بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر28)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭…کسی احمدی نے اپنے یوٹیوب چینل پرایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ خاتم، رسول پاکﷺ کا نام ہے، اس لیے کلمہ طیبہ میں محمدرسول اللہ کے ساتھ خاتم النبیین لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ احمد رسول اللہ بھی لکھا جا سکتا ہے اور مزمل اور مدثر بھی حضورﷺ کے نام ہیں وہ بھی لکھے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟

٭… والد کی اولاد کے حق میں دعا اور بد دعا ہر دو کی قبولیت پر مبنی احادیث کے بارے میں حضور انور کی راہ نمائی

٭…صفا و مروہ کی سعی کے دوران جہاں ہم مرد دوڑتے ہیں، عورتیں کیوں نہیں دوڑتیں حالانکہ حضرت ہاجرہ اس جگہ دوڑی تھیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

٭… کیا اہل تشیع کے ماتمی جلوس کےلیے خدمت خلق کے جذبہ کے تحت اہل جلوس کو پانی وغیرہ پیش کیا جا سکتا ہے؟

٭…حدیث میں آتا ہے کہ جب خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی کسی ناراضگی کی وجہ سے انکار کر دے تو فرشتے اس بیوی پر ساری رات لعنت بھیجتے ہیں۔ نیز ایک اور حدیث میں ذکر ہے کہ خاوند کے گھر میں موجود ہونے کی صورت میں اس کی اجازت سے بیوی نفلی روزہ رکھے۔ کیا ان دونوں احادیث کا اطلاق خاوند پر بھی ہوتا ہے؟

٭…دیوالی پر ہندوؤں کی طرف سے جو کھانے آتے ہیں، کچھ لوگ تو یہ بتا کر جاتے ہیں کہ وہ پوجا سے الگ رکھ کر یہ کھانا دے رہے ہیں اور بعض کچھ بتائے بغیر ڈبہ پکڑا کر چلے جاتے ہیں۔ کیا ہم یہ کھانا کھا سکتے ہیں؟

سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کسی احمدی نے اپنے یوٹیوب چینل پرایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ خاتم، رسول پاکﷺ کا نام ہے، اس لیے کلمہ طیبہ میں محمدرسول اللہ کے ساتھ خاتم النبیین لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ احمد رسول اللہ بھی لکھا جا سکتا ہے اور مزمل اور مدثر بھی حضورﷺ کے نام ہیں وہ بھی لکھے جا سکتے ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 20؍اکتوبر2020ءمیں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات فرمائیں:

جواب: آپ نے اپنے خط میں کسی احمدی کی طرف منسوب کر کے جو بات لکھی ہےاگر انہوں نے اسی طرح کہی ہے تو انہوں نے غلط کہا ہے۔ جماعت احمدیہ کا ہر گز یہ موقف نہیں کہ کلمہ طیبہ میں اس قسم کی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ احادیث نبویہﷺ میں جہاں پر بھی کلمہ طیبہ کے الفاظ آئے ہیں ہر جگہ حضورﷺ کا ذاتی نام ہی آیا ہے۔ حضورﷺ یا صحابہ نے کسی جگہ بھی کلمہ میں حضورﷺ کے ذاتی نام کی بجائے آپ کے کسی صفاتی نام کو استعمال نہیں کیا۔ پھر اس زمانے کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی تحریرات و ارشادات میں ہر جگہ اسی کلمہ طیبہ کوبیان فرمایا ہے اور ہر جگہ حضورﷺ کے صرف ذاتی نام کو کلمہ طیبہ میں تحریر فرمایا ہے۔

پس اس قسم کی تبدیلی جہاں مرکزیت کے خلاف ہے وہاں اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ اس لیے ہر احمدی کو اس قسم کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

سوال: والد کی اولاد کے حق میں دعا اور بد دعا ہر دو کی قبولیت پر مبنی احادیث کے بارے میں نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ ربوہ کے ایک استفسار کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 10؍نومبر 2020ء میں اس بارے میں درج ذیل راہ نمائی فرمائی:

جواب: کتب احادیث میں مروی دونوں قسم کی احادیث اپنی اپنی جگہ پر درست اور ہماری راہ نمائی کر رہی ہیں۔ دونوں قسم کی احادیث کو سامنے رکھیں تو مضمون یہ بنے گا کہ جس شخص کی دعا قبولیت کا درجہ رکھتی ہے اس کی بد دعا بھی قبول ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دعا تو قبول کروں گا اور بددعا قبول نہیں کروں گا۔

والد کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطا فرمایا ہےاس لحاظ سےاللہ تعالیٰ اس کی دعائیں بھی قبول کرتا ہےاور بد دعا بھی سنتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں والدین کے متعلق خاص طور پر فرمایا ہے کہ

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا۔ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا۔ (سورۃ بنی اسرائیل: 24۔ 25)

یعنی تیرے رب نے (اس بات کا) تا کیدی حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (نیز یہ کہ اپنے) ماں باپ سے اچھا سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کسی ایک پر یا ان دونوں پر تیری زندگی میں بڑھاپا آجائے، تو انہیں (ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) اُف تک نہ کہہ اور نہ انہیں جھڑک اور ان سے (ہمیشہ) نرمی سے بات کر۔ اور رحم کے جذبہ کے ماتحت ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کر اور (ان کے لئے دعا کرتے وقت) کہا کر (کہ اے) میرے رب! ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی۔

پس ان احادیث میں حضورﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ والد کی دعاؤں سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کی بد دعا سے بچو۔

سوال: ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ صفا و مروہ کی سعی کے دوران جہاں ہم مرد دوڑتے ہیں، عورتیں کیوں نہیں دوڑتیں حالانکہ حضرت ہاجرہ اس جگہ دوڑی تھیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 22؍نومبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب: حج اور عمرہ کے موقع پر صفا ومروہ کے درمیان سعی جہاں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی قربانی کی یاد میں کی جاتی ہے، وہاں کتب احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے عمرۂ قضاء کے موقع پرکفار مکہ پرمسلمانوں کی قوت کے اظہار کےلیے اپنے صحابہ کو طواف بیت اللہ کے پہلے تین چکروں اور صفا و مروہ کی سعی کے دوران دوڑنے اور سینہ تان کر تیز چلنے کا ارشاد فرمایا تھا اور خود بھی یہی عمل فرمایا، کیونکہ کفار مکہ کا خیال تھا کہ مدینہ سے آنے والے مسلمانوں کو وہاں کے بخار نے بہت کمزور کر دیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الحج) پس حضورﷺ کے اس ارشاد اور فعل کے تحت حج اور عمرہ کرنے والے مردوں (جو اس کی طاقت رکھتے ہوں ) کےلیے طواف بیت اللہ کے پہلے تین چکروں اور سعی بین الصفا والمروہ میں دوڑنا سنت رسولﷺ ٹھہرا۔ لیکن جو اس کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان کےلیے دوڑنا ضروری نہیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے (جبکہ وہ اپنی ضعیف العمری کی وجہ سے سعی میں دوڑنے کی بجائے چل رہے تھے) کسی شخص کے اعتراض کرنے پر فرمایا کہ میں جو سعی کے دوران دوڑا ہوں تو میں نے حضورﷺ کو سعی کے دوران دوڑتے دیکھا ہے اور اب جبکہ میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں اورسعی کے دوران چل رہا ہوں تو میں نے حضورﷺ کو سعی کے دوران چلتے بھی دیکھا ہے۔ (سنن ترمذی کتاب الحج)

فقہاء کے نزدیک طواف بیت اللہ اور سعی کے دوران دوڑنا مردوں کےلیے سنت ہے، عورتوں کےلیے نہیں۔ کیونکہ عورتوں کےلیے ستر یعنی پردہ ضروری ہے جس کا حکم عورتوں کے دوڑنے سے قائم نہیں رہ سکتا۔

جہاں تک حضرت ہاجرہ کے پانی کی تلاش میں دوڑنے کی بات ہے تو وہ ایک اضطراری کیفیت تھی جس میں حضرت اسماعیل شدت پیاس کی وجہ سے جان کنی کی حالت کو پہنچے ہوئے تھے۔ نیز روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ بعض جگہ وہ تیز تیز چلتی تھیں، بعض جگہ دوڑتی تھیں جس طرح کوئی بے چینی سے بعض دفعہ کسی خاص جگہ جلدی پہنچنے کےلیے تیز تیز قدم بھی اٹھاتا ہے اور دوڑ بھی پڑتا ہے۔ جبکہ حج اور عمرہ کے موقع پرعورتوں کےلیے ایسی کوئی اضطراری کیفیت نہیں ہوتی نیز حج اور عمرہ کے موقع پر عورتوں کے ساتھ مرد بھی ہوتے ہیں، اس لیے عورتوں کا اس موقع پر مناسب رفتار سے تیز چلنا ہی کافی سمجھا گیا ہے، تا کہ اس طرح وہ حضرت ہاجرہ کی سنت کی پیروی بھی کر لیں اور ان کے پردہ کا حکم بھی قائم رہے۔

سوال: اہل تشیع کے ماتمی جلوس کےلیے خدمت خلق کے جذبہ کے تحت اہل جلوس کو پانی وغیرہ پیش کرنے کی بابت محترم ناظم صاحب دارالافتاء ربوہ کی ایک رپورٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 22؍نومبر 2020ءمیں درج ذیل ارشاد فرمایا:

جواب: میرے نزدیک توحضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات اس بارے میں بڑے واضح ہیں کہ اس قسم کےکاموں کےلیے دن اور وقت مقرر کرنا بدعت ہے۔ ہاں اگر کوئی احمدی خود یا کوئی جماعت سارا سال خدمت خلق کے جذبہ کے تحت لوگوں کی فلاح و بہبود کے کام کرتی ہو اور مختلف مذاہب اور تنظیموں کے پُر امن جلوسوں کےلیے سارا سال ہی خدمت خلق کے تحت اس قسم کے سٹال لگاتی ہو تو اہل تشیع کے ماتمی جلوس کےلیے بھی اس قسم کا سٹال لگانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر یہ کام صرف اہل تشیع کے ماتمی جلوس کےلیے کیا جاتا ہے اور سارا سال ایسا کوئی سٹال نہیں لگایا جاتا تو پھر یقیناً یہ بدعت ہے۔ اور احمدیوں کو اس قسم کی بدعات سےمکمل اجتناب کرنا چاہیے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے جن ارشادات کا ذکر فرمایا ہے، وہ قارئین کے استفادہ کےلیے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔ (مرتب)

ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکملؓ نے سوال کیا کہ محرم دسویں کو جو شربت و چاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ للہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: ’’ایسے کاموں کےلیے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم و بدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں۔ پس اس سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں۔ ابتدا میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کر لیا ہے اس لیے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے۔‘‘

(اخبار بدر نمبر 11 جلد 6 مورخہ 14؍مارچ 1907ء صفحہ6)

ارشاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ

ایک صاحب نےسوال کیا سنّی لوگ محرم کے دنوں میں خاص قسم کے کھانے وغیرہ پکاتے اور آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا کہ ’’یہ بھی بدعت ہیں اور ان کا کھانا بھی درست نہیں اور اگر ان کا کھانا نہ چھوڑا جائے تو وہ پکانا کیوں چھوڑنے لگے۔ بارہ وفات کا کھانا بھی درست نہیں اور گیارھویں تو پورا شرک ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے

وَمَاۤ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ۔ (البقرہ: 174)

یہ بھی ان میں داخل ہے کیونکہ ایسے لوگ پیر صاحب کے نام پر جانور پالتے ہیں۔‘‘

(اخبارالفضل قادیان دارالامان جلد 10 نمبر 32 مورخہ 23؍اکتوبر 1922ءصفحہ 6تا7)

سوال: ایک خاتون نے خاوند بیوی کے حقوق و فرائض کے سلسلے میں دو احادیث حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بھجوا کر دریافت کیا کہ کیا ان احادیث کا اطلاق خاوند پر بھی ہوتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 22؍نومبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب: پہلی حدیث جس میں بیان ہوا ہے کہ جب خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی کسی ناراضگی کی وجہ سے انکار کر دے تو فرشتے اس بیوی پر ساری رات لعنت بھیجتے ہیں۔ یاد رکھیں اس کا اطلاق صرف بیوی پر نہیں ہوتا بلکہ برعکس صورت میں خاوند پر بھی اس حدیث کا اطلاق ہوگا۔

اس حدیث سے اگر کوئی پہلو نکل سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ حضورﷺ نے مرد کی جنسی خواہش کےلیے بے صبری کی وجہ سے بیوی کو کسی جائز عذر کے بغیر انکار کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے۔ ورنہ جس طرح بیوی پر لازم ہے کہ وہ خاوند کے دیگر حقوق کے ساتھ اس کی جنسی ضرورت کو بھی پورا کرے اسی طرح خاوند کا فرض ہے کہ وہ بیوی کی دیگر ضروریات کے ساتھ اس کے جنسی حقوق بھی ادا کرے۔ لہٰذا اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کی خواہش پر بغیر کسی مجبوری کے اس کے جنسی حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی طرح قابل گرفت ہو گا جس طرح ایک بیوی بغیر کسی جائز عذر کے اپنے خاوند کی جنسی خواہش کی تکمیل سے انکار کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی مستوجب ہو تی ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بیوی حضورﷺ کی ازواج کے پاس آئیں۔ ازواج مطہرات نے ان کی بُری حالت دیکھ کر ان سے دریافت کیا کہ انہیں کیا ہوا ہے کیونکہ قریش میں ان کے خاوند سے زیادہ امیر آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہمیں تو اس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میرے خاوند کا دن روزہ سے اور رات نماز پڑھتے گزرتی ہے۔ پھر جب حضورﷺ اپنی ازواج کے پاس تشریف لائے تو ازواج مطہرات نے اس بات کا ذکر حضورﷺ سے کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضورﷺ حضرت عثمان بن مظعونؓ سے ملے اور ان سے (ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے) فرمایا کہ کیا تمہارے لیے میری ذات اسوہ نہیں ہے؟ اس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں بات کیا ہے؟ جس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ تم رات نماز پڑھتے ہوئے اور دن روزہ رکھ کر گزار دیتے ہو، جبکہ تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے اور تیرے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ لہٰذا نماز پڑھا کرو لیکن سویا بھی کرو اور کبھی روزہ رکھو اور کبھی چھوڑ دیا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد یہی عورت دوبارہ ازواج مطہرات کے پاس آئیں تو انہوں نے خوب خوشبو لگائی ہوئی تھی اور دلہن کی طرح سجی سنوری ہوئی تھیں۔ ازواج مطہرات نے انہیں دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واہ کیا بات ہے! جس پر انہوں نے بتایا کہ اب ہمیں بھی وہ سب میسر ہے جو باقی لوگوں کے پاس ہے۔ (مجمع الزوائد کتاب النکاح باب حق المرأة على الزوج)

پھر مذکورہ بالا زیر نظر حدیث کے حوالے سے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جائز عذر یا مجبوری کی بنا پر اس فعل سے انکار کی صورت میں کوئی فریق اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد نہیں ہوگا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ جب غزوہ تبوک پر تشریف لے گئے تو ایک صحابی جو سفر پر گئے ہوئے تھے، اور حضورﷺ کے غزوہ کےلیے کوچ کر جانے کے بعد مدینہ واپس آئے۔ اور اپنی بیوی کی طرف پیار کرنے کےلیے بڑھے، جس پر اس بیوی نے یہ کہتے ہوئے انہیں پیچھے دھکیل دیا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ حضورﷺ تو اس قدر گرمی میں دشمن سے جنگ کےلیے تشریف لے گئے ہیں اور تمہیں پیار کرنے کی اور میرے پاس آنے کی پڑی ہوئی ہے۔ (دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 343تا344، مطبوعہ 1948ء)

پس اگر کوئی فریق کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے انکار کرتا ہے تو وہ کسی سزا کا مستوجب نہیں ہو گا۔ لیکن اگر کوئی خاوند یا بیوی دوسرے فریق کے قریب آ کر اس کے جذبات بھڑکانے کے بعد اسے تنگ کرنے کی غرض سے اس سے دور ہو جاتا ہے تو یقیناً ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد ہو گا۔

2۔ جہاں تک خاوند کے گھر میں موجود ہونے کی صورت میں اس کی اجازت سے بیوی کے نفلی روزہ رکھنے کی حدیث کا تعلق ہے تو اس میں حکمت یہ ہے کہ اسلام نے میاں بیوی کے حقوق و فرائض کا ہر موقع پر خیال رکھا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی کے حقوق و فرائض کی تقسیم میں گھر سے باہر کی تمام تر ذمہ داریوں کی ادائیگی اور بیوی بچوں کے نان و نفقہ کی فراہمی وغیرہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کے سپرد کی ہے اور گھریلو ذمہ داریاں (جن میں گھرکے مال کی حفاظت، خاوند کی ضروریات کی فراہمی اور بچوں کی پرورش وغیرہ شامل ہیں) اللہ تعالیٰ نے بیوی کو سونپی ہیں۔

پس جب خاوند اپنے فرائض کی ادائیگی کےلیے گھر سے باہر جائے تو بیوی کو گھریلو فرائض کی ادائیگی کے ساتھ نفلی عبادت بجا لانے کی کھلی چھٹی ہے۔ لیکن خاوند کی موجودگی میں چونکہ اس کی ضروریات کی فراہمی بیوی کے فرائض میں شامل ہے۔ اس لیے فرمایا کہ خاوند کے حقوق کی ادائیگی میں سے اگر بیوی کچھ رخصت چاہتی ہو تو اسے خاوند کی اجازت سے ایسا کرنا چاہیے۔ چنانچہ اس حکم کی حکمت حدیث میں بیان ایک واقعہ سے بخوبی معلوم ہوجاتی ہے۔

حضرت ابو سعیدؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت صفوان بن معطلؓ (جو رات بھر کھیتوں پر کام کرتے تھے اور دن کے وقت گھر پر ہوتے تھے)کی بیوی نے حضورﷺ کی خدمت میں شکایت کی کہ جب میں نفلی روزہ رکھتی ہوں تو میرا خاوند میرا روزہ تڑوا دیتا ہے۔ حضورﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت صفوانؓ نے عرض کیا کہ جب یہ روزے رکھتی ہے تو رکھتی چلی جاتی ہے اور چونکہ میں جوان آدمی ہوں اس لیے صبر نہیں کرسکتا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس دن حضورﷺ نے فرمایا کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصوم)

پس خلاصہ کلام یہ کہ اسلامی تعلیمات میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے تمام حقوق جن میں جنسی تعلقات بھی شامل ہیں کی پوری دیانتداری کے ساتھ ادائیگی کی تلقین فرمائی گئی ہے اور کسی فریق کو یہ اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ عبادت کو وجہ بنا کر دوسرے کے ان حقوق کو تلف کرے۔ لہٰذا جو فریق کسی بھی رنگ میں دوسرے فریق کی حق تلفی کا مرتکب ہو گا وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قصور وار متصور ہو گا۔

سوال: ایک خاتون نے دریافت کیا کہ دیوالی پر ہندوؤں کی طرف سے جو کھانے آتے ہیں، کچھ لوگ تو یہ بتا کر جاتے ہیں کہ وہ پوجا سے الگ رکھ کر یہ کھانا دے رہے ہیں اور بعض کچھ بتائے بغیر ڈبہ پکڑا کر چلے جاتے ہیں۔ کیا ہم یہ کھانا کھا سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 13؍دسمبر 2020ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایت فرمائی:

جواب: جو کھانا حلال اشیاء سے صاف ستھرے برتنوں میں حفظان صحت کے اصولوں پر تیار ہوا ہو اور اس میں شرک کی کوئی ملونی نہ ہو تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ ایسے معاملات میں زیادہ باریکیوں میں پڑنا بھی پسندیدہ بات نہیں۔ البتہ ایسا کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لی جائے تا کہ اگر اس کھانے میں کوئی کمی بیشی ہو تو اللہ تعالیٰ کے نام کی برکت سے اس کا مداوا ہو جائے۔ صرف وہم کی بنا پر بلا وجہ کسی کی دل شکنی سے بھی اسلام نے منع فرمایا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوؤں کے ہاں سے آنے والا کھانا کھا لیا کرتے تھے اور ان کے ہاں سے تحفہ کے طور پر آنے والی شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے اور کھا بھی لیتے تھے۔ چنانچہ ایک شخص کے سوال پر کہ کیا ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ آپؑ نے فرمایا: ’’شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے۔ ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو

قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا

پر زور دیا ہے۔ آنحضرتﷺ آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گذارہ بھی تو نہیں ہوتا۔‘‘

(الحکم نمبر19 جلد 8، مورخہ 10؍جون1904ءصفحہ3)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button