الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

مکرم پروفیسر چودھری صادق علی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍اگست 2013ء میں مکرمہ الف۔ حفیظ صاحبہ نے اپنے شوہر مکرم پروفیسر چودھری صادق علی صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

محترم چودھری صادق علی صاحب ایک گاؤں پرجیاں ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے اور اپنے بھائی اور دو بہنوں سے چھوٹے تھے۔ آپ کے والد چودھری رحمت علی صاحب بہت نیک اور دعا گو بزرگ تھے۔ نماز اول وقت میں ادا کرتے اور اگلی نماز کے انتظار میں مسجد میں ہی تشریف رکھتے۔ انہوں نے اپنے ایک احمدی دوست کے توسط سے 1933ء میں قادیان جا کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کی والدہ بھی بہت نیک خاتون تھیں گو آپ نے اپنے خاوند سے بہت بعد میں بیعت کی لیکن جماعت سے بہت اخلاص اور وفا کا تعلق رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دونوں ہی بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد آپ کا خاندان گوکھووال ضلع فیصل آباد میں رہائش پذیر ہوا۔ چنانچہ پروفیسر صاحب نے ابتدائی تعلیم بھی فیصل آباد میں حاصل کی۔ چھ سات کوس کا فاصلہ روزانہ پیدل چل کر دوسرے گاؤں سکول جایا کرتے تھے۔ شدید سردی اور گرمی سے بچاؤ کے لیے مناسب لباس اور حتیٰ کہ جوتے بھی مہیا نہ تھے لیکن ایک شوق اور لگن تھی کہ تعلیم حاصل کرنی ہے۔ میٹرک کرنے کے بعد ٹی آئی کالج ربوہ میں داخل ہوئے اور B.Sc کی۔

وسائل محدود ہونے کی وجہ سے دو اڑھائی سال مختلف ملازمتیں کرکے اتنی رقم حاصل کرلی کہ مزید تعلیم حاصل کرسکیں۔ پھر پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور M.Sc کی ڈگری حاصل کی۔ ٹی آئی کالج ربوہ کے شعبہ باٹنی میں پروفیسر کی اسامی خالی تھی۔ درخواست دینے پر آپ منتخب ہوگئے اور 2002ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی ادارے سے منسلک رہے۔

تعلیم الاسلام کالج ربوہ کو جب قومی تحویل میں لیا گیا تو طالبعلموں کے ساتھ ساتھ احمدی اساتذہ کو بھی بہت مشکل اور نامساعد حالات سے گزرنا پڑا۔ احمدی اساتذہ کو ٹرانسفر کر دیا گیا۔ غیراحمدی پرنسپل اور اساتذہ احمدی اساتذہ کو ذہنی طور پر پریشان کرتے اور ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ چنانچہ چودھری صاحب کا ٹرانسفر بھی تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک ایسے گاؤں میں کر دیا گیا جہاں کے تعلیمی ادارے میں کوئی سائنسی مضمون پڑھایا ہی نہیں جاتا تھا۔ وہاں کے پرنسپل صاحب نے ربوہ کے چند مُلّاؤں کی شہ پر آپ کی شدید مخالفت کی۔ آپ نے پرنسپل سے دشمنی کے اس یک طرفہ سلسلہ کو بند کرنے کو کہا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ معاملہ ختم نبوت والوں کو دے دیا ہے۔ اس پر آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی خدمت میں حالات لکھے تو حضورؒ نے جواباً فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ اگر انہوں نے یہ معاملہ ختم نبوت والوں کو دے دیا ہے۔ تو ہم اپنا معاملہ خداتعالیٰ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ …

خلیفۃ المسیح کے مبارک منہ سے نکلی ہوئی بات یوں پوری ہوئی کہ چند دن بعد ہی نہ صرف چودھری صاحب باعزت طور پر بحال ہوگئے بلکہ پرنسپل کی ٹرانسفر کہیں اَور ہوگئی۔

امتحانی پرچوں کی جانچ پڑتال کے دن تو آپ کے لیے بہت آزمائش اور پریشانی کے ہوتے۔ بڑے بڑے زمیندار اور آفیسرز سفارشات لے کر آتے۔ ساتھ میں اچھی خاصی رقوم کی بطور رشوت پیشکش بھی ہوتی کہ ان کے بچوں کے اتنے نمبرز لگا دیں کہ میڈیکل میں داخلہ ہو جائے۔ آپ نہ تو ناجائز سفارش مانتے اور نہ ہی رشوت لیتے۔ تو یہ لوگ ٹرانسفر کرانے، نوکری ختم کروانے حتیٰ کہ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیتے۔ لیکن آپ نہ تو کبھی کسی کے دباؤ میں آئے اور نہ ہی ان دھمکیوں کی پرواہ کی۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے بہت استغفار کرتے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے۔ کوشش کرکے رات دن ایک کرکے پیپر چیک کرتے اور جلد سے جلد متعلقہ ادارے کو واپس بھیج دیتے۔

آپ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے فجر کی نماز کے بعد تلاوت قرآن کریم معمول تھا۔ بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ بہت سادگی اور انکساری سے زندگی بسر کی۔ ایمانداری اور سچائی آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔ آپ کو سچے خواب آتے۔ خوابوں کی تعبیر بھی بہت اچھی کرتے تھے۔ آپ کی بتائی ہوئی تعبیر اکثر صحیح ثابت ہوتی۔ پیدائش کے وقت آپ کا نام نذیر احمد رکھا گیا تھا۔ بعد میں نام تبدیل کرنے کا خیال آیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ملاقات کے دوران آپ کے والد نے حضورؓ کو بتایا کہ میرے اس بیٹے کو سچے خواب آتے ہیں۔ اس پر حضورؓ نے صادق علی نام تجویز فرمایا۔

ناصر آباد ربوہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا گھر بنانے کی توفیق دی۔یہاں پر سیکرٹری مال اور سیکرٹری وقف جدید کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ کے دَور میں گلشن احمد نرسری کے انچارج مقرر ہوئے۔ تزئین کمیٹی ربوہ کے بھی کچھ عرصہ ممبر رہے۔ خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور وقف جدید میں بھی خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ 1989ء سے 2007ء تک ایک لمبا عرصہ دارالقضاء ربوہ میں بطور مرکزی قاضی کے خدمات انجام دیں۔ آپ صائب الرائے تھے۔ بہت دعا کے بعد انشراح صدر سے فیصلہ تحریر کرتے۔ ایک دفعہ آپ کا تحریر کردہ فیصلہ ایک احمدی جج کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے پوچھا کہ قاضی صاحب نے Law کہاں سے پڑھا ہے؟ بتایا گیا کہ وہ ایک ریٹائرڈ سائنس ٹیچر ہیں تو بہت حیران ہوئے اور کہا کہ یہ ایک بہترین فیصلہ ہے جس میں کسی قسم کا کوئی جھول نہیں ہے۔

2007ء میں آپ اپنے بچوں کے پاس آسٹریلیا شفٹ ہوئے تو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے آسٹریلیا میں قضاء بورڈ کا قیام عمل میں آیا اور آپ کو پہلا صدر قضاء بورڈ مقرر کیا گیا ۔ باوجود شدید بیماری کے وفات تک یہ سلسلہ ٔ خدمت بفضل خدا جاری رہا۔

آپ ایک لمبا عرصہ بطور ناظم گوشت جلسہ سالانہ ربوہ بھی رہے۔ یہ ڈیوٹی بہت محنت اور جانفشانی سے احسن طور پر ادا کی۔ جلسے سے دو ماہ قبل ربوہ کے مضافات کے زمینداروں سے اچھے جانوروں اور چارے کی خریداری، جانوروں کی رہائش، پرورش، خوراک اور صفائی کا انتظام، گوشت کی کٹائی کے لیے قصابوں کا انتظام اور مختلف لنگرخانوں میں ضرورت کے مطابق گوشت پہنچانا، آپ کے فرائض میں شامل تھا۔ جلسے سے دو ماہ قبل ڈیوٹی شروع ہوجاتی۔ اپنی ٹیم کے ساتھ شدید سردیوں میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد نکل جاتے اور بہت رات گئے واپسی ہوتی۔ روانگی سے پہلے بہت لمبی دعا کرواتے۔ جانوروں کو ربوہ لاتے ہوئے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایک دفعہ کسی دُور کی منڈی سے واپس آرہے تھے کہ ٹرک کا کوئی کمزور حصہ ٹوٹ گیا اور ایک جانور کی پوری ٹانگ اس میں پھنس گئی۔ ٹانگ باہر نکالنے کی بہت کوشش کی گئی۔ ٹیم تو پریشان تھی ہی بےچارہ بے زبان جانور بھی بہت تکلیف میں تھا۔ سب کی رائے تھی کہ جانور کو ذبح کرلیا جائے۔ اس پر آپ نے علیحدہ جا کر بہت گریہ و زاری سے دو نفل اداکیے۔ پھر واپس آئے ہی تھے کہ جانور نے پورا زور لگا کر اپنی ٹانگ باہر کھینچ لی۔ سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ آپ کبھی گوارا نہیں کرتے تھے کہ جماعت کا ادنیٰ سا بھی نقصان ہو۔ آپ کی وفات پر سب نے ہی آپ کی ایمانداری اور انتھک محنت کا ذکر کیا۔

بچوں کو اخلاقی نصائح کرتے اور خلافت سے وابستہ رہنے کی دعا کرنے کے لیے بھی کہتے۔ مالی قربانی کی بھی اکثر تاکید کرتے۔ آسٹریلیا آکر اپنے بچوں کو وصیت کرنے کی طرف یوں توجہ دلائی کہ کوئی دباؤ نہیں ڈالا، بس بتایا کہ مَیں نے اور تمہاری امی نے شادی کے فوراً بعد وصیت کرلی تھی۔ جائیداد، مال اور زیور کا حصہ ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ پہلے سے کہیں بڑھ کر ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے۔ سب بچوں نے فوری طور پر اپنے باپ کی اس نصیحت پر عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کی لاج رکھتا ہے۔ ابھی بچوں نے وصیت کے فارم بھر کر بھجوائے ہی تھے کہ بظاہر انہونی سی بات تھی لیکن گورنمنٹ آف آسٹریلیا کی کسی پالیسی کے نتیجے میں بچوں کو بیس ہزار ڈالر کی وہ رقم واپس مل گئی جو انہوں نے مجھے یہاں بلوانے کے سلسلے میں ادا کی تھی۔

ہمیشہ نصیحت کرتے کہ کوئی دینی خدمت سپرد ہو تو کبھی انکار نہیں کرنا۔ اللہ تعالیٰ خود ہی اس کی توفیق دے دیتا ہے۔ محلہ ناصر آباد میں مجھے لمبا عرصہ بطور صدرلجنہ اماء اللہ اور بعد میں اصلاحی کمیٹی کے ممبر کے طورپر خدمت بجالانے کی توفیق ملی۔ شروع میں مجھے بہت گھبراہٹ تھی۔ دو چھوٹے بچے کم عمر تھے، کام کا بھی تجربہ نہیں تھا۔ بعض اوقات لجنہ کا کام اتنا بڑھ جاتا کہ گھریلو کاموں میں مجھ سے کوتاہی ہو جاتی۔ ان کے ذاتی کام بھی نظر انداز ہو جاتے کھانے میں دیر سویر ہو جاتی۔ آپ نے میری ہمت بندھائی اور میرے ساتھ بہت تعاون کیا۔ آپ کو شور شرابہ بالکل پسند نہیں تھا ،کھانے میں تاخیر بھی پسند نہ تھی۔اب یہ حال تھا کہ سال کے اکثر اوقات میں ہمارے گھر پر عملاً لجنہ اور ناصرات کا قبضہ ہوتا تھا۔ لیکن آپ نے اپنے آپ کو مکمل بدل ڈالا۔ میرے والد صاحب کی وفات ہوئی تو آپ نے میری والدہ اور بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھا۔ رشتوں اور شادیوں کے سلسلہ میں بہت مدد کی۔

ہماری شادی شدہ زندگی کا عرصہ تقریباً تینتالیس سال پر محیط ہے۔ ہمارے درمیان کبھی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا۔ اختلاف رائے ہو جاتا تھا بعض اوقات معمولی رنجش بھی ہو جاتی لیکن جلد صلح ہو جاتی۔ بعض رشتہ داروں کے رویہ سے مَیں رنجیدہ ہوتی تو بہت دلجوئی کرتے اور صبر کی تلقین کرتے۔ مَیں ان سے ایک سال پہلے آسٹریلیا بچوں کے پاس آگئی تھی۔ بعد مَیں جب یہ آئے تو ایک دن بیٹے سے کہا کہ میں تمہاری امی اور بیوی کے آپس کے سلوک سے بہت خوش ہوا ہوں ورنہ پاکستان میں متفکر ہو جاتا تھا کہ کہیں روایتی ساس بہو والا معاملہ نہ ہو۔

اپنے عزیزوں اور دیگر مستحق افراد کی مختلف مواقع پر مالی مدد کرتے۔ عید کے موقعہ پر تحفہ تحائف اور عیدی دیتے۔ آسٹریلیا آنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ اپنی پنشن کی رقم ایک عزیز کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دیتے۔ عید کے موقع پر یا جب کسی کی مالی مدد مقصود ہوتی تو رازداری سے ادا کرنے کی تاکید کرتے۔ اپنے والد مرحوم کے دوستوں کا بہت احترام کرتے اور انہیں گھر لاکر خاطر تواضع کرتے۔

آپ 2010ء سے پھیپھڑوں کے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ بیماری بہت تکلیف دہ تھی لیکن آپ نے بڑے حوصلہ اور صبر سے بیماری کا مقابلہ کیا اور ناشکری کا کوئی کلمہ منہ سے نہیں نکالا اور ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دعا کرتے۔ 10 مارچ 2013ء کی رات وفات پاگئے اور مسجد بیت الہدیٰ آسٹریلیا میں واقع قطعہ موصیان میں تدفین عمل میں آئی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ آپ نے پسماندگان میں میرے علاوہ تین بیٹیاں اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔

…………………………………………………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11دسمبر 2014ء میں مکرم پروفیسر محمد شریف خان صاحب کے قلم سے محترم پروفیسر صادق علی صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

آپ بیان کرتے ہیں کہ صادق مرحوم سے میرا شریک کار ہونے کے علاوہ استاد اور شاگرد کا تعلق بھی تھا۔ 1963ء میں جب میں نے لیکچرار کے طور پر تعلیم الاسلام کالج کو جائن کیا تو صادق تھرڈایئر زوالوجی میں میرے طالبعلم تھے۔ نہایت کم گو، سنجیدہ اور سیانے قسم کے طالب علم تھے۔ جب کوئی مشکل ہوتی بلا جھجک سوال کر لیتے۔ ایم ایس سی باٹنی کے بعد میرے ہمکار ہوئے تو بھی ہمیشہ مجھے استاد کا پروٹوکول ہی دیا۔ آپ بڑے دلنشین انداز میں ہر طالب علم کے لیول پر اتر کر سبق سمجھاتے۔ آپ کے شاگرد ہمیشہ آپ سے خوش رہے۔

چودھری صاحب کو خداداد جرأت رندانہ عطا ہوئی تھی، سوچ سمجھ کر لیکن دو ٹوک بات کرتے جو سننے والے کو بری بھی نہ لگے اور اسے بات سمجھ میں آجائے۔ چودھری صاحب کوجانے کیا کمال حاصل تھا کہ جلسہ سالانہ پر سالہا سال تک قصابوں سے کام لینے کی انتہائی مشکل ڈیوٹی بطریق احسن ادا کرتے رہے۔ قصابوں کی تیز چھری چودھری صاحب کی میٹھی چھری سے سالوں خوشی خوشی کٹتی رہی، گو شت کی کوالٹی بہترین اور ارزاں مہیا ہو تی رہی۔ آپ قصابوں کے ساتھ جلسہ سالانہ سے پہلے منڈی مویشیاں کا چکر لگاتے اور اچھے اچھے جا نور خرید کر ٹرکوں میں لاد کر ربوہ پہنچا دیتے جہاں ان کی خوش خوراکی کا خیال رکھا جاتا، ایک دو ہفتے میں جانور خوب پل جاتے اور مہمانوں سے گوشت کی عمدگی کی رپورٹ ملتی۔

کالج کی nationalizationکے بعد ہمیں کن کن طور و اطوار کے پرنسپل صاحبان سے واسطہ پڑا جو ایک دو نہیں پورے بارہ تھے تو یقین نہیں آتا۔ اب سو چتا ہوں، ہم جو تعلیم الاسلام کا لج میں جاری و ساری محبت و توقیر کے ماحول کے عادی تھے ہمارے لیے یہ کیسا کڑا وقت تھا۔ ہر لمحہ ، ہر دن ہماری نیک نیتی کاامتحان ہوتا۔ اس وقت ہم کالج میں اپنے دن گنا کرتے تھے۔ لیکن صادق جیسے ساتھیوں کی معیت میں یہ وقت بھی گزر گیا۔ ایک لحیم شحیم پرنسپل صبح ایکسپریس ٹرین کے ذریعے سرگودھا سے کالج تشریف لاتے تھے۔ موصوف کو منہ بگاڑ بگاڑ کر اپنے کپڑوں پر اتراتے ہوئے بات کر نے کا شوق تھا اور انہیں Reader’s Digest کا قاری ہو نے پر بڑا فخرتھا۔ ہم ان کی بچگانہ حرکتوں پر ہنستے اوران کی باتوں کو بادل ناخواستہ سنتے اور بر داشت کرتے۔ ایک دن پرنسپل صاحب بھی چھوٹی سی چادر لپیٹے کا لج تشریف لائے۔ جو بھی جاتا اس ’’چادری‘‘ کی تعریف و توصیف سن کر آتا۔ اتفاقاً چودھری صادق بھی کسی کام کے سلسلے میں پرنسپل سے ملنے گئے۔ صاحب نے حسب عادت اپنی چادر کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تو صادق نے برجستہ پنجابی میں کہا کہ یہ چھوٹی سی چُنّی کیا سردی سے بچائے گی۔ یہ سننا تھا کہ جناب پرنسپل صاحب آگ بگولا ہوکر بولے کہ تمہیں بات کرنا نہیں آتی، میں تمہیں ٹرانسفر کروا دوں گا۔ وغیرہ۔ اور پھر اس سلسلے میں دفتری کارر وائی بھی شروع کردی۔ ہم سب پریشان! حضور کی خدمت میں دعا کے لیے لکھا، ارشاد ہوا : ’’یہ خود ہی ذلیل ہو گا۔‘‘ چنانچہ مو صوف نے صادق علی صاحب کی تین دفعہ ٹرانسفر کروائی جو تینوں بار رک گئی۔ آخر چند دنوں بعد خود اسے لاہور سے سیکرٹری ایجو کیشن کو ملنے کا آرڈر پہنچا۔ وہاں کیا گزری، موصوف خود ہی راوی تھے کہ نو بجے سے چھٹی تک مجھے انتظار کرایا اور میں ذلیل و خوار باہر چپڑاسی کے ساتھ بیٹھا بلاوے کا منتظر رہا۔…میری توبہ۔

صادق علی مرحوم 1966ء سے 1999ء یعنی میری ریٹائرمنٹ تک میرے شریک کار رہے، ہمیشہ مجھ سے اور دوسرے اساتذہ سے ان کا سلوک بہترین رہا۔ ان کی یاد ہمیشہ دل کو گرماتی رہے گی، اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور لو احقین کا حامی و ناصر ہو۔ آ مین

…………………………………………………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍جون 2014ء میں محترم صادق علی صاحب کا مختصر ذکرخیر کرتے ہوئے اُن کی بیٹی مکرمہ فوزیہ شکیل صاحبہ رقمطراز ہیں کہ مرحوم تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے کی کوشش کرتے اور دکھاوے کو سخت ناپسند کرتے۔ غیبت سے اتنی نفرت تھی کہ ایک بار کسی کے متعلق گھر میں بات ہورہی تھی تو آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کی فلاں شخص کے بارے میں کیا رائے ہے؟ آپ یہ کہہ کر اُٹھ گئے کہ مَیں نے اپنے خدا سے وعدہ کیا ہے کہ مَیں چغلی نہیں کروں گا۔

آپ بہت صائب الرائے تھے۔ لوگ مختلف امور میں مشورہ لینے آتے۔ بہت سے لوگ اپنی امانات بصورت زیور و نقدی آپ کے پاس رکھواتے اور آپ اُن کی ہر طرح سے حفاظت کرتے۔ ہومیوپیتھی کا مطالعہ بھی شوق سے کرتے اور کئی مریضوں کے لیے دوائی خود تیار کرکے عیادت کے لیے جاتے۔ وصیت کے نظام میں شمولیت پر بہت زور دیتے۔ حضورانور ایدہ اللہ کے اس حوالے سے ارشاد کے بعد تو مجھے ہر فون پر توجہ دلاتے اور آپ کی بار بار کی نصیحت پر ہی مَیں اس نظام میں شامل ہوئی۔ آپ بچپن میں قرآن کریم میں بیان فرمودہ سچی کہانیاں ہمیں سنایا کرتے۔نظمیں شوق سے سنتے۔ اپنے والدین کو یاد کرتے اور اُن کے دوستوں کا خیال رکھتے۔مجھے اُن کی آخری نصیحت یہی تھی کہ نظام خلافت سے جُڑے رہنا اور رشتہ داروں سے میل جول رکھنا۔

………٭………٭………٭………

محترم حافظ محمد یوسف صاحب جہلمی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍جولائی 2013ء میں مکرم حکیم محمود احمد طالب صاحب جہلمی کے قلم سے اُن کے والد محترم حافظ محمد یوسف صاحب جہلمی کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔

محترم حافظ صاحب مکرم میاں غلام رسول صاحب اعوان آف پنڈدادن خان رنسیال ضلع جہلم کے اکلوتے بیٹے تھے۔ 1920ء میں پیدا ہوئے۔1941ء میں قادیان جاکر حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ مولوی فاضل تھے اور برادری میں اکیلے احمدی ہونے کے باوجود علاقے بھر میں آپ کا احترام تھا۔ بچپن سے ہی آپ کا میلان مذہب کی طرف تھا لیکن احمدی ہونے کے بعد تو صاحبِ رؤیا و کشوف ہوگئے۔ عبادت، توکّل، ہمدردیٔ خلق، سادگی اور خلافت سے دلی وابستگی آپ کی شخصیت تھی۔ نماز تہجد، بروقت نمازوں کی ادائیگی اور روزانہ قرآن کریم کی تلاوت آپ کا معمول تھا۔

آپ کی شادی حضرت مصلح موعودؓ نے کروائی تھی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی اور زچگی کے دوران اہلیہ کی وفات ہوگئی۔ آپ نے فوج میں بھی ملازمت کی اور جنگ عظیم دوم میں شریک ہوئے۔ اس دوران ایک احمدی ساتھی مکرم عبدالسلام صاحب آپ کے کردار سے بہت متأثر ہوئے اور جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد انہوں نے آپ کی شادی اپنی ہمشیرہ بلقیس بیگم صاحبہ دختر مکرم محمد عبداللہ صاحب سے کروادی۔ اسی دوران مکرم حافظ صاحب نے دھاری وال میں چمڑے کا ایک کارخانہ بنالیا لیکن آمدن کم ہونے کی وجہ سے کچھ عرصے بعد کوئٹہ چلے گئے اور سرکاری دفتر میں ایگریکلچر کے ہیڈمستری کے طور پر ملازمت اختیار کرلی۔ دینی ذمہ داریاں بھی خوب نبھانے کی توفیق ملتی رہی اور بہت مصروف زندگی گزاری۔ آپ اور آپ کی اہلیہ محترمہ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہیں۔ جب ربوہ قائم ہوا تو ابتدائی دَور میں ہی اپنی فیملی کے ہمراہ یہاں آبسے۔ جامعہ احمدیہ میں پڑھانے کی بھی توفیق پائی۔ بےشمار بچوں کو قرآن کریم پڑھایا۔دعوت الی اللہ بڑی حکمت سے کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹوں اور چھ بیٹیوں سے نوازا۔ ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی وفات کا صدمہ آپ نے نہایت صبر سے برداشت کیا۔ باقی بچے خدا کے فضل سے اپنے گھروں میں مطمئن زندگی بسر کررہے ہیں۔

………٭………٭………٭………

مکرم محمد صابر طاہر سہرانی بلوچ شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍جولائی 2013ء میں مکرم لقمان محمد خان صاحب نے مکرم محمد صابر طاہر سہرانی صاحب بلوچ کا ذکرخیر کیا ہے جو وزیرستان کے علاقے رزمک (ثرولی) کے مقام پر ڈیوٹی کے دوران 5؍مئی 2013ء کو دہشت گردوں کے حملے میں بم پھٹنے سے شہید ہوگئے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ محمد صابر طاہر 1983ء میں پیدا ہوا۔ 27؍مارچ 2000ء کو پاک فوج میں بھرتی ہوا اور ایک بہادر، نڈر اور محنتی فوجی نوجوان ثابت ہوا۔ قریباً 1990ء میں مکرم خان محمد صاحب امیر ضلع ڈیرہ غازیخان یہ بچہ ہمارے گھر میں لائے تھے اور بتایا تھا کہ اس کا نام صابر ہے اور یہ ہمارے ساتھ رہے گا اور پڑھے گا۔ یہ بچہ میری والدہ کا بہت لاڈلا تھا، محنتی، وفاشعار اور ایماندار سچا بچہ تھا۔ بہادر تھا اور اُسے اندھیرے سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ تھوڑا عرصہ ہمارے ساتھ رہا مگر بہت سی پیاری یادیں چھوڑ گیا۔ میری والدہ کو امّی جان ہی کہتا۔ بعد میں چھٹی پر گھر آتا تو ہماری طرف ضرور آتا۔ وہ سیاچین سمیت مختلف مقامات پر تعینات رہا۔ آخری بار گھر آیا اور 30؍اپریل 2013ء کو واپس جانے لگا تو اُس کی والدہ نے کہا کہ انتخابات کی وجہ سے حالات خراب ہیں، آپ ابھی نہ جاؤ۔ وہ کہنے لگا کہ میرا جانا ضروری ہے مَیں شہید ہوکر واپس آجاؤں گا۔ والدہ کہنے لگیں کہ اگر شہید ہی ہونا ہے تو تمہاری جگہ پر مَیں چلی جاتی ہوں۔ اس پر کہنے لگا کہ شہیدوں کی فہرست میں تو میرا نام ہے، آپ کیسے جاسکتی ہیں!

شہادت سے ایک روز قبل شہید مرحوم کی ایک دس سالہ بھانجی نے خواب میں اُنہیں سفید کپڑے پہنے ہوئے دیکھا جن پر خون کے نشانات تھے۔ اُس نے ان سے ملنا چاہا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے چھوڑ دو، مَیں چلاگیا ہوں۔

شہادت کے بعد مرحوم کا جسدخاکی قوم پرچم میں لپیٹ کر پشاور سے ملتان بذریعہ ہیلی کاپٹر لایا گیا۔ نماز جنازہ کے بعد فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔ شہید مرحوم نے بوڑھے والدین کے علاوہ بیوہ اور بھائی بہن بھی چھوڑے ہیں۔

………٭………٭………٭………

نامبا ۔ دنیا کا قدیم ترین قبیلہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍ستمبر 2013ء میں دنیا کے قدیم ترین قبیلے کا ذکر کیا گیا ہے۔

آسٹریلیا کے جنوب میں قریباً ستّر چھوٹے بڑے جزائر کا ایک مجموعہ ’’نیوہیئریڈز‘‘ کہلاتا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران اتحادیوں نے ان جزائر پر قبضہ کرلیا اور اب یہ برطانیہ اور فرانس کے زیرقبضہ ہیں۔ یہاں کا سب سے بڑا جزیرہ ’’مالیکیولا‘‘ ساٹھ میل لمبا اور پچیس میل چوڑا ہے۔ آبادی صرف بارہ سو افراد پر مشتمل ہے جو اگرچہ مذہباً عیسائی ہیں مگر قریباً اڑھائی صد افراد اپنے ہی رسم و رواج کے پابند ہے۔ یہ نامبا قبیلے کے لوگ ہیں جسے دنیا کا قدیم ترین قبیلہ کہا جاتا ہے۔ پہلے یہ آدم خور تھے لیکن اتحادیوں نے قبضے کے بعد آدم خوری کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ پہلے یہ مادرزاد برہنہ رہتے تھے لیکن پھر دوسرے لوگوں سے میل ملاپ کی وجہ سے سترپوشی شروع کردی۔ناک کی ہڈی میں سوراخ کرکے سؤر کا دانت ڈال لینا یہاں کے مردوں کا پسندیدہ فیشن ہے۔ قبیلے میں کسی فرد کی امارت اور مرتبے کا اندازہ بھی سؤروں کے ریوڑ سے لگایا جاتا ہے۔

نامبا قبیلے کا عقیدہ ہے کہ آباواجداد کی روحیں جنگل میں دوسرے عناصر اور بدروحوں کے ساتھ مل کر حیرت انگیز کارنامے سرانجام دے سکتی ہیں۔ قبیلے میں جب کوئی بچہ سات آٹھ برس کا ہوجائے تو اُس کا خوف دُور کرنے کے لیے ایک رسم ادا کی جاتی ہے جس میں ایک رات کے لیے اُس کو جنگل میں باندھ دیا جاتا ہے۔ قبیلے میں جس عورت کا ایک اگلا دانت ٹوٹا ہوا ہو اُسے نہایت وفاشعار اور خوبصورت سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی مر جائے تو طویل رسوم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو قریباً ایک سال تک جاری رہتی ہیں۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ‘‘الفضل’’ربوہ 24؍جولائی 2013ء میں مکرم محمداسلم صابر صاحب کی ایک خوبصورت نظم شائع ہوئی ہے جو مسجد بیت الرحمٰن وینکوور کینیڈا کے افتتاح کے موقع پر کہی گئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

ہو گیا تعمیر پھر اک اَور خانۂ خدا

رحمتوں اور برکتوں کا اَور ہے اِک در کُھلا

بیتِ رحماں ہوگی اک گنجینۂ رشد و فلاح

چار سُو گونجے گی اب اللہ اکبر کی صدا

پھر خدا کے نام کا ڈنکا بجے گا جابجا

جانبِ توحید آخر آئے گی خلقِ خدا

پھیلے گا اسمِ محمدؐ کا اُجالا ہر طرف

پھر سنے گا شہر سارا نغمۂ صلِّ علیٰ

خوبصورت گھر خدا کے رکھتے ہیں بندوں پہ حق

بادۂ عرفاں کی مستی میں عبادت ہو ادا

افتتاح کے واسطے تشریف لائیں گے حضور

حضرت مسرورؔ کی فرما حفاظت اے خدا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button