متفرق مضامین

دعا کیا ہے؟

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

جب سب سہارے ٹوٹ جائيں، اميد کي کوئي کرن دکھائي نہ دے، ہر طرف ياس اور نا اميد ي کی اندھيري راتیں چھا جائيں اور آس کے چراغ مدھم ہونے لگيں، دل گرياں اور جان برياں ہو تو ايسے وقت ميں صرف ايک ہي سہارا باقي رہ جاتا ہے جس کي طرف خود بخود نگاہيں مرکوز ہوجاتي ہيں۔ کوئي اسے مانے يا نہ مانے ليکن دکھ اور تکليف کي گھڑي ميں ہاتھ بےاختيار اُس کي طرف بلند ہونے لگتے ہيں۔ روح پگھل پگھل کراُس کے آستانے پر جھکتي چلي جاتي ہے اورياس کو آس ميں بدلنے کي آرزو مند ہوتي ہے۔

اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَيۡہِ تَجۡئَرُوۡنَ (النحل: 54)

جب تمہيں کوئي تکليف پہنچتي ہے تو اُسي کي طرف تم زاري کرتے (ہوئے جھکتے ) ہو۔ نيز فرمايا:

وَاِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہٗ مُنِيۡبًا اِلَيۡہِ (الزّمر: 9)

اور جب انسان کو کوئي تکليف چھوجاتي ہے تو وہ اپنے ربّ کو اس کي طرف جھکتے ہوئے پکارتا ہے۔

سيدنا حضرت مصلح موعود رضي اللہ تعاليٰ عنہ دعا کي حقيقت بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں: ’’بندہ جب بھي کوئي مشکل ديکھتا ہے ہميشہ خدا تعاليٰ کي طرف جھکتا اور اُس سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس کي مشکل کو دور فرمادے مگر اسے دعا نہيں کہتے بلکہ اسےانابت کہتے ہيں۔ دعا تو وہ ہوتي ہے جس کے متعلق کہتے ہيں کہ’’جو منگے سو مررہے مرےسو منگن جائے‘‘۔ يہ دعا ہر روز نہيں ہوتي اور نہ ہر بات کے متعلق ہوتي ہے مگر لوگوں نے اپني ناداني اور حماقت کي وجہ سے دعا کي حقيقت کو سمجھا ہي نہيں۔ وہ خيال کرتے ہيں کہ محض سجدے ميں اپنا سر جھکا دينا اور کہنا کہ خدايا فلاں مصيبت ٹل جائے يا فلاں بيمار اچھا ہوجائے يہ دعا ہے حالانکہ يہ دعا نہيں بلکہ يہ ايک انابت ہے، يہ ايک عبادت ہے اور اس سے زيادہ اس کي کوئي حيثيت نہيں۔ بندے کا فرض ہے کہ جب بھي وہ کوئي مصيبت ديکھے خدا تعاليٰ کے حضور جھکے اور اس کے آگے عاجزي اور انکساري کا اظہار کرتے ہوئے التجا کرے کہ وہ اس مصيبت کو دور کردے مگر دعا کي کيفيت تو انسان پر ايسي حاوي ہوتي اور اس کے رگ وريشہ اور جسم اور روح کے ذرہ ذرہ پر ايسي طاري ہوتي ہے کہ کسي دوسري طرف انسان کو توجہ ہي نہيں ہوتي۔ اگر ہر امر کے متعلق انسان دعا مانگنے لگے تو پھر تو شايد سال بھر ميں صرف ايک دن کي ضرورتوں کے متعلق ہي دعا کي جاسکے۔

پس دعا اور چيز ہے اور انابت اور چيز۔ روزانہ اپني پيش آمدہ ضروريات کے لئے جب انسان خدا تعاليٰ کے حضور جھکتا ہے تو گو اس کے دل ميں يہ يقين اور توکل ہوتا ہے کہ کام سب خدا نے ہي کرنے ہيں ليکن وہ ان کو اتنا اہم نہيں سمجھتا کہ خداتعاليٰ کے دامن کو پکڑ لے اور کہے کہ ميں اس وقت تک نہيں ہٹوں گا جب تک ميرا مقصد پورا نہ ہولے اور دعا دراصل يہي ہوتي ہے کہ جب کوئي امر انسان خدا تعاليٰ سے منوانا چاہے تو پھر اس وقت تک ہٹے نہيں جب تک خدا تعاليٰ اس کي مراد کو پورا نہ کردے۔ پس يہ ايک شديد غلطي ہے جو عام طورپر لوگوں کے اندر پائي جاتي ہے کہ وہ دعا اور انابت ميں فرق نہيں کرتے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍جولائي 1940ء، مطبوعہ خطبات محمود جلد 21صفحہ 233تا235)

انابت کے معني ہيں خدا کي طرف رجوع کرنا، توبہ، عاجزي۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

وَاَنِیۡبُوۡۤا اِلٰی رَبِّکُمۡ وَاَسۡلِمُوۡا لَہٗ (الزمر: 55)

اور اپنے ربّ کي طرف جھکو اور اس کے فرمانبردار ہوجاؤ۔ جبکہ دعا نام ہے ايک بزرگ وبرتر اور وراء الوراء ہستي کي بارگاہ ميں ايک کمزور اور حقيربندۂ ناتواں کي طرف سے کم مائيگي کے اظہار کا۔ جب وہ درماندگي اور بيچارگي کے عالم ميں نہايت تضرع، عاجزي اورانکساري کے عالم ميں اپني بے توقيري کو خيال ميں لاکرمالکِ حقيقي کے حضور عجزوبقا اور اِلتجاوالتماس کرتا ہے۔ جب وہ ايک نيستي کے ساتھ آہ وبقا کرتے ہوئے اپنے وجود کو اُس کے حضور ميں اس يقين کے ساتھ پيش کرتا ہے کہ صرف وہي اُس کا سہاراہے اور اس پر دائمی اختياررکھتاہے تو ايک روز وہ ديکھتا ہے کہ روحاني طور پر مردہ جسم خوابيدگي سے باہر نکل آتاہے اوراس ميں تروتازگي اور شادابي کے آثارنماياں ہونے لگتے ہيں۔ پس وہ زندگي کي طرف لوٹ آتا ہے، ايک ايسي زندگي کي طرف جو ابدي حيات کي طرف لے جانے والي زندگي ہے۔

پس جب آتشِ محبت شعلہ زن ہوکر مقصودِزندگي رضائےالٰہی کا حصول ہوجائے تو اس پيوند کي مضبوطي سے بتدريج بيّن روشني کي طرف ترقي ہوتي ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کيا نعمت ہوسکتي ہے کہ دل ميں يہ تڑپ اورخواہش جاگزيں ہوجائے کہ ميرا مولیٰ مجھ سے راضي ہوکيونکہ يہي انساني زندگي کا ماحاصل اوريہي اصل مدعاہے۔ اس حقيقت کو پانے کے ليے ضروري ہے کہ سينہ ودل ميں غير کے ليے ادنيٰ سي جگہ بھی نہ ہو بلکہ جسم وجان کے ذرّے ذرّے ميں سرايت کرنے والي محبت الٰہی اُس کي روح کي سيرابي کا باعث ہو۔

يُوں تودُعا ايک چھوٹا سا عام استعمال ميں آنے والا لفظ ہے ليکن اگرفي الواقعہ اس سہ حرفي لفظ پر غور کرکے اس کي گہرائي اورگيرائي کو ناپا جائے تو بظاہر چھوٹا دکھائي دينے والا يہ لفظ خدا تعاليٰ کي محبت کا ايسا بحر بيکراں ہے جو روحاني نعماء سے پُراوردلي سکون عطاکرنے والا ايسا راستہ ہے جس کے در قرب الٰہی کي طرف کھلتے ہيں گويا يہ منزل مقصود کي طرف لے جانے والا اہم زينہ ہے۔ اسلام کي سچائي کا اس سے بڑا ثبوت اور کيا ہوسکتا ہے کہ وہ خالق اور مخلوق کے زندہ تعلق کي نہ صرف بات کرتا ہے بلکہ وہ راہيں بھي دکھاتاہے جن پر چل کر مخلوق اپنے خالق کے دربار تک رسائي حاصل کرليتي ہے اور اُس سے ہم کلام ہوکر اطمينانِ قلب کي دولت سے مالا مال ہوجاتي ہے۔

پس خدا تعاليٰ کي ذات والا صفات ہي اس بات کي حقدار ہے کہ اُس کے حضوراپنا دامن پھيلاياجائے کيونکہ

لَہٗ دَعۡوَةُ الۡحَقِّ(الرّعد: 15)

سچي دعا اُسي سے کي جاتي ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتاہے:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِيۡٓ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61)

اور تمہارے ربّ نے کہا مجھے پکارو ميں تمہيں جواب دوں گا۔ پس وہ لوگ جو اللہ تعاليٰ کو چھوڑ کر اُس کے غير کو پکارتے اور اُن سے يارانے لگاکر مراديں مانگتے ہيں وہ گمراہ اور راہ ہدايت سے بھٹکے ہوئے لوگ ہيں، جيسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمايا ہے:

وَمَنۡ اَضَلٌّ مِمَّنۡ يَّدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَنۡ لَّا يَسۡتَجِيۡبُ لَہٗٓ اِلٰي يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ وَھُمۡ عَنۡ دُعَآئِھِمۡ غٰفِلُوۡنَ (الاحقاف: 6)

اور اس سے زيادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کے سوا اُسے پکارتا ہے جو قيامت تک اسے جواب نہيں دے سکتا؟ اور وہ تو اُن کي پکار ہي سے غافل ہيں۔ سو جاننا چاہیےکہ اللہ تعاليٰ ہي وہ ذات برحق ہے جو اپنے بندوں کي دعاؤں کونہ صرف سنتا ہے بلکہ اُن کاجواب دے کر اپنے بندوں کي حاجت روائي بھي فرماتاہے۔ جيساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کريم ميں نبي کريمﷺ کي زبان ِمبارک سے يہ اعلان فرمايا ہے کہ

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِيۡ عَنِّيۡ فَاِنِّيۡ قَرِيۡبٌ اُجِيۡبُ دَعۡوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلۡيَسۡتَجِيۡبُوۡلِيۡ وَلۡيُؤۡمِنُوۡبِيۡ لَعَلَّھُمۡ يَرۡشُدُوۡنَ۔ (البقرة: 187)

اور جب ميرے بندے تجھ سے ميرے متعلق سوال کريں تو يقيناً ميں قريب ہوں۔ ميں دعا کرنے والے کي دعا کا جواب ديتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، پس چاہیے کہ وہ بھي ميري بات پر لبيک کہيں اور مجھ پر ايمان لائيں تاکہ وہ ہدايت پائيں۔

قرآن کريم کے ايک اور مقام پر فرمايا:

اِنَّ الَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ عِبَادٌ (الاعراف: 195)

يقيناً وہ لوگ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو تمہاري ہي طرح کے انسان ہيں۔ يعني ميرے سوا جن کو پکارتے ہواُن کي حيثيت ہي کيا ہے وہ تو تمہاري ہي طرح کے انسان ہيں پھر وہ اتنے طاقتور کيونکر ہوگئے کہ تمہارے لیے نفع رساں وجود بن جائيں حالانکہ وہ تو يہ طاقت بھي نہيں رکھتے کہ اپني مددآپ کرسکيں۔ جيسا کہ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے

وَالَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ لَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ نَصۡرَکُمۡ وَلَآ اَنۡفُسَھُمۡ يَنۡصُرُوۡنَ (الاعراف: 198)

اور وہ لوگ جنہيں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاري مدد کي کوئي طاقت نہيں رکھتے اور نہ وہ خود اپني مدد کرسکتے ہيں۔ نبي کريمﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

لَيۡسَ شَيۡئٌ أَکۡرَمُ عَلَي اللّٰہِ سُبۡحَانَہٗ مِنَ الدُّعَاءِ۔ (مشکوٰة)

اللہ تعاليٰ کي نظر ميں دعا سے زيادہ قابلِ قدر کوئي چيز نہيں ہے۔

حضرت سلمان فارسي رضي اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ آنحضرتﷺ نے فرمايا:

اِنَّ اللّٰہَ حَيٌّ کَرِيۡمٌ يَسۡتَحۡيٖ اِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ اِلَيۡہِ يَدَيۡہِ اَنۡ يَّرُدَّھُمَا صِفۡرًا خَائِبِيۡنَ(ترمذي۔ کتاب الدعوات)

اللہ تعاليٰ بڑا حيا والا، بڑا کريم اور سخي ہے، جب بندہ اس کے حضور اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالي اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔

حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اس زمانے ميں جبکہ دعاؤں کي قبوليت اور برکات وتاثيرات سے انکار ہونے لگا تھا اپنے محبوب حضرت اقدس محمد مصطفيٰﷺ کی راہوں پر چلتے ہوئے، اپنے تجربات کي روشني ميں، اپنوں اور بيگانوں کو دعاؤں کے ايسے اعليٰ اسلوب سکھلائے ہيں جونصرت وتائيدات الٰہیہ کا حسین مرقع، دلوں کي ظلمت کو دور کرنے والے اور خدا تعاليٰ کے قرب کي راہيں دکھانے والے ہيں۔ مضمون کي مناسبت سے حضور عليہ السلام کے چندروح پرور ارشادات ذيل ميں درج کیے جارہے ہيں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہيں:

٭…’’بہت سے لوگ دعا کو ايک معمولي چيز سمجھتے ہيں۔ سو ياد رکھنا چاہیےکہ دعا يہي نہيں کہ معمولي طورپر نماز پڑھ کر ہاتھ اُٹھاکر بيٹھ گئے اور جو کچھ آيا منہ سے کہہ ديا۔ اس دعا سے کوئي فائدہ نہيں ہوتا کيونکہ يہ دعا نري ايک منتر کي طرح ہوتي ہے نہ اس ميں دل شريک ہوتا ہے اور نہ اللہ تعاليٰ کي قدرتوں اور طاقتوں پر کوئي ايمان ہوتا ہے۔

یاد رکھو دعا ايک موت ہے اور جيسے موت کے وقت اضطراب اور بے قراري ہوتي ہے اسي طرح پر دعا کے لیے بھي ویسا ہی اضطراب اورجوش ہونا ضروري ہے، اس ليے دعا کے واسطے پورا پورا اضطراب اور گدازش جب تک نہ ہو تو بات نہيں بنتي۔ پس چاہیے کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نہايت تضرّع اور زاري وابتہال کے ساتھ خدا تعاليٰ کے حضور اپني مشکلات کو پيش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ايک موت کي سي صورت واقع ہوجاوے، اس وقت دعا قبوليت کے درجہ تک پہنچتي ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ 616، ايڈيشن 1988ء )

٭…’’ہمارا تو سارا دارومدار ہي دعا پر ہے۔ دعا ہي ايک ہتھيار ہے جس سے مومن ہر کام ميں فتح پا سکتا ہے۔ اللہ تعاليٰ نے مومن کو دعا کرنے کي تاکيد فرمائي ہے بلکہ وہ دعا کامنتظر رہتا ہے۔ ہم ديکھتے ہيں کہ اللہ تعاليٰ ہماري دعاؤں کو خاص فضل سے قبول فرماتا ہے۔ دعا سے انسان ہر ايک بلا اور مرض سے بچ جاتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 39، ايڈيشن 1988ء )

٭…’’دعا ميں خدا تعاليٰ نے بڑي قوتيں رکھي ہيں۔ خدا نے مجھے بار باربذریعہ الہامات يہي فرمايا ہے کہ جو کچھ ہو گا۔ دعا کے ذريعہ سے ہوگا۔ ہمارا ہتھيار تو دعا ہي ہے اور اس کے سوائے کوئي ہتھيا ر ميرے پاس نہيں۔ جو کچھ ہم پوشيدہ مانگتے ہيں خدا اس کو ظاہر کرکے رکھ ديتا ہے…دعا سے بڑھ کر اور کوئي ہتھيار نہيں۔ ‘‘(سيرت مسيح موعودؑ ازحضرت يعقوب علي عرفاني صاحبؓ، صفحہ 501)

٭…’’ميرے نزديک دعا بہت عمدہ چيز ہے اور مَيں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں، خيالي بات نہيں جو مشکل کسي تدبير سے حل نہ ہوتي ہو۔ اللہ تعاليٰ دعا کے ذريعہ اُسے آسان کرديتا ہے۔ مَيں سچ کہتا ہوں کہ دعا بڑي زبردست اثر والي چيز ہے۔ بيماري سے شفا اس کے ذريعہ ملتي ہے، دنيا کي تنگياں مشکلات اس سے دُور ہوتي ہيں۔ دشمنوں کے منصوبے سے يہ بچا ليتي ہے اور وہ کيا چيز ہے جو دعا سے حاصل نہيں ہوتي۔ سب سے بڑھ کر يہ کہ انسان کو پاک يہ کرتي ہے اور خدا تعاليٰ پر زندہ ايمان يہ بخشتي ہے۔ گناہ سے نجات ديتي ہے اور نيکيوں پر استقامت اس کے ذريعہ آتي ہے۔ بڑا ہي خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو دعا پر ايمان ہے کيونکہ وہ اللہ تعاليٰ کي عجيب در عجيب قدرتوں کو ديکھتا ہے اور خدا تعاليٰ کو ديکھ کر ايمان لاتا ہے کہ وہ قادر کريم خدا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 205، ايڈيشن 1988ء )

٭…’’غرض دعا بڑي دولت اور طاقت ہے اور قرآن شريف ميں جابجا اس کي ترغيب دي ہے اور ايسے لوگوں کے حالات بھي بتائے ہيں جنہوں نے دعا کے ذريعہ اپني مشکلات سے نجات پائي۔ انبياء عليہم السلام کي زندگي کي جڑاور ان کي کاميابيوں کا اصل اور سچا ذريعہ يہي دعا ہے۔ پس مَيں نصيحت کرتا ہوں کہ اپني ايماني اور عملي طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں ميں لگے رہو، دعاؤں کے ذريعہ سے ايسي تبديلي ہوگي جو خدا کے فضل سے خاتمہ بالخير ہوجاوے گا۔ ‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 207، ايڈيشن 1988ء )

٭…’’دعا ايک ايسي سرور بخش کيفيت ہے کہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ميں کن الفاظ ميں اس لذّت اور سرور کو دُنيا کو سمجھاؤں۔ يہ تو محسو س کرنے سے ہي پتہ لگے گا۔ مختصر يہ کہ دُعا کے لوازمات سے اوّل ضروري يہ ہے کہ اعمالِ صالحہ اور اعتقاد پيدا کريں۔ کيونکہ جو شخص اپنے اعتقادات کو درست نہيں کرتا اور اعمالِ صالحہ سے کام نہيں ليتا اور دعا کرتا ہے، وہ گويا خدا تعاليٰ کي آزمائش کرتا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلداول صفحہ 129، ايڈيشن1988ء)

٭…’’اسلام کا خاصّہ ہے کہ خدا پر بھروسہ ہوتا ہے۔ مسلمان وہي ہے جو صدقات اور دعا کا قائل ہو۔ ‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 195، ايڈيشن1988ء)

٭…’’مَيں يقيناً جانتا ہوں کہ دعا کے سلسلہ ميں ہزارہا خزائن معارف کے مخفي ہيں۔ جو شخص دوسري طرف توجہ کرے گا وہ ان خزائن سے محروم رہ جائے گاکيونکہ جب انسان اس راہ کو جس پر سايہ دار درخت ہوں اور پاني کا سامان ہو چھوڑ دے تو وہ ان تمام آرام کے سامانوں سے محروم رہے گا يا نہيں، کسي کے پہلو ميں دو دل تو نہيں ہوسکتے ايک ہي طرف توجہ کرے گا۔ ‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 325، ايڈيشن 1988ء)

٭…’’دنيا ميں دعا جيسي کوئي چيز نہيں۔

اَلدُّعَآءُ مُخُّ الۡعِبَادَةِ۔

يہ عاجزاپني زندگي کا مقصد اعليٰ يہي سمجھتا ہے کہ اپنے لیے اور اپنے عزيزوں اور دوستوں کے لیے ايسي دعائيں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو ربّ العرش تک پہنچ جائيں اور دل تو ہميشہ تڑپتا ہے کہ ايسا وقت ہميشہ ميسر آجايا کرے مگر يہ بات اپنے اختيار ميں نہيں …پيري مريدي کي حقيقت يہي دعا ہے، اگر مرشد عاشق کي طرح ہو اور مريد معشوق کي طرح، تب کام نکلتا ہے يعني مرشد کو اپنے مريد کي سلامتي کے لیےايک ذاتي جوش ہو، تا وہ کام کردکھاوے۔ سرسري تعلقات سے کچھ ہو نہيں سکتا۔ ‘‘(مکتوب بنام مولوي عبدالقادر صاحب محررہ 21؍مئي 1883ء، مکتوبات احمد جلد 3صفحہ286)

٭…’’مَيں دو باتوں کے پيچھے لگا ہوا ہوں، ايک يہ کہ اپني جماعت کے واسطے دعاکروں۔ دعا تو ہميشہ کي جاتي ہے، مگر ايک نہايت جوش کي دعا جس کا موقعہ کبھي مجھے مل جائے اور دوم يہ کہ قرآن شريف کا ايک خلاصہ ان کو لکھ دوں۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 453، ايڈيشن 1988ء)

٭…’’ساري عقدہ کشائياں دعا کے ساتھ ہوجاتي ہيں۔ ہمارے ہاتھ ميں بھي اگر کسي کي خير خواہي ہے تو کيا ہے، صرف ايک دعا کا آلہ ہي ہے جو خدا نے ہميں ديا ہے کيا دوست کے لیے اور کيا دشمن کے لیے۔ ‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ 132، ايڈيشن 1988ء)

حضرت خليفۃ المسيح الاوّل رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں:

٭…’’جو لوگ دعا کے ہتھيار سے کام نہيں ليتے وہ بدقسمت ہيں۔ امام کي معرفت سے جو لوگ محروم ہيں وہ بھي دراصل دعاؤں سے بےخبر ہيں۔ ‘‘(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ 186)

٭…’’دعا کے يہ معنے نہيں کہ اسباب مہيا نہ کر يں۔ بلکہ جس قدر اپني طاقت سے مہيا کر سکتے ہيں وہ تو کر ليں۔ مگر چونکہ کئي بار يک در بار يک امور ہوتے ہيں اور کئي عجيب مواقع جو کاميابي ميں سدّ راہ ہو جاتے ہيں اس لئے دعا کي جاتي ہے۔ نيز صحيح اسباب مراد مندي کا علم بھي خدا کے فضل ہي پر موقوف ہے‘‘۔ (حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ 517تا518)

٭…’’جس قدر کوئي اللہ تعاليٰ سے تعلق رکھے گا اسي قدر جناب الٰہی اس کو پکارے گا تو اس کي بات فوراً سني جائے گي‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍دسمبر 1912ء، مطبوعہ خطبات نور صفحہ 553)

دعا کیا ہے؟

ہر مومن يہ تمنا رکھتا ہے کہ اُسے اپنے ربّ کي لقا حاصل ہو، وہ دربارشاہي تک رسائي حاصل کرلے اور اُس کا انجام نيکوکاروں کے ساتھ ہو۔ سو اس کے ليے ضروري ہے کہ ہميشہ نياز مندي اور پورے اخلاص و وفاکے ساتھ اللہ تعاليٰ کے حضور جھکا جائے اور اُسي سے مدد طلب کي جائے تاکہ وہ اُس کي طرف رجوع برحمت ہو اور اُس تعلق ميں مضبوطي پيدا ہو۔ اللہ تعاليٰ کا ارشاد مبارک ہے:

فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا۔ (الکہف: 111)

پس جو کوئی اپنے ربّ کی لقاءچاہتا ہے وہ (بھی) نیک عمل بجا لائے اور اپنے ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔

قرآن کريم کے ايک اور مقام پر اللہ تعاليٰ ارشاد فرماتا ہے:

فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ (المومن: 66)

پس اُسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اُسے پکارو۔ کامل تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

سيدنا حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں: ’’بڑي بات جو دعا سے حاصل ہوتي ہے وہ قرب ِالٰہی ہے۔ دعا کے ذريعہ ہي انسان خدا تعاليٰ کے نزديک ہوجاتا ہے اور اسے اپني طرف کھينچتا ہے۔ جب مومن کي دعا ميں پورا اخلاص اور انقطاع پيدا ہوجاتا ہے تو خدا کو بھي اس پر رحم آجاتا ہے اور اس کا متولّي ہوجاتا ہے۔ اگر انسان اپني زندگي پر غور کرے تو الٰہی تولّي کے بغير انساني زندگي قطعاً تلخ ہوجاتي ہے‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ45تا 46، ايڈيشن 1988ء )

نيزفرمايا: ’’اگردُعا نہ ہوتي، تو کوئي انسان خداشناسي کے بارے ميں حق اليقين تک نہ پہنچ سکتا۔ دُعا سے الہام ملتا ہے، دُعا سے ہم خداتعاليٰ سے کلام کرتے ہيں۔ جب انسان اخلاص ا ور توحيد اور محبت اور صدق اور صفاکے قدم سے دُعاکرتا کرتا فنا کي حالت تک پہنچ جاتا ہے تب وہ زندہ خدا اس پر ظاہر ہوتا ہے، جو لوگوں سے پوشيدہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 192، ايڈيشن1988ء)

حضور عليہ السلام فرماتے ہيں: ’’صرف ايک دعا ہي ذريعہ خدا شناسي کا ہے ‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 1، ايڈيشن 1988ء)

حضور عليہ السلام کا ايک اور ارشاد مبارک ہے: ’’دعا کي ماہيت يہ ہے کہ ايک سعيد بندہ اور اس کے ربّ ميں ايک تعلق مجاذبہ ہے يعني پہلے خدا تعاليٰ کي رحمانيت بندہ کو اپني طرف کھينچتي ہے، پھر بندہ کے صدق کي کششوں سے خدا تعاليٰ اس سے نزديک ہوجاتا ہے اور دعا کي حالت ميں وہ تعلق ايک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواصِ عجيبہ پيدا کرتا ہے۔ سو جس وقت بندہ کسي سخت مشکل ميں مبتلا ہوکر خدا تعاليٰ کي طرف کامل يقين اور کامل اميد اور کامل محبت اور کامل وفاداري اور کامل ہّمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہايت درجہ کا بيدار ہوکر غفلت کے پردوں کو چيرتا ہوا فنا کے ميدانوں ميں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کيا ديکھتا ہے کہ بارگاہ الوہيت ہے اور اس کے ساتھ کوئي شريک نہيں تب اس کي روح اس آستانہ پر سر رکھ ديتي ہے اور قوتِ جذب جو اس کے اندر رکھي گئي ہے وہ خدا تعاليٰ کي عنايات کو اپني طرف کھينچتي ہے تب اللہ جلّ شانہ اس کام کے پورا کرنے کي طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادي اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ايسے اسباب پيدا ہوتے ہيں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروري ہيں ‘‘۔

(برکات الدعا، روحاني خزائن جلد 6صفحہ9تا 10)

گويادعاگناہوں سے بخشش کااہم ذريعہ ہے۔ دعااللہ تعاليٰ کے فضل کو جذب کرتي ہے۔ دعا مصائب اور دکھوں سے بچاتي ہے۔ دعامس خام کو کندن بناديتي ہے۔ دعا دکھي دلوں کا پھاہا ہے۔ دعا ايک تير بہدف دواہے۔ اور سب سے بڑھ کر دعالقائے الٰہی کا بہت اہم ذريعہ ہے۔

دعا کا طريق

سيدنا حضرت اقدس مسيح موعودعليہ السلام دعا کا طريق بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں: ’’دعا کے لیے رِقّت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئيں۔ يہ مناسب نہيں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ايسا پيچھے پڑے کہ اُن کو جنتر منتر کي طرح پڑھتا رہے اور حقيقت کو نہ پہچانے، اتباعِ سنّت ضروري ہے، مگر تلاشِ رقّت بھي اتباع سنّت ہے۔ اپني زبا ن ميں جس کو تم خوب سمجھتے ہو، دعا کرو۔ تاکہ دعا ميں جوش پيدا ہو۔ الفاظ پرست مخذول ہوتا ہے۔ حقيقت پرست بننا چاہیے۔ مسنون دعاؤں کو بھي برکت کے لیے پڑھنا چاہیے، مگر حقيقت کو پاؤ، ہاں جس کو زبانِ عربي سے موافقت اور فہم ہو وہ عربي ميں پڑھے‘‘۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 538، ايڈيشن 1988ء )

نيز فرمايا: ’’اور يہ بھي ياد رہے کہ دُعا کرنے ميں صرف تضرع کافي نہيں ہے بلکہ تقويٰ اور طہارت اور راست گوئي اور کامل يقين اور کامل محبت اور کامل توجہ اور يہ کہ جو شخص اپنے لئے دعا کرتا ہے يا جس کے لئے دُعا کي گئي ہے اُس کي دنيا اور آخرت کيلئے اس بات کا حاصل ہونا خلاف مصلحت الٰہی بھي نہ ہو۔ کيونکہ بسا اوقات دُعا ميں اور شرائط تو سب جمع ہوجاتے ہيں۔ مگر جس چيز کو مانگا گيا ہے وہ عنداللہ سائل کے لئے خلاف مصلحت الٰہی ہوتي ہے اور اس کے پُورا کرنے ميں خير نہيں ہوتي‘‘۔ (برکات الدعا، روحاني خزائن جلد 6صفحہ 13)

بہترين دعا

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں: ’’بہترين دعا وہ ہوتي ہے جو تمام خيروں کي جامع ہو اور مانع ہو تمام مضرات کي، اس لئے

اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡہِمۡ

کي دعا ميں حضرت آدمؑ سے لے کر آنحضرتﷺ کے زمانہ تک کے کل مُنۡعَم عَلَيْہم لوگوں کے انعامات کے حصول کي دعا ہے اور

غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡھِمۡ وَلَاالضَّآلِّيۡنَ (فاتحہ: 7)

ميں ہر قسم کي مضرتوں سے بچنے کي دعا ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ 387، ايڈيشن 1988ء )

کامل دعا

امام آخرالزمان سيدنا حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے عارفانہ کلام ميں معارف الٰہی کے عجيب در عجيب نکات پنہاں ہيں۔ آپ علیہ السلام نےاللہ تعاليٰ اور اُس کے محبوب رسول حضرت اقدس محمد مصطفيٰﷺ کي راہوں کي طرف ايسے مؤثراوردلنشين انداز ميں راہ نمائي فرمائي ہے کہ ہر ذہن رسا رکھنے والا شخص معارف کے ان موتيوں سے جس قدر چاہے فائدہ اٹھا لے مگرپھر بھي اس خزانے ميں کچھ کمي نہ ہوگي۔

حضور عليہ السلام کامل دعا کي تعريف بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں: ’’دعا کامل تب ہوتي ہے کہ ہر قسم کي خير کي جامع ہو اور ہر شر سے بچاوے۔ پس

اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِيۡمَ

ميں سارے خير جمع ہيں۔ اور

غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡھِمۡ وَلَاالضَّآلِّيۡنَ

ميں سب شرّوں، حتّٰي کہ دجالي فتنہ سے بچنے کي دعا ہے۔

مَغۡضُوۡب

سے بالاتفاق يہودي اور

الضَّآلِّيۡنَ

سے نصاريٰ مراد ہيں۔ اب اگر اس ميں کوئي رمز اور حقيقت نہ تھي تو اس دعا کي تعليم سے کيا غرض تھي ؟ اور پھر ايسي تاکيد کہ اس دعا کے بدوں نماز ہي نہيں ہوتي اور ہررکعت ميں اُس کا پڑھاجانا ضروري قرار ديا۔ بھيد اس ميں يہي تھا کہ يہ ہمارے زمانہ کي طرف ايماء ہے۔ اس وقت صراط مستقيم يہي ہے جو ہماري راہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ397، ايڈيشن 2003ء )

اپني زبان ميں دُعا

دعاؤں کي قبوليت کے ليے نماز کا وقت سب سے اہم ہے اور خاص طور پرانسان سجدے کے وقت اپنے ربّ کے سب سے زيادہ قريب ہوتا ہے۔ جب سجدہ کي حالت ميں نہايت خشوع اور عاجزي کے ساتھ دعا کي جائے تو وہ جلد تر اثر کرتي ہے اور قبوليت کے مرتبے کو پہنچ جاتي ہے۔ حضرت اقدس مسيح موعودعليہ السلام نے يہ اہم نقطہ بھي بيان فرمايا ہے کہ دعائيں اپني زبان ميں کي جائيں تو اس سے دل پر اثر پڑتا ہے اور انسان کے اندر عاجزي اور خشوع پيدا ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہيں: ’’سب زبانيں خدا نے بنائي ہيں، چاہیے کہ اپني زبان ميں جس کو اچھي طرح سمجھ سکتا ہےنماز کے اندر دعائيں مانگے، کيونکہ اُس کا اثر دل پر پڑتا ہے تاکہ عاجزي اور خشوع پيدا ہو۔ کلامِ الٰہی کو ضرور عربي ميں پڑھو اور اس کے معني ياد رکھو اور دُعا بیشک اپني زبان ميں مانگو۔ جو لوگ نماز کو جلدي جلدي پڑھتے ہيں اور پيچھے لمبي دعائيں کرتے ہيں وہ حقيقت سے ناآشنا ہيں۔ دعا کا وقت نماز ہے، نماز ميں بہت دعائيں مانگو‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 509، ايڈيشن 1988ء)

اللہ تعاليٰ سے دعا ہے کہ وہ ہميں دعا کي حقيقت کو سمجھنے کي توفيق عطا فرمائے تاکہ ہم اُسي کے مطابق اللہ تعاليٰ کے حضور رجوع برحمت ہوں اور وہ ہماري دعاؤں کوشرف قبوليت عطا فرمائے۔ آمين

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button