متفرق مضامین

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 31؍ دسمبر 2021ء

سوال1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔

سوال2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ گذشتہ خطبہ میں حضرت ابوبکرؓ کے غارثورکے واقعہ کا ذکر چل رہا تھا۔

سوال3: مخالفین کےآنحضرتﷺ کا پیچھا کرتے ہوئے غارثور پہنچنے پرحضرت ابوبکرؓ کی گھبراہٹ پر آنحضورﷺ نے کیا فرمایا؟

جواب: فرمایا: آنحضرتﷺ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا۔ غم نہ کرو ابوبکر! یقیناً ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے۔

سوال4: آنحضرتﷺ کی تلاش میں آنےوالے سراغ رساں نے غارثور پہنچ کر کیا کہا؟

جواب: فرمایا: آنحضورﷺ کا پیچھا کرتے ہوئے جب وہ لوگ غارِثور کے پہاڑ کے پاس پہنچے تو سراغ رساں نے کہا: مجھے پتہ نہیں چل رہا کہ اس کے بعد ان دونوں نے کہاں اپنے قدم رکھے ہیں اور جب وہ غار کے قریب ہو گئے تو سراغ رساں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! جس کی تلاش میں تم لوگ آئے ہو وہ یہاں سے آگے نہیں گیا۔

سوال5: غارثورکے اندرجھانکنے والی بات پر امیہ بن خلف نے کیا کہا؟

جواب: فرمایا: کسی نے چاہا بھی کہ غار کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو اُمَیہ بن خَلْف نے تلخ اور بے پروائی کے سے انداز میں کہاکہ یہ جالا (اور درخت) تو مَیں محمد(ﷺ)کی پیدائش سے پہلے یہاں دیکھ رہا ہوں تم لوگوں کا دماغ چل گیا ہے۔ وہ یہاں کہاں ہو سکتا ہے اور یہاں سے چلو کسی اَور جگہ اس کی تلاش کریں اور یہ کہتے ہوئےسب لوگ وہاں سے واپس چلے آئے۔

سوال6: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےقریش مکہ کا آنحضرتﷺ کا تعاقب کرنے کی بابت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے …نبی کریمﷺ کا پیچھا کرنے کے بارے میں جو ذکر فرمایا ہے وہ اس طرح ہے کہ’’انہوں نے عام اعلان کیا کہ جو کوئی محمد (ﷺ ) کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اس کو ایک سو اونٹ انعام دیئے جاویں گے۔ چنانچہ کئی لوگ انعام کی طمع میں مکہ کے چاروں طرف اِدھر ادھر نکل گئے۔ خود رؤساء قریش بھی سراغ لیتے لیتے آپؐ کے پیچھے نِکلے اورعین غارِ ثور کے منہ پر جاپہنچے۔ یہاں پہنچ کر ان کے سراغ رساں نے کہا کہ بس سراغ اس سے آگے نہیں چلتا۔ اس لئے یا تو محمد(ﷺ )یہیں کہیں پاس ہی چھپا ہوا ہے یاپھر آسمان پر اڑ گیا ہے۔ کسی نے کہاکوئی شخص ذرا اس غار کے اندر جاکر بھی دیکھ آئے مگر ایک اَور شخص بولا کہ واہ یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے۔ بھلا کوئی شخص اس غار میں جاکر چھپ سکتا ہے۔ یہ ایک نہایت تاریک و تاراور خطرناک جگہ ہے اور ہم ہمیشہ سے اسے اسی طرح دیکھتے آئے ہیں۔ یہ بھی روایت آتی ہے کہ غار کے منہ پر جو درخت تھا۔ اس پر آپؐ کے اندر تشریف لے جانے کے بعد مکڑی نے جالا تن دیا تھا اور عین منہ کے سامنے کی شاخ پر ایک کبوتری نے گھونسلا بنا کر انڈے دے دیئے تھے۔ ‘‘ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے خیال میں یہ روایت تو کمزور ہے لیکن اگر ایسا ہوا ہو تو ہر گز تعجب کی بات نہیں …اس لیے اگر خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کی حفاظت کے لیے ایسا تصرف فرمایا ہو تو ہر گز بعید نہیں ہے بلکہ اس وقت کے لحاظ سے ایسا ہونا بالکل قرین قیاس ہے۔ بہرحال قریش میں سے کوئی شخص آگے نہیں بڑھا اور یہیں سے سب لوگ واپس چلے گئے۔

سوال7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےقریش مکہ کا آنحضرتﷺ کاتعاقب کرنے کی بابت حضرت مصلح موعودؓ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ’’…صبح جب کفار نے دیکھا کہ آپؐ اپنے گھر میں موجود نہیں اور ہر قسم کے پہرہ کے باوجود محمدرسول اللہﷺ کامیابی کے ساتھ نکل گئے ہیں تو وہ فوراًآپؐ کی تلاش میں نکل کھڑ ے ہوئے اور انہوں نے مکہ کے چند بہترین کھوجی جو پاؤں کے نشانات پہچاننے میں بڑی بھاری دسترس رکھتے تھے اپنے ساتھ لئے جو انہیں جبلِ ثور تک لے آئے اور انہوں نے کہا کہ بس محمدرسول اللہؐ اگر ہیں تو یہیں ہیں۔ اس سے آگے اَور کہیں نشان نہیں ملتا۔ اس وقت یہ کیفیت تھی کہ دشمن غار کے عین سر پر کھڑا تھا اور غار کا منہ تنگ نہیں تھاجس کے اند ر جھانکنا مشکل ہو مگر وہ ایک فراخ منہ کی کھلی غار ہے جس کے اندر جھانک کر بڑی آسانی سے معلوم کیا جاسکتا تھا کہ کوئی شخص اندر بیٹھا ہے یا نہیں مگر ایسی حالت میں بھی محمدرسول اللہﷺ پر کوئی خوف طاری نہیں ہوتا بلکہ آپؐ کی قوتِ قدسیہ کی برکت سے حضرت ابوبکرؓ کا دل بھی مضبوط رہتا ہے اور وہ موسیٰؑ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ہم پکڑے گئے بلکہ انہوں نے اگر کچھ کہا تو یہ کہ یا رسول اللہؐ! دشمن اتنا قریب پہنچ چکا ہے کہ وہ اگر ذرا بھی نظر نیچی کرے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے مگر رسول کریمﷺ نے فرمایا

اُسْکُتْ یا اَبَا بَکْرٍ اِثْنَانِ اللّٰہُ ثَالِثُھُمَا۔

ابوبکر!خاموش رہو۔ ہم اِس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک تیسرا خدا بھی ہے پھر وہ کیونکر ہمیں دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ باوجود اس کے کہ دشمن غار کے سر پرپہنچ چکا تھا پھر بھی اسے یہ توفیق نہ ملی کہ وہ آگے بڑھ کر جھانک سکتا اور وہ وہیں سے بڑبڑاتے واہی تباہی باتیں کرتے ہوئے واپس چلا گیا‘‘۔

سوال8: حضرت مسیح موعودؑ نے غارثور میں آنحضورﷺ کومحفوظ رکھنے کے لیےکس خارق عادت امرکا ذکربیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’اللہ جل شانہٗ نے اپنے نبی معصوم کے محفوظ رکھنے کے لئے یہ امر خارق عادت دکھلایا کہ باوجودیکہ مخالفین اس غار تک پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرتﷺ مع اپنے رفیق کے مخفی تھے مگر وہ آنحضرتﷺ کو دیکھ نہ سکے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے ایک کبوتر کا جوڑا بھیج دیا جس نے اسی رات غار کے دروازہ پر آشیانہ بنا دیا اور انڈے بھی دے دئیے اور اسی طرح اذنِ الٰہی سے عنکبوت نے اس غار پر اپنا گھر بنا دیا جس سے مخالف لوگ دھوکہ میں پڑ کر ناکام واپس چلے گئے‘‘۔

سوال9: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ اور عامر بن فہیرہ کی ذہانت کی بابت کیا بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کے ہونہار صاحبزادے حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ رات کو غارِثور آتے اور دن بھر کی مکّہ کی ساری خبریں دیتے۔ ہدایات لیتے اور علی الصبح اس طور سے مکہ واپس چلے جاتے کہ جیسے رات مکّہ میں ہی بسر کی ہو اور ساتھ ہی عامر بن فُہَیرہ کی ذہانت ہے کہ رات کو دودھ والی بکریوں کا دودھ دینے کے بعد بکریوں کے ریوڑ کو اس طرح واپس لاتے کہ حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ کے قدموں کے نشانوں کو بھی ساتھ ساتھ مٹا دیا جاتا۔

سوال10: کفارمکہ نے رسول اللہﷺ کو پکڑکرلانےوالے کے لیے کیاانعام مقرر کیا؟

جواب: فرمایا: مکہ والے جب قریبی جگہوں کی تلاش سے فارغ ہو کر ناکام ہو گئے تو انہوں نے باہم مشاورت سے ایک بہت بڑے انعام کا اعلان کرتے ہوئے ارد گرد کی بستیوں میں ڈھنڈورچی بھیج دیے جو اعلان کر رہے تھے کہ محمد (ﷺ ) کو زندہ یا مردہ لانے کی صورت میں ایک سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔

سوال11: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رسول اللہﷺ کےغارثور سے مدینہ کی طرف نکلنےکی بابت کن آراء کا ذکر بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: ابنِ سعد کے مطابق آپؐ ربیع الاول کی چار تاریخ کو پیر کی رات غار سے روانہ ہوئے۔ صحیح بخاری کے شارح عَلّامہ ابن حَجَر عَسْقِلَانی لکھتے ہیں کہ امام حاکم نے کہا کہ اس بارے میں متواتر آراء ہیں کہ حضورﷺ کا مکہ سے نکلنا پیر کے دن تھا اور مدینہ میں داخل ہونا بھی پیر کے دن تھا سوائے محمد بن موسیٰ خوارزمی کے جس نے کہا کہ آنحضرتﷺ مکہ سے جمعرات کے روز نکلے۔ علامہ ابن حَجَر ان روایات میں تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسول کریمﷺ مکہ سے تو جمعرات کو نکلے تھے اور غار میں جمعہ، ہفتہ اور اتوار، تین راتیں قیام کرنے کے بعد پیر کی رات کو مدینہ کے لیے روانہ ہوئے۔

سوال12: آنحضرتﷺ نے غارثورسےمدینہ کے لیے نکلتے ہوئےکونسی دعا کی؟

جواب: فرمایا:

اَللّٰهُمَّ اصْحَبْنِی فِی سَفَرِی، وَاخْلُفْنِی فِی أَهْلِی

کہ اے اللہ! میرے سفر میں تُو میرا ساتھی ہو جااورمیرے اہل میں میرا قائم مقام ہو جا۔

سوال13: آنحضورﷺ کی اونٹنی کا کیا نام تھا؟

جواب: فرمایا: آنحضرتﷺ کی اونٹنی کا نام قَصْوَاء تھا۔

سوال14: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت اسماءؓ اور ان کے داداابو قحافہ کی کس گفتگو کا ذکربیان فرمایا ؟

جواب: فرمایا: آپؓ بیان کرتی ہیں کہ ہمارے دادا ابو قُحافہ ہمارے پاس آئے۔ اس وقت ان کی بینائی جا چکی تھی۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ وہ یعنی حضرت ابوبکرؓ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے مال کے ذریعہ بھی تم لوگوں کو مصیبت میں ڈال گیا ہے۔ اس پر حضرت اسماءؓ کہتی ہیں مَیں نے کہا کہ نہیں دادا جان! ہرگز نہیں۔ وہ تو ہمارے لیے بہت سا مال چھوڑ گئے۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ مَیں نے کچھ پتھر لیے اور ان کو گھر کے اس روشن دان میں رکھ دیا جہاں میرے والد مال رکھا کرتے تھے اور پھر مَیں نے ان پر کپڑا ڈال دیا اور اپنے دادا کا ہاتھ پکڑ کر مَیں نے کہا دادا جان اس مال پر اپنا ہاتھ تو رکھیں۔ پس انہوں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا کوئی حرج نہیں اگر وہ تمہارے لیے اتنا کچھ چھوڑ کر گیا ہے تو پھر اس نے اچھا کیا ہے۔ حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں اللہ کی قسم! حضرت ابوبکرؓ ہمارے لیے کچھ بھی چھوڑ کر نہیں گئے تھے مگر مَیں چاہتی تھی کہ اس بزرگ کو اس طرح اطمینان دلا سکوں۔

سوال15: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے غارثور سے مدینہ کی طرف روانگی کی بابت حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے غارِثور سے روانگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’غارِ ثور سے نکل کر آپؐ ایک اونٹنی پر جس کا نام بعض روایات میں اَلْقَصْوَاءبیان ہوا ہے سوار ہو گئے اور دوسری پر حضرت ابوبکرؓ اور ان کا خادم عَامِر بن فُہَیرہ سوار ہوئے۔ روانہ ہوتے ہوئے آپؐ نے مکہ کی طرف آخری نظر ڈالی اور حسرت کے الفاظ میں فرمایا: اے مکہ کی بستی! تُو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے۔ اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے‘‘۔

سوال16: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے غارثور سے مدینہ کی طرف روانگی کی بابت حضرت مصلح موعودؓ کا کیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’دو دن اِسی غار میں انتظار کر نے کے بعد پہلے سے طے کی ہوئی تجویز کے مطابق رات کے وقت غار کے پاس سواریاں پہنچائی گئیں اور دو تیز رفتار اونٹنیوں پر محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے ساتھی روانہ ہوئے۔ ایک اونٹنی پر محمد رسول اللہﷺ اور رستہ دکھانے والا آدمی سوار ہوا‘‘۔ یہ بھی ایک روایت میں آتا ہے کہ دونوں ایک سواری میں تھے۔ ایک میں یہ کہ تین اونٹنیاں تھیں۔ بہرحال اور دوسری اونٹنی پر حضرت ابوبکرؓ اور عامربن فہیرہ سوار ہوئے۔

سوال17: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےسراقہ بن مالک کے تعاقب کرنے کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا: سراقہ کہتے ہیں مَیں اپنی قوم بَنُو مُدْلِجْ کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کے سامنے سے آیا اور ہمارے پاس کھڑا ہوا جبکہ ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے کہا کہ اے سراقہ! مَیں نے ساحل کی طرف کچھ سائے سے دیکھے ہیں یا کہا کہ تین افراد کا ایک قافلہ جاتے دیکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ ہو نہ ہو یہ محمدؐ ہی ہیں۔ سراقہ بن مالک کہتے ہیں کہ مَیں جان گیا کہ واقعی یہ محمدؐ کا ہی قافلہ ہو گا لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے ساتھ کوئی اَور اس انعام میں شریک ہو۔ اس لیے مَیں نے فوراً موقع کی نزاکت کو سنبھالا اور اس بتانے والے کو آنکھ سے اشارہ کیا کہ وہ خاموش رہے اور خود مَیں نے کہا کہ نہیں نہیں وہ محمدؐ کا قافلہ نہیں ہو سکتا بلکہ جن لوگوں کا تم ذکر کر رہے ہو وہ تو ابھی ہمارے سامنے سے گزر کر گئے ہیں۔ وہ بنو فلاں ہیں جو اپنی گمشدہ اونٹنی کی تلاش میں جا رہے تھے۔ سراقہ کہتے ہیں کہ مَیں کچھ دیر اُس مجلس میں رہا تا کہ کسی کو شک نہ گزرے اور پھر اپنی ایک خادمہ کو کہا کہ وہ میری فلاں تیز رفتار گھوڑی کو لے کر گھر کے پیچھے فلاں جگہ پر کھڑی ہو اور میرا انتظار کرے اور کچھ دیر کے بعد وہ خود وہاں پہنچ گیا اور بیان کرتے ہیں کہ میں نے فال نکالی لیکن اس سفر کے خلاف نکلی لیکن میں نے پروا نہیں کی اور گھوڑی کو ایڑھ لگا کر ہوا ہو گیا اور تیزی سے اس قافلے کا پیچھا کرنے لگا جو میں سمجھتا تھا کہ حضرت محمدﷺ کا ہی قافلہ ہے۔ سراقہ کہتے ہیں کہ منزل پر منزلیں مارتے ہوئے میں جلد ہی اس قافلے کے قریب پہنچ گیا اور ابھی کچھ ہی فاصلے پر تھا کہ میری گھوڑی نے خلاف معمول ٹھوکر کھائی کہ میں اس سے گر پڑا۔ پھر مَیں اٹھ کھڑا ہوا اور مَیں نے فال نکالی اور فال پھر میرے ارادے کے خلاف نکلی مگر میں چاہتا تھا کہ محمدﷺ کو واپس لے کر جا ؤں اور سو اونٹنیوں کا انعام حاصل کروں۔ پھر میں اٹھا اور گھوڑی پر سوار ہوا اور اب مَیں اتنا قریب ہو چکا تھا کہ نہ صرف مَیں یہ پہچان چکا تھا کہ یہ محمدؐ اور ابوبکرؓ ہیں بلکہ مجھے محمدﷺ کے کچھ پڑھنے کی آواز بھی آرہی تھی کہ اتنے میں میری گھوڑی نے بری طرح ٹھوکر کھائی اور اس کی ٹانگیں ریت میں دھنس گئیں اور میں اس سے گر پڑا۔ پھر مَیں نےگھوڑی کو ڈانٹا اور اٹھ کھڑا ہوا یعنی گھوڑی کو بُرابھلا کہا اوراٹھ کھڑا ہوا اور گھوڑی اپنی ٹانگیں زمین سے نکال نہ سکتی تھی۔ آخر جب وہ سیدھی کھڑی ہوئی تو اس کی دونوں ٹانگوں سے گرد اٹھ کر فضا میں دھوئیں کی طرح پھیل گئی۔ اتنی دھنسی ہوئی تھی کہ جب مٹی سے یا ریت سے ٹانگیں باہر نکالیں تو گرد اُڑی۔ کہتے ہیں اب میں نے دوبارہ تیروں سے فال نکالی تو وہی نکلا جسے میں ناپسند کرتا تھا۔ میں نے وہیں سے امان کی آواز لگائی اور کہا کہ میری طرف سے آپ لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا کہ اس سے پوچھو کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا کہ مَیں سراقہ ہوں اور آپ لوگوں سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر وہ رک گئے۔ سراقہ بتانے لگا کہ مکہ والوں نے ان کے زندہ یا مردہ پکڑے جانے پر سو اونٹ انعام مقرر کیا ہے اور میں اسی لالچ میں آپ کا تعاقب کرتے ہوئے آیا ہوں لیکن جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے اس سے میں اس یقین پر قائم ہوں کہ میرا تعاقب درست نہیں ہے۔ اس نے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں زادِراہ وغیرہ کی پیشکش بھی کی لیکن آپﷺ نےقبول نہ فرمایا۔ بس یہ کہا کہ ہمارے بارے میں کسی کو نہ بتانا۔ اس نے یہ وعدہ کیا اور ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ ایک دن بادشاہت حاصل کر لیں گے۔ مجھے کوئی عہد و پیمان لکھ دیں کہ اس وقت جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو مجھ سے عزت و احترام سے پیش آیا جائے۔ بعض روایات کے مطابق اس نے امان کی تحریرکے لیے درخواست کی تھی۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ کے ارشاد پر اس کو وہ تحریر حضرت ابوبکرؓ نے اور ایک روایت کے مطابق عامِر بن فُہَیرہؓ نے لکھ کر دی اور وہ یہ تحریر لے کر واپس آ گیا۔

سوال18: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےکن دعاؤں کے پڑھنے کی تحریک کی؟

جواب: فرمایا: یہ دعائیں بھی درود شریف اور استغفار کے علاوہ کثرت سے پڑھا کریں کہ

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ۔ (آل عمران:9)رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِینَ۔ (آل عمران:148)۔

سوال19: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےکن مرحومین کا ذکر خیرفرمایا؟

جواب: 1۔ مکرم ملک فاروق احمد کھوکھر صاحب(سابق امیر ضلع ملتان)2۔ مکرم رحمت اللہ صاحب(انڈونیشیا)3۔مکرم الحاج عبد الحمید ٹاک صاحب(کشمیر)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button