گالیاں نکلوانے کا موجب بننے کے الزام کی حقیقت
بعض غیر احمدی مخالفین سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے گویا مسیحیوں اور آریوں کے خلاف سخت تنقیدکا آغاز کیا جس کے ردِّ عمل کے طور پر انہوں نے اسلام اور نبی اکرمﷺ کے خلاف بدزبانی کی۔ حالانکہ یہ تاریخی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک لمبا عرصہ صبر کے بعد قرآنی اصولوں کے موافق اور سیّدنا حضرت محمدﷺ کا قریش کی بدزبانیوں سے تنگ آکر حضرت حسّان بن ثابتؓ کو روح القدس کی معیت کی بشارت دیتے ہوئے انہیں قریش کی ہجو کا حکم دیے جانے کے عین مطابق، دشمنانِ اسلام کو انہی کی زبان میں جواب دیا۔ لیکن چند علماء نے ظالمانہ روش سے کام لیتے ہوئے، ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘ کے مصداق، سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اسلام کی حمایت کا پہلو پس پشت ڈالتے ہوئے، انہیں دشمنانِ اسلام کی بدزبانی کا موجب ٹھہرادیا۔
جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے
گالیاں نکلوانے کا موجب بننے کا الزام لگانے والوں میں آغا شورش کاشمیری صاحب بھی ہیں جو اپنی کتاب ’’تحریک ختم نبوت‘‘ میں پہلے تو یہ لکھتے ہیں کہ بدزبانی کی ابتدا غیر مسلموں نے کی: ’’سرولیم میور 1868ء میں یوپی کا لیفٹینٹ گورنر تھا۔ اس بدبخت نے رسول اکرمؐ کے خلاف ہندوستان میں سب سے پہلے تحریری بدزبانی کی نیو رکھی اور ایک کتاب حیاتِ محمدؐ (LIFE OF MUHAMMAD) تصنیف کی‘‘ (تحریک ختم نبوت ازشورش کاشمیری، صفحہ17)
’’جب ان کے پاؤں اچھی طرح جم گئے تو مسلمانوں کو مجادلے کی طرف سے پلٹادینے کے لیے انگلستان سے پادریوں کی ایک کھیپ درآمد کی گئی۔ انہوں نے یہاں آکر قرآن و اسلام پر رکیک حملوں کا آغاز کیا۔ حضور سرورِ کائناتؐ کی ذات پر کیچڑ اچھالا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علماء جو اَب تک جہاد کے محاذ پر تھے اس سے ہٹ کر مناظرے کے میدان میں آگئے اور صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی‘‘ (تحریک ختم نبوت ازشورش کاشمیری، صفحہ19)
لیکن جیسا کہ کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، آغا صاحب نے آگے چل کر خود اپنے ہی بیان کے خلاف اس دریدہ دہنی کو شروع کرنے کا الزام سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر لگادیا: ’’ہندوؤں میں آریہ سماج ایک پروگریسو فرقہ اٹھ رہا تھا، سوامی دیانند اس کے بانی تھے۔ میرزا صاحب نے اس فرقہ کو ہدف بنا کر ہندو دھرم پر رکیک حملے کئے۔ نتیجۃً آریہ سماج نے رسول اکرمؐ اور قرآن و اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کا آغاز کیا۔ اسی طرح میرزا صاحب نے عیسائی مشنریوں کے خلاف یُدھ رچایا۔ حضرت مسیح سے متعلق نازیبا زبان استعمال کرکے محمد عربی (فداہ اُمی و ابی) کے خلاف مشنریوں کی زبان کھلوائی؛ نتیجۃً پنجاب کے مسلمان جہاد سے روگردان ہوکر ہندو دھرم اور عیسائی مذہب سے نبردآزما ہوگئے۔ ‘‘ (ایضاًصفحہ24)
’’مرزا صاحب نے آریوں اور عیسائیوں کے خلاف محاذ قائم کیا تو اس کا مقصد مسلمانوں اور ہندوؤں میں انگریز کی سیاست کے مطابق تنفز و تصادم پیدا کرنا تھا۔ میرزا صاحب گل کھلانے میں کامیاب ہوگئے۔ ہندومسلم فساد کی نیو رکھی۔ دوسرا عیسائیوں سے مناظرہ محض مناظرہ ہوتا تو گوارا تھا لیکن مرزا صاحب نے حضرت مسیحؑ کے خلاف دریدہ دہنی کا انبار لگادیا۔ حضرت مریم کی اہانت کی۔ اس سے پادریوں کو رسول کریم کے خلاف یاوہ گوئی کا حوصلہ ہوا اور قرآن و سیرت کے خلاف رکیک سے رکیک زبان استعمال کی‘‘ (ایضاًصفحہ29)
گالی دینا کس نے شروع کی
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام 1835ء میں پیدا ہوئے جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ہندوستان میں قائم ہوچکی تھی اور مسیحی مشنری ہندوستان کے گلی گلی کوچہ کوچہ میں مسیحیت کی منادی کررہے تھے۔ اس دَور میں اکثر مسلمان علماء بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ جن چند علماء، مثلاً سیّد آل حسن مہانی، رحمت اللہ کیرانوی، سیّد ناصرالدین محمد ابوالمنصور، وغیرہ نے مسیحیوں کے ساتھ مناظرے کیے یا کتابیں لکھیں وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ان مسیحی علماء نے اسلام، قرآن اور نبی اکرمﷺ کی شان میں حد درجہ گستاخی اور بدزبانی سے کام لیا۔ یاد رہے کہ مندرجہ ذیل حوالہ جات ان کتابوں سے لیے گئے ہیں جو یا تو سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دَورِ ظہور سے قبل لکھی گئیں یا پھر اس دَور کے متعلق ان حالات کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھی گئیں۔
امداد صابری صاحب کی گواہی
امداد صابری صاحب نے اپنی کتاب ’’فرنگیوں کا جال‘‘ میں اکبر کے دَور میں پرتگیزی مسیحی پادریوں کی آمد سے لے کر ہندوستان میں برطانوی حکومت کے دَور تک مسیحیت کی تبلیغ اور ان کا مقابلہ کرنے والے مسلمان علماء کی ایک تاریخ مرتب کی ہے۔ اس میں اسلام کے خلاف لکھی جانے والی کتابوں کا تعارف کراتے ہوئے ہندو ؤں سے مسیحی ہونے والے ایک مصنف ماسٹر رام چندر کی کتاب ’’مسیح الدجال‘‘ کے متعلق امداد صابری صاحب لکھتے ہیں: ’’اس کتاب میں حضورِ اقدسؐ کو مہمل اور لچر دلیلوں سے دجال ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔‘‘ (صفحہ91)
امداد صابری صاحب مزید لکھتے ہیں: ’’ان کتابوں میں سب سے پہلی غیر مہذب اعتراضات سے بھرپور اور زہریلی کتاب میزان الحق، طریق الحیات، اور مفتاح الابرار ہیں۔ یہ کتابیں سلسلہ وار پادری فنڈر نے شائع کی ہیں۔ یہی زہر آلود کتابیں ہیں جن کی تمام مصنفین نے تقریباً ڈھٹائی کے ساتھ نقل کی اور ان غیر شریفانہ اعتراضات سے اپنی کتابوں کو آلودہ کیا ہے۔ چنانچہ ان تمام کتابوں میں متنازعہ فیہ مسائل اوراعتراضات ایک ہی قسم کے ہیں۔ ایک ہی خباثت کو باربار مختلف عنوانات اور ناموں یا عبارت کے ساتھ دوہرایا گیا ہے۔‘‘ (صفحہ92)[جاری ہے]
(مرسلہ: انصر رضا۔ واقف زندگی، کینیڈا)