور والد نے بھی جلد بیعت کر لی۔ آپؓ کی زوجہ اوّل شادی کے چار سال بعد فوت ہو گئیں اور زوجہ ثانی کے بارے میں متعدد ڈاکٹروں اور حکیموں کی متفقہ رائے تھی کہ وہ اولاد سے محروم رہیں گی۔ چنانچہ ڈاکٹر عبدالحکیم نے جب ارتداد اختیار کیا تو حضرت مسیح موعودؑ کو مقابلہ کا چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ ’’قدرت اللہ کے لئے بے شک دعا کریں اس کے اولاد نہیں ہو گی۔ ‘‘ اس پر حضورؑ نے خاص طور پر دعا کی اور آپ کو لکھوایا ’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمہاری اس قدر اولاد ہو گی کہ تم سنبھال نہ سکوگے۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چودہ بچے عطا کیے جن میں سے پانچ کو وہ سنبھال نہ سکے اور باقی نو بچے خدا کے فضل سے زندہ رہے اور بڑھے پھولے۔

1935ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مولوی صاحبؓ کو سندھ میں ناصر اسٹیٹ کا پہلا مینیجر مقرر فرمایا جہاں آپؓ 1947ء تک مقیم رہے۔حضورؓ نے مجلس شوریٰ 1956ء کے موقع پر آپؓ کی دعاؤں سے فصل میں غیر معمولی برکت کا ذکر بھی فرمایا۔

حضرت سید داؤد مظفر شاہ صاحب

اراضیات سندھ کی دیکھ بھال کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو نابغہ روزگار وجود جماعت کو عطا فرمائے ان میں سے ایک نام حضرت سید داؤد مظفر شاہ صاحب کا ہے۔ آپ نےگورنمنٹ کالج سے بی اے کرنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر 1944ء میں زندگی وقف کرنے کا خط لکھا۔ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تحریر کیا کہ مَیں بار بار آپ کو خواب میں دیکھ رہا ہوں اِس لیے مَیں زندگی وقف کرتا ہوں اور اپنے بھائی کو بھی تحریک کی کہ وہ بھی زندگی وقف کریں۔ پھر دونوں نے زندگی وقف کی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایم این سنڈیکیٹ کے تحت آپ کوسندھ کی زمینوں پر بھجوا دیا۔ آپ کئی دہائیوں تک سندھ میں مقیم رہے اور اپنی شبانہ روز دعاؤں، محنتِ شاقۂ اور نہایت پاکیزہ اسوہ سے اس گلستان کی آبیاری کرتے رہے۔ آپ کی وفات پر سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے آپ کے اعلیٰ اخلاق و کردارکا ذکرکرتے ہوئے فرمایا: ’’سید داؤد مظفر شاہ صاحب اور اُن کی اہلیہ سیدہ امۃ الحکیم بیگم صاحبہ، یہ بھی ایک خوب اللہ ملائی جوڑی تھی۔ نیکیوں کے بجا لانے اور اعلیٰ اخلاق دکھانے میں یہ دونوں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ عام طورپر ہم دیکھتے ہیں کہ گھروں میں میاں بیوی کی بعض دفعہ اس لئے اَن بَن ہو جاتی ہے کہ یہ خرچ کیوں ہو گیا؟ وہ خرچ کیوں ہو گیا؟ اِس جوڑے کی اِن دنیاوی خرچوں کی طرف تو سوچ ہی نہیں تھی۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ اِن کی کوشش ہوتی تھی کس طرح کسی ضرورتمند کی مدد کی جائے۔ اگر میاں نے کوئی مدد کی ہے تو بیوی کہتی کہ اور کر دینی چاہئے تھی۔ اگر بیوی نے کی ہے تو میاں کہتا کہ اگر میرے پاس اور مال ہوتا تو مَیں مزید دے دیتا۔ حضرت سید داؤد مظفر شاہ صاحب نے خود بیان کیا کہ سیدہ امۃ الحکیم بیگم صاحبہ جن کی آٹھ نو سال پہلے وفات ہوئی ہے، وفات کے بعد وہ کئی دفعہ مجھے خواب میں آ کے کہتی ہیں کہ فلاں غریب کی اتنی مدد کر دواور فلاں کو اتنا صدقہ دے دو اور شاہ صاحب فوراً اُس کو عملاً پورا کر دیتے تھے۔ جو بھی اُن کی آمد ہوتی تھی اپنے پر تو کم ہی خرچ کرتے تھے دوسروں کو دے دیا کرتے تھے۔ دونوں میاں بیوی کو مَیں نے دیکھا ہے اور بعض لوگوں نے بھی مجھے بتایا ہے کہ اُن کے پاس اگر ہزاروں بھی آتا تھا تو ہزاروں بانٹ دیا کرتے تھے۔ یہ پرواہ نہیں کی کہ ہمارے پاس کیا رہے گا؟

مَیں نے جب اُن کی زمینوں کا انتظام سنبھالا ہے تو جیسے ہمارے زمینداروں کا طریق ہوتا ہے کہ سال کی گندم چاول وغیرہ فصل کی کٹائی کے بعد گھر کے خرچ کے لئے جمع کر لی جاتی ہے۔ تو پہلے سال جب مَیں نے سیدہ امۃ الحکیم صاحبہ سے پوچھا کہ کتنی گندم چاہئے۔ تو انہوں نے مجھے کہا کہ ایک سو بیس مَن۔ مَیں نے کہا کہ آپ کے گھر کا خرچ تو زیادہ سے زیادہ بیس، پچیس، تیس مَن ہو گا۔ تو انہوں نے کہا کہ میرا یہی خرچ ہے کیونکہ مَیں نے بہت سے غریبوں کو بھی گندم دینی ہوتی ہے۔ کئی لوگوں کی سالانہ گندم لگائی ہوئی تھی۔ یہی حال حضرت شاہ صاحب کا تھا۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ11؍ مارچ 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم اپریل2011ءصفحہ6)

نور نگر سے ربوہ تک گھوڑوں کا سفر

ان علاقوں میں بسنے والے احمدی احباب و خواتین خلفائے احمدیت کی تحریکات پر لبیک کہنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔ خدام اور نوجوانوں کا جوش و خروش بھی قابلِ دید تھا۔ آج بھی سندھ سے پنجاب تک کا سفر بذریعہ ریل ہو یا بس ایک کٹھن اور تھکا دینے والا مرحلہ ہے۔ لیکن سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ نے جب جماعت کو گھوڑے پالنے کی تحریک فرمائی تو جماعت نورنگر نے نہ صرف اس تحریک پر فوری لبیک کہتے ہوئے گھوڑے پالنے شروع کردیے، بلکہ خدام نے نور نگر سے ربوہ تک کا سفر گھوڑوں پر کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس سفر کے لیے قافلہ مکرم چودھری منور احمد خالد صاحب مرحوم قائد ضلع تھرپارکر کی قیادت میں نور نگر سے مورخہ 24؍فروری1973ء کو روانہ ہوا۔ ربوہ پہنچنے پر حضور نے شرف ملاقات بخشا اور خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ اس عاجز کے دادا جان کے چھوٹے بھائی غلام رسول پہلوان بھی اس سفر میں شامل ہوئے۔ دیگر شاملین میں کوٹ احمدیاں سے مکرم چودھری منیر احمد صاحب، مکرم چودھری غلام حسین صاحب اور نور نگر سے مکرم چودھری منور خالد صاحب، مکرم غلام رسول صاحب پہلوان، مکرم چودھری غلام حیدر صاحب اور کاچھیلو سے مکرم مقبول احمد صاحب شامل ہوئے۔ نور نگر سے دو خدام مکرم منیر احمد صاحب اور مکرم محمد موسیٰ صاحب سائیکل پر سفر کرتے ہوئے قافلہ کے ہمرا ہ ربوہ پہنچے۔

( روزنامہ الفضل 16؍مارچ 1973ء)

اسی طرح ضلع تھرپارکر سے ربوہ تک متعدد سائیکل سفر کیے گئے، ان پروگراموں میں خدام کے ساتھ انصار بھی نہایت ذوق و شوق سے شامل ہوتے اور سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کرکے خلیفۂ وقت کی زیارت اور ملاقات سے فیضیاب ہوتے۔

کلمہ تحریک اور اسیران راہ مولیٰ

21؍جون1947ء کو ایک سندھی خاتون محترمہ مائی بختاور صاحبہ فائرنگ کے ایک واقعہ میں جاں بحق ہوگئیں۔ اس الزام کی پاداش میں نور نگر اور محمدا ٓباد اسٹیٹ کے سرکردہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ اسیران 1949ء تک میرپورخاص، حیدر آباد اور سنٹرل جیل کراچی میں اسیر رہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ اسیران سے ملاقات کے لیے میرپورخاص جیل تشریف لائے۔ اس عاجز کے نانا جان چودھری پیر محمد صاحب اکاؤنٹنٹ تحریک جدیدبھی گیارہ اسیران میں شامل تھے۔

1984ء میں اینٹی احمدیہ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد اس علاقے کے احمدی احباب نے نہایت دلیری اور بہادری سے قربانیاں پیش کیں اور ہر قسم کا ظلم وجبر برداشت کرنے کے باوجود لاالہٰ الا اللہ کا محبوب کلمہ سینوں پر سجاتے ہوئے گرفتاریاں پیش کیں۔ احمدی خدام نہایت فخر سے اپنے سینوں پر خدائے واحد کا نام سجائے ہوئے بازاروں اور چائے خانوں میں جاتے اور پولیس لاالہٰ الا اللہ کے بیجز دیکھ کر اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں احمدی خدام کو گرفتار کر لیتی۔

بزرگوں کے واقعات قلم بند کرنے کی تحریک

خدمت دین کی خاطر یہ جوش وجذبہ خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور غیر معمولی توجہ کا فیضان تھا کہ ان دعاؤں نے محض بنجر زمینوں ا ور صحرا کو آباد نہیں کیا بلکہ اصل اعجاز یہ تھا کہ ایک ایسی مخلص اور جان نثار جماعت پیدا کردی جو اسلام کی سربلندی کی خاطر ہر قربانی پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار کھڑی نظر آتی۔

ہمارے بچپن یعنی 1980ء کے اوائل میں زرعی اصلاحات کے نفاذ اور اداروں کے قومیائے جانے (نیشنلائزیشن) کے بعد ترقی معکوس کاسفر جاری تھا۔ مگر اس کےباوجود ان تمام گوٹھوں، دیہات اور قصبات میں شادابی اور شان وشوکت کے کچھ آثار ابھی باقی تھے۔

درخشاں ماضی کے یہ نشانات محض خوبصورت باغات، پختہ عمارتوں اور گوداموں کی صورت ہی محفوظ نہ تھےبلکہ اصل یادگاریں تو تربیت کے وہ نقوش تھے جو بزرگوں کے چہروں سے عیاں تھے۔ ایسےپاکیزہ کردار کے حامل، مصفیٰ قلوب اور عبادت گزار وجود کہ جن کی نیکی اور تقویٰ ہی ان کی اصل پہچان اور تعارف تھا۔ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت کو تحریک فرمائی ہے کہ ’’مخلصین کی اولادوں کو چاہیے کہ اپنے بزرگوں کے واقعات کو قلم بند کریں اور جماعت کے پاس محفوظ کروائیں اور اپنے خاندانوں میں بھی ان روایات کو جاری کریں۔ اور اپنی نسلوں کو بھی بتاتے رہیں کہ ہمارے بزرگوں نے یہ مثالیں قائم کی ہیں اور ہم نے ان کو جاری رکھنا ہے‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍اکتوبر2003ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍دسمبر2003ءصفحہ9)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس ارشاد کی روشنی میں خاکسار اپنے بزرگان کے ذکر خیر میں چند سطور تحریر کرنا چاہتا ہے تا ان تمام احباب کو تحریک پیدا ہو جو اس علاقے کے باسی رہے اور آج دنیا کے طول وعرض میں بودو باش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ بزرگان جنہوں نے اپنی محنت شاقۂ سے اس گلشن کو سینچا تھا ان کی اکثریت آج دنیا سے رخصت ہوچکی ہے لیکن ان کی اولادوں کا فرض ہے کہ اپنے بزرگ آباء کے ذکرِ خیر اور دینی کارناموں کو محفوظ کریں تا یہ ذکر ہمارے ایمانوں کو تقویت بخشنے والا ہو۔

اس عاجز کے نانا جان مکرم چودھری پیر محمدصاحب مرحوم نے 1926ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر نسووالی سوہل ضلع گجرات سے پیدل قادیان جاکر احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کی اور جنگ عظیم دوم میں پنجاب رجمنٹ میں خدمت بجالارہے تھے کہ 1946ء میں زندگی وقف کر دی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشاد پر قادیان سے سیدھے محمد آباد پہنچے اور لمباعرصہ تحریک جدید کے اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے خدمت بجا لاتے رہے۔ 1980ء سے 1995ء کے دوران 12سال تک صدر جماعت نورنگر کی حیثیت سے خدمت بجا لاتے رہے۔ آپ نہایت محنتی اور دیانتدار اکاؤنٹنٹ مشہور تھے۔ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ کی زمینوں کے علاوہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے افراد اپنی زمینوں کے آڈٹ اور حسابات آپ سے کرواتے۔ صوم وصلوٰة کے پابند تھے۔ ہر وقت قرآنی دعائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں دعائیہ رنگ میں پڑھتے رھتے۔ اردو کے علاوہ فارسی زبان پر عبور تھا۔ قرآن کریم کی تفسیر کرنے اور درس و تدریس پر قادر تھے۔ نہایت صلح جو طبیعت کے حامل تھے۔ پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ تہجد کی باقاعدگی اور فجر کے بعد تلاوت روزانہ کا معمول تھا۔

خدمت دین کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہنے والے، مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے اور خلفاء کی تحریک پر اولین لبیک کہنے والے وجودوں میں سے تھے۔

اسی طرح خاکسار کے دادا جان مولوی محمد صادق صاحب نور نگر اسٹیٹ کی زمین پر مزارع کے طور پر خدمت بجا لاتے تھے۔ احمدیت قبول کرنے سے قبل ہی فصل اُترنے پر بطور چندہ مرچیں یا کپاس کا ایک حصہ جماعت کو لا کر پیش کردیتے۔ مکرم رانا عبد السلام صاحب سابق باڈی گارڈ نور نگر میں مقیم تھے، ان کی تبلیغ سے احمدیت قبول کی۔ ہمیشہ جناح کیپ میں ملبوس رہتے۔ نہایت مہمان نواز اور فیاض تھے۔ صلح جو اور ایسے انصاف پسندتھے کہ ہمارے گاؤں کے ہندواور کئی غیر از جماعت سندھی بھی اپنے فیصلوں اور مصالحت کے لیے دادا جان کے پاس آتے۔ کئی دہائیوں تک مسجد میں اذان دینے کا فریضہ ادا کرتے رہے۔ موسم کی سختی ہو گھریلو مصروفیت یا زمیندارہ کا کوئی کام، کوئی چیز آپ کے بروقت نماز ادا کرنے کی راہ میں حائل نہ ہوسکتی۔ باقاعدگی سے تہجد ادا کرنا آپ کا معمول تھا۔ سجدوں میں گڑگڑانے اور دعاؤں میں بلبلانے کی آواز دور تک محسوس کی جاسکتی تھی۔ جماعت سے نہایت وفا اور محبت کا تعلق تھا۔ اطاعتِ خلافت ایسی تھی کہ جب حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ نے سترہ آیات زبانی یاد کرنے کی تحریک کی تو سترہ آیتیں فوٹوکاپی کرواکے جیب میں رکھتے اور جب کبھی موقع ملتا ہم بچوں کو روک کر کچھ حصہ پوچھ لیتے اور پھر سارا دن اسے دہراتے اور یاد کرتے رہتے۔ کبھی کوئی گالی، گلہ، شکوہ یا غیبت نہ کرتے۔ جاپان آنے کے بعد جب بھی فون پر آپ سے بات ہوتی تو کوئی دنیوی بات نہ کرتے بلکہ یہی پوچھتے کہ یہ لوگ اسلام میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ احمدی ہورہے ہیں؟ اپنی اولاد کو خدمت دین کے لیے وقف کرنے کی خواہش تھی، خاکسار کے جامعہ میں داخلہ کے بعد بہت زیادہ دعائیں کرتے۔ ہر وقت درود شریف اور تسبیحات سے زبان تر رہتی۔ دین میں بدعات اور غیر ضروری رسومات سے سخت نفرت تھی۔ اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے اور اس کے بعد آپ کے توسط سے آپ کے والدین سمیت کئی افراد نے احمدیت قبول کی۔

ہمارے پرائمری سکول کے استاذ مکرم ماسٹر رحمت علی ظفر صاحب تھے۔ آپ اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں۔ آپ کریم نگر سے تقریباً چار پانچ کلو میٹر کا سفر طے کرکے سکول تشریف لاتے۔ نانا جان اور دادا جان دونوں ان کا بے حد احترام کرتے۔ آپ کو گھر کا ایک فرد ہی سمجھتے۔ ماسٹر رحمت علی صاحب بھی جناح کیپ میں ملبوس رہتے۔ دوپہر کو سکول سے چھٹی ہوتی تو احمدی طلباء کو سکول سے ہی سیدھے ظہر کی نماز کے لیےمسجد لے جاتے۔ سکول کی تعلیم کے علاوہ آپ اخلاق و آداب اور دینی تعلیم سکھلانے کی بھی حتی الوسع کوشش کرتے۔

نورنگر فارم کی زمین تقریباً 1800؍ایکڑ پر مشتمل تھی۔ یہاں ایک بہت بڑا گودام، کوٹھیاں، رہائشی کوارٹرز، عملہ کا آفس اور آموں و کھجوروں کے خوبصورت باغات واقع تھے۔ خلافت ثانیہ کے دَور سے برلب سڑک تعمیر شدہ خوبصورت مسجد اس گاؤں کی زیب و زینت میں غیر معمولی اضافہ کرتی۔ ماضی کی نہایت سر سبزو شاداب بستی آج کھنڈر کا نمونہ پیش کر رہی ہے۔ گوداموں، کوٹھیوں اور دفاتر کے آثار مٹتے مٹتے اب یوں محو ہوچکے گویا یہ سب باتیں صدیوں نہیں ہزاروں سال پرانی ہوں۔

زرعی اصلاحات کے نفاذ کے بعد جب یہ زمینیں حکومتی تحویل میں چلی گئیں تواحمدی احباب ان علاقوں سے ہجرت کرکے ملک کے طول وعرض بلکہ دنیا بھر میں پھیلنے لگے۔ لیکن اس علاقے میں بسنے والے احمدی احباب اور احمدیہ اسٹیٹس میں خدمت بجالانے والے احباب کی اولادوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بزرگان کا ذکر خیر محفوظ کریں اور آنے والی نسلوں کو بزرگان کی خوبیوں اور اوصاف سے رُوشناس کرواتے رہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’نوجوانوں کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کا مادہ ہوتا ہے۔ وہ جہاں اور باتوں میں اپنی ترقی کے دعوے کیا کرتے ہیں وہاں ان کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ روحانی رنگ میں بھی اپنے بزرگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کریں اور نمازوں میں اور روزوں اور چندوں میں اور قربانیوں میں اور اخلاص میں اور سلسلہ کے لئے فدائیت اور جان نثاری میں اپنا قدم آگے کی طرف بڑھائیں‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍فروری 1954ء بمقام رتن باغ لاہور مطبوعہ الفضل 13؍دسمبر 1961ء)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button