حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

عورت اور مرد میں مساوات

آج کے دور میں عورت اور مرد میں مساوات اور برابری کے بارے میں بہت کچھ سننے کو ملتا ہے۔ مغرب اور مشرق دونوں جگہ کی خواتین بھی اس بات کی پُرزورتائید کرتی نظر آتی ہیں کہ عورتوں کو ہر لحاظ سے مردوں کے برابر ہونا چاہیے کیونکہ آج کی عورت ہر وہ کام کرسکتی ہے جو ایک مرد کر سکتا ہے۔ مغربی معاشرہ خاص طور پر ایک مسلمان عورت کو یہ کہہ کر مظلوم قرار دیتا ہے کہ اسلام میں مرد کے حقوق زیادہ ہیں حالانکہ اسلام واضح طور پر بحیثیت انسان عورت اور مرد کی مساوات کا درس دیتا ہے جبکہ دونوں کے حقوق کا تعین ان کے فرائض کے موافق کرتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مرد و عورت کے فرائض جدا جدا ہیں اور اسی لیے ان میں جسمانی تفاوت موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے حقوق بحیثیت مرد اور عورت ایک سے ہونا محالات میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے کچھ ارشادات پیش ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام عورتوں اور مردوں میں مساوات اور ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَلرِّ جَا لُ قَوّٰ مُوْنَ عَلَی النِّسَآ ءِ اور اسی لئے مرد کو عورتوں کی نسبت قویٰ زیادہ دیئے گئے ہیں۔ اس وقت جو نئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں ان کی عقلوں پر تعجب آتا ہے۔ وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی نکلتا ہے یا مختلف۔ ایک طرف تو اسے حمل ہے اور ایک طرف جنگ ہے وہ کیا کر سکے گی۔ غرضیکہ عورتوں میں مردوں کی نسبت قویٰ کمزور ہیں اور کم بھی ہیں۔ ‘‘ ( ملفوظات جلد 7صفحہ 134)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ذمہ داریوں اور صلاحیتوں کے اعتبار سے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نیزتجھےخبرنہیں کہ عورت اورمرد میں جناب الٰہی نے قدرت میں مساوات رکھی ہی نہیں۔ بچہ جننے میں جو تکالیف عورت کو ہوتی ہیں اُن میں مردوں کا کتنا حصہ ہے۔ کیا مساوات ہے؟ کیا قویٰ میں مساوات ہے؟ ہرگز نہیں۔ مَیں ہمیشہ حیران کہ مرد عورت میں مساوات کا خیال کس احمق نے نکالا۔ ‘‘(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ295-296)

اسی طرح ایک موقع پر آپؓ نے فرمایا: ’’رات دن کا کام نہیں دے سکتی۔ دن رات کا کام نہیں دیتا۔ مرد جن کاموں کے لیے پیدا کئے گئےعورتوں سے وہ کام نہیں ہوتے۔ عورتیں مردوں کا کام نہیں کرسکتیں۔ ہر ایک کے مختلف کا م اپنے حسب حال مختلف نتیجے پیدا کرتے ہیں۔ ‘‘(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ397)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’تمدنی اور مذہبی معاملات میں مرد و عورت دونوں کے حقوق برابر ہیں لیکن مردوں کو اللہ تعالیٰ نے قوام ہونے کی وجہ سے فضیلت عطا فرمائی ہے …چونکہ میاں بیوی نے مل کر رہنا ہوتا ہے اور نظام اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک ایک کو فوقیت نہ دی جائے اس لیے یہ فوقیت مرد کو دی گئی ہے اوراس کی ایک وجہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ مرد اپنا روپیہ عورتوں پر خرچ کرتے ہیں اس لئے انتظامی امور میں انہیں عورتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ513)

آپؓ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

’’حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ جموں میں ایک جج اسی موضوع پر ان سے بحث کرنے لگا کہ مرد اور عورت میں مساوات ہونی ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پچھلی دفعہ آپ کی بیوی کے لڑکا ہوا تھا اب آپ کے ہونا چاہیے۔ یہ جواب سن کر وہ کہنے لگا کہ میں نے سنا ہوا تھا کہ مولوی بدتہذیب ہوتے ہیں مگر میں آپ کو ایسا نہیں سمجھتا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ اس میں بدتہذیبی کی کوئی بات نہیں۔ میں نے تو ایک مثال دی تھی اور آپ کو بتایا تھا کہ فطرت نے دونوں کو الگ الگ کاموں کے لیے پیدا کیا ہے تو اس مساوات کے شور سے کیا فائدہ ؟ …حقیقت یہ ہے کہ مساوات بے شک ہے مگر دونوں کے کام الگ الگ ہیں۔ اس بات کو پیش کرنے کی کسی کو جرأت نہیں ہوتی کیونکہ قومی روح موجود نہیں۔ ہرشخص اپنی ذات کو دیکھتا ہے۔ اگرعورتوں کے لئے قربانی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں تو مردوں کے لیے بھی اس کے مقابلہ میں یہ بات ہے کہ میدان جنگ میں جا کرسَر کٹوائے۔ لیکن چونکہ قومی اور ملی روح موجود نہیں اس لیے ان باتوں کو کوئی پیش کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 10فروری 1939ء مطبوعہ الفضل 11مارچ1939ء)

ایک مجلس سوال و جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے قرآن کریم میں مرد کو قوّام قرار دینے کی فلاسفی دریافت کی گئی تو آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’تمہارا دل بھی اس بات کو مانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پرمرد کوعورت پرفضیلت دی ہے اور کوئی مساوی حقوق کی تھیوری اس اصولی فرق کو مٹا نہیں سکتی۔ اولمپکس میں ہی دیکھ لو کہ دوڑ میں حصہ لینے والے مرد اورعورتیں کیا مقابلہ میں اکٹھے دوڑتے ہیں ؟ کیا وہ فٹ بال اورکسی بھی کھیل میں اکٹھے کھیلتے ہیں ؟ اور خاص طور پر امریکن فٹبال میں کبھی آپ نے دیکھا کہ عورتیں اور مرد اکٹھے ایک ہی ٹیم میں کھیل رہے ہوں ؟ یہ سوال کرنے والے مغربی دنیا کے لوگ بھی جانتے ہیں اوراس بات پر گواہ ہیں کہ مردوں اورعورتوں کو الگ الگ جسمانی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ اورقرآن کریم بتاتا ہے کہ مردوں کوحقوق کے لحاظ سے عورتوں پر کوئی برتری اورفضیلت نہیں دی گئی۔ بلکہ فطری استعدادوں اورصلاحیتوں کی بنا پر فضیلت ہے جو خدا تعالیٰ نے مردوں میں زیادہ رکھی ہیں اور ہرکوئی جانتا ہے کہ وہ فطری صلاحیتیں کیا ہیں۔

اوردوسری بات یہ ہے کہ

وَ بِمَآ اَنْفَقُوْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ

مرد اپنی بیوی اور بچوں کے لیے نان نفقہ کا انتظام کرتا ہے اس لحاظ سے جو روٹی کپڑے کا بندوبست کرتا ہے قدرتی طور پر اسے ایک برتری حاصل ہوتی ہے۔ جو ہاتھ کھلاتا ہے اسے بہرحال قدرتی طورپرایک فضیلت حاصل ہوتی ہے۔

جیسا کہ فرمایا:

اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ الْسُفْلٰی

کیوں کہ گھرکی تمام مالی ذمہ داریاں مرد کے سپرد ہیں اس لیے میں یہاں کی ان عورتوں کو سمجھاتا ہوں جو کام کرتی ہیں اور آزاد ہوتی ہیں اور ان کے خاوند گھروں میں رہتے ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی رو سے ایسے مردوں نے اپنی برتری خود کھودی۔ اوروہ برتری ان کام کرنے والی عورتوں نے حاصل کرلی ہے۔ اور پھر ایسی صورت میں ان گھروں میں عورتوں کا حکم چلتا ہے کیونکہ وہ کماتی ہیں۔ تو یہاں دو طرح کی برتری کا ذکر ہے۔ ایک قسم کی برتری تو وہ ہے جو مستقل جسمانی برتری ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت مرد سے نہیں چھین سکتی۔ اس کی ایک دوسری شکل بھی ہے اور وہ ہے بچوں کو پیدا کرنا۔ کیا عورت اور مرد اس لحاظ سے برابر ہو سکتے ہیں۔ کیا یہ عورتیں کہہ سکتی ہیں کہ یہ انصاف اور عدل کے خلاف ہے کہ صرف عورتیں ہی بچے جنیں۔ اب ہم یہ قانون بناتی ہیں کہ آئندہ سے مرد بچے پیدا کیا کریں گے۔ برتری کی یہ قسم خدا تعالیٰ کی طرف سے مستقل طور پرمرد کو حاصل ہے۔ کسی انسان کے دائرہ اختیار میں نہیں کہ اس برتری کو اس سے چھین سکے یا تبدیل کرسکے۔ دوسری قسم برتری کی وہ ہے جسے میں پہلے بیان کر چکا ہوں اور وہ ہے بیوی بچوں کے لئے نان نفقہ کا انتظام۔ اور یہ برتری مرد کو اس وقت تک حاصل رہتی ہے جب تک وہ اس ذمہ داری کو نبھاتا ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 19 تا 25؍فروری 1999ء)

اسی طرح ایک موقع پرآپؒ نے فرمایا: اسلام کی ہرتعلیم کی بنیاد فطرت انسانی پر قائم ہے۔ اسی لئے اس سے بہترتعلیم کا تصورمحال ہے۔ عورت سے متعلق اسلامی تعلیم بھی انسان کے فطری قویٰ اوررجحانات وغیرہ پرقائم ہے۔ نسل انسانی کی بقا اور تسلسل کے قیام کے لیے مرد اورعورت میں جنسی کشش کی خاصیت رکھی گئی ہے جس کا فطری اور موزوں استعمال نسلِ انسانی کی بقااورارتقاء کے لئے ضروری ہے …اسلام عورت کو وہ تمام عزت و تکریم اور حقوق دیتا ہے جواس کی جسمانی، ذہنی، فکری، قلبی، سماجی، معاشرتی، معاشی، وراثتی، اخلاقی، روحانی اور دیگر ضروریات کے لئے ضروری ہیں۔ عورت کی تعلیم وتربیت اس طرح فرض ہے جس طرح مرد کی۔ عورت کے فرائض اورحقوق بنیادی طور پر وہی ہیں جو مرد کے ہیں لیکن چونکہ عورت کی فطری بناوٹ مرد سے مختلف ہے اس کے قویٰ مختلف ہیں، اس کیPhysics مختلف ہے، اس کی Chemistry مختلف ہے، اس کی Biology مختلف ہے اس کی نفسیات مختلف ہے۔ ان فطری اختلافات کے پیش نظر مرد اورعورت کے فرائض و حقوق میں بنیادی طور پرایک جیسے ہوتے ہوئے بھی تفصیلات مختلف ہیں۔ قبل اس کے کہ میں ان تفصیلات میں جاؤں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مرد اورعورت کے فطری اختلافات کی کچھ وضاحت کردی جائے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ عورت کی فطری بناوٹ ہی مرد سے مختلف ہے۔ مرد قد، وزن، جسمانی قوت اور کئی ایک پہلوؤں سے عورت سے مختلف ہے۔ اس کی ساخت سخت اور محنت طلب کاموں کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ گویہ حقیقت ناقابل تردید ہے لیکن مرد اورعورت کی برابری کی بحثوں کو سلجھانے کے لیے اس کی کسی قدر تفصیل بیان کرنا ضروری ہے۔ یہ امر کہ مرد کے جسم میں رحم اور اس کے متعلقہ اجزا نہیں ہوتے غیرمتنازعہ امر ہے۔ اسی طرح مرد کا جسم بچے کی خوراک بنانے کی صلاحیت سےعاری ہے۔ بچے کی پرورش جس حوصلہ، صبر، استقلال، قربانی اور جذباتی لگاؤ کی متقاضی ہوتی ہے مرد بالعموم بچے کی ان ضروریات کی تکمیل کے لیےغیرموزوں ہوتا ہے۔ جبکہ عورت فطری طور پراِن فرائض کی ادائیگی کے لیے بنائی گئی ہے۔ ان حقائق سے انکارممکن نہیں۔ متنازع امور یہ ہیں کہ مغرب میں بالخصوص اور مشرق میں بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہرعورت ہروہ کام کرسکتی ہے جو مرد کرسکتا ہے۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ عورت مزدوری بھی کرسکتی ہے۔ فوج میں بھرتی ہو کرلڑ بھی سکتی ہے۔ پولیس کے فرائض بھی انجام دے سکتی ہے۔ کرکٹ، فٹ بال اور بیس بال وغیرہ بھی کھیل سکتی ہے۔ تیراکی بھی کر سکتی ہے اور تمام وہ کام کرسکتی ہے جوعام طور پر مردوں کے کام سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن وہ ان کاموں میں مرد کے معیارِ کارکردگی تک نہیں پہنچ سکتی۔ مزدوری تو وہ کرسکتی ہے لیکن مزدوری میں مرد کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ عورتوں کی پولیس فورس مردوں کی پولیس فورس کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتی۔

اس طرح مرد بعض امور میں عورتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت، نرسنگ اور بچوں کی نگہداشت وغیرہ امور میں عورت مرد سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔

گویا کہ مرد اور عورت کے دائرہ ہائے کار فطری طور پر الگ الگ ہیں۔ مرد اورعورت صرف اس لحاظ سے مساوی ہیں کہ دونوں انسان ہیں۔ دونوں کے بنیادی انسانی حقوق مساوی ہیں۔ لیکن ان کی فطری استعدادیں مختلف اطراف میں جھکی ہوئی ہیں۔ مرد اور عورت کے انہی فطری اختلافات کی وجہ سے اسلام نے ان کی تقسیم کار(Division of work) اس طرح پر کی ہے کہ وہ انسانیت کے بہترین مفاد میں ہے۔

(الفضل انٹرنیشنل 28؍اپریل تا 4مئی1995ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

’’اَلرِّ جَا لُ قَوّٰ مُوْنَ عَلَی النِّسَآ ءِ (النساء: 35)

کہہ کر مردوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو اللہ تعالیٰ نے معاشرے کی بھلائی کا کام سپرد کیا ہے تم نے اس فرض کو صحیح طور پرادا نہیں کیا۔ اس لئے اگرعورتوں میں بعض برائیاں پیدا ہوئی ہیں تو تمہاری نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ پھرعورتیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں، اب بھی، اس مغربی معاشرے میں بھی، اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ عورتوں میں بھی، کہ عورت کو صنفِ نازک کہا جاتا ہے۔ تو خود تو کہہ دیتے ہیں کہ عورتیں نازک ہیں۔ عورتیں خود بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض اعضاء جو ہیں، بعض قویٰ جو ہیں مردوں سے کمزور ہوتے ہیں، مرد کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اس معاشرے میں بھی کھیلوں میں عورتوں مردوں کی علیحدہ علیحدہ ٹیمیں بنائی جاتی ہیں۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ میں تخلیق کرنے والا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ میں نے کیا بناوٹ بنائی ہو ئی ہے مرد اورعورت کی اور اس فرق کی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ مرد کو عورت پر فضیلت ہے تو تمہیں اعتراض ہو جاتا ہے کہ دیکھو جی اسلام نے مرد کو عورت پر فضیلت دے دی۔ عورتوں کو تو خوش ہونا چاہئے کہ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مرد پر زیادہ ذمہ داری ڈال دی ہے اس لحاظ سے بھی کہ اگر گھریلو چھوٹے چھوٹے معاملات میں عورت اور مرد کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں ہو جاتی ہیں، ناچاقیاں ہو جاتی ہیں تو مرد کو کہا کہ کیونکہ تمہارے قویٰ مضبوط ہیں، تم قوام ہو، تمہارے اعصاب مضبوط ہیں، اس لئے تم زیادہ حوصلہ دکھاؤ اور معاملے کو حوصلے سے اس طرح حل کرو کہ یہ ناچاقی بڑھتے بڑھتے کسی بڑی لڑائی تک نہ پہنچ جائے اور پھرطلاقوں اور عدالتوں تک نوبت نہ آجائے۔ ‘‘(جلسہ سالانہ یو کے خطاب از مستورات فرمودہ 31جولائی 2004ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button